شیخ مفید کی تین سچی حکایتیں

 

ترجمہ از: ف۔ح۔مہدوی

1۔ شیخ مفید کا سچا خواب

شیخ مفید نے خواب دیکھا کہ آپ بغداد کی مسجدِ کرخ میں بیٹھے ہیں کہ اتنے میں سیدہ فاطمةالزھراء سلام اللہ علیہا امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ہاتھ پکڑ کر مسجد میں تشریف فرما ہوئیں اور شیخ کے قریب پہنچ کر فرمایا: “یا شیخ عَلِّمھُما الفِقهَ” [یعنی اے شیخ ان دو کو فقہ کی تعلیم دیں]۔

شیخ خواب سے جاگ اٹھے اور سوچنے لگے: “یہ کیا خواب تھا جو میں نے دیکھا! میں کون ہوتا ہوں امام حسن اور امام حسن علیہما السلام کو تعلیم دینے والا؟!؛ حالانکہ خواب بھی سچا ہے کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کا خواب شیطانی خواب نہیں ہوتا”۔

صبح ہوئی تو شیخ مسجد کرخ جاکر بیٹھ گئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جلیل القدر بی بی تشریف لائیں جن کا کنیزوں نے احاطہ کررکھا تھا اور دو صاحبزادوں کے ہاتھ ان کے ہاتھوں میں تھے۔ وہ شیخ کے پاس آئیں اور کہا: “یا شیخ عَلِّمهما الفِقهَ”۔ شیخ کو اپنے رؤیائے صادقہ کی تعبیر مل گئی تھی چنانچہ آپ نے دو سید زادوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا اور انہیں بہت زیادہ احترام دیا۔

یہ دو سیدزادے سید رضی المعروف “شریف” اور سید مرتضی “المعروف “عَلَمُ الہدی” ہی تھے جو اپنے عصر کے نامور فقہاء بن کر ابھرے اور تا قیامت امر ہوگئے۔

حق کس کی جانب ہے؟

نقل ہے کہ کسی مسئلے میں شیخ مفید اور سید مرتضی کے درمیان اختلاف واقع ہوا۔

دونوں نے مسئلہ لکھ کر مولا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بارگاہ میں ارسال کرنے کا فیصلہ کیا۔

کچھ عرصہ بعد خط کا جواب آیا۔ خط سبز رنگ کے جوہر سے تحریر ہوا تھا اور اس پر صرف ایک جملہ ثبت تھا جس میں خطاب بھی شیخ مفید کو ہوا تھا اور وہ جملہ یہ تھا:

“انت شیخی و معتمدی و الحق مع ولدی علم الهدی” [یعنی اے شیخ مفید! آپ میرے شیخ اور میرے نزدیک قابل اعتماد ہیں اور حق میرے فرزند علم الہدی کی جانب ہے۔”

شیخ کا سہوی فتوی اور غیب سے عنایت خاص

ایک دیہاتی مرد شیخ مفید کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا: ایک حاملہ عورت کا انتقال ہوا ہے جبکہ اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہے؛ کیا ہم اس کا پیٹ چاک کرکے بچہ نکال لائیں یا اس کو بچے کے ساتھ ہی دفن کریں؟”۔

شیخ نے فرمایا: “مرحومہ کو حمل کے ہمراہ ہی دفنا دیں”۔

دیہاتی مرد مسئلہ سن کر واپس چلا گیا۔ بیچ راستے ایک سوار اس کے تعاقب میں آیا اور کہا: اے مرد! شیخ نے فرمایا ہے کہ اس عورت کا پیٹ چاک کریں اور بچہ نکال کر عورت کو دفن کریں۔

وہ مرد اپنے گاؤں پہنچا اور شیخ کا حکم لوگوں تک پہنچایا اور ماں کے پیٹ سے بچے کو نکال دیا گیا اور ماں کو دفن کیا گیا۔

کچھ عرص بعد بچے کا والد شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا شیخ آپ نے ہمارے بھیجے ہوئے آدمی کے پیچھے اپنا نمائندہ بھیج کر در حقیقت میرے بچے کو حتمی موت سے نجات دلائی اور میں اسی سلسلے میں آپ کا شکریہ ادا کرنے حاضر ہوا ہوں۔

شیخ نے فرمایا: میں نی کسی کو بھی اس مرد کی پیچھے نہیں بھیجا اور یقیناً وہ سوار امام زمانہ (عج) تھے۔

شیخ نے اس کے بعد عہد کیا کہ فتوی نہیں دیں گے اور مسلمانوں کے امور میں مداخلت نہیں کریں گے؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا فتوی کسی مسلمان کی موت کے اسباب فراہم کرے۔ (1)

مگر امام زمانہ (عج) جنہوں نے شیخ کے فتوے کی اصلاح کے لئے خود ہی اقدام کیا تھا اور شیخ کی جانب سے صحیح شرعی حکم کا ابلاغ فرمایا تھا؛ شیخ کی طرف سے فتوی نہ دینی کے عہد پر شیخ کے نام خط میں لکھتے ہیں: “یا شیخ! مِنْکَ الْخَطاء وَ مِنّا التَّسْدید” اے شیخ! [فتوی دیا کریں اور اگر] آپ سے غلطی ہوجائے تو ہم اس کی تصحیح کریں گے۔

چنانچہ امام معصوم علیہ السلام کا حکم پا کر شیخ مسند افتاء پر دوبارہ رونق افروز ہوئے۔

نقل ہوا ہے کہ شیخ مفید رحمةاللہ علیہ تیس سال تک شیعیان عصر کے مرجع تقلید تھے اور ان تیس برسوں میں ان کے لئے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فَرَجَہ الشریف کی جانب سے 30 خطوط جاری ہوئے جن میں شیخ کو یوں مورد خطاب قرار دیا جاتا رہا:

“للاخ الاعز السدید الشیخ المفید”

یعنی میرے عزیزترین اور استوار ترین بھائی “شیخ مفید” کے نام

مأخذ:

(داستان ہایی از زندگی علماء، ـ محمدتقی صرفی ـ دفتر نشر برگزیدہ قم۔

(آخری داستان میں دیگر مآخذ سے بھی استفادہ کیا گیا)۔

………

1. کیا بات ہے اس مرجع و مجتہد و عالم دین کی ـ جو مفید کا لقب سنی علماء سے پاچکے اور سنی علماء کو بھی فقہ و اصول پڑھاتے رہے ہیں ـ اس طرح کسی ایک ممکنہ موت میں ملوث ہونے سے بچنے کے لئے افتاء اور معنوی حکمرانی کو بآسانی خیرباد کہتے ہیں اور کیا بات ہے ان لوگوں کی جنہیں اپنی نماز کے ارکان اور نماز کے مفہوم تک کا تو علم نہیں ہے مگر وہ سینکڑوں اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قتل کے فتوے دیتے ہیں

تبصرے
Loading...