شام اور امیر تیمور کا واقعہ

ایک ارضِ شام بھی ہے۔ شام یا کربلا کا نام آتے ہی دلوں پر ایک جھٹکا ضرور لگتا ہے۔ شام میں جو کچھ ہوا، وہ کربلا میں نہیں ہوا۔ شام میں وہ کچھ ہوا جو کبھی چشم فلک نے دیکھا ہی نہ تھا۔

ایک واقعہ  شجر طوبیٰ میں ہے کہ جب امیر تیمور نے شام پر قبضہ کیا تو محب ِ اہلِ بیت ہونے کی وجہ سے اُس کے دل میں خلجانی کیفیت تھی۔

اس نے وہاں کے بڑے بڑے لوگوں کی گردنوں کو توڑا اور اُن سروں کو نیچا کیا جس کو اُن لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ کسی خاص عداوت کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے کوششیں کیں کہ اُس کا غصہ کسی طرح سے کم ہوجائے۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ اس سے اگر قرابت پیدا ہوجائے تو شاید اس کی یہ کیفیت بدل جائے۔ چنانچہ طے کرکے وہاں کے بڑے بڑے آدمی آئے اور انہوں نے یہ کہا کہ اس شہر میں سب سے بڑا اور شریف ترین گھر ہمارے بادشاہ کا ہے جو یہاں حکومت کرتا تھا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس کی لڑکی سے آپ عقد کرلیں۔ جب بہت اصرار ہوا تو اُس نے کچھ سوچا اور کہا: اچھا بازاروں کو ذرا مزین کیا جائے، خصوصاً بازارِ شام کو بہت زیادہ آراستہ کیا جائے۔

اس کے بعدسامانِ عروسی منگوا کر حکم دیا کہ اس لڑکی کو حمام بھیجو اور وہاں سے یہ کپڑے پہن کر وہ نکلے۔ پھر اُس نے اپنے ایک ملازم کو حکم دیا کہ ایک لاغر سا اونٹ اس حمام کے دروازے پر لے جاؤ اور جس وقت وہ نکلے تو اُس لڑکی کو اس پر سوار کرو اور بازار سے گزارو۔ جس وقت وہ اونٹ کو لے کر دروازے پر پہنچا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ اُس نے کہا کہ مجھے بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ میں اِس لڑکی کو اونٹ پر بٹھا کر بازار سے گزاروں اور سنو! خبردار!کوئی قریب نہ آنے پائے، جو اس کے گرد کوئی پردہ ڈالے۔لوگوں نے سنا تو بہت پریشان ہوئے اور مل کر بادشاہ کے پاس آئے اور اس سے یہ کہا کہ کیا آپ نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس طرح سے گزاری جائے؟

اُس نے کہا: ہاں، یہ ایسا ہی ہے۔ اس پر وہ لوگ فریاد کرنے لگے کہ یہ آپ کیا کررہے

ہیں؟ ایسا تو کبھی جاہلیت کے زمانہ میں بھی نہیں ہوا کہ ایک شریف عورت کو اس طرح سے ذلیل کیا جائے؟ امیر تیمور نے جواب دیا: یہ ٹھیک ہے جو تم کہتے ہو کہ ایسا جاہلیت کے زمانہ میں نہیں ہوا مگر تم لوگوں کے نزدیک یہ اچھا فعل ہے، اس لئے میں کرنا چاہتا ہوں۔لوگوں نے کہا: جناب! وہ بادشاہ کی بیٹی ہے، بڑی عفیف ہے۔ یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ یہ سننا تھا کہ بادشاہ کی بیٹی ہے اور بڑی عفیف ہے، ایک مرتبہ اُس نے سینے پر ہاتھ مارا اور اُس کے بعد چیخ ماری اور بیہوش ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو کہا: ارے بے غیرتو! کوئی رسول سے زیادہ بزرگ گزرا ہے؟ اور رسول کی بیٹیوں سے زیادہ کوئی عفیف ہوا ہے؟ یہ تمہارا بازار وہی نہیں ہے جس میں زینب و کلثوم بغیر پردہ کے پھرائی گئی تھیں۔ آج تم فریاد کرتے ہو اور کل تم اِن شہزادیوں کی فریادوں پر ہنس رہے تھے؟ کسی نے بھی کچھ غیرت کی اور کہا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟

اسلام جتنا بھی اس وقت موجود ہے، وہ صدقہ ہے حسین کا۔ آپ کی شہادت کے بعد لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ سمجھنے لگے کہ یزید تو فاسق و فاجر ہے۔ اُس کی بات کیسے حکمِ خدا اور رسول ہو سکتی ہے؟اس کے بعد حق کا اعلان کرتی ہوئی شہزادیاں چلی گئیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام سے ایک شخص ملنے آیا، بیٹھ گیا اور کچھ باتیں وغیرہ پوچھنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے غلام کو آواز دی کہ میرے لئے پانی لے آ۔ وہ ایک پیالے میں پانی لے کر حاضر ہوا۔ پانی پر نظر پڑی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اتنا روئے کہ پانی ممزوج ہوگیا۔ آپ نے دے دیا، دوسرا پیالہ لایا، پھر یہی کیفیت ہے۔اس پر وہ شخص کہتا ہے: مولا ! آپ کب تک روئیں گے؟ تو فرماتے ہیں: بھائی! تو نے وہ کچھ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا ہے۔ تیرے اوپر وہ کچھ نہیں گزرا جو میرے اوپر گزرگیا۔میں نے اپنی ماں بہنوں کو رِدا کے بغیر دیکھا۔ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پیاس سے العطش کہتے ہوئے ،ہلاک ہوتے ہوئے دیکھا۔ میرا باپ تین دن کا بھوکا پیاسا دنیا سے اُٹھ گیا۔ آخری وقت میرے باپ نے کہا: میں دنیا سے جارہا ہوں، ایک گھونٹ پانی پلادو۔ مگر آخر وقت بھی کسی نے پانی نہ دیا۔ وہ شخص کہتا ہے : مولا ! یہ قتل اور شہادت تو آپ کی میراث ہے؟ اس پر امام زین العابدین علیہ السلام کی چیخ نکل گئی۔ فرماتے ہیں: ہاں بھائی! یہ قتل اور شہادت تو ہماری میراث ہے مگر کیا یہ بھی ہماری میراث ہے کہ ہماری ماں بہنیں بازاروں میں بغیر پردہ اور رِدا کے پھرائی جائیں؟ بس ایک فقرہ اس مقام کا اور عرض کردوں، پھر ختم کرتا ہوں۔ وہ قصہ ذہن میں رکھئے گا جو میں نے عرض کیا جب اپنے اوپر پڑتی ہے تو پتہ چلتا ہے۔ چیخ اُٹھے اہلِ شام کہ امیر تیمور کی جانب سے یہ کیا ہورہا ہے؟ لیکن فاطمہ زہرا ء کی بیٹیاں بغیر رِدا کے دربار میں پہنچیں۔ جنابِ زینب نے خطبہ پڑھا کہ یزید نے کہا تھا کہ یہ کون کون بیبیاں ہیں؟ بتلائیے اس کہنے پر کیا کچھ نہ گزر گئی ہوگی کہ بھرے ہوئے دربار میں یہ بتلایا جارہا ہے کہ یہ فلاں

بی بی ہے، وہ فلاں بی بی ہے۔ بتانے والے نے بتایا کہ وہ جو آخر میں سرجھکائے بیٹھی ہیں، وہ حسین کی بہن زینب ہیں۔

یزید اپنی ظاہری فتح کے غرور میں اندھا ہوگیا تھا۔اُس نے ایک مرتبہ آواز دی کہ زینب!خدا کا شکر ہے کہ تمہارا بھائی قتل ہوا اور تم سب اسیر ہوکر یہاں تک آئے۔ اتنا سننا تھا کہ جنابِ زینب نے سر اُٹھایا اور علی کی بیٹی کوجو جلال آیا اور علی کے لہجے میں فرمایا:یزید! خاموش، اس سے آگے نہ بڑھ۔ قتل ہماری میراث ہے، رہ گئی کہ تو نے قید کیا اور ہم آئے تو اس کا جواب میں نہیں دوں گی۔ اس کا جواب تجھے دینا پڑے گا جب میرا نانا پوچھے گا کہ میری بیٹیوں کو کیوں قید کیا تھا۔ اس کے بعد فرماتی ہیں:درباروالو! تم ہمارا تماشہ دیکھنے آئے ہو؟ کیا تمہیں پتہ نہیں ہے کہ میں کون ہوں؟ارے تمہارے نبی کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی زینب ہوں اور یہ جوتمہارے سامنے کٹا ہوا سر ہے، یہ میرے مظلوم بھائی حسین کا سر ہے۔

یہ جو آپ نے فرمایا تو دربار والے رونے لگے یعنی ضبط نہ کرسکے۔بعض لوگوں کی آواز بلند ہوگئی ۔یزید جس جگہ بیٹھا ہوا تھا، اس کے پیچھے ایک دروازہ تھا جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ یکدم پردہ اُٹھا اور ایک عورت سربرہنہ دربار میں آگئی اور اُس کی زبان پر تھا”واحسینا واحسینا وامظلوما”۔ یزید نے پہچان لیا کہ اس کی بیوی ہے۔ گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ ایک کپڑا اُٹھا کر اس کے اوپر ڈالا اور کہنے لگا: میں رونے سے منع نہیں کرتا مگر میری عزت کا تو خیال کرلیا ہوتا۔ اس نے کہا: یزید! خدا کی لعنت تیرے اوپر، تجھے اپنی عزت کا تو اتنا خیال ہے اور رسول کی عزت کا کچھ خیال نہیں ہے۔

نقل از رئیس الحفاظ علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ

تبصرے
Loading...