شیخ صابریؒ: شخصیت، افکار اور خدمات

*شیخ صابریؒ: شخصیت، افکار اور خدمات*

*محمد سجاد شاکری*

*(استاد شیخ محمد علی صابری مرحوم کی برسی کی مناسبت سے)*

*مقدمہ*

الحق کہ امیر المومنینؑ کا یہ فرمان استاد مرحوم آقائے صابریؒ پر کاملاً صدق آتا ہے۔
’’ …اوراہلِ علم رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔ بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں۔‘‘
(نہج البلاغہ، کلمات قصار، ۱۴۷)
کیوں نہ ایسی ہستیاں اس دارِ فانی سے کوچ کر جانے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں زندہ و جاوید رہیں! کیونکہ ان کی شخصیت، افکار اور خدمات جاویداں تھیں۔ آنے والی سطروں میں استاد مرحوم کی عظیم شخصیت، بلند افکار اور لازوال خدمات کا مختصر انداز میں جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ اگر خدا کی درگاہ میں مورد قبول واقع ہو تو اس کا اجر استاد مرحوم کے نامہ اعمال میں درج فرمائے۔
*الف) شخصیت*
ایک عالم دین کی شخصیت کے لئے جن اوصاف کا مالک ہونا بے انتہا ضروری ہے ان اوصاف کو آپ مرحوم شیخ صابریؒ صاحب کی شخصیت میں نمایاں دیکھ سکتے ہیں۔ بطور خلاصہ آپ کی کچھ نمایاں اور واضح اخلاقی خصلتوں کو یہاں فہرست وار ذکر کریں گے۔
*۱۔ اخلاص :*
آپ ایک طرح سے اخلاص کے پیکر تھے۔میں نے اگر اپنی زندگی میں کچھ شخصیات کو (الحب في الله والبغض في الله) کا کامیاب مصداق پایا ہے تو مرحوم استاد بھی انہیں افراد میں سے ایک ہیں۔ اس بات کا تصدیق مولانا مرحوم کے یقیناً کریں گے کہ آپ ہر وقت اپنا سب کچھ دین پر قربان کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے۔ لہذا دین کے لئے اپنی عزت و آبرو کی قربانی دینے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔
*۲. نڈر*
تبلیغ دین کی راہ میں کبھی آپ کے قدم ڈگمگاتے نہیں دیکھا، ہر طرح کی رکاوٹوں اور دشمنیوں کا بڑی دلیری سے مقابلہ کرتے تھے اور کبھی تو اکیلا، دسیوں اور سینکڑوں پر غالب ہوتے بھی دیکھا ہم نے۔ ان کا ریڈ لائن دین تھا جو بھی اس ریڈ لائن کے تقدس کا پامال کرتا ان کی نگاہ میں اس کے لئے کوئی تقدس نہیں تھا، چاہے وہ بظاہر بڑے مقدس مآب ہی کیوں نہ ہوں۔
*۳۔ سادگی*
سادگی میں شیخ صاحب مرحومؒ کی طرح شاید ہی کسی کومیں نے دیکھا ہو، ورنہ سادگی میں ہو بے مثال ہو کرتے تھے۔ جس کسی نے بھی ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا ہو اس نے یقیناً ان کی گفتار، رفتار اور رہن سہن میں سادگی کو سب سے زیادہ نوٹ کیا ہوگا۔ یہ سادگی تنگدستی کی وجہ سے بھی نہیں تھی، بلکہ وہ کبھی تو خود کو سختی میں ڈال کر دوسرے کے لئے آرام کا سامان فراہم کرتے تھے۔
*۴۔ خوش اخلاق*
عموماً انحرافات، خرافات اور بدعتوں کا مقابلہ کرنے والا اپنی زندگی میں بھی خوش اخلاقی کی نعمت سے محروم نظر آتے ہیں لیکن آپ کا دل ہمیشہ جوانوں اور طلاب کے لئے نرم ہوا کرتے تھے ۔ اور ان کے سامنے خود ہمیشہ ایک خادم کی طرح پیش کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ہر کوئی آپ کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
*۵۔ درد مند*
ایک اور نمایاں اخلاقی خصلت جو استاد مرحوم کی شخصیت میں ستارے کی مانند چمکتی تھی وہ آپ کی دردمندی ہے۔ آپ اپنے علاقے کے مومنین، محلے کے جوانوں اور خاص کر مدرسے کے طلاب کے بے انتہا دردمند تھے۔ اسی وجہ سے کبھی کبھی اپنا درد بھول کر دوسرے کے درد کی دوا ڈونڈتے پھرتے تھے۔
*ب) افکار*
کامیاب شخصیات کی کامیابی کے مختلف اسرار و رموز ہیں ان میں اس ایک ان کے وہ بنیادی افکار ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے اپنی شخصیت بنائی ہے۔ شیخ صابریؒ مرحوم بھی فکری طور پر اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے۔ آئندہ سطروں چند بنیادی افکار کی طرف اشارہ کریں گے۔
*1۔ پیرو و مدافع ولایت فقیہ*
نجف کے طالب علمی زندگی کے دوران ہی جب امام خمینیؒ اور شہید صدرؒ جیسی شخصیات سے اسلامی ریاست کے فکر کو سمجھا تو اسی کے بعد سے ہی اس نظام کے پیرو اور اس کے مدافع بن کر زندگی گزاری۔ آپ اپنے پیر و مرشد، امام خمینیؒ کی طرح ولایت فقیہ کو امام معصوم کی غیبت کے زمانے میں انسانیت کی فلاح کا واحد نظام سمجھتے تھے۔
*۲۔ طاغوت سے دشمنی*
طاغوت چاہے عالمی سطح کا ہو یا ملکی سطح کا یا پھر علاقائی اور محلی سطح کا ہر طاغوت کا مقابلہ وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ لہذا وہ اپنی اسی فکر کے پیش نظر اپنے طلاب کو جن چیزوں کی تاکید کرتے تھے ان میں سے ایک اہم چیز دشمن شناسی ہے۔ آپ ہمیشہ دشمن کی شناخت اور اس کی سازشوں کی شناخت پر بہت زیادہ تاکید کیا کرتے تھے۔
*۳۔ اصلاحی سوچ*
آپ معمول کے مطابق مسجد سے گھر، گھر سے مدرسہ تک رسمی فعالیتوں میں محدود رہنے والے اور اسی کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سمجھنے والے افراد میں سے نہیں تھے۔ بلکہ آپ فکری، اعتقادی، سیاسی اور اخلاقی نہج پر معاشرے کی اصلاح کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے ۔ لہذا پوری زندگی اسی کام میں وقف کیا۔
*۴۔ عالمی مصلحین کے شیدائی*
آپ عالمی مصلحین اور ان کے آثار کے بڑے شیدائی تھے اسی لئے اپنے طلاب کو خاص طور پر ان مصلحین سے آگاہ کرنے اور ان کے آثار کا مطالعہ کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ آپ سب سے زیادہ جن شخصیات سے متاثر تھے وہ امام خمینیؒ، شہید باقر الصدرؒ، شہید مطہریؒ اور رہبر انقلاب تھے۔ لہذا طلاب کو ہمیشہ ان شخصیات کی کتابیں پڑھنے اور ان ہستیوں کو سمجھنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔
*۵۔ اسلام ناب محمدی کی ترویج*
کراچی جیسے مختلف مکاتب و مذاہب کی مخلوط آبادی والے شہر میں شیعوں کے درمیان وقتاً فوقتاً انحرافی مکاتب فکر منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ آپ نہ فقط ان نئے وجود میں آنے والے مکاتب فکر سے آگاہ ہوتے تھے بلکہ ان سے مقابلے کی واحد راہِ حل خالص اسلام کی ترویج و اشاعت میں سمجھتے تھے۔ لہذا خود بھی اسی کی اشاعت کے لئے کوشاں تھے اور طلاب کو بھی اسی کی نصیحت فرماتے تھے۔
*ج) خدمات*
1۔ امامت ِ مسجد
بیدار و ذمہ دار امام۔۔۔۔
2.دانشگاہ علوم اسلامی کا قیام
3. تدریس
4.تبلیغ
مختلف مقامات کا سفر تبلیغی۔۔۔۔
5.تربیت
تنظیمی جوانوں کی تربیت۔۔۔۔

تبصرے
Loading...