شب قدر کی اہمیت و منزلت

جس طرح شب قدر کا ادراک مشکل ہے اسی طرح اس کی منزلت کو سمجھنا بھی دشوار امر ہے جس کی حقیقت کو صرف وہی لو گ بیان کر سکتے ہیں جنہیں اس شب کا ادراک ہو چکا ہو ، کیوں کہ قرآن پیغمبر اکرم (ص) کو مخاطب کر کے فرماتا ہے : “وما ادراک ما لیلۃ القدر ” اے پیغمبر! آپ کو کیا معلوم شب قدر کیا ہے ؟

اس کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ رات “ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ” اس کے علاوہ بھی اس کی دیگر فضیلتیں ہیں جن میں سے چند فضیلتیں مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ قرآن کا نزول

پروردگار عالم کی سب سے باعظمت جامع و کامل کتاب جسے ہمیشہ باقی رہنا ہے وہ اسی شب میں نازل ہوئی جیسا کہ قرآن گواہی دیتا ہے : ” شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ” ۱ (ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ) لیکن رمضان کی کس شب میں قرآن نازل ہوا ؟ اس کا بیان دوسری آیت میں ہے ” انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ “۲ ( بیشک!ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل کیا ) اور سورہ قدر میں اس بابرکت رات کو اس طرح بیان کیا ” انا انزلناہ فی لیلۃ القدر “۳ (بیشک! ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ) لہذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ قرآن کے نزول نے بھی اس شب کی عظمت میں اضافہ کیا ہے ۔ واضح رہے کہ قرآن کا یہ نزول دفعی ہے یعنی ایک ساتھ پورا قرآن قلب پیغمبر (ص) پر نازل ہوا ہے ، اس نزول سے مراد تدریجی نزول نہیں ہے جس کا آغاز بعثت یعنی ۲۷ رجب سے ہوا ۔

۲۔ تقدیر کا معین کرنا

اس شب کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ رات با برکت و با عظمت ہے ” لیلۃ العظمۃ”۴ اور قرآن مجید میں لفظ قدر عظمت و منزلت کے لئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت میں ہے ” ما قدروا اللہ حق قدرہ “۵ (انھوں نے اللہ کی عظمت کو اس طرح نہ پہچانا جس طرح پہچاننا چاہئے )

قدر کے معنی تقدیر اور اندازہ گیری اور منظم کرنے کے ہیں ، اس معنی کو بھی اہل لغت نے بیان کیا ہے قرآن و روایات میں بھی یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ،راغب اصفہانی کہتے ہیں : ” لیلۃ القدر ای لیلۃ قیضھا لامور مخصوصۃ “۶ شب قدر یعنی وہ رات جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مخصوص امور کی تنظیم و تعیین کے لئے آمادہ کیا ہے ، قرآن کریم بھی ارشاد فرماتا ہے ” یفرق کل امر حکیم “۷ ( ہر کام خداوند عالم کی حکمت کے مطابق معین و منظم کیا جاتا ہے )

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : ” التقدیر فی لیلۃ القدر تسعۃ عشر والابرام فی لیلۃ احدیٰ و عشرین والامضاء فی لیلۃ ثلاث و عشرین “۸ ( انیسویں شب میں تقدیر لکھی جاتی ہے ،اکیسویں شب میں اس کی دوبارہ تائید کی جاتی ہے اور تیئیسویں شب میں اس پر مہر اور دستخط لگائی جاتی ہے ۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : ”   یقدر فیھا ما یکون فی السنۃ من خیر او شر او مضرۃ او منفعۃ او رزق او اجل و لذالک سمیت لیلۃ القدر “۹ ( شب قدر میں جو بھی سال میں واقع ہونے والا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے نیکی ،برائی ، نفع و نقصان ،رزق اور موت اسی لئے اس رات کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے )

۳ ۔ لیلۃ القدر دلیل امامت

شب قدر امامت اور اس کی بقاء اور جاودانگی پر سب سے بڑی دلیل ہے ، متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ شب قدر ہر زمانے میں امام کے وجود پر بہترین دلیل ہے اس لئے سورہ قدر کو اہلبیت(ع) کی پہچان کہا جاتا ہے ،جیسا کہ بعض روایات میں بھی وارد ہوا ہے ۔

امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ مولائے کائنات اکثر فرمایا کرتے تھے : جب بھی تیمی اور عدوی (ابوبکر و عمر) پیغمبر (ص) کے پاس ایک ساتھ آتے تو پیغمبر اکرم (ص) ان کے سامنے سورہ انا انزلناہ کی تلاوت بڑے خضوع کے ساتھ فرماتے اور گریہ کرتے تھے ، وہ پوچھتے تھے کہ آپ پر اتنی رقت کیوں طاری ہوتی ہے تو پیغمبر اکرم (ص) فرماتے کہ ان باتوں کی وجہ سے جنہیں ہماری آنکھوں نے دیکھا اور میرے دل نے سمجھا ہے اور اس بات کی وجہ سے جسے یہ (علی علیہ السلام ) ہمارے بعد دیکھیں گے ، وہ پوچھتے کہ آپ نے کیا دیکھا ہے اور یہ کیا دیکھیں گے ؟

پیغمبر (ص) نے انھیں لکھ کر دیا ” تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر ” ( ملائک اور روح اس رات میں خداوند عالم کے اذن سے ہر کام کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں ) پھر پیغمبر(ص) نے دریافت کیا کہ کیا “کل امر” (ہر کام ) کے بعد کوئی کام  باقی رہ جاتا ہے ؟ وہ کہتے تھے نہیں ، پھر حضرت فرماتے تھے : کیا تمہیں معلوم ہے کہ جس پر تمام امور نازل ہوتے ہیں وہ کون ہے ؟ وہ کہتے کہ ،آپ ہیں یا رسول اللہ!

پھر رسول (ص) سوال کرتے کہ کیا میرے بعد شب قدر رہے گی یا نہیں ؟ وہ کہتے تھے ، ہاں !

رسول (ص) پوچھتے کہ کیا میرے بعد بھی یہ امر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے تھے ہاں !

پھر رسول پوچھتے کہ کس پر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے کہ ہم نہیں جانتے ۔ پھر حضرت میرا (علی )سر پکڑتے اور میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرماتے : اگر نہیں جانتے تو جان لو ! وہ شخص یہ ہے ۔

پھر مولائے کائنات نے فرمایا: اس کے بعد یہ دونوں پیغمبر اکرم(ص) کے بعد بھی شب قدر میں خوفزدہ رہا کرتے تھے اور شب قدر کی اس منزلت کو جانتے تھے ۔۱۰

ایک دوسرے مقام پر علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ در حقیقت شب قدر ہر سال آتی ہے اور امر خدا ہر سال نازل ہوتا ہے اور اس امر کے لئے صاحب الامر بھی موجود ہے ۔

جب دریافت کیا گیا کہ وہ صاحب الامر کون ہے تو آپ (ع) نے فرمایا : ” انا و احد عشر من صلبی ائمۃ محدثون “۱۱ ( میں اور میرے صلب سے گیارہ دیگر ائمہ جو محدث ہیں ) محدِّث یعنی ملائکہ کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے لیکن ان کی آواز سنتے ہیں ۔

اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ شب قدر شب ولایت اور امامت  ہے اور جن روایات میں شب قدر کی تفسیر فاطمہ زہرا(س) سے کی گئی ہے ان کا بھی معنیٰ واضح ہے کہ شب قدر ولایت اور امامت کی شب ہے اور امامت و ولایت کی حقیقت فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے ۔

۴۔ گناہوں کی بخشش

شب قدر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں گناہگاروں کی بخشش ہوتی ہے لہذا کوشش کریں کہ اس عظیم شب کے فیض سے محروم نہ رہیں، وائے ہو ایسے شخص پر جو اس رات میں بھی مغفرت و رحمت الٰہی سے محروم رہ جائے جیسا کہ رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے : “من ادرک لیلۃ القدر فلم یغفر لہ فابعدہ اللہ”۱۲ جو شخص شب قدر کو درک کرے اور اس کے گناہ نہ بخشے جائیں اسے خداوند عالم اپنی  رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔

ایک اور روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے ” من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم “۱۳ جو بھی شب قدر کے فیض سے محروم رہ جائے وہ تمام نیکیوں سے محروم ہے ، اس شب کے فیض سے وہی محروم ہوتا ہے جو خود کو رحمت خدا سے محروم کر لے ۔

بحارالانوار کی ایک روایت میں پیغمبر اکرم (ص) سے اس طرح منقول ہے : ” من صلّیٰ لیلۃ القدر ایماناً و احتساباً غفر اللہ ما تقدم من ذنبہ “۱۴

جو بھی اس شب میں ایمان و اخلاص کے ساتھ نماز پڑھے گا خداوند رحمٰن اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے گا ۔

حواشی :

۱۔ سورہ بقرہ ،آیت / ۱۸۵

۲۔ سورہ دخان ، آیت/ ۳

۳۔ سورہ قدر ،آیت / ۱

۴۔ مجمع البیان ،ج/۱، ص/۵۱۸

۵۔ سورہ حج ،آیت/ ۷۴

۶۔ المفردات فی غریب القرآن ، ص/۳۹۵

۷ ۔ سورہ دخان ،آیت / ۴

۸ ۔ وسائل الشیعہ ، ج/۷،ص/۲۵۹

۹ ۔ عیون اخبار الرضا، ج/۲، ص/۱۱۶

۱۰۔ اصول کافی ،ج/۱ص/۳۶۳،۳۶۴  ترجمہ سید جواد مصطفوی

۱۱۔ اثبات الھداۃ ، ج/۲، ص/۲۵۶

۱۲۔ بحارالانوار ،ج/۹۴ ص/۸۰ حدیث نمبر ۴۷

۱۳۔ کنز العمال متقی ہندی ، ج/۸ص/۵۳۴ حدیث نمبر ،۲۸ و ۲۴

۱۴۔ بحارالانوار ،ج/۹۳ ،ص/۳۶۶ ، حدیث ۴۲

 

تبصرے
Loading...