صالح ہادی کاانتخاب

ہمیں معلوم ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعداسلامی امت کی دینی اور سیاسی رہبری و قیادت ایک خدائی منصب ہے اور پیغمبراکرم نے اس کے لئے حکم خدا سے ایک لا ئق اور اہل شخص کو معین کیا اور جس طرح پیغمبر اکرم امت کی دینی ،سیاسی روحانی اور انتظامی قیادت کے ذمہ دار تھے، امام بھی جو کہ پیغمبر اکرم کا جانشین اور خلیفہ ہے، امت کا قائد و رہبر ہے ۔

البتہ ان دونوں کے درمیان صرف اتنا سا فرق ہے کہ پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ کسی انسان کے وسیلہ کے بغیر دین و شریعت کو عالم غیب سے حاصل کرکے اسے اپنی قوم تک پہونچاتا ہے لیکن امام شریعت و کتاب لیکر نہیں آتا ہے ، اسکے پاس عہدہ ٴ نبوت نہیں ہوتا بلکہ وہ پیغمبر اکرم کی کتاب و سنت کے ذریعہ امت کی ہدایت کرتا ہے۔

یہ طے ہے کہ یہ طریقہٴ کار عدل و انصا ف ،عقل ومنطق اور حق کے عین مطابق ہے اور اسکے علاوہ امت کی رہبری و قیادت کے جتنے طریقے اور راستے ہیں ان میں یہی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور بھروسہ کے لائق ہے کیونکہ جس شخص کو بھی پیغمبر اکرم خدا وند عالم کے حکم سے امت کا رہبر و ہادی بنائیں گے اسمیں رہبری کی تمام صلاحیتیں موجود ہوں گی اور وہی امامت و ہدایت کے لئے بہترہوگا جیسا کہ مشرقی اور مغربی فلاسفہ کے لئے قابل فخر اور عظیم فلسفی شیخ الرئیس ابو علی سینا نے کہا ہے: ”والاستخلاف بالنص اصوب فان ذالک لا یودیٰ الی التشعب والتشاغب والاختلاف “یعنی نص کے ذریعہ خلیفہ کا انتخاب ہی سب سے زیادہ درست بات ہے کیونکہ اس میں کسی بھی قسم کی پارٹی بازی ، فتنہ و فساد اور اختلاف کا امکان نہیں ہے ۔

مسلمانوں کی ایسی دینی اورسیاسی رہبری وقیادت کہ ان کے رہبر کا ہر قول وفعل ہر ایک کے لئے حجت اور لوگوں کے تمام دینی اور دنیاوی امور پر حاکم ہو یہ ایک بہت نازک اور بلند مقام و مرتبہ ہے اور اس سے بڑا عہدہ کوئی اور نہیں ہو سکتا لہٰذا اگر اس کے انتخاب میں ذرہ برابر کوتاہی ہو جائے تو اسکے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور پھر انبیاء کی بعثت کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہ جائے گا۔

جو شخص اتنی اہم صلاحیتوں کا مالک ہو اس کی شناخت کرنا عام لوگوں کی عقل و شعور سے بالاتر ہے اس عہدہ کاحقدار وہی ہو سکتا ہے جسکے اندر انسانی فنون اور فضائل و کمالات جیسے علم ،حلم ،بخشش،چشم پوشی ،رحم دلی ،عدل ،تواضع، انسانی حقوق کی آزادی کا احترام ، انسان دوستی ،عقل ،تدبیر،دینی اور روحانی معاملات کے بارے میں دقت نظر کے علاوہ دوسرے اہم اور ضروری صفات اور شرائط پائے جاتے ہوں جن کو خداوند عالم کی ہدایت کے بغیر پہچاننا ہر گز ممکن نہیں ہے ۔

اس بنا پر یا اور دوسری عقلی ونقلی دلیلوں کی بنیاد پر شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر جیسے صفات رکھنے والے امام کو منصوب اور معین کرنے کا حق صرف خداوند عالم کے اختیار میں ہے اور امام کی تعیین جیسا کہ آیہٴ شریفہ میںصاف طور پر ذکر ہے دین کی تکمیل اور نعمت کا اتمام ہے اور بعثت انبیاء کی غرض اور اسکے مقصد کے عین مطابق ہے اور اسکو چھوڑ دینااسلامی سماج اور معاشرہ کے بارے میں بے توجہی کے مثل ہے اور یہ انبیاء کی زحمتوں کو ضائع کرنا ہے ۔

بشر کا انتخاب ہمیشہ حق نہیں ہو سکتا 

شیعوں کا کہنا ہے کہ جس شخص کا قول و فعل حتی اس کی تائید یا خاموشی بھی ہرایک کے لئے نمونہٴ عمل ہے اور وہ شریعت کی ناموس کا محافظ اور اسکے احکام کی تشریح کرنے والا ہے ایسے بشر کا صحیح انتخاب انسانوں کے ذریعہ ہر گز ممکن نہیں ہے بلکہ ایسے ولی امر کا انتخاب کہ جسکی اطاعت اس آیت : ”اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اُولی الامر منکم “ کے حکم کی بنا پر واجب ہے یہ صرف خدا کی طرف سے ہی صحیح اور حق بجانب ہے کہ خدا وند عالم لوگوں کی ظاہری ،باطنی ،روحانی اور فکری تمام صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہے نہ اسے غافل بنایا جا سکتا ہے اور نہ اسکے یہاں غفلت کاامکان ہے اور نہ وہ کسی کی ریا کاری ،مکاری اور ظاہری اور کھوکھلی اداوٴں نیز عوام فریبی سے دھوکہ کھاتا ہے اور نہ ہی جذبات و احساسات ،خوف و دہشت یا کسی کی دھمکی سے اسکے اوپر کوئی اثر پڑتا ہے نہ ہی ذاتی اغراض و مقاصد اور اپنی قوم یا قبیلہ اور خاندان یا شہر والوں کے منافع کے خیال سے اسکا دامن داغدار ہے ۔

لیکن اگر اس انتخاب میں لوگوں کو شریک کر لیا جائے تو پہلے تو یہ کہ اگر وہ صالح فردکا انتخاب کرنا بھی چاہیں تو وہ اسے پہچانتے نہیں ہیں،دوسرے یہ کہ اثر ورسوخ کا استعمال، بھول چوک ایک دوسرے کی مخالفت یا لالچ وغیرہ ان کی آزادی خیال اور اظہار رائے کی راہ میں مانع ہو جاتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ انہیں ذاتی مفادات کی فکر رہتی ہے جسکا مشاہدہ دنیا کے ہرالیکشن میں ہوتا رہتاہے ۔چاہے الیکشن جتنے آزاد اور صحیح کیوں نہ ہوں اسکے با وجود ان کے او پر ان اغراض و مقاصد کا ضرور اثر ہوتاہے اور تمام لوگ عام طور سے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک ملکوں کے سر براہوں کا کوئی الیکشن ہر لحاظ سے صحیح اور کامل ثابت نہیں ہو سکا اور جن لوگوں کے اندر زیادہ لیاقت اور صلاحیت تھی انہیں نہیں چنا گیا اور اگر اتفاقاً کبھی کسی حد تک کوئی لائق آدمی چن بھی لیا گیا تو اس کی وجہ لوگوں کی صحیح تشخیص یا ان کی حق بینی اور باریک بینی یا دقت نظر نہیں تھی بلکہ اتفاقی طور پر یاملکی حالات اورسیاسی مجبوریوں کی بنا پر ایساہوگیا ہے ورنہ اگر لوگوں کی یہ تشخیص بالکل صحیح اور ہر قسم کے نقص سے دور اورحقیقت اور صحیح شناخت پر مبنی ہوتی تو پھر انکے چنے ہوئے ہر شخص کے اندر اس عہدے کی لیاقت اور صلاحیت ہونی چاہئے تھی جبکہ ہم عام طور سے دیکھتے رہتے ہیں کہ انسانوں کا انتخاب اکثر غلط ہی ہوتا ہے اور اسکا نتیجہ بہت کم صحیح ہو پاتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ واقعاً صالح اور لائق افراد کو پہچاننے سے عاجز ہیں۔

جیسا کہ حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے سعد بن عبد اللہ اشعری قمی کے جواب میں فرمایا تھا ، جب انھوں نے آپ سے سوال کیا کہ لوگوں کو امام کے انتخاب کا حق کیوں نہیں ہے؟ امام نے فرمایا : نیک یا برا امام ؟

انہوں نے کہا : نیک

آپ نے فرمایا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے باطن اور نیت سے واقف نہیں ہے تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی نااہل کو چن لیں۔

عرض کی : جی ہاں ممکن ہے 

آپ نے فرمایا : ”فھی العلة “(۱)

” یہی وجہ ہے “کہ لوگ اپنے امام کو نہیں چن سکتے ہیں۔

اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جو امام، پیغمبر کا جانشین اور خلیفہ ہوتا ہے اسےخدا کی طرف سے پیغمبر اکرم ہی معین کر سکتے ہیں اور یہ کام لوگوں کے بس سے باہر ہے اور ایک صالح سماج اور معاشرے یا نظام کے متعلق انبیاء اور دین کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہو سکتا ہے اسی لئے سب نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ لیا کہ پیغمبر اکرم کے بعد جب اس قاعدہ اور قانون کی خلاف ورزی کی

(۱)منتخب الاثر صفحہ ۱۵۱۔ 

گئی تو پہلے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ خلافت کو بھی وزیر اعظم کے الیکشن کی طرح لوگوں کے چناوٴ اور اجماع سے طے ہونا چاہئے اورجب حضرت ابو بکر نے خودحضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کر دیا اوران ہی کے بقول ”امت کو خلیفہ کے انتخاب کا حق حاصل ہے “خود ہی یہ حق امت سے چھین لیا اور اپنی من مانی سے حضرت عمر کو خلیفہ بنا دیاتو پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ خلیفہ اپنا جانشین معین کر سکتا ہے۔

ایک منزل اور آگے بڑھ کر تو خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ آدمیوں پر مشتمل باقاعدہ کمیٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دنیا کے کسی قانون حکومت کے مطابق نہیں تھی پھر کہنے لگے کہ اس طرح بھی خلیفہ منتخب ہو سکتا ہے جب کچھ اور آگے بڑھےتو بنی امیہ کے شرابی کبابی اور زانی بادشاہوں تک نوبت پہونچ گئی چنانچہ جب یہ صورتحال دیکھی کہ اگر ولی امر کے لئے ایک چھوٹی سی شرط بھی رکھ دی گئی تو پھر ان تمام گذشتہ حکومتوں کے غیر شرعی ہونے کا اعلان کرنا پڑے گا اور کھلے عام شیعہ عقیدہ کی ترویج کرناہوگی لہٰذا وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلامی حاکمیت بھی زمانہٴ جاہلیت کی حکومتوں کی طرح ہے اور اسکے لئے کوئی شرط ضروری نہیں ہے اس بنا پر جو شخص بھی اپنی طاقت کے بل بوتے پر باپ کی میراث میں یا کسی بھی طریقہ سے حکومت حاصل کر لے اس کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو پر صرف اسی کا حکم نافذ ہے ۔

اس عقیدہ اور انداز فکر نے اخلاقی پستی کو جنم دینے کے علاوہ ظالموں اور جابروں کے لئے حکومت حاصل کرنے کے لئے زور آزمائی کا کھلا میدان فراہم کر دیا اور اس سے روز بروز ان کی لالچ میں اضافہ ہی ہو تا رہا اور تاریخ اسلام کی ابتداء سے آج تک حکومت پر بنی امیہ، بنی عباس جیسے تمام ظالم و جابر بادشاہوں اور سلاطین کے تسلط اور قبضہ کی یہی اہم وجہ ہے ،چنانچہ ان نااہل حکومتوں کی وجہ سے جو ظلم وتشدد ہوا اور اسلام کو ان کی طرف سے جو نقصان اٹھانا پڑا اسے اس مقالہ میں قلمبند کرنا ممکن نہیںہے اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے دور کے ایسے مشہور اہل سنت مفکرین جو اس نظریہ اور اس عقیدے کے خطرناک نتائج کی وجہ سے اسکے مخالف ہیں انہوں نے بھی اس عقیدہ پر سخت تنقید کی ہے ۔

امام کی تعیین کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ بہت ہی مستحکم عقلی اورمنقولہ دلیلوں پر استوار ہے اور شروع سے لیکر آج تک ہر دور میں یہ عقیدہ حریت پسند،انصاف طلب اورظلم و ستم کے خلاف جہاد اور حق کے لئے قیام کرنے والے افراد کا اصل مرکز رہا ہے اسی لئے شیعوں کے صرف ایک عالم یعنی علامہ حلینے اپنی کتاب الفَین میں اس بارے میں ایک ہزار دلیلیں پیش کی ہیں کہ امام ،خدا کی طرف سے ہی معین اور منصوب ہونا چاہئے ،شیعوں کی نظر میں علمی اور عملی صلاحیتوں کے بغیر کسی کو کوئی چھوٹے سے چھوٹا سماجی یا حکومتی اور دینی منصب دینا جائز نہیں ہے اورحاکم کو اسلامی عدالت کا پیکر ہونا چاہئے اور یہ کہ وہ اسلامی احکام کو نافذکرے اور اس کے مقاصد کے لئے پوری سعی وکوشش کرے۔

بنی امیہ اور بنی عباس کے دور حکومت میں جو لوگ حکومت پر قابض ہوئے شیعوں کی نظر میں ان میں سے بہت سے لوگ تو کسی گاوٴں کی پردھانی بلکہ ایک گلی ، گوچہ کی پہرہ داری کے لائق بھی نہیں تھے ۔

جو شخص بھی اسلامی تعلیمات یا پیغمبر اکرم ،امیر المومنین اور ائمہ طاہرین کی سیرت اور لوگوں کے ساتھ ان کے طرز معاشرت کو ملاحظہ کرے اور اس کے بعد ان سرپھرے بادشاہوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھے جنہوں نے اسلامی ممالک پر حکومت کی ہے اور یہ دیکھے کہ انہوں نے طاقت کے زور پر اسلامی حکومت کے اوپر کیسے قبضہ کیا اور رعایا کے سروں پر سوار رہے اور وہ اپنی عیاشی، فحاشی، محلوں کی تعمیر و تزئین اور اپنے رشتہ داروں اور درباریوں کے منھ بھرنے کے لئے بیت المال کو کس بے دردی سے لٹاتے تھے ؟اور لوگوں کے اوپر اپنی قدرت و طاقت کا رعب جمانے کے لئے اپنے حوالیوں موالیوں کے ساتھ مخصوص حفاظتی فورس کے پہرے میں بیش قیمت سواریوں پر سوار ہو کر کس طنطنے کے ساتھ عوام کے درمیان سے گذرتے تھے؟ ان حالات کو دیکھنے کے بعد انسان یہ تصدیق کرنے پر مجبور ہے کہ ان کا طرز حکومت اسلام کے آزادی بخش نظام یا عدل وانصاف کو رواج دینے والی تعلیمات سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں تھا جیسا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ان کے رسم و رواج عام طور سے اسلامی حکومت کے اصول اور قوانین کے خلاف ہی نہیں تھے بلکہ وہ ظلم و استبداد اور کٹیٹرشپ کے بد ترین نمونے تھے جنکا تعلق سو فیصدی دور جاہلیت سے ہے اگر ہم اس موضوع کو چھیڑیں گے تو اس مقالہ کی منزل مقصود سے دور ہو جائیں گے، مختصر یہ کہ خداپرست عادل اور منصف مزاج ارباب حکومت کے عقیدے نے شیعوں کو ظلم وستم سے دور کر دیا اور انہیں ظالم کے سامنے جھکنے اور اسکا احترام کرنے سے بالکل متنفر بنا دیا۔(۱)

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے صاف واضح ہے کہ پیغمبر اکرم کو اپنی جانشینی اور امت کی رہبری کا خاص خیال تھا اور یہ ہر گز ممکن نہیں ہے کہ جو پیغمبر، مستحبات و مکروہات جیسے عام اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو بیان کرنے میں سستی سے کام نہ لے اسے خلافت جیسے اہم اور حساس مسئلے کے بارے میں کوئی فکر نہ رہی ہوگی اور اس نے اس سلسلہ میں کوئی اقدام ہی نہ کیا ہوگا؟

ان تمہیدات کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے؟

سوال :

پیغمبر اکرم نے کن افراد کو اپنا جانشین قرار دیااور جس طرح اسلام کے تمام احکام کا قرآن وسنت سے استنباط واستخراج ہوتا ہے کیا ہم قرآن مجید اور احادیث شریفہ کی طرف رجوع کرکے پیغمبر کے بعد امت کے واقعی رہبروں کو نہیں پہچان سکتے؟ کیا اس سلسلہ میں اسلامی منابع ومآخذ(کتب) میں معتبر احادیث اورنصوص پائی جاتی ہیں؟

جواب:

یہ موضوع قرآن وحدیث دونوں جگہ مذکور ہے اگرچہ حکام وقت کی سیا ست کی بنا پر ایسی روایات کے نقل و بیان پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن اس کے باوجود اس موضوع سے متعلق اتنی کثرت سے روایات،معتبر اسلامی کتب میں موجود ہیں کہ کسی اور اسلامی مسئلہ میں اتنی روایات

(۱)مولف کی کتاب ”پرتوی از عظمت حسین “(یعنی امام حسین کی عظمت کی ایک جھلک) صفحہ ۳۴۹ سے۳۵۸ تک ملاحظہ فرمائیے۔

ملنا مشکل ہیں۔

ہم یہاں پر حدیث غدیر جیسی معتبر حدیث کا تذکرہ نہیں کریں گے جس کے صرف اسناد کے بارے میں ایک عالم نے ۲۸جلدیں تحریر کی ہیں،عبقات الانواراورالغدیر کی متعدد جلدیں اسی سے متعلق ہیں ان کے علاوہ” ابن عقدہ“ جیسے حفاظ نے بھی حدیث غدیر سے متعلق ایک مکمل کتاب تحریر کی ہے۔ علاوہ بریں تمام مفسرین، متکلمین، محدثین اور ماہرین لغت نے اسے نقل کیا ہے۔

حدیث ثقلین جو متواتر ہے اور اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں صحیح اور قابل اعتماداسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے حدیثِ امان، حدیث سفینہ اور ان کے علاوہ سینکڑوں احادیث ہیں جن میں صراحت کے ساتھ امیرالمومنین اور دیگر ائمہ کی جانشینی کا تذکرہ ہے ،ہم یہاں ان احادیث کو بیان نہیں کریں گے کیوں کہ ان میں سے اکثر احادیث سے کم و بیش سبھی واقف ہیں۔ 

تبصرے
Loading...