سنت رسول(ص) کو لکھنے پر پابندی(پہلا حصہ)

سنت رسول(ص)کی پردہ پوشی کی ایک قسم اس کے لکھنے پر بابندی عائد کرنے کی روش ہے۔اس پابندی کی ابتداء عصر رسول(ص) سے شروع ہوئی کیونکہ قریش نے عبداللہبن عمر اور عمرو بن العاص کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث لکھنے سے منع کیا اور اس سے کہا: تم جو کچھ رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنتے ہو اسے لکھتے ہو حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں جو کبھی خوشی اور کبھی غصے سے مغلوب ہوکر بات کرتے ہیں۔

متن:

سنت رسول(ص)کی پردہ پوشی کی ایک قسم اس کے لکھنے پر بابندی عائد کرنے کی روش ہے۔اس پابندی کی ابتداء عصر رسول(ص) سے شروع ہوئی کیونکہ قریش نے عبداللہبن عمر اور عمرو بن العاص کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث لکھنے سے منع کیا اور اس سے کہا:

تم جو کچھ رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنتے ہو اسے لکھتے ہو حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں جو کبھی خوشی اور کبھی غصے سے مغلوب ہوکر بات کرتے ہیں۔

یہاں قریش سے مراد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہاجر صحابہ بھی ہیں۔یہی حضرات تھے جنہوں نے آپ(ص) کی زندگی کے آخری لمحوں میں آپ(ص)کو وصیت نہیں لکھنے دی تھی پھر جب رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وہ خود حکمران بن گئے تو انہوں نے حدیث رسول(ص) لکھنے پر پابندی لگادی۔حدیث لکھنے پر یہ پابندی عمربن عبدالعزیز کے دور تک جاری رہی۔عمربن عبدالعزیز نے یہ پابندی ختم کردی اور احادیث رسول(ص) کی تدوین کا حکم دیا۔رسول (ص) اللہ کی احادیث لکھنے پر پابندی کی داستان کی تفصیل اس کتاب کی دوسری جلد میں دونوں مکاتب فکر کے ہاں اسلامی شریعت کے ماخذ کی بحث میں آئے گی۔یاد رہے کہ اس سے قبل سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے پر بحث کے دوران رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی وصیت لکھنے سے روکنے کا قصہ گزرچکاہے۔

اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ ان صدیوں کے دوران رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو نہ لکھنے کی وجہ سے وصیت کے بارے میں کتنی ہی احادیث آپ(ص)کی سیرت کے دیگر گوشوں کے ساتھ طاق نسیاں کی نذر ہوچکی ہیں۔

بعض حکمرانوں نے سنت رسول(ص) کی تبلیغ پر پابندی لگادی۔ان کی مخالفت کرتے ہوئے جو شخص ایسی حدیث نقل کرتایا لکھتاجو ان کی پالیسیوں کے منافی ہوتو اس عمل کا نتیجہ معنوی قتل یاجسمانی قتل کی صورت میں نکلتا۔انشاء اللہ اس بارے میں ہم بعض مثالیں آئندہ صفحات میں پیش کریں گے۔

حکمرانوں کے نقائص بیان کرنے والےفرمودات رسول(ص) راویان حدی

ث اور کتب

احادیث کی حیثیت کو کمزور بنانے اورگاہے نظریاتی مخالفین کو قتل کرنے کی کوششیں

حکمرانوں کے عیوب بیان کرنے والے راویان حدیث اور کتب احادیث نیز حکمران طبقے کے نقائص کے بیان پر مشتمل روایات کی حیثیت کو کمزور بنانے کے سلسلے میں علماء کی کوششوں کو محقق حضرات گننے سے قاصر ہیں۔کبھی یہ لوگ اپنے نظریاتی مخالف عالم کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔

حقیقت کی پردہ پوشی کی اس ساتویں قسم کے بارے میں بحث کو طوالت سے بچانے کی خاطر ہم یہاں اس کی صرف چار مثالیں پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

ابن کثیر نے اس مقام پر جو اظہار خیال کیاہے یہاں اس کا خلاصہ پیش کیاجاتاہے۔وہ کہتے ہیں:بہت سے نادان شیعہ اور ناسمجھ قصہ گو اس بات کے دھوکے میں آگئے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کو خلافت کی وصیت کی تھی۔یہ بات جھوٹ،بہتان اور افتراء ہے۔یہ بات ایک عظیم غلطی کا موجب ہے کیونکہ اس کا لازمہ صحابہکو خائن سمجھنا اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت پر عمل درآمد نہ کرنے میں ان کو شریک جرم قرار دینا ہے۔آگے چل کر کہتے ہیں :

رہا پیشہ ور اور عوامانہ قصہ گوؤں کا آداب و اخلاق کے تذکرے میں یہ کہنا کہ علی(ع) وصی ہیں تو یہ سب بے سروپا باتیں ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ ادنیٰ درجہ کے بعض جاہلوں کی خود ساختہ باتیں ہیں۔ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

وہ موٴلفین جنہوں نے وصیت

 کے بارے میں احادیث نقل کیں

۱۔ امام احمد بن حنبل (متوفی ۲۴۱ھ)مناقب علی(ع)میں۔

۲۔امام المورخین طبری (متوفی ۳۱۰ھ)اپنی تاریخ میں۔

۳۔ امام المحدثین طبرانی (متوفی ۳۶۰ھ)اپنی معاجم میں۔

۴۔ ابو نعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰ھ)حلیة الاولیاء میں۔

۵۔ حافظ ابن عساکر شافعی (متوفی ۵۷۱ھ)تاریخ دمشق میں۔

یہ ہیں ابن کثیر کے بقول وہ نادان شیعہ اور ناسمجھ قصہ گو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان احادیث کے باعث دھوکہ کھاگئے ہیں جن میں وصیت کا تذکرہ ہے اور جنہیں انہوں نے اپنی کتابوں میں نقل کیاہے۔ان کے علاوہ دیگر صحابہوتابعینبھی (بقول ابن کثیر کے)ان روایات سے دھوکہ کھا گئے ہیں اور انہوں نے روایات کے ذریعے اپنے اشعار اور خطبوں میں استدلال کیاہے۔نیز ان سے دوسروں نے نقل کیاہے مثال کے طور پر زبیر بن بکار نے الموفقیات میں،طبری اور ابن اثیر نے اپنی تاریخوں میں،خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں،مسعودی شافعی نے مروج الذہب میں،حدیث کے قابل قدر امام حاکم نے المستدرک میں،ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں نے ان روایات کو نقل کیاہے۔

ہم نے جن چیزوں کا تذکرہ کیا ابن کثیر نے ا ن سب کی پردہ پوشی کی ہے بلکہ ہم نے جن چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان سے بھی زیادہ امور کی پردہ پوشی کی ہے حالانکہ اس دور کے علماء کے لیے ان حقائق تک دسترس حاصل تھی لیکن ان کی شدید پردہ پوشی اور لوگوں کی نظروں سے ان چیزوں کو مخفی رکھنے کے نتیجے میں ہم ان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ابن کثیر نے ان سب پر پردہ ڈالا ہے اور اپنی کتاب میں ان میں سے کسی چیز کا تذکرہ تک نہیں کیا۔

اس کے علاوہ ابن کثیر راویوں،روایتوں اور ان روایتوں پر مشتمل کتابوں کی حیثیت کو کمزور قرار دے کر اور ان کے ذریعے استدلال کرنے والوں کو بے وقوف ٹھہرا کر حقائق کو چھپانے کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ اس طریقے سے وہ چاہتے تھے کہ اگر اس کی چھپائی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز کسی دوسری کتاب سے کسی شخص کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس کی تصدیق نہ کرے۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں:

نادان شیعہ اور ناسمجھ قصہ گو اس چیز سے دھوکہ کھاتے ہیں الخ۔

یاد رہے کہ اس قسم کی پردہ پوشی کی مثالیں مکتب خلفاء کے علماء کے ہاں وافر مقدار میں ملتی ہیں۔حافظ ابن عبدالبر نے شعبی سے نقل کیاہے کہ اس نے حارث ہمدانی کے بارے میں کہا۔”مجھ سے حارث نے جو ایک کذاب تھا،کہا“ بعد ازاں حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں:

شعبی نے حارث کے کسی جھوٹ کی نشاندہی نہیں کی البتہ حضرت علی(ع) سے اس کی شدید محبت نیز دوسروں پر علی(ع) کو ترجیح دینے پر اس کی ملامت کی ہے۔محض اسی بنا پر شعبی نے حارث کو کاذب قرار دیاہے کیونکہ شعبی حضرت ابوبکر  کی افضلیت کا قائل ہے اور یہ عقیدہ رکھتاہے کہ مسلم اول ابوبکرہیں۔ ۱ 

ائمہ حدیث پر تنقید

حافظ کبیر امام المحدثین ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن محمد بن حمدویہ نیشاپوری جو ابن بیع کے نام سے معروف ہیں ۳۱۲ ئھ میں پیدا ہوئے اور ۴۰۵ ئھ میں رحلت کرگئے۔کمسنی میں ہی حدیث سیکھنی شروع کی اورراہی عراق ہوئے پھر حج کی سعادت حاصل کی اور خراسان و ماوراء النہر میں گھومے پھرے۔ انہوں نے تقریباً دوہزار استادوں سے روایات سنیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد تقریباً پانچ سو جلدوں تک جاپہنچی ہے۔ان کی تصانیف میں سے ایک”فضائل الشافعی“ہے۔کہتے ہیں کہ مشائخ حدیث انہیں یاد کیا کرتے تھے اور ان کے دور کے بڑے بڑے علماء انہیں اپنے اوپر مقدم رکھتے تھے نیز ان کے مرتبے کا خیال رکھتے تھے اور ان کا احترام سختی سے ملحوظ رکھتے تھے۔امام حاکم سے”حدیث طیر“کے بارے میں سوال ہوا تو جواب دیا:

یہ حدیث صحیح نہیں۔اگر صحیح ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علی(ع) سے افضل کوئی نہ ہوتا۔

پھر ذہبی کہتے ہیں:بعد میں حاکم کی رائے بدل گئی اور انہوں نے اپنی کتاب مستدرک میں نقل کیااور انہوں نے اس کتاب میں احادیث کو جمع کیاہے اور ان کا خیال ہے کہ میری روایات بخاری ومسلم کی شرائط پر پوری اترتی ہیں۔ ان روایات میں حدیث الطیر اورمن کنت مولاہ فھذا علی مولاہ والی حدیث بھی شامل ہے۔ محدثین نے اس بات پر ان کی سرزنش کی

ہے اور ان کے قول کو درخور اعتناء نہیں سمجھا ہے۔ رہی حدیث طیر تو اس کی بہت ساری اسناد ہیں

جن کو میں نے ایک الگ رسالے میں جمع کیاہے۔یہ اسناد مجموعی طور پر اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ حدیث حقیقت رکھتی ہے اور رہی من کنت مولاہ فعلی مولاہ والی حدیث تو اس کی اسناد بھی عمدہ ہیں۔ میں نے ان کو بھی الگ رسالے کی شکل میں جمع کیاہے۔ ۲  علامہ ذہبی کی مراد یہ ہے کہ انہوں نے من کنت مولاہ فعلی مولاہ والی حدیث کے بارے میں ایک الگ کتاب لکھی ہے۔

میرے محترم قارئین! من کنت مولاہ فعلی مولاہ والی حدیث کا تذکرہ انشاء اللہ آگے چل کر حضرت علی(ع)کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی احادیث کے ضمن میں ہوگا۔ رہی حدیث طیر توحضرت انساوردیگربہت سے صحابہروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنا ہوا پرندہ پیش کیا گیا۔پس آپ(ص) نے دعاکی

اے اللہ (رسول اللہ(ص) کے بعد)اپنے سب سے محبوب بندے کو میرے پاس لا تاکہ وہ میرے ساتھ مل کر اسے کھائے۔

پس علی(ع) آئے اور آپ نے حضور (ص)کے ساتھ مل کر کھایا۔یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی(ع) آپ(ص) کے بعد تمام لوگوں سے بہتر ہیں لیکن اس کے باوجود مکتب خلفاء کے پیرو کاروں نے اس حدیث کو نقل کرنے پر امام حاکم نیشا پوری وغیرہ کی سرزنش کی ہے۔

ہم نے احادیث کے باب میں اس کا تذکرہ نہیں کیا کیونکہ ہم یہاں حضرت علی(ع) کے فضائل بیان کرنے کا قصد نہیں رکھتے بلکہ ہم ان صریح روایات کا تذکرہ کریں گے جو حکومت پر آل رسول(ص)کے حق کو بیان کرتی ہیں۔

امام شافعی(متوفی ۲۰۴ھ)پر بھی رافضی ہونے کا الزام لگایاگیاتھا جیساکہ بیہقی نے نقل کیاہے چنانچہ خودامام شافعی نے اس سلسلے میں کہاہے:

قالو ترفضت قلت کلا

لکننی تولیت غیر شک

ان کان حب الولی رفضاً

 ماالرفض دینی ولا اعتقادی

 خیر امام وخیر ھادی

لوگوں نے مجھ سے کہا تم رافضی بن گئے ہو۔ میں نے کہا ہرگز نہیں۔ نہ میرا دین رافضیت کی اجازت دیتا ہے نہ میرے عقائد۔ ہاں بے شک میں بہترین امام اور بہترین رہبر سے محبت کرتاہوں۔ اگر ولی کی محبت سے کوئی رافضی بن جاتاہے تو بہ تحقیق میں سب سے بڑا رافضی ہوں۔

 امام شافعی نے یہ بھی کہاہے:

ان کان رفضاً حب آل محمد

 فلیعلم الثقلان انی رافضی

اگر آل محمد(ص) سے محبت رافضی بننے کا باعث ہے تو جن وانس گواہ ہیں کہ میں رافضی ہوں۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ امام شافعی  گاہے حقائق کو چھپانے پر مجبور ہوتے تھے چنانچہ وہ کہتے ہیں :

مازال کتما منک حتی کاننی

واکتم ودی مع صفاء مودتی

 لرد جواب السائلین لا عجم

 لتسلم من قول الوشاة واسلم

تجھ سے اپنی محبت چھپاتے چھپاتے میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ اب پوچھنے والوں کو جواب دیتے ہوئے میری زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ میری محبت خالص ہونے کے باوجود میں اسے چھپاتاہوں تاکہ چغل خوروں کی باتوں سے آپ بھی محفوظ رہیں اور میں بھی محفوظ رہوں ۳

اس باب میں ہم نے انکار حقیقت کی مختلف شکلوں کا جائزہ لیا جن میں راویوں کی حیثیت کو کمزور بنانے کی کوششوں سے لے کر ان پر رافضی اورشیعہ ہونے کے الزامات تک شامل ہیں جن کے باعث احادیث پر اعتماد باقی نہیں رہتا۔ استدلال کے معاملے میں انکار کی مختلف شکلوں سے زیادہ آسان راستہ کوئی نہیں ہے اور اس صورت میں حق کو ثابت کرنا سب سے مشکل کام ہے کیونکہ منکر کے لیے صرف یہ کہنا کہ ”یہ حدیث ضعیف،باطل اور جھوٹ ہے“ آسان ہے لیکن صاحب حق کے لیے حقیقت کو ثابت کرنے کی خاطر دلیل لانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے مقابلے میں منکر صرف انکار کرکے جان چھڑاتاہے۔ یہ انکار درحقیقت راویوں کو معنوی طور پر قتل کرنے کے مترادف ہے۔ بسا اوقات تو مکتب خلفاء کے مفادات کے برخلاف حقائق نقل کرنے والوں کو جسمانی طور پر قتل بھی کیا جاتا ہے ہم یہاں کتب صحاح ستہ میں سے ایک کے مولف کے ساتھ ہونے والے واقعے کی مثال پیش کئے دیتے ہیں۔

صحاح ستہ میں سے ایک کے موٴلف امام نسائی کے قتل کا واقعہ

 حافظ،شیخ الاسلام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی علم حدیث میں اپنے ہم عصروں کے امام تھے۔ان کی کتاب”سنن نسائی“علم و معرفت اور سندوں کی عمدگی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔امام نسائی مصر میں قیام پذیر ہوئے۔ وہ ہر دوسرے دن روزہ رکھتے تھے اور رات کی عبادت خوب کرتے تھے۔ وہ حاکم مصر کے ہمراہ جنگ کے لیے نکلے لیکن اس کی مجالس اور پرتکلف کھانوں سے دور رہے۔ اپنی زندگی کے اواخر میں حج کے لیے گئے اور دمشق پہنچ گئے۔ دمشق میں انہوں نے علی ابن ابی طالب(ع) اور اہل بیت کی فضیلت کے بیان میں ”الخصائص“نامی کتاب لکھی۔ اس کتاب کی اکثر روایات احمد بن حنبل سے مروی ہیں۔ چنانچہ لوگوں نے اس معاملے میں ان کی سرزنش کی۔ وہ کہتے ہیں

میں نے دمشق میں آکر دیکھا کہ یہاں علی(ع)کو نہ ماننے والوں کی بڑی تعداد ہے۔بنابریں میں نے کتاب ”الخصائص“اس امید سے لکھی کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے انہیں ہدایت دے گا۔

لوگوں نے ان سے پوچھا:

کیا آپ معاویہ کے فضائل نقل نہیں کریں گے؟

انہوں نے کہا:کون سی فضیلت بیان کروں ؟کیااللھم لا تشبع بطنہ (خدایا اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کر)والی حدیث بیان کروں ؟

پس سائل خاموش ہوگیا ان سے معاویہ اور اس کے فضائل کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے جواب دیا:

کیاوہ معاویہ کو افضل قرار دیے بغیر برابری پر راضی نہ ہوگا؟

یہ سن کر لوگو ں نے مکوں اور ٹھوکروں سے ان کی خبر لی یہاں تک کہ انہیں گھسیٹ کر مسجد سے باہر کردیا اور بیاباں میں چھوڑ دیا

دارقطنی کہتے ہیں:

وہ دمشق میں ۳۰۳ھء میں گرفتار بلا ہوکر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔

سنت رسول(ص) کی راہ میں نہ صرف نسائی کو ہی اذیت رسانی اور قتل سے دوچار ہونا پڑا بلکہ حضرت ابوذرجیسے صحابی کوبھی ان مصائب کا سامنا ہوا جن کا تذکرہ سنت رسول(ص) کی پردہ پوشی کی باقی ماندہ اقسام کی بحثوں کے دوران جلد ہی آئے گا ایسے علماء کی تعداد کم نہیں جو اس راہ میں قتل کیے گئے۔ان میں سے بعض کا ذکر علامہ امینی نے اپنی کتاب شہداء الفضیلہ میں کیاہے۔

ان حالات میں کون اس بات کی جرات کرسکتا تھا کہ آل رسول(ص) کی شان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول احادیث بیان کرے؟حکومت پر آل رسول(ص) کے حق سے مربوط احادیث کے ذکر کی تو بات ہی اور ہے۔

ان تمام مشکلات کی موجودگی میں سنت رسول(ص)کی نشرواشاعت کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ تھا مکتب خلفاء کی مخالفت کرنے والوں اور ان کے مفادات کے خلاف حدیث نقل کرنے والوں اور کتاب لکھنے والوں کے انجام کا تھوڑا سا تذکرہ۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کے انجام کی طرف اشارہ کریں گے جن میں ایسے گوشوں کا ذکر تھا جو مکتب خلفاء کی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہ تھے۔

کتابوں اورکتب خانوں کو جلانے کا عمل

حقیقت کی پردہ پوشی کے طریقوں میں سے ایک ان کتابوں کو آگ لگانے کاعمل تھا جن میں سنت رسول اور سیرت رسول کے ایسے گوشے ہوں جن کی نشرواشاعت مکتب خلفاء کو ناپسند ہو۔

اموی حکمران سلیمان بن عبدالملک اپنی ولی عہدی کے دور میں حج کے سلسلے میں مدینہ سے گزرا۔اس نے ابان بن عثمان کو حکم دیا کہ وہ اس کے لیے رسول اللہ(ص) کی سیرت اور جنگوں کا حال لکھے۔ اباننے کہا:

وہ تو میرے پاس موجود ہے۔ میں نے اسے قابل وثوق فرد سے تصحیح شدہ حالت میں حاصل کیاہے۔

سلیمان نے دس افراد کو نسخہ برداری کاحکم دیا۔انہوں نے اسے نازک چمڑے پر لکھا۔ جب اس کے پاس کتاب لائی گئی تو اس نے اس میں عقبہ کی دو بیعتوں میں انصار کی موجودگی کا ذکر دیکھا(اس کی مراد بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ ہے)نیز جنگ بدر کے واقعے میں بھی انصار کا تذکرہ دیکھا۔ یہ دیکھ کر سلیمان نے کہا:

میں نہیں سمجھتا تھا کہ ان لوگوں کا یہ مرتبہ ہوگا۔پس یا تو میرے گھرانے (یعنی اموی خلفاء)نے ان کو ناحق بدنام کیاہے یاوہ ایسے نہیں تھے۔

یہ سن کر ابانبن عثمان نے کہا:

اے امیرشہید مظلوم (عثمان بن عفان)کو تنہا چھوڑ کران لوگوں نے جو کچھ کیاہے ان کابہانہ بناکر ہم حق کو چھپانہیں سکتے۔ ان کے بارے میں اس کتاب میں ہم نے جوکچھ لکھاہے وہ حقیقت ہے۔

سلیمان نے کہا:

جب تک میں امیرالمومنین (عبدالملک ) سے اس کا ذکر نہ کروں مجھے اس کی کوئی اجازت نہیں ہے۔شاید وہ اس کی مخالفت کریں۔

پھر اس کے حکم سے وہ کتاب جلائی گئی۔واپس آکر اس نے اپنے باپ کو یہ واقعہ سنایا۔ عبدالملک نے کہا:

تجھے کیاضرورت پڑی ہے کہ جس کتاب میں ہماری کوئی فضیلت بیان نہیں ہوئی ہے اسے پیش کرتے پھرو۔ تم اہل شام کو ان چیزوں سے آگاہ کرناچاہتے ہوجن سے ان کی آگاہی ہمیں منطور نہیں۔

سلیمان نے کہا:

اسی لیے میں نے جوکچھ لکھوایاتھا اسے جلانے کا حکم دیاہے تاکہ امیرالمومنین کی رائے معلوم کرا لو ں۔

عبدالملک نے سلیمان کی رائے کودرست قرار دیا۔ ۴

ملاحظہ فرمائیے کہ خلفائے مسلمین اور ان کے ولی عہد کس طرح سے تعلیمات رسول(ص) پر مشتمل کتابوں کو جلانے کا حکم دیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو ان کے مفادات سے متصادم امور کا علم نہ ہوسکے۔ بلکہ بعض حکمرانوں نے تو اس سے بھی سنگین تر اقدام کرتے ہوئے ایسے کتاب خانوں کو جلاکر راکھ کردیاہے جن میں ان کی پالیسیوں سے متصادم احادیث رسول(ص) پر مشتمل کتابوں کے ذخائر موجودتھے۔ بطور نمونہ ہم ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

حوالہ جات

۱ جامع بیان العلم وفضلہ ج۲ صفحہ ۱۸۹

۲ تذکرة الحفاظ صفحہ ۱۰۳۹ تا ۱۰۴۵

۳ الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۳۱ طبع قاہرہ ۱۳۷۵ئھ، ابن صباغ مالکی متوفی۸۵۵ئھ نے اپنی تصنیف”الفصول المھمد“ میں بھی امام شافی کے ان اشعار کو نقل کیا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تبصرے
Loading...