شادي کے ليۓ اسلامي اصول

جيون ساتھي کا انتخاب اسلامي اصولوں کے مطابق

اس ليۓ شادي کي صورت ميں جو وحدت اور يگانگي ضروري ہوتي ہے وہ عقيدتي اختلاف اور مذھبي اختلاف کي صورت ميں کبھي بھي حاصل نہيں ہو سکتي ہے – اخلاقي لحاظ سے بھي مياں بيوي ميں يکسانيت کا پايا جانا بےحد ضروري ہوتا ہے –

حضرت امام صادق عليہ السلام ايک روايت ميں اچھي بيوي کے بارے ميں فرماتے ہيں کہ جب بھي آپ ميں سے کوئي شادي کا ارادہ کرے تو اس کے ليۓ ضروري ہے کہ دو رکعت نماز ادا کرے اور خدا سے دعا کرے کہ اس کے ليۓ ايک پاکدامن ، امين ، ديانتدار ، اس کي رازوں اور عزت و آبرو کي محافظ بيوي اسے عطا کرے –

اس وجہ سے روايت ميں تاکيد کي گئي ہے کہ عورت اور مرد لازمي طور پر ايک دوسرے کے برابر ہوں اور مومن کي برابري کو مومن افراد اور ايمان والوں کي صورت ميں بيان کيا گيا ہے –

نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سوال کيا گيا کہ متناسب ، جوڑ يا برابري کيا ہے اور کون سے لوگ ايک دوسرے کے ليۓ مناسب ہيں -؟

آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا :

«المۆمنون بعضهم اكفاء بعض»[4]

2- ہم درجہ اور پاکدامني

قرآن کي نظر ميں وہ پاک طبيعت جو گناہوں سے آلودہ نہ ہوئي ہو پاک رہنے کي طالب ہوتي ہے – ايسي فطرت کا حامل انسان ہميشہ پاک دامني کي طرف راغب ہوتا ہے اور خود کو ہميشہ پاک رکھتا ہے –

«الْخَبِيثاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَ الْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثاتِ وَ الطَّيِّباتُ لِلطَّيِّبِينَ وَ الطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّباتِ؛[5]

ترجمہ : خبيث عورتيں خبيث مردوں کے ليے اور خبيث مرد خبيث عورتوںکے ليے ہيں اور پاکيزہ عورتيں پاکيزہ مردوںکے ليے اور پاکيزہ مرد پاکيزہ عورتوں کے ليے ہيں-

خبيث ہونے سے مراد کو يہاں پر عورتوں اور مردوں کے ايک گروہ کي خصوصيات کے طور پر بيان کيا گيا ہے يا طيب ہونے والے گروہ سے مراد وہي عزت و آبرو ہے جس ميں مذھبي ، اخلاقي اور عزت آبرو کي باتيں شامل ہيں – يہ آيت کے اولين معني ہيں ليکن معيار اور علت کے لحاظ سے اس کا مفہوم بڑا وسيع ہے جو آلودگي و جنسي پاکي پر منحصر نہيں ہے بلکہ ہر طرح کي فکري ، عملي اور زبان کي ناپاکي بھي اس ميں شامل ہے –

حوالہ جات :

[4]. کليني، محمد، کافي، بي جا، آخوندي، چاپ سوم، 1367، هـ ق، ج5، ص 337.

[5]. نور/26.

 

تبصرے
Loading...