شہیدوں کا پیغام

 جناب زینب (ع) ۳۰۰ میل کی مسافت میں شہیدوں کا پیغام پہنچاتی رہیں۔ کوفے کے بازاروں میں پہنچایا۔ دمشق کے درباروں میں پہنچایا۔ شہیدوں کا پیغام اور حضرت زینب (ع) کی پیام رسانی جاوداں’ ان کا پیغام آج بھی موجودہ نسل کے کانوں میں گونج رہا ہے اور طاغوت کی نابودی اور سرکوبی کے لیے انسانیت کو آگاہ کر رہا ہے۔

 آیئے ! ہم اس پیام کی قدر کریں۔ یہ ہمارا فرض ہے طاغوت سے چھٹکارا حاصل کرکے اسلام کے پرچم کو سربلند کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔ ہم اس کو اگلی نسل پر کیوں چھوڑیں ؟

حسین (ع) نام  ہے کامل آزادی کا حریت کاملہ کا حسینیت نام ہے ہر اس بندھن کو کاٹ دینے کا جو آدمی کو انسان دشمنی کی کال کوٹھری میں محبوس رہنے پر مجبور کرے۔ انسان دشمنی کی اس کال کوٹھری کی دیواریں نسل’ زبان’ رنگ اور خطہ ہیں۔ اورآہنی صددروازہ حواس خمسہ کی بے تحاشہ لذات ہیں۔

 طول تاریخ میں حق و باطل کی یہی کشمکش رہی ہے کہ حق کا اصرار ہے حق کے پرستاروں کا یقین ہے کہ نسل’ زبان’ رنگ’ خطہ اورحواس خمسہ کی گوناگوں لذات ایک ذریعہ ہیں’ کوئی مقصد نہیں Meansہیں Endنہیں ایک ذریعہ ہیں’ راستہ ہے انسان کے رشد و فلاح کا تنظیم کا’ اخوت کا’ برادری کا’ رحماء بینہم کا اور ببانگ دہل یہی پیغام وہ انسانیت کو مسلسل دیتے رہے ہیں۔

 مفاد پرست باطل چالاکی اور عیاری کی کن انکھیوں اور کانا پھوسی کے ذریعے باور کراتا رہا ہے کہ اسی نسل’ زبان ‘ رنگ اور خطے کی بھول بھلیوں میں آکر بس جاؤ’ یہی تمہارا منتہائے مقصود ہے۔ ساٹھ ستر سال یہی چار دیواری تمہارا مقسوم ‘ اپنی نسل پر فخر کرو’ دوسرے کے رنگ کی تحقیر کرو اور اس طرح تفریق در تفریق کے خانے بناتے رہو۔ یہ خانے جتنے چھوٹے بنتے جائیں اتنا ہی اچھا ہے۔ مملکت بھلے چھوٹی بنے مگر دیکھو پرچم بڑا ہونا چاہئے۔ شرک پنپتاہی تفرقے پر ہے اور فرق جتنا سطحی ہو تفریق کا کام اتنا ہی آسان ہے۔ باطل کے نمائندے نے جب ہی تو کہا تھا : “بنی ہاشم نے محض ایک ڈھونگ رچایا تھا۔ نہ کوئی وحی آئی نہ رسالت ملی” یہ بدبخت قبیلے اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتے اور دوسروں کو بھی قبیلہ باز سمجھتے آئے ہیں۔

 توحید سطحی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے فطرت انسانی (Primordial Nature) پر اعتماد کرتے ہوئے ہر انسان کو اس کی عزت نفس اس کو واپس دیکر معاشرے میں فعال بناتا ہے۔ انسانوں کے درمیان روابط کا تناسب و توازن درست کرتا ہے۔ قسط کو رائج کرتا ہے تاکہ عدل کی حکمرانی ہو۔

 دنیا کو توحید کااور عدل و قسط کا پیغام کہاں سے ملا مدینے کے اس مٹی کے گھر سے جہاں سالہا سال وحی کی بارش ہوئی ۲۳ سال مشیت ایزدی آشکار رہی۔ انسان پہلی بار کائنات کو اور اپنے معاملات کو خدائی نقطہ نگاہ (God’s eye view) سے دیکھنے لگا۔ ہمارے بارے میں’ انسانیت کے بارے میں جناب رسالتمآب  کاہر قول و فعل’ خدائی نقطہ نگاہ کے مطابق ہے۔ انسانی نقطہ نگاہ کسی بھی معاملے میں دنیا کی ساٹھ ستر سالہ زندگی پر محیط ہوتا ہے اور بس !

 ہمارا خالق جب ہمارے بارے میں بشارت دیتا ہے یا نتائج سے ڈراتا ہے تو نہ صرف ہماری اس دنیا کی ساٹھ ستر سالہ زندگی بلکہ حیات بعد از ممات یعنی ابدی زندگی کو بھی حساب میں رکھتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت  نے ہماری زندگی کے جس Dimensionکے بارے میں جوبھی فیصلہ کیا وہ ہماری دینوی اورابدی زندگی دونوں کے تسلسل کو مدنظر رکھ کر کیا اسی لئے آپ  نے فرمایا۔

 “تم سچے مومن اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک تم ہمارے تمام احکام کی اطاعت نہ کرو” نظر جس قدر وسیع اوردقیق ہوگی’ فیصلہ اور انتخاب اتنا ہی صحیح ہوگا۔ اور خالق کے نقطہ نظر سے بڑھ کر وسعت نظر اور کہاں ملے گی۔

 حسین (ع) اسی گھر کے ساتھ والے گھر میں پلے بڑھے۔ ان کی تربیت اس گھر میں ہوئی جس کا دروازہ بحکم خدا ‘ خانہ خدا میں کھلتا تھا تو اس کی کھڑکی خانہ رسول  میں !

 اور جب رسول  اللہ اور آپ  کے مجاہدین کی جدوجہد اور ریاضت و مشقت کا پھل کھانے ملوکیت اسلام میں درآئی اور لوگوں کی عزت نفس کو پامال کرتی ہوئی دوبارہ نسل قومیت زبان اور خطے کی تفریق در تفریق کا بازار سجانے لگی’ توحید کی فکر عالی کے نتیجے میں اخوت و بھائی چارگی جو معاشرے کا مزاج اور عادت ثانیہ بن گئی تھی’ جب ذہنوں سے محو ہونے لگی اور مصنوعی امتیازات کے قید خانے پھر تیار کیے جانے لگے تو گویا باشعور انسان کی ذمہ داری کا وقت آپہنچا۔

 ۶۰ھ میں عالم اسلام میں ایک فرد شعور و ایمان کا مرقع ہے اور اسی لیے “ذمہ دار” بھی ہے۔ ذمہ داری شعور و ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ طاقت و قوت و امکانات سے نہیں !

 اسلام اپنے حقیقی خدوخال میں’ خدائی نقطہ نگاہ کے بموجب اپنی پوری معنویت کے ساتھ قیامت تک برقرار رہ جائے’ اس کی بھاری ذمہ داری امام حسین (ع) کے کندھوں پر آپڑی تھی اور وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا بھی جانتے تھے۔

 امام (ع) عالی مقام ایسی تحریک لے کر اٹھے جس نے اسلام حقیقی اور من بھاتے ترمیم شدہ اسلام کے درمیان ایسی حد فاصل کھینچی کہ یہ لکیر آج تک واضح اور دو ٹوک موجود ہے۔ یہ ایسی کسوٹی ہے جس پر ایک عام آدمی بھی اقتدار کے “جائز” ہونے کو پرکھ سکتا ہے۔

 آپ (ع) نے اس تحریک کے لیے وہی طریقہ کاراپنایا جو جناب رسالتمآب  نے کلمہ گو یوں میں رائج کیا تھا ۔۔۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی۔ اسلام سے نابلد نے جب خدائی نقطہ نگاہ کے مطابق اسلام کو سمجھنے والے نواسہ رسول  سے بیعت کا محیر العقول سوال کر ڈالا تو امام (ع) نے فیصلہ کرلیا کہ حامل قرآن و سنت کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا وقت آگیا۔

 امام حسین (ع) مدینے سے روانہ ہونے سے پہلے روضہ رسول کی آخری زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ ۲۷ رجب کا دن ڈھل چکا تھا۔ آسمان کی طرف سر اٹھا کر اور روضہ رسول کو ہاتھ میں تھام کر بے اختیار کیا۔

 “پروردگار ! یہ تیرے نبی محمد کی قبر ہے۔ میں تیرے نبی کی بیٹی (ع) کا بیٹا ہوں۔ وہ وقت آگیا ہے جس کا تجھ کو علم ہے۔

اس علم نے اس شعور نے حسین (ع) کو یہ ذمہ داری بخشی ہے۔

اور اس ذمہ داری نے شہادت عظمیٰ کے اس درجے پر فائز کیا کہ ریگزار کربلا میں ابھی شہداء کا خون جذب بھی نہیں ہو پایا تھا کہ طاغوت کو اپنی شکست کا اپنے فریب کا پردہ چاک ہونے کا ایسا شدیداحساس ہوا کہ وہ دیواروں سے سر ٹکرانے لگا۔

یہ شمشیر پر خون کی فتح تھی ۔۔۔ شہیدوں کے خون کی فتح !

شہادت کیا ہے؟ یہ اٹھ کر گواہی دینا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا؟ شہید کون ہے؟ شہید وہ ہے جو حق وباطل کی جنگ میں میدان کار زار میں حق کا طرفدار بن کرباطل سے نبرد آزما رہا ہے۔ سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) کی شخصیت عالی کے وسیع قوس قزح (Spectrum) کے ایک سرے پر معروف اور منکر کا امتیاز اور اس کی نشاندہی نظر آتی ہے تو دوسرے سرے پر رضا اور تسلیم ۔ اللہ اور اس کے رسول  اپنے نانا محترم کے حوالے سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور خود اپنے فریضے کی ادائیگی کے حوالے سے رضا اور تسلیم !

 مدینے سے روانگی کے وقت مکے سے روانگی کے وقت اور اگلی منزلوں میں آپ نے مسلسل اعلان کیا کہ میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لیے جا رہا ہوں اور جب میدان کربلا میں “ذبح عظیم” کی تعبیر بننے چلے تو فرمایا : رضا بقضایہ وتسلیم ” بامرہ

 “اور جب اپنے نانا  کی امت کی ملکی حالات پر خاموشی اور گوشہ نشینی پر نظر کی تو فرمایا کہ “میں اپنی موت کی طرف’ شہادت کی طرف بڑھ رہا ہوں”

 شب عاشورہ بھی حق پرستوں کی اس قدر قلیل تعداد اپنے ساتھ دیکھ کر فرمایا: کل جام شہادت مجھے نوش کرنا ہے۔ آنحضرت  کی حیات ہی میں عرب قبائل فوج در فوج دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے اور آج ۶۰ھ میں تو امت مسلمہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھی۔ پچھلے بیس سالوں میں آنحضرت  کے لائے ہوئے انقلاب اسلامی کی ہیت میں جو تبدیلی آچکی تھی وہ مسلمانوں کے بچے بچے کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھی بلکہ خصوصاً مدینے اور مکے والوں پر نئی جاہلیت کی اس یلغار کا نقشہ تو روز روشن کی طرح عیاں تھا۔

 جب مدینے سے انقلاب اسلامی کے مرکز سے جس شہر کے ذرّے ذرّے  سے تحریک اسلامی کی مسلسل کرنیں پھوٹی تھیں۔ امام حسین (ع) نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مبارزے کے لیے قیام کیا تو ان کے ساتھ ان کے بھائی’ فرزندان’ بھتیجے’ بھانجے اور چند بیبیاں نظرآتی ہیں اور بس !

 اس قیام کرنے سے کہیں پہلے حضرت امام حسین (ع) نے معاویہ کے آخری دور میں’ حج کے دوران میدان منیٰ میں ہزار کے قریب صحابہ اور تابعین کے ایک ایسے اجتماع میں خطبہ دیا تھا جس کے شرکاء کو امام حسن (ع) نے خصوصی دعوت دے کرمسلم دنیا کے گوشہ و کنار سے اسی مقصد کے لیے طلب فرمایا تھا۔ آپ (ع) نے خطبے کے آغاز ہی میں فرمایا تھا۔

“خداوند عالم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ۔

“مومن مردوں اور مومن خواتین کی صفتیں تو یہ ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو نیک کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں” (سورة توبہ آیت ۷۱)

 یوں خداوند عالم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اولین فریضہ قراردیا ہے۔ کیونکہ اس علیم و خبیر کو معلوم ہے کہ اگر یہ فریضہ ادا ہو جائے اور اسے قائم کر دیا جائے تو تمام تر ۔۔۔ آسان اور مشکل فرائض و واجبات خود بخود ادا ہو جائیں گے۔

 اور یہ اس لئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لوگوں کو اسلام کی جانب اس انداز سے بلاتے ہیں کہ مظالم خود بخود دور ہو جاتے ہیں’ ظالم کی مخالفت لازم ہو جاتی ہے’ آمدنی اور محاصل کی تقسیم عمل میں آجاتی ہے۔ اور اہل دولت سے حاصل ہونے والا وہ حصہ حقداروں تک پہنچ جاتا ہے۔ جو خداوند عالم نے مقرر فرمایا ہے۔

 امت مسلمہ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت دینے والے امام حسین (ع) اسی تحریک اسلامی کو آگے لے کر بڑھ رہے تھے جس کا آغاز جناب رسالتمآب  کے ہاتھوں ہوا تھا اور آپ (ع) نے جاہلیت کے سسٹم کو نابود کرکے اس کی تکمیل کی تھی امام حسین (ع) کے والد گرامی’ آپ (ع) کے برادر گرامی اور آپ (ع) خود اسی تحریک اسلامی کو’ اس نئی جاہلیت کو’ جس نے آنحضرت  کے بعد سر اٹھایا تھا’ نابود کرنے کے لئے جاری رکھے تھے تاکہ حکومت الہیہ کے سائے میں عدل و قسط کی حکمرانی تا قیامت مستحکم ہو۔

 جس حامل قرآن و سنت کے تدبر عالی نے کربلا کے میدان میں ظاہری شکست کو فوری اسی شہادت کے لمحے میں ایک آشکار واضح اورروشن فتح میں تبدیل کر دیا تھا۔ ان کے ساتھ مدینے اور مکے سے چند ہزار حق پرست اورحق شناس جاں نثار جن کے لیے نئی جاہلیت کا غلبہ ناقابل برداشت ہوچکا تھا’ ساتھ ہوتے تو آج دنیا کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا۔ یہ پوری انسانیت کا المیہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اورحسین (ع) کو کرب و بلامیں محض چند جانثاروں کے ساتھ واردہونا پڑا۔

 اب امام حسین (ع) کے پاس ایک ہی متبادل رہ گیا تھا۔ آپ(ع) نے حضرت زینب (ع) کو ساتھ لیا۔ ان خاتون پر جہاد واجب نہیں تھا۔ مگر جب وہ لوگ جن پر جہاد واجب تھا خواب خبر گوش میں تھے تو اس ذمہ دارخاتون نے زمام کار ہاتھوں میں لی اور شہادت کے بعد شہید کے خون کا پیغام لے کر آگے بڑھیں۔ ابھی شہداء کا خون ریگزار کربلا میں جذب بھی نہیں ہوا تھا کہ حسین (ع) کی خواہر اور علی (ع) کی دختر ربانی فریضے کی ادائیگی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ فاطمہ (ع) کے گھر کی یہ خصوصیت ہے کہ جہاں کسی کی زبان بندی کی گئی’ پیام ربانی دوسرے کی زبان پر رواں ہو جاتا ہے۔

 جناب زینب (ع) ۳۰۰ میل کی مسافت میں شہیدوں کا پیغام پہنچاتی رہیں۔ کوفے کے بازاروں میں پہنچایا۔ دمشق کے درباروں میں پہنچایا۔ شہیدوں کا پیغام اور حضرت زینب (ع) کی پیام رسانی جاوداں’ ان کا پیغام آج بھی موجودہ نسل کے کانوں میں گونج رہا ہے اور طاغوت کی نابودی اور سرکوبی کے لیے انسانیت کو آگاہ کر رہا ہے۔

 آیئے ! ہم اس پیام کی قدر کریں۔ یہ ہمارا فرض ہے طاغوت سے چھٹکارا حاصل کرکے اسلام کے پرچم کو سربلند کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔ ہم اس کو اگلی نسل پر کیوں چھوڑیں ؟

 

تبصرے
Loading...