سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کا گھرانہ اہل بیت ہے

۱۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ن یمربباب فاطمہ ستة اشھر اذا خرج الی صلاة الفجر ،یقول :الصلاة یا اھل البیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا(۱)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ ماہ تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نماز فجر کے لیے نکلتے اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے کے پاس سے گزرتے توفرماتے :اے اہل بیت !نماز قائم کرو ۔(اورپھر یہ آیت مبارکہ پڑھتے )اے اہل بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی آلودگی دور کردے اورتم کوخوب پاک وصاف کردے “۔
 
۲۔ عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ فی قولہ :انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت۔    قال :نزلت فی خمسة:فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعلی وفاطمۃ ،والحسن،والحسین رضی اللہ تعالی عنہ (۲)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالی کے اس ارشاد مبارکہ ۔۔۔۔اے اہل بیت !اللہ تویہی چاہتا ہے کہ تم سے ہرطرح کی آلودگی دور کردے ۔۔۔۔کے بارے میں کہاہے کہ یہ آیت مبارکہ پانچ ہستیوں ۔۔۔۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی ،فاطمہ ، حسن،حسین رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔کے بارے میں نازل ہوئی ہے
 
آل فاطمۃ سلام اللہ علیھا اھل کساء
سیدہ سلام اللہ علیھا کا گھرانہ ہی اہل کساء ہے
۳۔عن صفیة شیبہ ،قالت :عائشۃ رضی اللہ عنھا :خرج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غداة واعلیہ مرط مرحل من شعر اسود۔فجاء الحسن بن علی رضی اللہ عنھا فادخلہ ، ثم جاء الحسین رضی اللہ عنہ فدخل معہ ،ثم جاء ت فاطمۃ رضی اللہ عنھا فادخلھا ثم جاء علی رضی اللہ عنہ فادخلہ ،ثم قال :انمایرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل بیت ویطھرکم تطھیرا(۳)
صفیہ بنت شیبہ روایت کرتی ہیں :حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے پس حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہما آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس چادر میں داخل کرلیا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چادر میں داخل ہوگئے پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا آئیں توآپ نے انہیں اس چادرمیں داخل کرلیا،پھر حضرت علی کرم اللہ وجھہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادرمیں لے لیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی :”اے اہل بیت!”اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہرطرح کی )آلودگی دور کردے اورتم کو خو ب پاک وصاف کردے
 
(۴۔)عن عمر ابن ابی سلمة ربیب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال:لما نزلت ھذہ الآیۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا)فی بیت ام سلمة ،فدعافاطمۃوحسنا وحسینارضی اللہ تعالی عنہ فجللھم بکساء وعلی رضی اللہ تعالی عنہ خلف ظہرہ فجللہ بکساء ،ثم قال:اللھم! ھولاء اھل بیتی ،فاذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا
“پروردہ نبی حضرت عمربن ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ ۔۔۔اے اہل بیت !اللہ تویہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہرطرح کی) آلودگی دورکردے اورتم کو خوب پاک وصاف کردے ۔۔۔نازل ہوئی؛ توآپ نے حضرت فاطمہ حضرت حسن اورحضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایااورایک کملی میں ڈھانپ لیا ،پھر فرمایا :الہیٰ !یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے نجاست دور کراوران کو خوب پاک وصاف کردے

فاطمہ سلام اللہ علیھا سیدة نساء العالمین
سیدہ سلام اللہ علیھا سب جہانوں کی سردار ہیں
۵۔عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال وھو فی مرضہ الذی توفی فیہ :یا فاطمۃ !الا ترضین ان تکونی سیدة نساء العالمین وسیدة نساء ھذاالامة وسیدة نساء المومنین !
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے فاطمہ !کیاتونہیں چاہتی کہ توتمام جہانوں کی عورتوں ،میری اس امت کی تمام عورتوں اورمومنین کی تمام عورتوں کی سردار ہو!”
۶۔عن عائشہ رضی اللہ عنھا قالت: اقبلت فاطمۃ تمشی کان مشیتھامشی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرحبابابنتی۔ثم اجلسھاعن یمینہ اوعن شمالہ ،ثم ادرالیھافبکت،فقلت لھا:لم تبکین؟ثم اسراالیھا حدیثافضعکت فقلت مارایت کالیوم فرحا اقرب من حزن، فسالتھا عما قال ،فقالت :ماکنت لافثی سررسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمحتی قبض النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقالت:اسرالی :اب جبریل کان یعارخنی القرآن کل سنۃ مرة،انہ عارضی العام مرتین ،ولااراہ الاحضراجلی ،انک اول اھل بیتی لحاقا بی ۔فبکیت ،فقال :اما ترضین ان تکونی سیدة نساء اھل الجنۃ اونساء المومنین فضعلت لذلک
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاآئیں اور ان کا چلنا ہوبہوحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے جیساتھا ۔پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر کو خوش آمدید کہااوراپنے دائیں بائیں جانب بٹھالیا۔پھر چپکے چپکے ان سے کوئی بات کہی تووہ رونے لگیں ،پس میں نے ان سے پوچھا کہ کیوں رورہیں ہیں ؟پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کوئی بات چپکے چپکے کہی تووہ ہنس پڑیں پس میں نے کہا کہ آج کی طرح میں نے خوشی کوغم کے اتنے نزدیک کبھی نہیں دیکھامیں نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا سے پوچھا:آپ نے کیا فرمایا تھا؟انہوں نے جواب دیا کہ میں رسول کے راز کو کبھی فاش نہیں کرسکتی ۔جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا تومیں نے ان سے (اس بارے میں )پھر پوچھا توانہوں نے جواب دیا:آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کی کہ جبرائیل ہر سال میرے ساتھ قرآن پاک کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن اس سال دومرتبہ کیا ہے مجھے یقین ہے کہ میرا آخری وقت آپہنچا ہے اوربے شک میرے گھر والوں میں سے تم ہوجوسب سے پہلے مجھ سے آملو گی ۔اس بات نے مجھے رلایاپھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم تمام جنتی عورتوں کی سردارہویا تمام مسلمان عورتوں کی سردار ہو!پس اس بات پر ہنس پڑی
۷۔عن مسروق :حدثتنی عائشۃ ام المومنین رضی اللہ عنھا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا فاطمۃ ! الا ترضین ان تکونی سیدة نساء المومنین اوسیدة نساء ھذہ الامة!
۷۔ حضرت مسروق روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا:اے فاطمہ !کیا تواس بات پر راضی ہے کہ مسلمان عورتوں کی سردار ہو یا میری اس امت کی سب عورتوں کی سردار ہو!
۸۔عن ابی ھریرة رضی اللہ تعالی عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال :ان ملکا من السماء لم یکن زارنی ،فاستاذن اللہ فی زیارتی ،فبشرنی اواخبرنی ان فاطمۃ سیدة نساء امتی۔
حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:آسمان کے ایک فرشتے نے میری زیارت نہیں کی تھی پس اس نے اللہ تعالی سے میری زیارت کی اجازت لی اوراس نے مجھے خوشخبری سنائی (یا)مجھے خبر دی کہ فاطمہ میری امت کی سب عورتوں کی سردار ہیں
(۲)حوالجات
۱۔ ترمذی ، الجامع الصحیح ،۵:۳۵۲، رقم :۳۲۰۶
۲۔احمد بن حنبل ، المسند ، ۳:۲۵۹، ۲۸۵
۳۔احمد بن حنبل ، فضائل الصحابہ ،۲:۷۶۱، رقم ۱۳۴۰،۱۳۴۱
۴۔ابن ابی شیبہ المصنف ، ۳۸۸۶،رقم ۳۲۲۷۲
۵۔ شیبائی الآحادوالمثانی ،۵:۳۶۰،رقم :۳۲۲۷۲
۶۔عبدبن حمید ،المسند :۳۲۷،رقم ۱۲۲۳
۷۔حاکم ، المستدرک ، ۱۷۲۳، رقم ۴۷۴۸
۸۔طبرانی المعجم الکبیت ،۳:۵۲رقم :۲۶۷۱
۹۔بخاری نے الکنی (ص :۲۵،رقم:۲۶۷۱)میں ابو الحمراء سے حدیث روایت کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل کی مدت نو ماہ بیان کی گئی ہے
۱۰۔عبدبن حمید نے المسند (ص:۱۷۳،رقم ۴۷۵)میں امام بخاری کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔
۱۱۔ابن حیان نے طبقات المحدثین باصبہان (۴:۱۴۸)میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی اس روایت میں آٹھ ماہ کا ذکر کیا گیا ہے
۱۲۔ابن اثیر ، اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ ، ۷:۲۱۸
۱۳۔ذہبی ، سیر اعلام النبلا ء ۲:۱۳۴
۱۴۔مزی ۔تہذیب الکمال ،۳۵، ۲۵۰،۲۵۱
۱۵۔ابن کثیر ، تفسیرالقرآن العظیم ۳:۴۸۳
۱۶۔سیوطی نے الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور (۵:۶۱۳)میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
۱۷۔سیوطی نے الدالمنثور فی التفسیر بالماثور (۶:۲۰۷)میں حضرت ابوالحمراء سے روایت کی ہے۔
۱۸۔شوکانی،فتح القدیر ،۴:۲۸۰
(۲)حواله جات
۱۔طبرانی ، المجعم الاوسط،۳:۳۸۰، رقم :۳۴۵۶
۲۔طبرانی المعجم الصغیر،۱:۲۳۱،رقم :۳۷۵
۳۔ابن حیان ، طبقات المحدثین باصبہان ، ۳:۳۸۴
۴۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد،۱۰:۲۷۸
۵۔طبری ،جامع البیان فی تفسیرالقرآن ۲۲:۶
(۳) حواله جات
۱۔مسلم، الصحیح ،۴:۱۸۸۳،رقم :۲۴۲۴
۲۔ابن ابی شیبہ،المصنف،۶:۳۷۰،رقم :۳۶۱۰۲
۳۔احمد بن حنبل ،فضائل الصحابہ ،۲:۶۷۲،رقم ۱۱۴۹
۴۔ابن راہویہ،المسند ،۳:۶۷۸،رقم۱۲۷۱
۵۔حاکم المستدرک ،۳:۱۵۹،رقم ۴۷۰۵
۶۔بیہقی ، السنن الکبری ،۲:۱۴۹
۷۔طبری جامع البیان فی تفسیرالقرآن ۲۲:۶،۷
۸۔بغوی معالم التنزیل ،۵۲۹۳
۹۔ابن کثیر ،تفسیر القرآن العظیم ،۳:۴۸۵
۱۰۔سیوطی الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ۶:۶۰۵
۴۔حواله جات
۱۔ترمذی ،الجامع الصحیح ۔۵:۳۵۱،۶۶۳،رقم :۳۲۰۵،۷۸۷
۲۔احمد بن حنبل ، المسند ،۶:۲۹۲
۳۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ،۲:۵۸۷،رقم :۹۹۴
۴۔بیہقی نے ’السنن الکبری (۲:۱۵۰)میں یہ حدیث ذرا مختلف انداز کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔
۵۔حاکم ، المستدرک ،۲:۴۵۱،رقم :۳۵۵۸
۶۔حاکم المستدرک ۳:۱۵۸،رقم :۴۷۰۵
۷۔طبرانی المعجم الکبیر ،۳:۵۴،رقم ۲۶۶۲
۸۔طبرانی ،المعجم الکبیر،۹:۲۵،رقم:۸۲۹۵
۹۔طبرانی ، المعجم الاوسط، ۴:۱۳۴،رقم :۳۷۹۹
۱۰۔بیقہی الاعتقاد:۳۲۷
۱۱۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد۹:۱۲۶
۱۲۔خطیب بغدادی موضع اوہام الجمع ولتفریق،۲:۳۱۳
۱۳۔دولابی الذریۃ الطاہرہ :۱۰۷،۱۰۸،رقم :۲۰۱
۱۴۔ابن اثیرنے اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ(۷:۲۱۸)میں یہ حدیث حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھاسے روایت کی ہے
۱۵۔عسقلانی ، فتح الباری۷:۱۳۸
۱۶۔عسقلانی الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۳:۴۰۵
۱۷۔طبری ،جامع البیان فی تفسیر القرآن ۔۲۲:۷
۱۸۔سیوطی الددالمثور فی التفسیربالماثور ۶:۲۰۴
۱۹۔شوکانی فتح القدیر،۴:۲۷۹
۵۔حواله جات
۱۔حاکم نے ’المستدرک (۳:۱۷۰،رقم :۴۷۴۰)میں اسے صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے اس کی تائید کی ہے
۲۔نسائی ،السنن الکبری ،۴:۲۵۱،رقم ۷۰۷۸
۳۔نسائی السنن لکبری ۵:۱۴۶۔رقم ۸۵۱۷
۴۔ابن سعد،الطبقات الکبری ۲:۲۴۷،۲۴۸
۵۔ابن سعد،الطبقات الکبری ۸:۲۶،۲۷
۶۔ابن اثیر،اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ ،۷:۲۱۸
۶۔حواله جات
۱۔بخاری الصحیح ،۳:۱۳۲۶،۱۳۲۷،رقم۳۴۲۶،۳۴۲۷
۲۔مسلم ا لصحیح،۴،۱۹۰۴،رقم ۲۴۵۰
۳۔احمد بن حنبل ، المسند۶:۲۸۲
۷۔حواله جات
۱۔بخاری الصحیح،۵:۲۳۱۷،رقم :۵۹۲۸
۲۔مسلم الصحیح،۴:۱۹۰۵،رقم :۲۴۵۰
۳۔نسائی ،فضائل الصحابہ :۷۷،رقم :۲۴۵۰
۴۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ،۲:۷۶۲،رقم ۱۳۴۲
۵۔طیالسی ، المسند:۱۹۲، رقم :۱۲۷۳
۶۔ابن سعد،الطبقات الکبری ،۲:۲۴۷
۷۔دولابی ،الذریۃ الطاہرہ :۱۰۱،۱۰۲،رقم :۱۸۸
۸۔ابونعیم ، حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء۲:۳۹،۴۰۔
۹۔ذہبی سیراعلام النبلا ء ۲:۱۳۰
 
۸۔ حواله جات
۱۔ طبرانی ،المعجم الکبیر،۲۲:۴۰۳،رقم :۱۰۰۶
۲۔بخاری ، التاریخ الکبیر،۱:۲۳۲،رقم :۷۶۸
۳۔ہثیمی نے مجمع الزوئد (۹:۲۰۱)میں کہا کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اوراس کے رجال صحیح ہیں سوائے محمد مروان ذہلی کے اسے ابن حبان نے ثقہ قرار دیاہے
۴۔ذہبی سیر اعلام النبلای ۲:۱۲۷
۵۔مزی ،تہذیب الکمال ،۲۶:۳۹۱

تبصرے
Loading...