شریک حیات کے حقوق

بلا شک ”’خاوند جی”’ کو اللہ تعالیٰ نے بیوی پر برتری اور افضلیت عطاء فرمائی ہے ، اپنے کلام پاک میں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبان مبارک سے خاوند کو بیوی کا مالک و آقا قرار دِیا ہے ، لیکن اُسے یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اپنی اِس برتری کو جب ،جہاں اور جیسے چاہے اِستعمال کرتا پھرے ، جِس خالق و مالک نے جیسے چاہا خاوند کو برتری عطاء فرمائی ،اِسی خالق و مالک نے جیسے چاہا خاوند کو اپنی طرف سے دی گئی برتری کے استعمال کے لیے حد بندی کر دی ، اور وہ اللہ ہے جو اکیلا خالق ہے اور اُس کے عِلاوہ ہر کوئی اُس کی مخلوق ہے ، اور خالق اپنی مخلوق کے بارے میں کِسی بھی دوسری مخلوق سے بڑھ کر یقینی عِلم رکھنے والا ہے اور زبردست حکمت والا ہے ،

پس اپنی حکمت سے اُس نے خاوند کو عظمت دی اور اپنی حکمت سے اُس کے لیے حدود مقرر فرمائیں اور اپنی کتاب میں اُن کو ذِکر فرمایااور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبان مُبارک سے جب چاہا اُن حدود کو بیان کروایا ،

خاوند حضرات اپنی برتری کی سرشاری میں یہ مت بھولیں کہ اُنکے خالق و مالک نے اُنہیں برتری عطاء فرمانے سے پہلے اُنہیںیہ بھی بتا یا ہے کہ ( وَلَھُنَّ مِثلُ الَّذِی عَلِیھِنَّ بِالمَعرُوفِ )( اور عورتوں کے لیے بھی ویسا ہی (حق) ہے جیسا کہ اُن پر (مَردوں کا حق )ہے ) اور پھر فرمایا ( ولِلرِّجَالِ عَلِیھِنَّ دَرجۃٌ) ( اور ( اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ ) عورتوں پر مَردوں کا درجہ( بلند ) ہے ) سورت البقرۃ/آیت ٢٢٨

اور خاوند کے لیئے حُکم فرمایا( و عاشِرُوھُنَّ بِالمَعرُوفِ ) ( اور اُن کے ساتھ نیکی والا رویہ رکھتا ہوئے زندگی بسر کرو ) سورت النساء /آیت٤،

عاشر کا لفظیٰ معنی : مل جل کر زندگی بسر کرنا بنتا ہے ، اور میل جول بُرائی اور ظُلم والا بھی ہوتا ہے اور نیکی اور بھلائی والا بھی ، اللہ تعالیٰ نے خاوندوں کو یہ حُکم دِیا کہ اپنی بیویوں کے ساتھ نیکی ، بھلائی اور خیر والی زندگی بسر کریں ، نہ کہ بُرائی اور ظُلم والی ، یہ ایک عام اجمالی حُکم ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو ڈھانپ لیتا ہے ، اورمزید وضاحت کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام صادر فرمائے ، آئیے اُن کا مُطالعہ کرتے ہیں

درحقیقت خاندان ایک چھوٹا معاشرہ ہے جو دو افراد یعنی میاں بیوی کے ذریعے قائم ہے اورمعاشرہ لوگوں کی کثرت کا نام نہیں ہے بلکہ ان باہمی تعلقات کانام ہے جن کا ہدف ایک ہو۔

  قرآن کریم نے ان کے درمیان محبت والفت کا ہدف اطمینان اورسکون کو قرار دیا ہے فرماتاہے :

ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة ان فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون۔  ”اوراس کی آیات میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے نفوس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے ساتھ سکون حاصل کرسکو اورتمہارے درمیان محبت ورحمت پیدا کر دی بیشک اس میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لئے جو سوچتے ہیں۔

 اوریہ معاشرہ ایک ایسے عقد کے ذریعے وجود میں آتا ہے کہ جس میں نہایت واضح الفاظ کے ساتھ طرفین کی طرف سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اس عقد کے مفہوم اوراس کے حقوق و فرائض کو قبول کرتے ہیں ۔

تبصرے
Loading...