ظهوراسلام سے پهلے تقیہ

تاريخی اعتبار سے تقيہ کی ضرورت انسان کو اس وقت محسوس ہوتی ہے ،جب وہ اپنے آپ کو دشمن کے سامنے عاجز محسوس کرے . اور یہ عاجزی انسان میں گام بہ گام احساس ہونے لگتا ہے .اور یہ ایک طبیعی چيز ہے کہ انسان اس خوف اور ہراس کو اپنے سے دور کرنے کی فکر کرے .اور اس طبیعی امر میں تمام عالم بشریت حتی تمام ذی روح “حیوانات” بھی شریک ہیں.

تقیہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اس لئے اسے زندگی کے صرف ایک حصے سے مخصوص نہیں کياجاسکتا .بلکہ زندگی کے تمام پہلو میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے .خواہ یہ اخطار بھوک اور پیاس کی شکل میں ہو یا گرمی ، سردی اور بیماری کی شکل میں ہو ؛ انسان ان خطرات سے بچنے کیلئے کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر لیتا ہے . لیکن ان طبیعی خطرات میں کوئی جنگ و جدال کی ضرورت نہیں ہے . لیکن غیر طبیعی خطرات اور مشکلات کے موقع پر جیسے اپنے کسی مسلمان بھائی پر ظلم وستم کو روکنے کا سبب هو تو تقیہ کرنا بہترہے .

اس فصل ميں هم بہت هي اختصار کے ساتھ انبياء اوراولياءالهي نے جهاں جهاں تقيہ کئے هيں ؛ ان موارد کو بيان کريں گے : 

حضرت آدم(ع) اور تقيہ

سب سے پہلی سزا اپنے بھائی کے حسد اور دشمنی کی بنا پر قتل کرنے کی وجہ سے ملی وہ حضرت آدم ہی کے زمانےمیں ان کے بیٹے کو ملی.قرآن اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرما رہا ہے : وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لَأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاء الظَّالِمِينَ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ 

اور آپ انہیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے. اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے پروردگار اللہ سے ڈرتا ہوں. میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے .چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی اور اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا.

تاريخ بتاتي ہے چونکہ هابيل حضرت آدم(ع) کا وصی اور جانشین تھے ، ان کی شہادت کے بعد خلافت اور جانشینی ان کے بھائی شیث کی طرف منتقل ہوئی . اور سب سے پہلے جس نے تقیہ کیا وہ حضرت شيث (ع)تھا ، جس نے قابیل سے تقیہ کیا کہ اسے خدا تعالی نے علم عطا کیا تھا . اگر وہ تقیہ نہ کرتے تو روی زمین عالم دین سے خالی ہوجاتا. 

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کرنے سے عاجز اور ناتوان هونے کی صورت میں تقیہ کرنا جائزہوتاہے .

اور یہ ایک فطری چیز ہے کہ حضرت ہابیل نے جو چیز اسے خدا کی طرف سے عطا ہوئی تھی ، اپنے بھائی قابیل سے چھپایا . اور یہ ان کا چھپانا صرف اس لئے تھا کہ حق کو نااہل لوگوں کے ہاتھ لگنے سے بچایا جائے .

اور یہ ایک ایسی سنت ہے جس پر سارے انبيآء ، اوليآء اور صالحين(ع) نے عمل کئے ہیں. 

طبري نے اپنی تاريخ میں روایت نقل کي ہے کہ : حضرت آدم(ع)اپنی وفات سے پہلے گیارہ دن مریض ہوئے اور اپنے بیٹے شيث(ع) کو اپنا جانشین بنانے کے بعد فرمایا: میری یہ وصیت نامہ قابیل سے چھپائے رکھنا. 

حضرت ابراهيم(ع)او رتقيہ

ابراهيم خليل(ع) نے بت پرستون اورمشركون کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا ؛ یہاں تک کہ ان کی قوم اسے آگ میں جلانے کے لئے تیار ہوگئ . قرآن اس واقعے کو یوں بیان فرما رہا ہے :

َوَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بہ عَالِمِينَ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مّبِينٍ قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ قَالُوا مَن فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيم قَالُوا فَأْتُوا بہ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُو نَ قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوہمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ فَرَجَعُوا إِلَى أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ 

الظَّالِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُؤُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءيَنطِقُونَ . 

اور بہ تحقیق ابراہیم کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی تھی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم جمے رہتے ہو؟ کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایاہے. ابراہیم نے کہا: یقینا تم خود اور تمہارے باپ دادا بھی واضح گمراہی میں مبتلا ہیں.وہ کہنے لگے : کیا آپ ہمارے پاس حق لے کر آئے ہیں یا بیہود ہ گوئی کر رہے ہیں؟ابراہیم نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں. اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا. چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ و ہ اس کی طرف رجوع کریں.وہ کہنے لگے: جس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے یقینا وہ ظالموں میں سے ہے. کچھ نے کہا: ہم نے ایک جوان کو ان بتوں کا (برے الفاظ میں) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں. کہنے لگے: اسے سب کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں. کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟ ابراہیم نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں. (یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو. پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم ) سے کہا: تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے .

بخاري روايت کرتا ہے : حضرت ابراهيم(ع) تین جھوٹ بولے: اس میں سے دو خدا کی ذات کے بارے میں «قوله اني سقيم» اور« بل فعله كبير هم» تیسرا جھوٹ اپنی بیوی سارہ کے بارے میں ، جو خوبصورت تھی ، اور فرعون کو کسی نے ان کی لالچ دکھائی تھی . فرعون نے ان کو اپنے دربار میں بلایا اور حضرت ابراہیم سے سوال کیا : یہ جو تمھارے ساتھ آئی ہے وہ کون ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا : یہ میری بہن ہے . اور ادھر سارا سے بھی کہہ رکھا تھا کہ تو بھی میری بات کی تائید کرے ، درحالیکہ خود ان کی بیوی تھی . حضرت ابراہیم کا تقیہ کرنے کا سبب یہی تھا کہ اپنی جان بچائی جائے ،کیونکہ فرعون ابراهيم کو قتل کرنا چاہتا تھا .

حضرت يوسف(ع)ا ور تقيہ

حضرت يوسف(ع) کا واقعه بہت طولاني اور معروف ہے ، اس لئے خلاصه كلام بيان کروں گا وہ یوں ہے : فرمایا : فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ.(4 ) 

اس کے بعد جب یوسف نے ان کا سامان تیار کرادیا تو پیالہ کو اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اس کے بعد منادی نے آواز دی کہ قافلے والو تم سب چور ہو.

اسی سے استدلال کرتے هوئے امام صادق(ع) نے فرمایا : التقيہ من دين الله . قلت:من دين الله؟ قال(ع):اي والله من دين الله لقد قال يوسف(ع): ايتها العير انكم لسارقون والله ما كانوا سرقوا شی. 

تقیہ دین خدا میں سے ہے ، میں نے سوال کیا: کیا دین خدا میں سے ہے ؟تو فرمایا: ہاں خدا کی قسم ؛دین خدا میں سے ہے بے شک یوسف پیامبر(ع) نے فرمایا: اے قافلہ والو بدون شک تم لوگ چور ہو ؛ درحالیکہ خدا کی قسم انہوں نے کوئی چوری نہیں کی تھی .

…………..

(1 ) سوره مائدہ ۲۷ ـ ۳۰. 

(2 ) . التقيہ في فقه اهل البيت(ع) ، ج۱ ، ص ۱۵. 

(3 ) . انبياء /۵۱ ـ ۶۵. 

(4 ) . سوره يوسف/۷۰.

(5 ) . تاريخ الامر والملوك،ج۱،ص۱۷۱.

 

 

تبصرے
Loading...