سیدہ نفیسہ بنت حسن سلام اللہ علیہا۔

 

خانوادۂ رسول کا ہر فرد ہر دور میں کرۂ ارضی کو اپنے فیضان سے منور کرتا رہا ہے اور تاقیامت یہ فیضان الکوثر جاری وساری رہے گا۔

سید ذادے ہوں یا سید ذادیاں مخدومۂ کائنات کی عنایات و برکات کے باعث قلزم انوارات و تجلیات سے لبریز ہو کر اہل دل کو اپنے علمی وروحانی کمالات و جمالات سے مزین کرتے رہے ہیں اور اسی کی پاداش میں نوک سناں کی زینت بنے ہیں تو کہیں بے گور وکفن اجساد تاریخ کے صفحات کو اپنی عظمت و سربلندی سے آگاہی دیتے آئے ہیں۔نسب رسول جہاں بھی گئی عظمتوں کی لازوال داستان رقم کرتی رہی ۔

خون رسالت ہر دور میں خدا پرستی اور دروس عرفانیات دیتا آیا ہے اور اسی درس سے فیضیاب ہونے والے کمال فن کی بلندیوں کو پہنچے ہیں۔

اہل مصر ،ہر دور میںجس عظیم المرتبت ہستی کے شکر گزار رہے ہیں وہ دوسرے خلیفۂ راشد ،سیدنا امام حسن مجتبٰی کی پڑپوتیچھٹے خلیفہ ء رسول ،سیدنا امام جعفر صادق کی بہوسیدہ نفیسہ بنت سید انور بن سید زید ابلج بن سید نا امام حسن مجتبٰی علیہ التحیۃ والثناء کی ذات والاصفات ہے۔

آپ،11ربیع النور 145ھ کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیںاور مدینہ منور ہ میں عبادت وریاضت اور زہدو تقویٰ میں مصروف رہیں۔قائمۃ اللیل اور صائمۃ النہار تھیں۔آپ حرم نبوی شریف سے کبھی جدا نہ ہوئیں۔آپ وہ عظیم المرتبت خاتون ہیں جس نے مصر میں علوم شریعت کے گلستان آباد کر دیئے اور اہل مصر کے سینے انوار عقیدت سے بھر دیئے ۔آپ مخدومۂ کائنات کی وہ عظیم المرتبت صاحبزادی ہیں جن کے دروازۂ سخا پر ہر دور میں ہر وقت طالبین صدق وصفا کاسۂ گدائی لئے طالب خیرات نظر آتے ہیں۔

سید ناحسن بن زید:

آپ کے والد گرامی سید حسن انور بہت بڑے عالم دین اور اہلبیت اطہار کے اکابرین میں سے ہیں۔آپ مستجاب الدعوات تھے اور آپکو شیخ الشیوخ کہا جاتا تھا۔بحر سخا اور آسمان علم کے چمکتے ماہتاب تھے ۔150ھ ،میں خلیفہ بنی عباس ،عبداللہ بن ابوجعفر منصور بن ابوعامرنے آپ کو حاکم مدینہ مقرر کیا تھااور آپ پانچ سال مدینہ کے گورنر رہے ۔امام حسن کی اولاد میں سے آپ کو اپنے زمانے میں حکومت وولایت ملی۔منصور دوانیقی آپ پر غضبناک ہوا اور آپ کو معزول کر کے آپ کا تمام مال ضبط کر کے قید میں ڈال دیا۔آپ قید میں ہی تھے کہ منصور فی النار ہو گیااور مہدی خلیفہ ہوا جس نے آپ کو قید سے نکال کر آپ کا مال واپس کیا۔

آپ حسن سلوک اور ایفائے عہد میں معروف تھے ۔کرم پرور اور غریب نواز تھے ۔سیدنا عبداللہ محض کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم قتیل باخمریٰ کا سر اقدس دربار خلافت میں لایا گیا تو آپ وہاں موجود تھے ۔خلیفہ نے پوچھا ،’’آپ انہیں پہچانتے ہیں؟‘‘تو آپ رو پڑے اور فرمایا، ’’فَتٰی کَانَ یَحْمَیْہِ مِنَ الْضَّیْم سَیْفَہُ وَیُنْجِیْہ مِنْ دَارِ الْھَوَانِ اِجْتِنَابِھَا‘‘یہ وہ نوجوان ہے کہ جس نے تلوار کے ظلم کے خلاف لوگوں کی حمایت کی اور ذلت کے مقام سے نجات دلائی۔جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو پانچ سالہ سیدہ نفیسہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔مدینہ منورہ میں آپ نے قرآن مجید حفظ فرمایا اور فقہ کا گہرا مطالعہ کیا۔صغر سنی ہی میں آپ نے تفسیر کلام مجید بیان فرمانا شروع کر دی ۔آپ روضۂ رسول کی بکثرت زیارت فرماتیں۔

آپ کے والد آپ کا ہاتھ تھامے روضۂ رسول میں حاضر ہوتے اور قبر رسول اللہ کی زیارت فرماتے اور عرض کرتے ،’’یا رسول اللہ !یا حبیب اللہ !میں اپنی دختر نفیسہ سے بہت خوش ہوں‘‘۔ایک رات سرکار دوعالم خواب میںتشریف لائے اور فرمایا،’’اے حسن !میں آپ کی دختر نفیسہ سے بہت خوش ہوں کیونکہ آپ ان سے بہت خوش ہیں،اور اللہ عزوجل ان سے بہت خوش ہے کیونکہ میں ان سے خوش ہوں‘‘۔اہل مدینہ آپ سےوالہانہ عقیدت رکھتے تھے اور آپ زہد وتقویٰ میں نمایاں مقام رکھتی تھیں۔

سیدنا حسن انور نے اپنی چچا ذادحضرت ام سلمہ بنت سیدنا حسین اثرم بن امام حسن سے عقد فرمایا جن سے آپ کے نو صاحبزادے سید ابومحمد قاسم ،سید محمد ،سید علی ،سید ابراہیم ،سید زید ،سید عبیداللہ ،سید یحییٰ ، سید اسماعیل اورسید اسحاق اور دو صاحبزادیاں سیدہ ام کلثوم اور سیدہ نفیسہ مصریہ تھیں۔آپ کی اولاد میں جید علماء اسلام ،نقباء فقہاء ،وزراء اور قضاء بکثرت ہوئے ہیں۔طہران میں معروف زیارت شاہ عبدالعظیم حسنی کی ہے ۔آپ ابوالقاسم عبدالعظیم بن عبداللہ بن ابوالحسن علی بن حسن انوربن زیدابلج ہیں۔رفعت منزلت اور جلالت شان میں معروف ہیں۔آپ سیدنا امام محمد تقی اور سیدنا امام علی نقی کے اصحاب میں سے ہیں۔مصعب بن ثابت،سیدنا حسن انور کی مدح سرائی میں کہتے تھے ،یَابْنَ بِنْتُ نَبِیْ وَابْنَ عَلِیْ اَنْتَ اَنْتَ الْمُجِیْرُذِیْ الْزَّمَانِ.اے نبی کی بیٹی کے بیٹے اور اور علی کے بیٹے ،آپ ہی زمانے میں پناہ دینے والے ہیں۔

سیدنازید بن امام حسن :

سیدہ نفیسہ کے دادا سیدزید ابلج انتہائی حسین و جمیل اور حُسنِحسن کا شاہکار تھے ۔سیدنا امام حسن مجتبیٰ نے مسعود عقبہ خزرجی کی دختر ام بشیر سے عقد فرمایا جن سے آپ کے ایک صاحبزادے سیدنا زید اور دوصاحبزادیاںام الحسن اور ام الحسین تشریف لائیں۔ آپ سیدنا امام حسن کی اولاد میںسب سے بڑے تھے ۔جلیل القدر ،کریم الطبع،پاکیزہ نفس اور کثیر الاحسان تھے ۔شعراء عرب نے آپ کی مدح میں اشعار کہے ہیںاور آپ کے فضائل کثرت سے بیان کئے ہیں۔آپ مخدوم عرب تھے اور عرب دور دراز سے آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہوتے تھے۔

آپ کی دونوں بھنووں کے درمیان فاصلہ ہونے کے باعث آپ کو اَبْلَجْ یعنی علیحدہ بھنووں والا اور نہایت سفید خوبصورت کھلے چہرے والا کہا جاتا ہے ۔آپ سیدنا امام حسن مجتبیٰ کے صدقات کے متولی تھے ۔عمر بن عبدالعزیز نے مدینہ کے گورنر کو خط میں لکھا، ’’زید بن الحسن بنی ہاشم کے سردار ہیں ۔جب میرا یہ خط تمہیں پہنچے تو رسول اللہ کی تولیت صدقات انہیں لوٹا دینا اور اس بارے میں وہ جو مدد طلب کریں ان کی مدد کرنا ‘‘۔آپ نوے سال کی حیات دنیاپا کر 120ھ میںواصل بحق ہوئے ۔آپ کی رحلت کے بعد شعراء کی ایک جماعت نے آپکے مرثیے انشا کئے اور آپ کے مآثر وآثار کا بلیغ انداز میں ذکر کیا ۔قدامہ بن موسیٰ کے مرثیے کا مطلع اسطرح ہے ،فَاِنْ یَکُ غَابَتِ الْاَرْضَ شَخْصَہُ فَقَدْ بِاَنْ مَّعْرُوْفَ ھُنَاکَ وَجُوْدَااگرچہ زید کی شخصیت سطح زمین سے روپوش ہو گئی ہے مگر آپ کی نیکیوں کا وجود ظاہر و باہر ہے ۔

ابو الفرج اصبہانی کے مطابق آپ سفرعراق میں امام عالیمقام سیدنا امام حسین کے ہمراہ تھے ۔آپ کی شہادت کے بعد گرفتار ہوئے اور دربار یزید پہنچے ۔رہا ہو کر مدینہ تشریف لے گئے ۔مدینہ منورہ میں آپ نے علمدار کربلا،سیدنا ابوالفضل العباس کی بیوہ حضرت لبابہ دختر حبر الامہ حضرت عبد اللہ ابن عباس سے عقد فرمایا جس سے ایک صاحبزادے حسن بن زید اور ایک صاحبزادی نفیسہ بن زید تشریف لائیں ۔

ازدواج:

سیدہ نفیسہ کے فضل وکمالات اور معنوی جمالات کے باعث سیدنا امام جعفر صادق نے آپ کا عقد5رجب المرجب 161ھ کو اپنےصاحبزادے سیدنا امامزادہ اسحٰق المؤتمن سے فرما یا۔بوقت عقد آپ سولہ برس کی تھیں۔ مؤتمن،امانت دار کو کہا جاتا ہے جو کسی کے مال میں خیانت نہ کرے ۔آپ بہت نیک ،اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ،صاحب فضل اور نہایت دیندار تھے ۔آپ سے احادیث مبارکہ نقل کی گئی ہیں اور آپ کا شمار ثقہ ترین راویان حدیث میں ہوتا تھا۔آپ سے حدیث روایت کرنے والے کہتے ،ہمیں ثقہ معتمد علیہ اسحاق بن جعفر صادق نے خبر

دی ہے۔سیدہ نفیسہ کے ہاں آپ کے ایک صاحبزادے سیدقاسم اور سیدہ ام کلثوم تشریف لائیں ۔

القاب:

خصائل وکمالات اور کرامات کے باعث آپ کئی القاب سے معروف ہیں، سیدہ نفیسۃ العلم والمعرفہ، نفیسۃ الطاہرہ، نفیسۃ العابدہ،نفیسۃ الدارین، صاحبۃ الکرامہ، سیدۃ اہل الفتویٰ، ام العواجز، نفیسۃ المصریین ، سلام اللہ علیہا۔ ان میں سے ہر لقب کی تشریح کے لئے سینکڑوں صفحات درکار ہیں۔

حج بیت اللہ :

سیدہ نفیسہ بنت حسن نے تیس بار حج بیت اللہ فرمایا اور اکثر پیادہ تشریف لے گئیں۔آپ فرمایا کرتیں تھیں،’’میں اپنے جد امام حسین کا اتباع کر رہی ہوں کیونکہ آپ فرمایا کرتے تھے ،’’مجھے حیا آتی ہے کہ میں اپنے مالک سے ملوں اور اس کے گھر کی طرف قدم نہ اٹھائے ہوں‘‘۔آپ خانۂ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر گریہ زاری فرمایا کرتیں۔طواف کعبہ کے دوران دعا مانگتیں،’’اے اللہ !میں نے تجھے کسی پردہ میں چھپا نہیں دیکھا ‘‘۔آپ کی بھتیجی سیدہ زینب بنت یحییٰ مُتوّج فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی پھوپھی سیدہ نفیسہ کی چالیس سال خدمت کی اور اس دوران آپ کو کبھی سوئے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ دن کو روزہ افطار کرتے دیکھا ۔میں نے عرض کیا ،آپ اپنی جان کو آرام کیوں نہیں دیتیں توسیدہ نے فرمایا ، ’’کیسے آرام کروںجبکہ میرے سامنے کٹھن اور مشکل ترین منازل ہیں جنہیں کامیاب لوگ ہی طے کر سکتے ہیں‘‘۔سیدہ نفیسہ کی بھتیجی سے پو چھا گیا کہ آپ کیا کھاتی تھیں تو انہوں نے فرمایا ،’’آپ تین دن بعد صرف ایک لقمہ کھایا کرتی تھیں‘‘۔ان کے مصلے کے آگےایک ٹوکری لٹکی ہوتی جب وہ کسی چیز کی خواہش فرماتیں وہ چیز ٹوکری میں سے مل جاتی تھی ۔میں آپ کے پاس وہ کچھ دیکھتی جسکا مجھے وہم وگمان تک نہ ہوتا تھا ۔میں نہیں جانتی کہ وہ کون لاتا تھا ۔میں نے تعجب کرتے عرض کیا تو آپ نے فرمایا،’’اے زینب ! جو شخص اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر ہو جائے دنیا اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اس کی تابع فرمان ہو جاتی ہے ‘‘۔آپ اس ٹوکری میں بھیجی گئی چیز کےعلاوہ کوئی اور شے تناول نہ فرماتی تھیں۔تاعمر روزے سے رہیں اور سوا ئے عیدین اور ایام تشریق کے کبھی روزہ قضانہ فرمایا۔

تلاوت قرآن اور زیارت ابراہیم خلیل اللہ :

سیدہ زینب فرماتی ہیں ،’’میری پھوپھی جان سیدہ نفیسہ قرآن اور اس کی تفسیر یاد کرتی تھیں اور تلاوت قرآن کے وقت زیادہ روتیں اوراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتیں ،’’الٰہی !مجھے اپنے خلیل ابراہیم کی زیارت نصیب فرما‘‘۔آپ اور آپ کے شوہر حضرت اسحٰق مؤتمن بن امام جعفر صادق حج کو تشریف لے گئے ۔حج ادا فرما کر آپ فلسطین تشریف لائیں اور سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کی قبر مبارک کی زیارت فرمائی۔آپ ان کی قبر اطہر کے سامنے تشریف فرما ہوئیںاور زاروقطار روتے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ،’’اور جب ابراہیم نے کہا،اے میرے رب!اس شہرکو امن عطا فرمااور مجھے اور میری ذریت کو بتوں کی پوجا سے محفوظ فرما‘‘۔جب آپ سیدنا ابراہیم کی قبر اطہر کے سامنے تشریف فرما تھیں تو خلیل اللہ تشریف لائے ۔انہیں دیکھ کر آپ کا قلب معطر زور زور سے دھڑکنا شروع ہوگیا اور آنکھوں میں نور وسرو ر بھر گیا ۔ آپ نے فرمایا،’’دادا جان!میں آپ کے پاس آئی ہوں جب کہ اس سے قبل میری روح کئی مرتبہ آپ کی بارگاہ میں حاضری دے چکی ہے ۔اب میں خودچل کر آپ کے پاس آئی ہوں۔میں آپ کی رضا چاہتی ہوں اور آپ کی ہدایت ونصیحت کی متمنی ہوں کہ آخری سانس تک خدائے واحد کیپرستش کر سکوں‘‘۔

سیدنا ابراہیم نے فرمایا،’’شاباش میری بیٹی!تم مقدس کنیزان ایزدی میں شامل ہو۔میں تمہیں سورۂ مزمل کی تلاوت کی نصیحت کرتا ہوں جس میں اللہ رب العزت نے فرمایاہے ،’’یَا اَیُّھَا الْمُزَّمِّلْ ہ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلَا ‘‘، آخر تک اور اس پر غور وفکرکرو۔اس سورہ کو تلاوت کر کے آپ عبادت اور اخلاص سے آگاہ ہوجائیں گی۔جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے،’’لاَیُکَلّفُ اللّٰہُ نَفْسًااِلَّا وُسْعَھَا‘‘،اللہ کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔آپ کی حد درجہ عبادت نے آپ کو بے حد لاغر کر دیا ہے ، اعتدال قائم رکھیں۔پھر آپ نے فرمایا،’’اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْل وَنِصْفَہُ وَ ثُلُثَہُ وَطَآئِفَۃُُ مّنَِ الَّذِیْنَ مَعَک‘‘پور ی سورہ مبارکہ تلاوت فرمائی۔جان لو کہ خدا نے رات کی عبادت کو نفل قرار دیا ہے جب کہ یہرسول خدا پر واجب تھی ۔وہ جانتے تھے کہ ان کے غلام دن میں لوگوں کو تعلیم دیتے ہیںاور ان کی ضروریات پورا کرتے ہیں اور ضروریات کا پوراکرنا بھی عبادت ہے ۔خود پر رحم کرو اور اگلے دن کی قوت قائم رکھو ۔تم پہلے ہی عبادت گزاروں کی صف اول میں ہو ۔

یہ سن کر سیدہ نفیسہ نے فرمایا،’’دادا جان!میں آپ کی ہدایات پر عمل کروں گی اور آپ سے درخواست کرتی ہوں کی میری روح پر اپنی روح مقدس کی طہارت و تطہیر کی برکات نازل فرمائیں تا کہ جب میں اپنے رب تعالیٰ سے ملوں تو وہ مجھ سے راضی ہو‘‘۔سیدنا ابراہیم نےفرمایا،’’خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا منظور فرمائی ،بروزحشرجب ہم عالم ارواح میں ملیں گے تو میںابدی زندگی میںآپ کے ہمراہ ہوںگا ‘‘۔ پھرآپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی،’’اور ڈرواس دن سے جب تم اللہ کی جانب واپس لوٹائے جاؤگے ۔پھر ہر روح کو اس کے لئے کا بدلہ ملے گا اور کسی کے ساتھ بھی ظلم نہ ہوگا‘‘۔

مصر میں قیام:

چوالیس سا ل کے سن اقدس میں آپ26رمضان المبارک 193ھ کو مصر تشریف لائیں۔راستہ میں آپ جہاں جہاں سے گزرتیں لوگوں کا ہجوم آپ کااستقبال کرتااورعقیدت کے پھول نچھاور کرتا۔تاریخ مصر میں اسقدرفقید المثال کسی اور کا نہ ہوا جتنا سیدہ نفیسہ بنت حسن کا ہوا۔اہل مصر گھوڑوں،اونٹوں اور دیگر سواریوں پر سوار اورپیادہ پاکئی میل باہر آئے اور خیمہ زن ہو کر آپ کے منتظر رہے ۔اہل مصر میں آپ کے تقویٰ و طہارت ،شان وعظمت اور سخاوت و کرامت کی بہت شہرت تھی ۔اس لئے اہل مصر آپ کی آمد کی خبر سن کر آپ کے استقبال کے لئے شہر سے باہر نکل آئے اور مردوزن نگاہیں جھکائے حاضر تھے ۔آپ تشریف لائیں تو لَااِلَہَ اِلَّا اللّٰہ اور اللہ اکبر کے نعروں سے آپ کا استقبال کیاگیا اور پرہجوم جلوس میں آپ مصر داخل ہوئیں۔

مصر کے رئیس اعظم ،جمال الدین عبداللہ بن جصاص نے آپ کو اپنے باپردہ مکان میں ٹھہرایا ۔ابن جصاص بہت بڑے تاجر اور نہایتصالح شخص تھے اور ان کے دل میں سید العالمین کی اولاد کی عقیدت ومحبت کے انوار درخشاں تھے ۔

سیدہ نے ان کے گھر میں چند ماہ اقامت فرمائی اور عوام الناس کا اژدہام دیکھ کر آپ نے میزبان پر بوجھ بننا مناسب نہ سمجھااور ضلع خلف کی شاہراہ خلیفہ پر واقع مسجد شَجْرِۃُ الْدُّرْ میں اقامت پذیر ہو گئیں۔یہ علاقہ آج کل منطقۃ الحسنیہ کہلاتا ہے ۔وہاں آپ نے ایک مصری خاتون ام ہانی کے ہاں اقامت فرمائی ۔آپ کی جگہ کیتبدیلی عوامی ریلے پر اثر انداز نہ ہوئی اور لوگ مصر کے ہر خطہ سے جوق درجوق آپ کی برکات سے فیضیاب ہونے آتے رہے ۔خواتین آپ کی قدمبوسی فرماتیں اور دعا کی درخواست کرتیں۔

مصرمیں پہلی کرامت:

سیدہ نفیسہ کے قیام مصر کے دوران آپ کے ہمسائے میں ایک یہودی ایوب ابو ثریا رہتا تھا جس کی لڑکی کے پاؤں پشت سے جڑے تھے اور وہ کھڑی نہیں ہو سکتی تھی ۔ایک روز اس کی ماں نے کہا کہ میں بازار خریداری کے لئے جا رہی ہوںکیا تمہیںاپنے ساتھ لے جاؤں ؟۔

لڑکی نے کہا مجھ میں جانے کی طاقت نہیں۔اس کی ماں نے کہا ،پھر میرے آنے تک گھر میں اکیلی رہو گی ۔اس نے کہا ،اے میری ماں یہ تو ہونہیں سکتا ،آپ مجھے ہمارے ہمسائے میں رہنے والی سیدہ نفیسہ کے پاس چھوڑجائیں۔چنانچہ سیدہ نفیسہ سے اجازت طلب کی گئی اور وہ یہودی عورت اپنی بیٹی آپ کے پاس گھر کے ایک کونے میں بٹھا کر چلی گئی۔

ظہر کی نماز کا وقت ہوا ۔سیدہ نفیسہ کے وضو کے لئے پانی رکھا گیا ۔آپ نے وضو فرمانا شروع کیا اور پانی اس بیمار لڑکی کی طرف بہنے لگا ۔وضو کا پانی اس اپاہج لڑکی کے جسم سے لگا ۔اس نے اپنے مفلوج بدن میں تبدیلی محسوس کی اور آپ کا استعمال کردہ پانی لے کر پورے بدن پہ ملنے لگی ۔دفعتاًاس کا فالج ختم ہو گیا اور وہ مکمل صحتیاب ہو گئی اور اپنے اعضاء پر چلنے پھرنے لگی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ مکمل تندرست ہو گئی ۔جب اس کے گھر والے واپس آئے تو وہ چلتی ہوئی ان کے پاس گئی ۔جب گھر والوں نے اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھاتو دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے ۔اس نے سارا واقعہ بیان کیا ۔یہ بات سن کر وہ تمام مسلمان ہو گئے اور سیدہ کی کرامت کے باعث دین اسلام کے پیروکار بن گئے ۔

عوام میں آپ کی کرامات معروف ہوئیں تو سیدالمرسلین کی اولاد سے عقیدت رکھنے والے لوگ سیدہ نفیسہ کے آستانے کی زیارت کی خاطر جوق در جوق آنا شروع ہوگئے اور کوئی بھی اس عظیم سعادت سے پیچھے نہ رہا ۔آپ کی شہرت اس مقام پر تھی کہ آپ کے دروازۂ سخا پر خاص و عام کا بہت بڑا ہجوم ہر وقت موجود رہتا ۔

حجاز مقدس روانگی :

عوام کے بڑھتے ہوئے ہجوم کے باعث آپ کے اوراد و اشغال کے معمولات متاثر ہو رہے تھے جس باعث آپ نے مصر سے حجاز مقدس تشریف لے جانے کا فیصلہ کیا۔لوگ آپ کی قیام گاہ کے گرد خیمے لگا کر رات بھر نوافل ادا کرتے اور حصول برکت کے متمنی رہتے ۔جب انہیں آپ کے فیصلے کا پتہ چلا تو انہیں بہت صدمہ ہوا ۔ہزاروں لوگ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت اقدس میںالتجا کی کہ آپ مصر ہی میں سکونت اختیار فرمائیںمگر آپ نے انکار فرمایا۔ اہل مصر جمع ہو کر حاکم مصر وامیر سِرّی بن حکم کے پاس گئے اور عرض کیا کہ سیدہ نفیسہ مصر سے روانہ ہونے والی ہیں۔یہ بات سن کر امیر کو بھی صدمہ ہوا ،اور اس نے سیدہ کی طرف خط دے کر قاصد روانہ کیااور آپ کیخدمت میںاپنے ارادے پر نظر ثانی فرمانے کی درخواست کی لیکن آپ نے اسے مسترد فرما دیا۔امیر بذات خود چل کر سیدہ کی خدمت میں حاضرہوا اور مصر میں اقامت کی درخواست پیش کی ۔آپ نے فرمایا ،’’میں نے تمہارے پاس مصر میں سکونت کرنے کا ارادہ کیا تھا۔لیکن میں ایک کمزور اورلاغر عورت ہوں ،میرے پاس مخلوق بہت آتی ہے اور یہ میرے وردو وظائف اور عاقبت کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کے رستے میں رکاوٹ ہے اور یہ مکان بہت چھوٹااور جگہ بہت تنگ ہے جس میں آنے والی مخلوق بیٹھ نہیں سکتی ۔میرا دل نانا حضور کی زیارت کا متمنی ہے اور میں آپکی بارگاہ میںحاضر ہونا چاہتی ہوں‘‘۔

والیء مصر نے نہایت ادب سے عرض کیا ،’’مخدومۂ کائنات کی صاحبزادی !میں آپ کی تمام شکایات دور اور آپ کے لئے آپ کی مرضی کے مطابق تمام معاملات تیار کر دیتا ہوں ،رہی بات مکان کی تنگی کی تو ’’دارالصباح‘‘ میں میرا ایک وسیع مکان ہے ،میں اللہ رب العزتکو گواہ بنا کر عرض کرتا ہوں کہ وہ مکان میں نے آپ کو ہبہ کر دیا اور درخواست کرتا ہوں کہ آپ اسے قبول فرمالیںاور مجھے خالی ہاتھ واپسجانے کی شرمندگی سے بچا لیں۔

سیدہ نفیسہ نے کافی دیر مراقبہ فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا،’’میں نے تمہارا ہبہ کردہ مکان قبول فرمایا‘‘،یہ فرمان سن کر سری بن حکم کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔پھر سیدہ نے فرمایا،’’ان لوگوں کا کیا کیا جائے جوبکثرت باہر سے آتے ہیں؟‘‘۔سیدہ نے عرض کیا ،’’میری تجویز یہ ہے کہ آپ ان سے فرما دیں کہ وہ ہفتہ میں دو دن،بدھ اور ہفتہ کے روز آیا کریں اور باقی ایام آپ ان سے فارغ رہیںتا کہ آپ اپنے وظائف واوراد میں مشغول رہ سکیں،آپ ہفتہ اور بدھ دو دن لوگوں کے لئے معین فرما دیں‘‘۔سیدہ نفیسہ نے اس تجویز کو قبول فرما لیا اور اسی پر ہمیشہ عمل ہوتا رہا۔آپ مؤرخین میں نفیسہ مصریہ کے نام سے معروف ہیں۔

کرامات:

قیام مصرکے دوران آپ کی متعدد کرامات ظاہر ہوئیںاور اہل مصرآپ کے وجود مسعود سے فیضیاب ہوئے ۔مؤرخین نے آپ کی ایک سوپچاس سے زائد کرامات تحریر کی ہیںجنہیں ابن حجر عسقلانی نے تفصیلا تحریر کیا ہے ،

۱۔201ھ ،816ء،آپ کے زمانہ میں دریائے نیل رک گیا اور قحط کا خطرہ درپیش ہوا۔لوگ آپ کی جناب میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی ۔سیدہ نے انہیں اپنی چادر دی ۔وہ آپ کی چادر لے کر دریا پر آئے اور اسے دریا میں ڈال دیا ۔ابھی گھروں کو واپس نہ پہنچے تھے کہ دریا ٹھاٹھیں مارتا بہنے لگا۔آپ کی یہ کرامت قمیض یوسف سے مشابہ ہے ۔

۲۔ ایک بوڑھی عورت کی چار لڑکیاں تھیں۔وہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک سوت کات کر گزارا کرتی تھی ۔جمعہ کے روز وہ بوڑھی عورت بازار جا کر فروخت کرتی اور اس کی نصف رقم سے روٹی خرید لیتی اور نصف رقم سے دوسرے جمعہ تک کھانے کی اشیاء خرید کرگھر لے جاتی ۔ایک روز اس عورت نے سوت لیا اور سرخ کپڑے میں لپیٹ کر بازار لے گئی ۔وہ جارہی تھی اور سوت کی گٹھڑی اس کے سر پر تھی۔اس پر ایک پرندہ جھپٹا اور اس کے سر سے سوت کی گھٹڑی لے اڑا ۔بوڑھی بے ہوش ہو کر گر پڑی۔جب ہوش میں آئی تو کہنے لگی اب میں یتیم بچیوں کا کیا کروںگی جوبھوک کی شدت سے نڈھال ہو چکی ہیں اور پھر رونے لگی۔

اس کی گریہ زاری سن کر لوگ وہاں جمع ہو گئے اور اس بوڑھی عورت سے اس کی آہ وزاری اور رونے کا سبب پوچھا ۔اس نے سارا واقعہ بیان کیا ۔لوگوں نے اسے کہا،’’پریشان نہ ہو اور سیدہ نفیسہ کی خدمت میں حاضری دے اور ان سے دعا کے لئے عرض کر ،اللہ تعالیٰ تیری مصیبت دور کرے گا ‘‘۔وہ بوڑھی سیدہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور آپ سے تمام واقعہ بیان کیا اور بچیوں کی بھوک کا تذکرہ بھی کیا اور ساتھ دعا کی درخواست کی ۔سیدہ کو اس پر بہت رحم آیا اورآپ نے فرمایا ،’’اے بلند و بالا!قادر وقاہر ذات !اپنی اِس بندی کی حاجت پوری فرما کہ یہ تیری مخلوق ہے ‘‘۔

پھر سیدہ نے بڑھیا سے فرمایا،’’یہاں بیٹھو !اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔وہ بوڑھی دروازے پر بیٹھ گئی اور اس کے دل میںاپنی بچیوں کی بھوک کے شعلے بھڑک رہے تھے ۔ابھی ایک گھنٹہ ہی گزرا ہو گا کہ کچھ لوگ آئے اور سیدہ کے حضور حاضرہونے کی اجازت طلب کی ۔آپ نے اجازت فرمائی ۔وہ داخل ہوئے اور نیازمندانہ انداز میں سلام عرض کیا ۔سیدہ نفیسہ نے ان کا حال دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کیا ،’’ہمارے ساتھ عجیب وغریب واقعہ پیش آیا ہے کہ ہم تاجرہیں ،مدت سے سمندر کا سفر کر رہے تھے ،بحمد اللہ ہم خیر و عافیت سے واپس آئے ۔جب آپ کے شہر کے قریب آئے تو جس جہاز میںہم سوار تھے اس میں سوراخ ہو گیا اور جہاز میں پانی داخل ہونا شروع ہو گیا،

سوراخ کو ہم نے بند کرنا چاہا مگر وہ بند نہ ہوا اور ہم ہلاکت کے قریب تھے کہ ہم نے آپ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں فریاد کی ،اچانک ایک پرندے نے آکر ہم پر سوت کی گٹھڑی پھینکی ،اسے ہم نے سوراخ میں رکھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور آپ کی برکت سے بند ہو گیا ‘‘۔ہمیں ایک غیبی آواز سنائی دی ۔کوئی کہہ رہا تھا ،’’سیدہ نفیسہ کی بارگاہ میں حاضری دو‘‘۔

پھر ان لوگوں نے سیدہ کی بارگاہ میں عرض کیا،’’ہم سب اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے پانچ سو دینار آپ کی خدمت میں نذر پیش کرنےکو لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صحیح سلامت کنارے لگایا ہے‘‘۔ یہ سن کر سیدہ نفیسہ رونے لگیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا،’’اےاللہ کریم ! تیری اپنے بندوں پر کتنی مہربانی ہے ‘‘۔سیدہ نے پھر اس بوڑھی عورت کو بلایا ۔وہ آئی تو سیدہ نے فرمایا ،’’تم ہر جمعہ کو کتنے داموں سے فروخت کیا کرتی تھی ۔اس نے عرض کیا ،بیس دینار سے ،سیدہ نے فرمایا ،تجھے خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ نے ہردینار کے عوض تجھے پچیس دینار عنایت فرمائے ہیں ‘‘۔پھر اسے سارا واقعہ سنایا اور پانچ سو دینار اسے دے دیئے ۔وہ بوڑھی عورت ساری رقم لے کر اپنی لڑکیوں کے پاس آئی اور ان سے سارا واقعہ بیان کیا اور ان کو بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے سوت کی گٹھڑی کو سیدہ نفیسہ کی برکت سے واپس کیا ۔

۳۔ ایک شخص نے ذمّی عورت سے نکاح کیا ۔اس سے لڑکا پیدا ہوا اور وہ لڑکا دشمن کے علاقے میں قید ہو گیا ۔وہ عورت اپنے عبادت خانوں میں قیدیوں اور اپنے بیٹے کے بارے میں سوال کرتی رہی ۔ایک دن اس نے اپنے شوہر سے کہا ،’’مجھے پتا چلا ہے ،یہاں ایک خاتون ہیں جنہیں نفیسہ کہا جاتا ہے ،ان کے پاس جاؤشاید وہ میرے بچے کے بارے میں دعا فرمائیں ،اگر میرا بیٹا مل گیا تو میں سیدہ نفیسہ کے دین پر ایمان لے آؤں گی‘‘۔

وہ شخص سیدہ نفیسہ کی بارگاہ میں حاضر ہوااور آپ سے یہ سارا واقعہ بیان کیا اور دعا کے لئے عرض کی ۔ سیدہ نے اس کے لئے دعا فرمائی اور تسلی کے لئے ارشاد فرمایا ،’’اللہ تعالیٰ !انہیں ان کا بچہ واپس کر دے گا ‘‘۔جب رات ہوئی تو کوئی ان کا دروازہ کھٹکھٹارہا تھا ۔وہ عورت باہر آئی تو دیکھا کہ اس کا بیٹا کھڑا ہے ۔ عورت نے اس سے کہا کہ اپنا حال بیان کرے کہ قید سے کیسے رہائی ملی ۔بچے نے کہا ،’’میں فلاں وقت دروازہ میںکھڑا تھااور اپنے حال میں تھا ۔مجھے معلوم نہیں کیا ہوا، ایک ہاتھ ظاہر ہوا ،میں نے سنا کوئی کہہ رہا تھا کہ اسے قید سے رہاکروکیونکہ سیدہ نفیسہ بنت حسن نے اس کی سفارش کی ہے ‘‘۔لڑکے نے کہا مجھے اس قید اور بیڑیوں سے آذاد کر دیا گیا ،پھر مجھے معلوم نہیں کیا ہوا ،اچانک میں اپنے محلے میں موجود تھا ،پھر میں اپنے دروازے پر آگیا۔

اس لڑکے کی ماں بہت خوش ہوئی اور یہ کرامت لوگوں میں مشہور ہوگئی اور اسی رات سیدہ کی برکت سے اس عورت کے خاندان کے ستر گھر والے مسلمان ہو گئے ۔یعنی ایک ہی رات میں ستر گھروں میں اسلام کے انوار برسنے لگے اور اس لڑکے کی ماں مسلمان ہو کر سیدہ کے خادموں میں شامل ہو گئی ۔

۴۔ایک لڑکی بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔اس کے سر پر ایک ٹوپی تھی جس میں درہم ودینا رکافی تعداد میں جڑے ہوئے تھے ۔ایک بچے نے لالچ وطمع میں آکر اس بچی کو پکڑا اور سیدہ نفیسہ کے مقبر ہ میںلے گیا ۔وہاں اسے ایک قبر میں لے جا کر ذبح کر دیا اور اس کی ٹوپی لےکر بھاگ گیا۔لڑکی کے گھروالوں نے جب اپنی لڑکی کوگم پایا تو اسے تلاش کرنا شروع کردیا مگر اس لڑکی کا کوئی پتہ نہ چلااور نہ ہی کوئی نشان ملا ۔پھر گھر والوں کو خیال آیا کہ ان بچوں کو پکڑاجائے جن کے ساتھ وہ کھیلا کرتی تھی ۔وہ بچوں کو پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے۔حاکم نے اسے ڈرایادھمکایا تو اس بچے نے اقرار کر لیا کہ اس نے لڑکی کو قیمتی ٹوپی کے لئے ذبح کر دیا ہے۔

لڑکی کے گھر والے اسے پکڑ کر قبرستان لے گئے اور اس قبر میں داخل ہو کر اس لڑکی کو دیکھاتو وہ زندہ تھی اور اسکے گلے سے خون منقطع ہو چکاتھا باوجودیکہ حلقوم کٹا ہوا تھا لیکن خون نہیں بہہ رہا تھا انہوں نے اس جگہ کو سی دیا اور وہ لڑکی بہت عرصہ زندہ رہی ۔اس لڑکی نے گھر والوں کو بتایا کہ جب بچہ مجھے ذبح کر کے چلا گیا تو اس کے بعد ایک نہایت پاکیزہ صورت عورت آئی اور اس نے مجھے فرمایا،’’بیٹی ڈرنا نہیں ‘‘۔لڑکی نے کہا،’’جہاں سے مجھے ذبح کیا گیا تھا اس پاک بی بی نے وہاں ہاتھ رکھا تو خون بہنے سے رک گیا اور مجھے پانیپلایا‘‘۔ میں نے پاک بی بی سے پوچھا ،’’آپ کون ہیں؟‘‘۔انہوں نے فرمایا ، ’’میں سیدہ نفیسہ ہوں ‘‘۔

۵۔ سیدہ نفیسہ کی خادمہ سیدہ جوہرہ نے سیدہ نفیسہ کا لوٹا پکڑا اور اسے پانی سے بھر کے رکھ دیا۔ایک اژدہا آیا اور برکت حاصل کرنے کے لئے اپنا سر لوٹے کے ساتھ ملنے لگا ۔

(جنات اکثر سانپ واژدہا کی شکل میں آتے ہیں او رسادات عظام کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں۔غالباًشاہ جنات آپ کی بارگاہ میں حاضری کو آئے ہوںاور خاتون جنت کی بابرکت صاحبزادی کے زیر استعمال اشیاء سے حصول برکت کی خاطر سر رگڑا)۔

سخاوت :

مختلف اسلامی ممالک کے سربراہان و بادشاہان آپ کی بارگاہ میں تحائف و نذرانہ جات پیش فرماتے ۔آپ انہیں قبول کر کے غرباء و مساکین میں تقسیم فرما دیتیں۔ایک دفعہ مصر کے گورنر نے ایک لاکھ درہم پیس کئے ،آپ نے وہ سارے کے سارے مساکین میں بانٹ دیئے اور ایک پائی بھی اپنے پاس نہ رکھی ۔

وفات:

سیدہ نفیسہ نے اس مکان میں وفات پائی جو مصر کے حاکم سری بن حکم نے مامون رشید کے زمانہ میں آپ کو ہبہ کیا تھا ۔آپ نے قبل از وفات اپنے گھر میں اپنے ہاتھ سے اپنی قبر کھودی اور اس میں بکثرت نماز پڑھا کرتی تھیں۔علامہ الہجوری لکھتے ہیں کہ آپ نے اپنی قبر مبارک میں چھ ہزار دفعہ قرآن پاک ختم فرمایا اور مرحومین کے ایصال ثواب کیا ۔

سیدہ کی بھتیجی سیدہ زینب فرماتی ہیں کہ یکم رجب المرجب میری پھوپھی جان علیل ہو گئیں اور اپنے شوہر حضرت امامزادہ اسحٰق المؤتمن بن امام جعفر صادق کو خط لکھا ۔وہ اس وقت مدینہ منورہ میں تھے ۔آپ نے انہیں مصر تشریف لانے کا کہا ۔سیدہ رمضان المبارک کے پہلے جمعہ تک بیمار رہیں اور پھر مرض میں شدت آگئی ۔آپ ان دنوں روزے سے تھیں ۔ ماہراطباء اور نامور حکیم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جسمانی قوت برقرار رکھنے کے لئے روزے نہ رکھنے کا مشورہ دیا ۔کیونکہ آپ جسمانی طور پر بہت لاغر ہوچکی تھیں ۔آپ نے فرمایا ،’’تعجب ہے کہ تیس سال سے میں اللہ کریم سے دعا کر رہی ہوں کہ روزہ کی حالت میں مجھے وفات آئے ۔کیا میں روزہ افطار کر سکتی ہوں؟۔

معاذاللہ!اور پھر کچھ اشعار پڑھے ،

اِصْرَفُوْا عَنّی ْ طَبِیْبِیْ وَدَعُوْنِیْ وَ حَبِیْبِی

لَا اُبَالِیْ بِغَوْثِِ حِیْنَ قَدْ صَارَ نَصِیْبِیْ

جَسَدِیْ رَاضِ بِسُقْمِیْ وَ جَفُوْنِیْ بِنَحِیْبِ

اے طبیبو مجھ سے دور ہو جاؤاور مجھے اپنے حبیب کے ساتھ چھوڑ دو

میں فوت ہونے کی پرواہ نہیں کرتی جب کہ میرا نصیب ہو گیا ہے ۔

میرا جسم میری بیماری سے راضی ہے اور میرا پلکیں رونے سے راضی ہیں۔

آخری لمحات :

سیدہ زینب فرماتی ہیں کہ پھر سیدہ نفیسہ نصف رمضان تک اسی طرح بیمار رہیں اور جب وفات کے آثار کو محسوس فرمایاتوسورہ ء انعام کی تلاوت شروع کر دی ۔جب آپ اس آیت مبارکہ تک پہنچیں ، لَھُمْ دَارُ الْسَّلَامِ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَھُوَ وَلِیُّھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ہ ان کے لئے ان کے رب کے پاس جنت ہے اور وہی ان کا مددگار ہے ان کے اچھے اعمال کے سبب۔ تو سیدہ پر غشی کاعالم طاری ہوا ،میں نے آپ کو سینے سے لگالیا آپ نے کلمۂ شہادت پڑھااور پھر آپ کی روح پرواز کر گئی ۔

جس دن آپ نے انتقال فرمایا اسی دن آپ کے شوہر مصر پہنچے ۔آپ کے شوہر حضرت اسحٰق مؤتمن نے فرمایا،’’میں سیدہ نفیسہ کو مدینہ منورہ لے کر جاؤں گا اور جنت البقیع میں اپنے خاندان کے ساتھ دفن کروں گا ۔اہل مصر نے حاکم مصر کے پاس جا کر التجا کی کہ سیدہ کو مدینہ منورہ لے جانے سے جناب اسحٰق کو روکیں مگر حضرت اسحٰق نے اس امر کے بارے میں انکار فرما دیا ۔مصر والوں نے کثیر مال جمع کیا حضرت اسحٰق جس اونٹ پر سوار ہو کر مصر آئے تھے اس کے بوجھ کے برابر مال کی نذر پیش کی اور ساتھ ہی عاجزی کے ساتھ گزارش کی کہ سیدہ نفیسہ کریمہ کو ہمارے پاس ہی دفن فرمائیں مگر جناب اسحٰق نے ان کی درخواست مسترد فرمادی ۔لوگ اداس چہرے لئے ہوئے گھروں کوواپس چلے گئے اور رات مصیبت میں بسر کی ۔

جب صبح ہوئی تو سب لوگ جناب اسحٰق کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے جو پہلے روز صورت حال دیکھی تھی اس سے ماحول کو مختلف پایا تو فوراًبولے ،’’جناب اختیار ہے جو چاہیں کریں‘‘

فرمان رسول :

حضرت اسحٰق نے فرمایا،’’میں نے رات رسول اللہ کو خواب میں دیکھا ہے ،آپ نے مجھے حکم دیا ،رُدَّ عَلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَادْفَنَھَا عِنْدَھُمْ ،ان کے مال انہیں واپس کر دو اور نفیسہ کو ان کے پا س دفن کرو۔

امام شافعی کے انتقال کے چار سال بعد 208ھ،824ء میںسیدہ کی وفات ہوئی ۔آپ کو ’’درب السباع ‘‘ میں دفن کیا گیا ۔ہر طرف سے دور دراز کا سفر کر کے لوگ آتے اور دفن کے بعد بھی نماز جنازہ پڑھتے ۔ آپ نے مصر میں سات سال قیام فرمایا۔آپ کے انتقال پر اہل مصر نے گریہ زاری فرمائی اور ہر گھر سے رونے کی آوازیں سنی گئیںاور سیدہ کے انتقال پر بہت افسوس کیا گیا۔اولیاء اللہ ،علمائے اسلام اور محدثین کی بڑی تعدا دآپ کے مزار پر زیارت کے لئے حاضر ہوتی رہی ۔

مزار پرانوار:

آپ کا مزار پرانوار سب سے پہلے مصر کے حاکم عبید اللہ بن سری بن حکم نے بنایااور درگاہ سے متصل مسجد تعمیر کرائی ۔482ھ میں افواج مصر کے کمانڈر انچیف بدر الجمالی نے تزئین کرائی ۔ اور اس کے بعد دوسری تجدید خلیفہ حافظ لدین اللہ نے 536ھ میں کی ۔740ھ میں محمد بن القلاوون نے تزئین کرائی ۔773ھ میں مزید آرائش شہزادہ عبدالرحمان کاتاخدہ نے کروائی ۔ 1314ھ میں وزارت اوقاف ومذہب نے موجودہ تعمیر کرائی ۔تانبے کی ضریح اقدس ہاتھوں سے تعمیر کی گئی اور آپ کی قبر اقدس پر 1266ھ میں پیش کی گئی ۔درگاہ کا منقش دروازہ 1170ھ میں گورنر علی پاشا کی جانب سے آویزاں کیا گیا ۔ زائرین کے پانی پینے کا انتظام کیا گیا اور دار الحفاظ قائم ہوا جہاںنور قرآن سے اہل ایمان کے قلوب منور کئے جاتے تھے ۔

آپ کی وفات سے لے کر آج تک آپ کی درگاہ مرجع خلائق ہے اور روز بروز بڑھتے زائرین ،اطراف عالم سے آپ کی بارگاہ میں حاضری کو پیش ہوتے ہیںاور جبین نیاز خم کئے گلہائے مؤدت پیش فرماتے ہیں۔جید علمائے اسلام سے لے کر عامۃ المسلمین تک آپ کے دربار میں حاضری دیتے ہیں۔آپ کی قبر مطہر کے اوپر پیغمبر اکرم تک آپ کانسب نامہ تحریر کیا گیا ہے اور اس کے نیچے تحریر ہے ،’’کوئی بھی مشکلات میں گرفتار ہو تو سیدہ نفیسہ کی بارگاہ میں حاضری دے اور سورہ فاتحہ،سورہ اعلیٰ،سورہ اخلاص اور سورہ معوذتین پڑھ کر آپ کو ہدیہ کرے اور خداسے دعا کرے تو خدا تعالیٰ اس کی پریشانیاں دور فرمائے گا ‘‘۔

سلام عقیدت :

جو آپ کی بارگاہ میں حاضری نہیں دے سکتے وہ دور سے باوضو ہو کر مؤدب دست بستہ آہستہ آواز میں اس طرح سلام عرض کریں،اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَاسَیَّدَہْ نَفِیْسَہْ بِنْتِ حَسَنْ اْنْوَرْ بِنْ سَیَّدْ زَیْد اَبْلَجْ بِنْ سَیّدْنَا اِمَا م حَسَنْ اَلْمُجْتبٰی بِنْ سَیَّدَہْ فَاطِمَہْ زِہْراوَ سَیّدْنَا اِمَام عَلِیْ اِبْنِ اَبِیْ طَالِبْ

بعد ازوفات کرامات :

آپ کی وفات کے بعدظاہر ہونے والی کرامات کی فہرست بھی طویل ہے ۔ چند کرامات یہ ہیں،

۱۔683 ھ میںکچھ چور آپ کی مسجد میں داخل ہوئے اور چاندی کے بنے سولہ فانوس اتار لئے ۔رات بھر کوشش کرتے رہے مگر باہرجانے کا دروازہ نہ ملا۔یہاں تک کہ صبح مسجد کے متولی نے دروازہ کھولا اور انہیں گرفتار کر لیا۔

۲۔ماضی قریب1940ء میں ایک شخص آپ کی درگاہ میں حاضر ہوا اور درگاہ کے تبرکات میں سے ایک خوبصورت کشمیری شال چرا لی جو والیء کشمیر نے آپ کی درگاہ کی نذر کی تھی ۔صبح تک اسے باہر جانے کا دروازہ نہ ملا اور صبح جب لوگ آئے تو اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔

۳۔ عبد العز الیمانی کہتے ہیں کہ میں اپنے خاندان میں بہت خوشحال ورئیس اور صاحب ثروت وجائداد تھا۔اس باعث مغرور ہو گیا۔

ایک دن میرا سب سرمایہ ختم ہو گیا اور میں بیمار ہو کر اپنی بصارت بھی کھو بیٹھا۔میں نے رہا سہا سرمایہ بھی اپنے علاج معالجہ پر لگا دیا مگرڈاکٹروں نے مجھے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب تم تاعمر نابینارہو گے ۔ہر طرف سے مایوس ہو کر میں نے سیدہ نفیسہ سے توسل کیااور آپ کےدربار میں حاضر ہونے کی تیاریوں میں تھا کہ ایک رات آپ کو خواب میں دیکھا ۔آپ نے میری آنکھوں میں کوئی چیز ڈالی ۔جب میں بیدار ہوا تومیری آنکھوں کی بینائی واپس آچکی تھی اور میں تندرست ہو گیا۔

۴۔ عفان بن سلیمان المصری نے ایک گھر خریدا ۔اس گھر میں مدفون خزانہ ملا تو عفان نے وہ خزانہ غریب غرباء کی امداد پر خرچ کرنا

شروع کیا ۔ایک دن اس نے شہزادہ احمد بن کیغلغ سے گندم کے ایک ہزار اونٹ خریدے ۔قحط کے باعث کچھ ہی دنوں میں گندم کی قیمت تین گنا ذیادہ ہو گئی ۔شہزادہ احمد نے عفان کو اپنے محل میں بلایا اور کہا ،’’یا تو میرے ہزار اونٹ واپس کر دو یا مجھے گندم کی موجودہ قیمت کے حساب سے رقم ادا کرو‘‘۔عفان بن سلیمان نے انکار کر دیا اور غصہ کے عالم میں باہر نکل گیا اور جا کر ساری گندم غرباء ومساکین میں بانٹ دی اور فقط کچھ حصہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کی خاطر رکھ دیا۔شہزادہ احمد گورنر مصر ،تقین بن عبداللہ الحربی کے پاس گیا جو کہ انتہائی سفاک اور مغرور انسان تھا ۔اس نے عفان کی تمام جائیداد اوراموال ضبط کرنے کا حکم دیا ۔عفان نے مصرچھوڑنے کا ارادہ کیااور تمام ماجرا سید علی ابن عبداللہ کو سنایا جو کہ نسب رسول تھے اور خانوادۂ سادات عظام کے چشم وچراغ تھے ۔سید علی بن عبداللہ ؒانہیں لے کر سیدہ نفیسہ کی تربت پر آئے اور قبر کے سامنے بیٹھ کر تلاوت کلام پاک شروع کی اور اس کا ہدیہ سیدہ نفیسہ کی بارگاہ میں پیش کیااور آپ کے توسل سے اور آپ کی جد سرکار دوعالم کے وسیلے سے بارگاہ ایزدی میں دعا کی کہ عفان کی تمام مشکلات دور ہو جائیں۔دعا کے دوران دونوں پر ہی نیند کا غلبہہوا۔عالم خواب میں انہوں نے سیدہ نفیسہ کو دیکھا جنہوں نے فرمایا،’’دونوںگورنر کے پاس جاؤ ،میں نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے ‘‘۔

دونوں بیدار ہوئے اور گورنر تقین کے پاس گئے جس نے انہیں حیرت انگیز احترام دیا اور کہا،’’سیدہ نفیسہ مجھے خواب میں حکم دے گئی ہیں کہ سید علی کے ساتھ نیکی اور سخاوت کا برتاؤ کرنا اور عفان کی تمام دولت اسے واپس کر دو ۔اس نے ہماری استعانت طلب کی ہے ‘‘۔پھرتقین نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی ،’’خداوند !مجھے معا ف فرماجو کچھ میں کرتا رہا‘‘اس نے عفان بن سلیمان کی دولت بھی واپس کر دی اور خزائن مملکت، غریب غرباء کی فلاح وبہبود کے لئے کھول دیئے ۔ وہ کہا کرتاتھا،’’تمام مصر مجھ سے خوفزدہ ہے اور میں عفان بن سلیمان کی سیدہ نفیسہ کی بارگاہ میں دعا سے خوفزدہ ہوں‘‘۔تاعمر وہ اپنی سابقہ زندگی پہ افسوس کرتا رہا اور وصیت کی کہ مجھے بیت المقدس میں دفن کیا جائے ۔بعد از وفات اسے بیت المقدس میں دفن کیا گیا ۔

امام شافعی کی عقیدت:

سیدہ نفیسہ کی بارگاہ میں اقطاب وقت ،فقہاء ،علماء،محدثین اور نامور صوفیاء حاضری دیتے اور آپ سے حدیث نبوی و تفسیر قرآنی کی سماعت کرتے ۔ان نامور صوفیاء وعلماء میںعثمان بن سعید المصری، ذوالنون مصری،مصری سمرقندی،ابوبکر الادفائی،ابوالحسن بن علی بن ابراہیم قابل ذکر ہیں۔ان میں اکثر صاحب تصنیف و تالیف ہیں اور سیدہ پاک کی بارگاہ سے حاصل کردہ فیضان کے ساتھ کئی جلدوں پر مشتمل کتب تفسیر القرآن واحادیث مرتب فرمائی ہیں۔

آپ کی مصر آمد کے پانچ سال بعدآپ کی محافل علم وعرفان کا سن کرا مام اہلسنت، ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی ،بغداد سے مصر تشریف لے آئے تا عمر آپ کی بارگاہ سے وابستہ رہے ۔قیام مصر ہی میں آپ نے اپنی کتب ترتیب دیں اور شافعیہ مکتب فکر کی بنیاد رکھی۔

بغدا د کے شافعی اور مصر کے شافعی میں انقلاب واقع ہوا اور یہ انقلاب سیدہ نفیسہ سے سماعت کردہ احادیث مبارکہ کے سبب تھا۔آپ نے ان امور پر اپنی کتاب ’’الام ‘‘میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔آپ نماز فجر کے بعد قرآن وتفسیر کا درس دیتے اور طلوع آفتاب کے بعد درس حدیث ہوتا۔

حدیث مبارکہ بیان فرما کر آپ شرح حدیث بیان کرتے جس کے بعد علم کلام اور ظہر سے قبل فقہ کا درس دیتے تھے ۔امام شافعی چھ گھنٹے متواتر دروس دیتے رہتے اور آپ کی تبحر علمی ،تجربات زندگی ،ممالک اسلامیہ کے وسیع سفراور دیگر جید علماء اسلام سے مکالمہ کے سبب مکتب شافعی دیگر مکاتب اسلامی سے ممتاز ہوتا گیا۔

آپ سیدہ نفیسہ کی بارگاہ سے بے حد عقیدت رکھتے تھے اکثرآپ کے آستانہ مقدسہ پر حاضری دیا کرتے اور احادیث مبارکہ سماعت فرمایا کرتے ۔آپ سیدہ نفیسہ کی درگاہ سے متصل مسجد میں نماز پڑھایا کرتے ۔تبحر علمی کے باوجود آپ خود کو سیدہ کا شاگرد شمار کرتے۔

جب بھی بیمار ہوتے تو اپنے دو شاگردوں ربیع الجیزی یا ربیع المرادی میں سے کسی ایک کو سیدہ نفیسہ کی خدمت میں بھیجتے ۔وہ سیدہ کی بارگاہ میں سلام عرض کرنے کے بعد عرض کرتے ،’’اے سیدہ !آپ کے چچا کے بیٹے شافعی بیمار ہیں اور آپ سے دعا کی درخواست کرتے ہیں‘‘۔

سیدہ کے دست مبارک دعا کے لئے اٹھتے اور آپ امام شافعی کے لئے دعا فرماتیں ،قاصد ابھی گھر نہ لوٹتا تھا کہ امام شافعی تندرست ہو جاتے۔

امام شافعی آخری مرتبہ بیمار ہوئے تو حسب عادت ایک شاگرد سیدہ کے پاس کرانے بھیجا ۔اس نے پہلے کی طرح عرض کیا کہ آپ کے چچا کا بیٹا شافعی بیمار ہے اور آپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتا ہے ۔یہ سن کر سیدہ نفیسہ نے قاصد سے فرمایا ،’’اللہ تعالیٰ،شافعی کو اپنی زیارت سے مشرف فرمادے ‘‘۔جب قاصد واپس آیا اور امام شافعی نے اسے دیکھا تو فرمایا،’’سیدہ نے کیا فرمایا ہے ؟‘‘۔قاصد نے عرض کیا کہ اسطرح فرمایا ہے ۔امام شافعی سمجھ گئے کہ وہ اس مرض میں وفات پا جائیں گے ۔آپ نے وصیت فرمائی کہ سیدہ نفیسہ ان کی نماز جنازہ میں شرکت فرمائیں۔

اختتام ماہ رجب ،204ھ میں امام شافعی نے انتقال فرمایا ۔لوگوں نے آپ کا جنازہ اٹھایا اور منطقہ الفسطاط میں سیدہ نفیسہ کے گھر کے پاس لے گئے ۔آپ نے مقتدی کی حیثیت سے امام شافعی کی نمازجنازہ ادا کی ۔امام شافعی کے شاگرد ابو یعقوب البویطی نے نماز جنازہ پڑھائی۔

امام شافعی کا جنازہ سیدہ نفیسہ کے گھر کے قریب سے مصر کے امیر سری بن حکم کے حکم سے گزارا گیا .سیدہ نے سری کو حکم دیا تھا کہ شافعی کی وصیت کی تکمیل کے لئے ان کا جنازہ آپ کے گھر کے قریب لایا جائے تا کہ وہ حسب وصیت ان کی نماز جنازہ ادا کر سکیں۔

علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ بعض صالحین جو امام شافعی کے جنازہ میں موجود تھے انہوں نے نماز جنازہ کے بعد یہ آواز سنی،’’اللہ تعالیٰ نے امام شافعی کے واسطے ہر اس شخص کو بخش دیاجس نے امام شافعی کی نماز جنازہ پڑھی اور شافعی کو سیدہ نفیسہ کا ان کی نمازجنازہ پڑھنے کی برکت سے بخش دیا‘‘۔

امام شافعی :

امام شافعی 760ء میں پیداہوئے اور 20جنوری820ء کو ساٹھ سال کی عمرمیں انتقال فرمایا۔آپ ہاشمی النسل تھے اور حضرت عبدالمطلب کی اولاد میں سے تھے ۔آپ کے مورث اعلیٰ کانام شافع تھا جس باعث شافعی کہلائے ۔آپ سواد اعظم کے چار بڑے مکاتب فکرمیں سے ایک کے امام ہیں۔آپ سیدہ نفیسہ بنت حسن سے احادیث مبارکہ سماعت فرما کر مؤدت اہلبیت اطہار کے قلزم میں غوطہ زن ہو گئےاور اس دوران آپ نے اپنی قلبی وروحی کیفیات کی جو عکاسی کی وہ آج تک اہل مؤدت ،پیران عظام اور سلاسل طریقت میںوظائف کے طور پراستعمال کئے جاتے ہیں۔ہزاروں درگاہوں اور روحانی آستانوں پہ آپ کے اشعار اور پند ونصائح آویزاں ہیں۔آپ بحرمؤدتِحیدرکرّار کے شناورتھے۔آپ فرماتے ہیں،

عَلِی حُبُّہُ جُنَّہْ قَسِیْمَ الْنَّارِ وَالْجَنَّہْ

وَصِیْ الْمُصْطفٰی حَقَّا اِمَام الْاِنْسِ وَالْجَنَّہْ

سیدنا علی کی محبت سپر ہے ،آتش جہنم سے بچانے کا کام دیتی ہے ،حضرت علی جنت ودوزخ کے تقسیم فرمانے والے ہیں۔

خدا کی قسم !آپ ہی حضرت محمد مصطفٰی کے وصی ہیں اور تمام انسانوں اور جنات کے امام ہیں۔

اہلبیت رسول اللہ کی شان بیان فرماتے کہتے ہیں،

یَا اَھْلَ بَیْتِ رَسُوْلَ اللّٰہِ حُبَّکُمْ فَرْضُ مّنَ اللّٰہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزَلَہْ

کَفَاکُمْ مِنْ عَظِیْمِ الْقَدْرِ اَنَّکُمْ مَنْ لَّمْ یُصَلّیْ عَلَیْکُمْ لَا صَلَوتَ لًہُ

اے اہلبیت رسول اللہ !آپ سے محبت رکھنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے جسے اللہ نے قرآن میں نازل کیا ہے ۔

آپ کی عظیم منزلت کی بلندی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو آپ پر درود نہ بھیجے اس کی نماز ہی نہیں ہوتی ۔

مولائے کائنات کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش فرماتے کہتے ہیں،

لَوْ اَنَّ الْمُرْتَضٰی اَبَدِیْ مَحِلَّہْ لَخَرَ الْنَّاسُ طَرّالِّسَجَدَ لَہُ.اگر مولا مرتضٰی اپنا مقام ومرتبہ واضح فرما دیتے تو لوگ آپ کو سجدہ کرنے پہ ٹوٹ پڑتے۔

ایک مقام پہ فرمایا،

کَفٰی فِیْ فَضْلِِِ مَوْلَانَا عَلِیْ وَ قُوْعَ الْشَّکّ ِاَنَّہُ اللّٰہْ

وَ مَاتَ الْشَّافَعِیْ وَلَیْسَ یَدْرِیْ عَلِیُ رَبُّہُ اَوْ رَبُّہُ اللّٰہْ

آپ کا یہ لازوال شعر ،کرۂ ارضی کے چپہ چپہ میں کسی سے پوشیدہ نہیں،ہزاروں پیران طریقت کا وظیفہ اور درگاہوں،درباروں،آستانوں اور مساجد کی زینت ہے ،

لِیْ خَمْسَۃُُاُطْفِیْ بِہَاحَرَّ الْوَبَائِ الْحَاطِمَہْ اَلْمُصْطفٰی وَالْمُرْتَضٰی ،اَبْنَاھُمَاوَالْفَاطِمَہْ

مصادر تحقیق:

۱۔معالم العترہ شیخ سلیمان حنفی قندوزی ،مفتی اعظم قسطنطنیہ

۲۔الکواکب السیارہ علامہ الازہری

۳۔نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار علامہ سید مومن بن حسن الشبلنجی

۴۔مشارق الانوار شیخ عبدا لرحمٰن الجہوری

۵۔المآثر النفیسہ مطبوعہ مصر

 

تبصرے
Loading...