شیطانی وسوسے

اس آیت میں اس بات کی وضاحت کی جارہی ہے کہ اس قسم کے سخت اور ہٹ دھرم دشمنوں کا پیغمبر اسلام (ص)کے مقابلہ میں وجود کہ جس کی طرف گذشتہ آیات میں اشارہ ہوا ہے صرف آنحضرت کی ذات کے لئے ہی منحصر نہیں تھا بلکہ تمام انبیاء ہی کے مقابلہ میں شیاطین جن وانس میں سے دشمن موجود تھے ( وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ) اور ان کاکام یہ ہوتا تھا کہ ”وہ پر فریب باتیں اور ایک دوسرے کو غافل کرنے کے لئے پر اسرار طریقے پر بھی اور ظاہر بظاہر بھی ایک دوسرے کے کان میں کہتے تھے( یُوحِی بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا)۔

لیکن اشتباہ نہیں ہونا چاہئے کہ ”اگر خدا چاہتا تو وہ جبرا سب کو روک سکتا تھا“تاکہ کوئی شیطان یا شیطان صفت انبیاء اور ان کی دعوت کے راستے میںکوئی معمولی سے معمولی رکاوٹ بھی نہ ڈال سکے( وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوہُ)۔

لیکن خدا وند تعالی نے یہ کام نہیں کیا کیوں کہ وہ یہ چاہتا تھا کہ لوگ آزاد رہیں تاکہ ان کی آزمائش اور ارتقاو پرورش کے لئے میدان موجود ہیں، جب کہ جبرا ور سلب آزادی اس ہدف کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتے، اس کے علاوہ اس قسم کے سخت اور ہٹ دھرم دشمنوں کاوجود ( اگر چہ ان کے اعمال خود ان کی خواہش وارادہ کے ماتحت تھے ) نہ صرف یہ کہ وہ سچے مومنین کے لئے کوئی ضرر نہیں رکھتا، بلکہ غیر مستقیم طریقہ سے ان کے ان کے تکامل میں مدد کرتا ہے چونکہ ہمیشہ تکامل وارتقا تضادات میں پنہاں ہوتا ہے اورایک طاقتور دشمن کا ہونا انسان کی قوتوں کے اجتماع اور اس کے ارادوں کی تقویت کے لئے موثر ہے ۔

لہٰذا آیت کے آخر میںخدائے تعالیٰ پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ تم اس کی شیطانیتوں کی کسی طرح بھی پرواہ نہ کرو اور انھیں اور ان کی تہمتوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دو( فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ )۔

چند قابل توجہ نکات

۱۔ مندرجہ بالا آیت میں خدا وند تعالی شیاطین جن وانس کے وجود کی نسبت اپنی طرف دے رہا ہے اور کہتا ہے: ”وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا“ (ہم نے ایسا قرار دیا)ن اس جملے کے معنی کے بارے میں اختلاف ہے، لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ انسانوں کے تمام اعمال ایک لحاظ سے خدا کی طرف بھی منسوب کئے جاسکتے ہیں، کیوں کہ ہر شخص جو کچھ بھی رکھتا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہے ، اس کی قدرت اسی کی طرف سے ہے جیسا کہ اس کا اختیار اور اس کی آزادی بھی اسی کی طرف سے ہے، لیکن ایسی تعبیرات کا مفہوم ہرگز جبر اور سلب اختیار نہیں ہے کہ خدا نے کچھ لوگوں کو اس طرح سے پیدا کیا ہو کہ وہ انبیاء کے مقابلے میں دشمنی کے لئے کھڑے ہوجائیں۔

کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو ضروری تھا کہ وہ اپنی عداوت ودشمنی میں کسی قسم کی کوئی مسئولیت اور جوابدہی نہ رکھتے ہوتے بلکہ ان کا کام ایک رسالت کی انجام دہی شمار ہوتا، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

البتہ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس قسم کے دشمنوں کا وجود چاہے وہ خود ان کے اپنے اختیار سے ہی ہو، مومنین کے لئے بلا واسطہ طور پر اصلاح کنندہ اثر رکھتا ہے، اور بہتر لفظوں میں سچے مومنین ہرقسم کے دشمن کے وجود سے مثبت اثر لے سکتے ہیں اور اسے اپنی آگاہی و آمادگی اور مقاومت کی سطح بلند کرنے کا وسیلہ بناسکتے ہیں کیوں کہ دشمن کا وجود انسان کی قوتوں کے اجتماع کا سبب اور باعث ہوتا ہے۔

۲۔ لفظ”شیاطین“ ”شیطان“ کی جمع ہے اور یہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور وہ ہر سرکش باغی اور موزی موجود کے معنی میں، لہٰذا قرآم میں پست ، خبیس اور سرکش انسانوں پر بھی لفظ شیطان بولا گیا ہے، جیسا کہ اوپر والی آیت میں لفظ شیطان کا انسانی شیطانوں پر بھی اور ایسے غیر انسانی شیطانوں پر بھی جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، اطلاق میں وہ تمام شیاطین کا رئیس وسردار ہے، اس بنا پرشیطان کا اسم خاص ہے کہ جوحضرت آدم علیہ السلام کے مقابل میں آیا تھا اور حقیقت میں وہ تمام شیاطین کا رئیس وسردار ہے، اس بنا پر شیطان اسم جنس ہے اور ابلیس اسم خاص ہے۔(۱)

۳۔ ”زخرف القول“ پر فریب باتوں کو کہتے ہیں، جن کا ظاہر خوشنما اور باطن قبیح اور برا ہوتا ہے اور غرور کا معنی غفلت میں رکھنا ہے۔(۲)

۴۔ زیر نظر آیت میں وحی کی تعبیر اس حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ اپنے شیطانی گفتار واعمال میں ایسے اسرار آمیز پروگرام رکھتے ہیں کہ جن کو وہ رازدارانہ طریقے سے ایک دوسرے کی طرف ارتقا کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگ ان کے کاموں سے آگاہ نہ ہوں اور ان کی سازشیں کامل طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں، کیوں کہ ”وحی“ کے معانی میں سے ایک معنی لغت میں آہستہ اور کان میں بات کرنا بھی ہے ۔

بعد والی آیت میں شیاطین کی پر فریب تلقینات وتبلیغات کے نتیجے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : ان کے کام کا سر انجام یہ ہوگا کہ بے ایمان افراد یعنی وہ کہ جو قیامت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کی باتوں کو کان لگا کر سنیں گے اور ان کے دل ان کی طرف مائل ہوں گے ( وَلِتَصْغَی إِلَیْہِ اٴَفْئِدَةُ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ)۔

آیت کی ترتیب کے بارے میں اوریہ کہ لفظ ”وَلِتَصْغَی“ کا عطف کس پر ہے مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، آیت کے مفہوم کے ساتھ جو بات زیادہ مناسب ہے وہ یہ ہے کہ اس کا عطف ”یوحیٰ“ پر ہونا چاہئے اور اس کی ”لام“ عاقبت کی لام ہے، یعنی شیاطین کے کام کا انجام یہ ہوگا کہ وہ پر فریب باتیں ایک دوسرے سے کہیں گے، اور بے ایمان افراد ان کی طرف مائل ہوجائیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ”غرورا“ کے اوپر عطف ہو جو ”مفعول لاجلہ “ ہے، یعنی ”لیفترو اولتصغیٰ“ کیوں کہ انسان مرحلہ اول میں فریب کھاتا ہے اور پھر میلان پیدا رکرتا ہے(غور کیجئے گا)۔

”لتصغی“ ،”صغو“ (بروزن سرو) کے مادہ سے کسی چیز کی طرف میلان پیدا کرنے کے معنی میں ہے لیکن زیادہ تر اس میلان ورغبت پر بولا جاتا ہے کہ جو سماعت اور کان کے وسیلہ سے حاصل ہو اور اگر کوئی شخص کسی کی بات پر موافقت کی نظر سے کان دھرے تو اس کو ”صغو“ اور ”اصغاء“ کہتے ہیں۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اس میلان کا انجام شیطانی پروگراموں پر کامل طور پر راضی ہونے کی صورت میں نکلے گا( وَلِیَرْضَوْہ )۔

اور ان سب کا نتیجہ مختل قسم کے گنہاہوں کے ارتکاب اور برے اور ناپسندیدہ اعمال کی صورت میں رونما ہوگا (وَلِیَقْتَرِفُوا مَا ہُمْ مُقْتَرِفُون)۔

۱۱۴ اٴَفَغَیْرَ اللهِ اٴَبْتَغِی حَکَمًا وَہُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ إِلَیْکُمْ الْکِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِینَ آتَیْنَاہُمْ الْکِتَابَ یَعْلَمُونَ اٴَنَّہُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُمْتَرِینَ ۔

۱۱۵ وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ۔

ترجمہ 

۱۱۴۔ کیا میں( اس حال میں ) غیر خدا کو منصف کے طور پر اپناؤں حالانکہ وہی وہ ہستی ہے کہ جس نے اس آسمانی کتاب کو جس میں ہر چیز کا تفصیلی بیان ہے نازل کیا ہے، اور وہ لوگ کہ جنھیں ہم ااسمانی کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تیرے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے، اس بنا پر تم ہرگز شک تردد کرنے والوں میں سے نہ ہونا ۔

۱۱۵۔ اور تیرے پروردگار کا کلام صدق وعدل ساتھ انجام کو پہنچا، کوئی شخص اس کے کمالات کو دیگر گوں نہیں کرسکتا اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

۱۔ اس سلسلہ میں ہم تفسیر نمونہ کی پہلی جلد صفحہ ۱۶۶ پر بھی بحث کرچکے ہیں۔

۲۔اس طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ ”زخرف“ اصل میں ”زینت“ کے معنی میں اور اسی طرح ”سونے“ کے معنی میں بھی کہ جو زینت کا ایک ذریعہ ہے، بعد ازاں دھوکہ اور فریب دینے والی باتوں پر بھی کہ جن کا ظاہر زیبا اور خوبصورت ہو”زخرف“ اور ”مزخرف“ بولاجانے لگا۔

تبصرے
Loading...