شاگرد مکتب جعفری جابر ابن حیان

صادق آل محمد کے بعض شاگردوں کی جلالت قدراوران کی تصانیف اورعلمی خدمات پرروشنی ڈالنی توبے انتہادشوارہے ۔ جن میں سے ایک جابربن حیان طرسوسی جوکہ انتہائی باکمال ہونے کے باوجودشاگردامام کی حیثیت سے عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہیں کاذکرکیاجاتاہے۔

امام الکیمیا جناب جابرابن حیان طرسوسی ۔

آپ کاپورانام ابوموسی جابربن حیان بن عبدالصمد الصوفی الطرسوسی الکوفی ہے آپ ۷۴۲ ءء میں پیداہوئے اور ۸۰۳ ءء میں انتقال فرماگئے بعض محققین نے آپ کی وفات ۸۱۳ ءء بتائی ہے لیکن ابن ندیم نے ۷۷۷ ءء لکھاہے انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک ہسٹری میں ہے کہ استاداعظم جابربن حیان بن عبداللہ ،عبدالصمد کوفہ میں پیداہوئے وہ طوسی النسل تھے اورآزادنامی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے خیالات میں صوف تھا اوریمن کارہنے والاتھا،اوئل عمرمیں علم طبیعیات کی تعلیم اچھی طرح حاصل کرلی اورامام جعفرصادق ابن امام محمدباقرکی فیض صحبت سے امام الفن ہوگیا۔

تاریخ کے دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ جابربن حیان نے امام جعفرصادق علیہ السلام کی عظمت کااعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ ساری کائنات میں کوئی ایسا نہیں جوامام کی طرح سارے علوم پربول سکے الخ۔

تاریخ آئمہ میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی تصنیفات کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے ایک کتاب کیمیاجفررمل پرلکھی تھی حضرت کے شاگردومشہورومعروف کیمیاگرجابربن حیان جویورپ میں جبرکے نام سے مشہورہیں جابرصوفی کالقب دیاگیاتھا اورذوالنون مصری کی طرح وہ بھی علم باطن سے ذوق رکھتے تھے، اس جابرابن حیان نے ہزاروں ورق کی ایک کتاب تالیف کی تھی جس میں حضرت امام جعفرصادق کے پانچ سو رسالوں کوجمع کیاتھا،علامہ ابن خلکان کتاب وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۱۳۰ طبع مصر میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے مقالات علم کیمیااورعلم جفروفال میں موجودہیں اورجابربن حیان طرسوسی آپ کے شاگردتھے، جنہوں نے ایک ہزار ورق کی کتاب تالیف کی تھی، جس میں امام جعفرصادق علیہ السلام کے پانچ سورسالوں کوجمع کیاتھا ،علامہ خیرالدین زرکلی نے بھی الاعلام جلد ۱ ص ۱۸۲ طبع مصرمیں یہی کچھ لکھاہے ،اس کے بعدتحریرکیاہے کہ ان کی بے شمارتصانیف ہیں جن کاذکرابن ندیم نے اپنی فہرست میں کیاہے علامہ محمدفریدوجدی نے دائره معارف القرآن الرابع عشر کی ج ۳ ص ۹۰۱ طبع مصرمیں بھی لکھاہے کہ جابربن حیان نے امام جعفرصادق کے پانچ سو رسائل کوجمع کرکے ایک کتاب ہزارصفحے کی تالیف کی تھی ،علامہ ابن خلدون نے بھی مقدمہ ابن خلدون مطبوعہ مصرص ۳۸۵ میں علم کیمیامیں علم کیمیاکاذکرکرتے ہوئے جابربن حیان کاذکرکیاہے اورفاضل ہنسوی نے اپنی ضخیم کتاب اورکتاب خانہ غیرمطبوعہ میں بحوالہ مقدمہ ابن خلدون ص ۵۷۹ طبع مصرمیں لکھاہے کہ جابربن حیان علم کیمیاکے مدون کرنے والوں کاامام ہے، بلکہ اس علم کے ماہرین نے اس کو جابرسے اتنامخصوص کردیاہے کہ ا س علم کانام ہی “علم جابر” رکھ دیاہے (الجوادشمارہ ۱۱ جلد ۱ ص ۹) ۔

مورخ ابن القطفی لکھتے ہیں کہ جابربن حیان کوعلم طبیعات اورکیمیامیں تقدم حاصل ہے ان علوم میں اس نے شہرئہ افاق کتابیں تالیف کی ہیں ان کے علاوہ علوم فلسلہ وغیرہ میں شرف کمال پرفائزتھے اوریہ تمام کمالات سے بھرپورہونا علم باطن کی پیروی کانتیجہ تھا ملاحظہ ہو (طبقات الامم ص ۹۵ واخبارالحکماص ۱۱۱ طبع مصر)۔

پیام اسلام جلد ۷ ص ۱۵ میں ہے کہ یہ وہی خوش قسمت مسلمان ہے جسے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی شاگردی کاشرف حاصل تھا،اس کے متعلق جنوری ۲۵ ء میں سائنس پروگریس نوشتہ جے ہولم یارڈایم ائے ایف آئی سی آفیسر اعلی شعبئہ سائنس کفٹن کالج برسٹل نے لکھاہے کہ علم کیمیا کے متعلق زمانہ وسطی کی اکثرتصانیف ملتی ہیں جن میں گیبرکاذکرآتاہے اورعام طورپرگیبرابن حین اوربعض دفعہ گیبرکی بجائے جیبربھی دیکھاگیاہے اورگیبریاجیبردراصل جابرہے، چنانچہ جہاں کہیں بھی لاطینی کتب میں گیبرکاذکرآتاہے وہاں مرادعربی ماہرکیمیاجابربن حیان ہی ہے لاطینی میں جے کے مترادف کوئی آوازاوربعض علاقوں مثلا مصر وغیرہ میں جے کواب بھی بطور(جی) یعنی (گ) استعمال کیاجاتا ہے اس کے علاوہ خلیفہ ہارون رشیدکے زمانے میں سائنس کیمسٹری وغیرہ کاچرچہ بہت ہوچکاہے اوراس علم کے جاننے والے دنیاکے گوشہ گوشہ سے کھینچ کر دربارخلافت سے منسلک ہورہے تھے جابربن حیان کازمانہ بھی کم وبیش اس ہی دورمیں پھیلاتھا پچھلے بیس پچیس سال میں انگلستان اورجرمنی میں جابرکے متعلق بہت سی تحقیقات ہوئی ہیں لاطینی زبان میں علم کیمیاکے متعلق چندکتب سینکڑوں سال سے اس مفکرکے نام سے منسوب ہیں جس میں مخصوص ۱ ۔ سما ۲ ۔ برفیکشن ۳ ۔ ڈی انویسٹی پرفیکشن ۴ ۔ڈی انویسٹی گیشن ورٹیلس ۵ ۔ ٹٹیابہن لیکن ان کتابوں کے متعلق اب تک ایک طولانی بحث ہے اوراس وقت مفکرین یورپ انہیں اپنے یہاں کی پیداواربتاتے ہیں اس لیے انہیں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جابرکوحرف (جی)(گ) سے پکاریں اوربجائے عربی النسل کے اسے یورپین ثابت کریں۔

حالانکہ سماکے کئی طبع شدہ ایڈیشنوں میں گیبرکوعربی ہی کہاگیاہے رسل کے انگریزی ترجمہ میں اسے ایک مشہورعربی شہزادہ اورمنطقی کہاگیاہے ۱۵۴۱ ء میں کی نورن برگ کے ایڈیشن میں وہ صرف عرب ہے اسی طرح اوربہت سے قلمی نسخے ایسے مل جاتے ہیں جن میں کہیں اسے ایرانیوں کے بادشاہ سے یادکیاگیاہے کسی جگہ اسے شاہ بندکہاگیاہے ان اختلافات سے سمجھ میں آتاہے کہ جابربراعظم ایشیاسے نہ تھا بلکہ اسلامی عرب کاایک درخشندہ ستارہ تھا۔

انسائکلوپیڈیاآف اسلامک کیمسٹری کے مطابق جعفربرمکی کے ذریعہ سے جابربن حیان کاخلیفہ ہارون الرشیدکے دربارمیں آناجاناشروع ہوگیاچنانچہ انہوں نے خلیفہ کے نام سے علم کیمیامیں ایک کتاب لکھی جس کانام “شگوفہ” رکھااس کتاب میں اس نے علم کیمیاکے جلی وخفی پہلوؤں کے متعلق نہایت مختصرطریقے نہایت ستھراطریق عمل اورعجیب وغریب تجربات بیان کئے جابرکی وجہ ہی سے قسطنطنیہ سے دوسری دفعہ یونانی کتب بڑی تعدادمیں لائی گئیں ۔

منطق میں علامہ دہرمشہورہوگیا اورنوے سال سے کچھ زائدعمرمیں اس نے تین ہزارکتابیں لکھیں اوران کتابوں میں سے وہ بعض پرنازکرتاتھا اپنی کسی تصنیف کے بارے میں اس نے لکھا ہے کہ “روئے زمین پرہماری اس کتاب کے مثل ایک کتاب بھی نہیں ہے نہ آج تک ایسی کتاب لکھی گئی ہے اورنہ قیامت تک لکھی جائے گی (سرفراز ۲/ دسمبر ۱۹۵۲ ء)۔

فاضل ہنسوی اپنی کتاب”وکتاب خانہ” میں لکھتے ہیں کہ جابرکے انتقال کے بعد دوبرس بعدعزالدودولہ ابن معزالدولہ کے عہدمیں کوفہ کے شارع باب الشام کے قریب جابرکی تجربہ گاہ کاانکشاف ہواچکاتھا جس کوکھودنے کے بعدبعض کیمیاوی چیزیں اورآلات بھی دستیاب ہوئے ہیں(فہرست ابن الندیم ۴۹۹) ۔

جابرکے بعض قدیمی مخطوطات برٹش میوزیم میں اب تک موجودہیں جن میں سے کتاب الخواص قابل ذکرہے اسی طرح قرون وسطی میں بعض کتابوں کاترجمہ لاطینی میں کیاگیامنجملہ “ان تراجم کے کتاب” سبعین بھی ہے جوناقص وناتمام ہے اسی طرح “البحث عن الکمال” کاترجمہ بھی لاطینی میں کیاجاچکاہے یہ کتاب لاطینی زبان میں کیمیاپریورپ کی زبان میں سب سے پہلی کتاب ہے اسی طرح اوردوسری کتابیں بھی مترجم ہوئیں جابرنے کیمیاکے علاوہ طبیعیات،ہیئت،علم رویا،منطق،طب اوردوسرے علوم پربھی کتابیں لکھیں اس کی ایک کتاب سمیات پربھی ہے ۔

یوسف الیاس سرکس صاحب معجم المطبوعات بتلاتے ہیں کہ جابربن حیان کی ایک نفیس کتاب سمیات بربھی ہے جوکتب خانہ تیموریہ قاہرہ مصرمیں بہ ضمن مخطوطات ہے ان میں چندایسے مقالات کوجوبہت مفیدتھے بعدکرئہ حروف نے رسالہ مقتطف جلد ۵۸،۵۹ میں شائع کیاہے ملاحظہ ہو(معجم ا لمطبوعات العربیہ المعربہ جلد ۳ حرف جیم ص ۶۶۵) ۔

جابربحیثیت ایک طبیب کے کام کرتاتھا لیکن اس کی طبی تصانیف ہم تک نہ پہنچ سکیں ،حالانکہ اس مقالہ کا لکھنے والایعنی ڈاکٹر ماکس می یرہاف نے جابرکی کتاب کوجوسموم پرہے حال ہی میں معلوم کیاہے۔

جابرکی ایک کتاب جس کومع متن عربی اورترجمہ فرانسیسی پول کراؤ متشرق نے ۱۹۳۵ ء میں شائع کیاہے ایسی بھی ہے جس میں اس نے تاریخ انتشارآراوعقائد وافکارہندی ،یونانی اوران تغیرات کاذکرکیاہے جومسلمانوں نے کئے ہیں اس کتاب کانام “اخراج مافی القوة الی الفعل ” ہے (الجوادج ۹،۱۰ ص ۱۰ طبع بنارس)۔

تبصرے
Loading...