شریعت اسلام كی خاتمیت وكتاب علی علیہ السلام

شیعہ، كس طرح شریعت اسلام كی خاتمیت كے قائل ہیں جب كہ وہ كتاب علی علیہ السلام كے معتقد ہیں اور اس پر عمل كرتے ہیں ؟

شیعہ معتقد ہیں كہ پیغمبر خدا كی رحلت سے وحی كے نزول كا سلسلہ بند ہوگیا اور حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر كی تجہیز و تكفین كے وقت فرمایا ہے: ” میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ كی وفات سے نبوت اور آسمانی خبروں كا سلسلہ منقطع ہوگیا “

بڑے افسوس كی بات ہے اس سلسلے میں مشكوك و شبہات وہ لوگ كرتے ہیں جنھیں شیعی عقائد كے بارے میں ذرا سی بھی معلومات نہیں ہے اور صرف مستشرقین یا ان لوگوں كی بات پر كان دھرتے ہیں جو شیعی ماحول سے دور ہیں اور ایسے ہی لوگوں كی پیروی میں اپنی زبانیں كھولتے ہیں، انھیں شبہات میں سے ایك یہی سوال ہے جسے ذكر كیا گیا ہے اس بحث میں ہم “كتاب علی علیہ السلام ” كے موضوع پر گفتگو كر رہے ہیں:

مكتب اہل بیت علیہم السلام، رسول خدا كی تمام روایات كی تدوین و حفاظت پر خاص عنایت ركھتا ہے كیونكہ سنت رسول خدا صلی الله علیه و آله چاہے وہ اقوال ہوں یا افعال ہوں یا تقدیر، وحی كے راستے سے صادر ہوئے ہیں جیسا كہ خدا نے خود اعلان كر دیا ہے كہ: ( وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الیٰ وحی یوحیٰ ) 2 وہ ہر گز ہوا و ہوس سے گفتگو نہیں كرتے ہیں، وہ وہی بولتے ہیں جو وحی ہوتی ہے ۔

امام علی علیہ السلام ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله كے پروردہ ہیں آپ ہی وہ شخص ہیں جو بچپنے سے پیغمبر كی آخری سانس تك ان كے ہمراہ رہے امام علی علیہ السلام ان اوقات كی اس طرح توصیف فرماتے ہیں:

شیعہ، كس طرح شریعت اسلام كی خاتمیت كے قائل ہیں جب كہ وہ كتاب علی علیہ السلام كے معتقد ہیں اور اس پر عمل كرتے ہیں ؟

شیعہ معتقد ہیں كہ پیغمبر خدا كی رحلت سے وحی كے نزول كا سلسلہ بند ہوگیا اور حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر كی تجہیز و تكفین كے وقت فرمایا ہے: ” میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ كی وفات سے نبوت اور آسمانی خبروں كا سلسلہ منقطع ہوگیا ” 1

بڑے افسوس كی بات ہے اس سلسلے میں مشكوك و شبہات وہ لوگ كرتے ہیں جنھیں شیعی عقائد كے بارے میں ذرا سی بھی معلومات نہیں ہے اور صرف مستشرقین یا ان لوگوں كی بات پر كان دھرتے ہیں جو شیعی ماحول سے دور ہیں اور ایسے ہی لوگوں كی پیروی میں اپنی زبانیں كھولتے ہیں، انھیں شبہات میں سے ایك یہی سوال ہے جسے ذكر كیا گیا ہے اس بحث میں ہم “كتاب علی علیہ السلام ” كے موضوع پر گفتگو كر رہے ہیں:

مكتب اہل بیت علیہم السلام، رسول خدا كی تمام روایات كی تدوین و حفاظت پر خاص عنایت ركھتا ہے كیونكہ سنت رسول خدا صلی الله علیه و آله چاہے وہ اقوال ہوں یا افعال ہوں یا تقدیر، وحی كے راستے سے صادر ہوئے ہیں جیسا كہ خدا نے خود اعلان كر دیا ہے كہ: ( وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الیٰ وحی یوحیٰ ) 2 وہ ہر گز ہوا و ہوس سے گفتگو نہیں كرتے ہیں، وہ وہی بولتے ہیں جو وحی ہوتی ہے ۔

امام علی علیہ السلام ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله كے پروردہ ہیں آپ ہی وہ شخص ہیں جو بچپنے سے پیغمبر كی آخری سانس تك ان كے ہمراہ رہے امام علی علیہ السلام ان اوقات كی اس طرح توصیف فرماتے ہیں:

” وكنت اٴتبعہ اتباع الفصیل اثر امہ، یرفع لی فی كل یوم من اخلاقہ علما، و یامرنی بالاقتداء بہ، ولقد كان یجاور فی كل سنة بحراء فاراہ ولا یراہ غیری، ولم یجتمع بیت واحد یومٴذ فی الاسلام غیر رسول اللہ و حدیجة وانا ثالثھما، اری نور الوحی و الرسالة، و اشم ریح النبوة “3

” میں ان كے ہمراہ ایسے تھا جیسے كہ اونٹنی كا بچہ اپنی ماں كے ہمراہ رہتا ہے وہ روزآنہ میرے لئے اپنے اخلاق كی كسی نہ كسی نشانی كو برپا كرتے تھے اور مجھے اس كی اطاعت و پیروی كا حكم دیتے تھے، ہر سال غار حراء میں تنہا رہتے تھے میں انھیں دیكھتا تھا اور میرے علاوہ انھیں كوئی نہیں دیكھتا تھا اس وقت سوائے ایك گھر كے كہ جس میں خود رسول خدا صلی الله علیه و آله اور خدیجہ موجود تھے كسی گھر میں اسلام نہیں آیا تھا اور میں ان دونوں كا تیسرا تھا میں وحی و پیغمبری كی نورانیت كو دیكھتا تھا اور نبوت كی بو سونگھتا تھا “

امام علی علیہ السلام شب و روز، سفر و حضر میں رسول خدا كے ہمراہ رہتے تھے كسی جنگ و غزوہ میں آپ نے رسول خدا صلی الله علیه و آله كو نہیں چھوڑا سوائے غزوہ تبوك كے كہ اس غزوہ میں آپ رسول خدا صلی الله علیه و آله كے حكم سے مدینہ میں رہے، یہاں تك كہ رسول خدا صلی الله علیه و آله كی رحلت كا وقت قریب آ گیا رسول خدا بستر بیماری پر ہیں اور تن تنہا تیمارداری كرنے والے حضرت علی علیہ السلام ہیں زندگی كے آخری لمحوں میں آ نحضرت كا سرمبارك حضرت علی علیہ السلام كے سینہٴ مبارك پر تھا اور اسی حالت میں داعی اجل كو لبیك كہا امام علی علیہ السلام اس وقت كی توصیف كرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” ولقد قبض رسول اللہ وان راٴسہ لعلی صدری ولقد سالت نفسہ فی كفی فامررتھا علی وجھی، ولقد ولیت غسلہ و الملائكة اعوانی، فضجت الدار و الافنیة، ملایھبط، وملا یعرج، وما فارقت سمعی ھینمة منھم، یحلون علیہ، حتی واریناہ فی ضریحہ، فمن اذا احق بہ منی حیا و میتاً “4

” اور رسول خدا صلی الله علیه و آله نے اس حالت میں جان دی كہ ان كا سر مبارك میرے سینہ پر تھا اور ان كا نفس میری ہتھیلی پر جاری ہوا میں نے ان كو اپنے منھ پر مل لیا پھر ان كو غسل دینے كا عہدہ دار ہوا فرشتے میری مدد كر رہے تھے گھر اور گھر كے اطراف كی چیزیں نالہ و شیون كر رہی تھی، فرشتوں كا ایك دستہ نیچے آتا تو دوسرا اوپر جاتا ان كی فریاد میرے كانوں سے ٹكرا رہی تھی وہ آنحضرت پر درود بھیجتے تھے یہاں تك كہ میں نے انھیں سپرد لحد كر دیا، پس ان كی نسبت مجھ سے زیادہ كون حقدار ہے چاہے ان كی زندگی میں ہو یا مرنے كے بعد رسول خدا صلی الله علیه و آله كی تجہیز و تكفین ان امتیازات میں سے ہے جو صرف حضرت علی علیہ السلام كو حامل ہے اور یہ خصوصیت كسی صحابہ كو حاصل نہ تھی ۔ اسی لئے آپ شہر علم نبی كا در مشہور ہوئے، آپ ہی خلفاء كے دور میں علی الاطلاق لوگوں كے روحی معنوی مرجع تھے ۔

امام علی علیہ السلام سے سوال كیا گیا كہ: كیا وجہ ہے كہ اصحاب رسول خدا صلی الله علیه و آله میں سب سے زیادہ آپ ہی روایات نقل كرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ” انی اذا كنت سالتہ انبانی، واذا سكت ابتدانی” 5 میں وہ ہوں كہ جب میں رسول خدا صلی الله علیه و آله سے سوال كرتا تھا وہ مجھے جواب مرحمت فرماتے تھے اور جب میں خاموش ہوجاتا تھا تو وہ گفتگو كا آغاز كرتے تھے ( یعنی مسلسل سوال و جواب كا سلسلہ جاری رہتا تھا )

حدیث لكھنے كا حكم

جناب رسول خدا صلی الله علیه و آله ہمیشہ حضرت علی علیہ السلام كو حكم دیتے تھے كہ جو كچھ ان كے لئے بیان كر رہا ہوں اسے لكھ لیں، ایك دن حضرت علی علیہ السلام نے حضرت رسول خدا سے عرض كیا كہ: اے اللہ كے رسول ! كیا آپ میرے سلسلہ میں بھول جانے كا خوف ركھتے ہیں ؟ پیامبر نے فرمایا: میں تمھارے سلسلہ میں اس جہت سے ہراساں نہیں ہوں كیونكہ خداوند متعال سے دعا كر چكا ہوں كہ آپ كے حافظہ كو قوی كر دے اور آپ پر نسیان طاری نہ ہو لیكن آپ اپنے شركاء كے لئے لكھ لیں میں نے عرض كیا میرے شركاء كون لوگ ہیں ؟ فرمایا: تمھاری اولاد میں سے ائمہؑ ۔ 6

كتاب علی علیہ السلام

وہ جملہ مطالب جسے امام علی علیہ السلام كے واسطے رسول خدا نصلی الله علیه و آله ے املاء فرمائے اور حضرت علی علیہ السلام نے اسے تحریر كر لیا تھا ایك كتاب كی شكل میں ہے جس كی لمبائی ۷۰ ہاتھ ہے اور یہ وہی مكتوب ہے كہ روایات میں جسے كتاب علی یا صحیفہ علی علیہ السلام كے نام سے شہرت حاصل ہے اور یہ كتاب اہل بیت علیہ السلام اور ان كے پیروكاروں میں بہت معروف ہے اس كتاب میں قیامت كے وہ سارے مسائل جمع ہیں جن كی لوگوں كو ضرورت پیش آ تی ہے، ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی اس كتاب سے روایات نقل كی ہیں اور بطور شاہد پیش كیا ہے اور یہ كتاب سوائے احادیث پیغمبر كے اور كچھ نہیں ہے جسے آنحضرت نے حضرت علیہ السلام كو املاء كرایا ہے اور امام علیہ السلام نے بھی اسے لكھ لیا ہے اور اپنے فرزندوں كے لئے یادگار چھوڑا ہے تاكہ ان كے بعد وہ اس سے روایات نقل كر سكیں ۔

اس بیان سے یہ بات آشكار ہوجاتی ہے كہ: حضرت امام علی علیہ السلام ہی پہلے احادیث نگار ہیں جنھوں نے رسمی طور پر احادیث نبوی كو تدوین فرمایا ہے اگر چہ اس عظیم كام میں دوسرے بزرگ صحابی بھی شریك ہیں لیكن افسوس كی خلفاء كے دور میں كچھ وجہوں سے جسے وہ خود ہی سمجھ سكتے ہیں وہ احادیث اور كتابیں نظر آتش كر دی گئیں جس كی وجہ سے مسلمان كو بہت بڑا گھاٹا اٹھانا پڑا ایسا گھاٹا كہ جسے پورا نہیں كیا جا سكتا اسی لئے جعل سازوں كو حدیثیں گڑھنے كا موقع مل گیا اور ان لوگوں نے جو چاہا اسرائیلیات، مجوسیات، اور مسیحیات كو پیغمبر سے منسوب كر دیا لیكن خوشی كی بات یہ ہے كہ امام علی علیہ السلام كی یہ كتاب اس قسم كی تمام مشكلات سے مبریٰ رہی اور آپ كے بعد معصوم اماموں تك منتقل ہوگئی ۔

امام علی علیہ السلام كی كتاب احادیث كا مجموعہ ہے

قارئین كرام كی معلومات میں اضافہ كی غرض سے كتاب امام علی علیہ السلام كی بعض خصوصیات كی طرف اشارہ كیا جا رہا ہے تاكہ حقیقت حال ان كے اوپر مزید روشن ہو جائے ۔

1۔ بكر بن كرب صیرفی كہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام سے سنا ہے كہ: ہمارے پاس ایك ایس چیز كہ جس كے بعد ہم لوگوں كے محتاج نہیں ہیں بلكہ لوگ ہمارے محتاج ہیں، ہمارے پاس ایك ایسی كتاب ہے جسے رسول خدا نے املاء فرمایا ہے اور امام علی علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے یہ وہ صحیفہ ہے كہ جس میں تمام حلال و حرام كا بیان موجود ہے ۔ 7

2۔ فضیل بن یسار كہتے ہیں: امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: اے فضیل ! ہمارے پاس كتاب علی علیہ السلام موجود ہے جو ستر ہاتھ لمبی ہے، روئے زمین پر لوگوں كی ضرورتوں كی كوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس میں بیان نہ كی گئی ہو یہاں تك كہ خراش كی دیت وغیرہ بھی اس میں موجود ہے ۔ 8

اس كے علاوہ بھی روایات موجود ہیں مگر اسی مقدار پر اكتفاكی جاتی ہے ۔

كتاب علی علیہ السلام كی حفاظت میں اہل بیت علیہ السلام كی خاص توجہ

تاریخ اور روایات سے استفادہ ہوتا ہے كہ: اہل بیت علیہم السلام نے كتاب علی علیہ السلام كو سنت رسول كی محافظ كے عنوان سے اس كی حفاظت میں خاص توجہ كی ہے اور اس كتاب پر حلال و حرام كے نقل كرنے میں اعتماد كیا ہے بعض روایات بطور نمونہ ملاحظہ ہوں ۔

1۔ ابو بصیر، امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل كرتے ہیں: امام باقر علیہ السلام نے جامعہ طلب كیا اور اس میں نظر كرنے كے بعد اس حكم كو بیان كیا كہ: اگر عورت مر جائے اور اس كے شوہر كے علاوہ كوئی وارث نہ ہو تو اس كے سارے مال كا وارث اس كا شوہر ہے ۔ 9

2۔ ابو بصیر كہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے كچھ فرائض و واجبات كے بارہ میں سوال كیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: كیا میں كتاب علی علیہ السلام تمھارے واسطے باہر لے آؤں ۔۔۔ یہاں تك كہ فرمایا: امام اس كتاب كو لے آئے اس میں لكھا ہوا تھا ” ایك شخص مر جاتا ہے اور اس كے چچا و ماموں باقی ہیں تو اس كے چچا كے لئے دو سوم اور اس كے ماموں كے لئے ارث كا ایك سوم حصہ ہے ” ۔ 10

۳۔ عبد الملك بن اعین كہتے ہیں: امام باقر علیہ السلام نے كتاب علی علیہ السلام طلب كی امام صادق علیہ السلام اسے لے آئے اس حال میں كہ وہ انسان كی ران كے مانند لپیٹی ہوئی تھی اس میں لكھا ہوا تھا ” عورتیں اپنے شوہروں كے مر جانے كے بعد غیر منقول چیزوں میں سے ارث نہیں ركھتیں ” اس كے بعد امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: خدا كی قسم یہ حضرت علی علیہ السلام كے ہاتھوں كی تحریر اور رسول خدا كا املاء ہے ) 11

4۔ محمد ابن مسلم ثقفی كہتے ہیں: امام باقر علیہ السلام نے فرائض كی ایك كتاب سے جو رسول خدا صلی الله علیه و آله كا املاء اور حضرت علی علیہ السلام كی تحریر تھی قراٴت فرمایا اس میں یہ تھا كہ ارث كے حصوں میں عول نہیں ہے ۔ 12

۵۔ عذافر صیرفی كہتے ہیں: میں حكم ابن عتیبہ كے ساتھ امام باقر علیہ السلام كی خدمت میں پہنچا اس نے امام سے سوال كیا امام نے اس كا احترام كیا كسی مسئلہ میں دونوں میں اختلاف ہوا امام نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے بیٹا اٹھو اور كتاب علی علیہ السلام لے آؤ میں نے دیكھا كہ وہ كتاب طبقہ طبقہ اور بڑی ہے اسے كھولا اس میں نظر كی یہاں تك كہ مسئلے كو پالیا اور پھر فرمایا: یہ حضرت علی علیہ السلام كی تحریر اور رسول خدا صلی الله علیه و آله كا املاء ہے ۔ 13

ان روایات سے پتہ چلتا ہے كہ جس كتاب فرائض كا تذكرہ ہوا ہے وہ مولیٰ علی علیہ السلام كی بڑی كتاب كا ایك حصہ ہے ۔

۶۔ ابن بكیر كہتے ہیں: زرارہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے لومڑی اور گلہری كے روئیں سے بنی جانماز پر نماز كے سلسلے میں سوال كیا حضرت نے كتاب باہر نكالی زرارہ كا گمان ہے كہ وہ رسول خدا كا املاء تھا اس میں تحریر تھا كہ: ہر وہ جانور جس كا كھانا حرام ہے اس كے اون سے بنی چیز پر نماز باطل ہے، اور اس كے روئیں، كھال اور بال سے بنی چیزوں پر نماز قبول نہیں ہے ۔ 14

اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے كہ كتاب علی علیہ السلام حدیث كا قدیم ترین مجموعہ ہے جو رسول خدا صلی الله علیه و آله كا املاء اور امام علی علیہ السلام كی تحریر ہے یہ كتاب ائمہ كے پاس موجود تھی اور یكے بعد دیگرے بطور ارث پاتے رہے اور اہل بیت علیہم السلام كے بعض اصحاب نے بھی اسے دیكھا ہے اگر چہ فی الحال اس كتاب كی اصل ہمارے پاس موجود نہیں ہے لیكن صاحبان جوامع نے مثلاً كلینی، صدوق، اور طوسی وغیرہ نے اپنی كتابوں كے مختلف ابواب میں اس سے بہت سی چیزیں نقل كی ہیں ۔

صحیفہٴ امام علی علیہ السلام

بعض محدثین نے امام علی علیہ السلام كے ایك صحیفے كی طرف اشارہ كیا ہے جو آپ كے غلاف شمشیر میں تھا لیكن ان احادیث كا كتاب علی علیہ السلام كے بارہ میں وارد احادیث سے مقائسہ كرنے پر یہ نتیجہ نكلتا ہے كہ یہ صحیفہ كتاب علی علیہ السلام كے علاوہ ہے كیونكہ صحیفہ یا وہ كتاب جو ستر ہاتھ كی ہو اسے كس طرح غلاف شمشیر میں ركھا جا سكتا ہے اس كا مطلب ہے كہ صحیفہ ایك چھوٹی سی تحریر تھی جو غلاف شمشیر میں ركھتے تھے حضرت علی علیہ السلام سے اس صحیفے میں موجود مطالب كے بارے میں سوال كے تعلق سے جو روایتیں آئی ہیں ان میں ہے كہ آپ نے فرمایا: اس میں عقل، اسیر كی آ زادی اور یہ كہ كسی مومن كو كافر كے قتل كر دینے سے قتل نہیں كیا جائے گا وارد ہوا ہے ۔ 15

اگر اس حدیث كو سہی بھی مان لیا جائے تو كتاب علی علیہ السلام كے سلسلے میں اہل بیت علیہم السلام كے ذریعہ سے وارد احادیث سے منافات نہیں ركھتی بلكہ اس طرح كی احادیث سے استفادہ ہوتا ہے كہ مذكورہ حدیث جعل كی گئی ہے تاكہ یہ ظاہر كیا جائے كہ علوم نبوت میں سے حضرت علی علیہ السلام كے پاس كچھ نہیں تھا اس دعوے كی دلیل وہ روایتیں ہیں جو صحیفہٴ امام كے غلاف شمشیر میں ہونے كے سلسلے میں سنی منابع حدیث میں آئی ہیں 16 اور جن سے یہ ظاہر كرنے كی كوشش كی گئی ہے كہ حضرت علی علیہ السلام كی تحریر صرف یہی ایك صحیفہ ہے جس میں تین كلمے سے زیادہ اور كوئی چیز موجود نہیں تھی ۔

امام علی علیہ السلام علم پیغمبر كے وارث ہیں

مذكورہ روایت كے صحیح مان لینے كے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے كہ امام علی علیہ السلام كی اعلمیت اور ان كے باب علم كے ہونے كے بارے میں پیغمبر سے وارد احادیث كے عظیم مجموعے كے ساتھ كیا كیا جائے ۔

1۔ رسول خدا صلی الله علیه و آله نے فرمایا ہے: حضرت علی تم سب میں قضاوت سے سب سے زیادہ آشنا ہیں ۔ 17

۲۔ امام ترمذی اور دوسروں نے نقل كیا ہے كہ رسول خدا نے فرمایا: میں حكمت كا گھر اور علی علیہ السلام اس كے دروازہ ہیں 18

3۔ ابن عباس رسول خدا صلی الله علیه و آله سے نقل كرتے ہیں كہ آپ نے فرمایا: میں علم كا شہر اور علی اس كا در ہیں جسے علم چاہئے اسے چاہئے كہ دروازے سے آئے ۔ 19

۴۔ ابن عساكر نقل كرتے ہیں رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: آپ میرے بعد میری امت كے لئے ان مسائل كو حل كریں گے جس میں انھوں نے اختلاف كیا ہے ۔ 20

حواشی

1. نہج البلاغہ ،خطبہ ۲۳۵.

2. نجم (۵۳) آیات ۳، ۴ .

3. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۲.

4. ہمان، خطبہ ۱۹۷ .

5. كنز العمال، ج۶، ص۱۵۶ و ۴۰۱ .

6. تاریخ الخلفاء، ص۱۱۵.

7. المال الدین، ج۱ ص۲۰۶ و امالی صدوق، ص۲۲۷.

8. كافی، ج۱ ص۲۴۱ و بصائر الدرجات، ص۱۴۲.

9. بصائر الدرجات، ص۱۴۷.

10. كافی، ج۱ ص۲۳۹ و بصائرالدرجات، ص۱۴۳.

11. بصائر الدرجات، ص۱۴۵.

12. كافی، ۷ ص۱۱۹.

13. وسائل الشیعہ، ج۱۷ ص۵۲۲، باب ۶ از ابواب میراث ازواج، حدیث ۱۷ .

14. تہذیب الاحكام، ج۹، ص۲۴۷.

15. رجال نجاشی، ج۲، ص۲۶۰ و ۹۶۷. كافی، ج۳، ص۳۹۷، ح۱.

16. مسند احمد، ج۱، ص۷۹ . ر.ك: مسند احمد، ج۱، ص۸۱، ۱۰۰، ۱۰۲

17. استیعاب، در حاشیۃ الاصابہ، ج۳، ص۳۸.

18. صحیح ترمذی، ج۵، ٓ۶۳۷.

19. مستدرك حاكم، ج۳، ص۱۲۷.

20. تاریخ ابن عساكر، ترجمہ امام علی علیہ السلام ، ج۲، ص۴۸۸.

تبصرے
Loading...