شہادتِ شہزادہ علی اکبر

امام حسین کا یہ فرزند پروردگارِ عالم نے ایک نعمت دی تھی امام حسین کو۔ یہ وہ فرزند تھا کہ تمام کتب تاریخ میں یہ ہے کہ سر سے پاؤں تک یہ معلوم ہوتا تھا کہ رسول ہیں۔ کیسی خوشی ہوتی ہوگی امام حسین کو،جب علی اکبر کو دیکھتے ہوں گے۔ نانا کی تصویر ہونے کے ساتھ، باپ کے اتنے مطیع کہ دنیا میں شاید ہی اتنی اطاعت باپ کی کسی بیٹے کے دل میں ہو جتنی علی اکبر کے

امام حسین کا یہ فرزند پروردگارِ عالم نے ایک نعمت دی تھی امام حسین کو۔ یہ وہ فرزند تھا کہ تمام کتب تاریخ میں یہ ہے کہ سر سے پاؤں تک یہ معلوم ہوتا تھا کہ رسول ہیں۔ کیسی خوشی ہوتی ہوگی امام حسین کو،جب علی اکبر کو دیکھتے ہوں گے۔ نانا کی تصویر ہونے کے ساتھ، باپ کے اتنے مطیع کہ دنیا میں شاید ہی اتنی اطاعت باپ کی کسی بیٹے کے دل میں ہو جتنی علی اکبر کے دل میں اطاعت کے جذبات تھے۔

میں نے بعض مقامات پر یہ بات پڑھی ہے کہ باہر کے لوگ مدینہ میں آتے تھے اورامام حسین علیہ السلام کے دروازے پر پہنچتے تھے، آواز دیتے تھے۔ امام حسین باہر تشریف لاتے تھے۔ وہ لوگ کہتے تھے: مولا ! ذرا اپنے فرزند علی اکبر کوبلوا دیجئے، تو امام حسین فرماتے تھے کہ علی اکبر سے کیا کام ہے؟ تو وہ کہتے تھے کہ ہم نے رسول کی زیارت نہیں کی۔ ہم نے سنا ہے کہ آپ کا فرزند سر سے پاؤں تک رسول کی تصویر ہے۔ ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ کے فرزند کو دیکھ لیں تاکہ رسول کی زیارت کا ہم کو ثواب مل جائے۔

اِن حالات میں امام حسین علیہ السلام کے دل میں کیا کیا کیفیات پیدا ہوتی ہوں گی۔ راستے میں ایک مرتبہ امام حسین ایک منزل پر مقیم تھے۔بیٹھے بیٹھے کچھ غنودگی سی آگئی۔ اب جو آنکھ کھلی تو آپ نے اُٹھتے ہی ارشاد فرمایا:

“اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ”

تمام کے تمام ساتھی جو بیٹھے ہوئے تھے، گھبراگئے کہ کیا واقعہ آپ کے ذہن میں آگیا کہ جس کی وجہ سے یہ کلمہ آپ کی زبان پر جاری ہوا۔ کسی کی ہمت نہ تھی جو آپ سے یہ پوچھے۔ جنابِ علی اکبر نے دیکھا کہ بابا کچھ خاموش ہیں۔ آگے بڑھے اور عرض کرتے ہیں: بابا! آپ نے یہ کلمہ کیوں اپنی زبان پر جاری فرمایا۔ امام فرماتے ہیں: بیٹا! ذرا میری آنکھ لگ گئی تھی تو میں نے ایک ہاتف کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ یہ قافلہ اپنی قبروں کی طرف جارہا ہے اور موت اُن کا استقبال کرنے کیلئے بڑھ رہی ہے۔ اس لئے میں نے یہ فقرہ اپنی زبان پر جاری کیا۔

اس پر جنابِ علی اکبر نے عرض کیا: بابا! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امام حسین نے فرمایا:بیٹا! ہم حق پر ہیں۔تو جنابِ علی اکبر نے فرمایا: بابا! جب ہم حق پر ہیں تو ہمیں موت کی کیا پروا ہے؟ آنے دیجئے موت کو ہمارا استقبال کرنے کیلئے۔ امام حسین کا دل خوش ہوگیا۔

حاکم شام نے ایک دن بیٹھے بیٹھے ذکر کیا کہ بھئی بتلاؤ، اس زمانے میں حقیقی حیثیت سے قابلِ خلافت کون ہے؟ کسی نے کہا، تم ہو کسی نے کہا، تمہارا بیٹا یزید ہے، کسی نے کچھ کہا۔ اُس نے کہا: تم لوگ سب خوشامد کررہے ہو، مجھ سے پوچھو تو میری نظر میں امام حسین کا بیٹا علی اکبر ہے کہ سر سے پاؤں تک رسول کی شبیہ ہے۔ دشمنوں کی نظر میں علی اکبر ایسے تھے ، ہائے! کربلا میں حسین کا گھر ایسا برباد ہوا کہ پھر کبھی آبادنہ ہوا۔ عاشورہ کا دن آگیا۔ بس یہاں کے چند فقرے عرض کرنے ہیں۔

اولاد والو! اٹھارہ برس کی عمر، ساتویں سے پانی بند ہے۔ پیاس کا غلبہ، ہونٹ سوکھے ہوئے مگر باپ سے یہ عرض نہیں کرتے کہ میں پیاسا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ باپ کو تکلیف ہو۔ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی ہاشم میں سب سے پہلے شہید جنابِ علی اکبر ہیں اور بعض روایات یہ بتلاتی ہیں کہ سب سے آخر میں جنابِ علی اکبر شہید ہوئے۔

بہرحال اگر بنی ہاشم کے آخری شہید ہیں تو جب عزیزوں کی لاشیں آگئیں، زینب کے بچوں کی بھی لاشیں آگئیں، ہائے جنابِ قاسم کی بھی لاش آگئی۔ مسلم کے دو فرزند جو یہاں کربلا میں تھے، اُن کی لاشیں بھی آگئیں اور اسی روایت کے اعتبار سے جنابِ عباس کے بازو بھی کٹ چکے تو جنابِ علی اکبر آئے اور عرض کرتے ہیں:بابا! مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں بھی جان نذر کردوں۔ امام حسین نے سر سے پاؤں تک علی اکبر کو دیکھااور اتنا کہا کہ بیٹا! ذرا اس کوکھ جلی کے پاس بھی چلے جاؤ جس نے اٹھارہ برس بڑی محنت سے پالا ہے۔ جنابِ علی اکبر خیمے میں آئے، جنابِ زینب سمجھ گئیں کہ رخصت کیلئے آئے ہیں۔ بیبیاں چاروں طرف حلقہ بنا کر رونے لگیں۔ جنابِ علی اکبر علیہ السلام نے اپنی پھوپھی اور حضرت اُمِ لیلیٰ جو ماں ہیں، اُنہیں سمجھایا کہ آخر آپ یہ چاہتی ہیں کہ میرا باپ شہید ہو جائے اور میں رہ جاؤں۔ دنیا آخر کیا کہے گی؟ جنابِ اُمّ لیلیٰ سے کہا کہ اماں! آپ تو مجھے اجازت دیجئے۔

جنابِ اُمّ لیلیٰ نے کہا کہ بیٹا! میں کون ہوں؟ جو کچھ ہیں یہ ہیں تمہاری پھوپھی۔ انہوں نے تمہیں پالا ہے۔ یہ اگر اجازت دے دیں تو میں کس طرح سے منع کرسکتی ہوں۔آخر جنابِ زینب نے اجازت دی۔ ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ خیمے کا پردہ اُٹھتا ہے اور پھر گرجاتا ہے۔ پھر اُٹھا اور پھر گرگیا۔ میں نے جب دریافت کیا تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ علی اکبر بیبیوں کو تسلی دے کر نکلنا چاہتے تھے کہ بہنیں لپٹ جاتی ہیں۔ بہنوں کو تسلی دیتے ہیں اور نکلنا چاہتے ہیں تو پھوپھی لپٹ جاتی ہیں:
بیٹا! تھوڑی دیر ہم شکلِ پیغمبر کی زیارت کرلیں۔ اس طرح یہ عمل پردہ گرنے کا کئی مرتبہ ہوا۔ آخر علی اکبر نکلے تو اس طرح سے نکلے جیسے بھرے گھر سے جنازہ نکلتا ہے۔

امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آئے، عرض کیا: پھوپھی سے اجازت لے لی، اماں بھی راضی ہوگئیں۔ اب آپ مجھے اجازت دیجئے۔ یہ سننا تھا کہ امام حسین علیہ السلام اپنی کمر پکڑ کر کھڑے ہوگئے۔ اپنا عمامہ اُتار کر علی اکبر کے سر پر رکھا۔ بیٹا! یہ عمامہ تمہارے نانا محمد مصطفےٰ کا ہے۔ اس کو سر پر رکھ کر جاؤ، خود اپنے ہاتھ سے گھوڑے پر سوار کیا۔ علی اکبر روانہ ہوئے۔ چند قدم چلے تھے ، منہ پھیر کر دیکھا تو کیا دیکھا کہ حسین دوڑتے ہوئے چلے آرہے ہیں، فرمایا: بیٹا! جب تک سامنے رہو، مجھے منہ موڑ کو شکل دکھلاتے جاؤ، مجھے نانا یاد آرہے ہیں۔

جنابِ علی اکبر آئے میدان میں۔ اب میرے دل میں بھی طاقت نہیں ہے کچھ، جنگ کی۔ کچھ یزیدیوں کو قتل کیا۔ جو بھی مقابلے میں آیا، مارا گیا، علی کے پوتے تھے لیکن ایک وقت آیا کہ سب نے مل کر حملہ کیا۔ چاروں طرف سے ہجوم ہوگیا اور چاروں طرف سے جب گھر گئے علی اکبر تو ایک شخص نے آکر سینے پر جو نیزہ مارا اور وہ نیزہ جو نکلا تو خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔ ارے علی اکبر کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ گھوڑے سے گر جائیں۔ ایک مرتبہ دونوں ہاتھ بڑھا کر گھوڑے کی گردن میں ڈال دئیے۔گھوڑا فوج میں گھس گیا۔ جس کے قریب سے گزرے، اُس نے تلوار کا وار کردیا۔ اس وقت ایسی حالت میں جنابِ علی اکبر نے آواز دی:

“یَااَبَتَاہُ عَلَیْکُمْ مِنِّیْ اَلسَّلَامُ”۔
نام کتاب:  روایات عزا

 مصنف:  علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ

تبصرے
Loading...