سقيفه كے حقائق کا پہلا حصہ

 

“سقيفہ” لغت ميں چھت دار چبوترہ كو كہتے ھيں يہ مدينہ كے ايك گوشہ ميں ايك امكان تھا جس كي بڑي چھت تھي اور يہ مكان بنو ساعدہ بن كعب خزرجي كا تھا اسي وجہ سے سقيفہ بني ساعدہ كے نام سے مشھور تھا۔ انصار اس مكان ميں جو ايك مجلس مشاورت كي حيثيت ركھتا تھا اپنے فيصلوں كے لئے جمع ھوئے تھے 1

پيغمبر اسلام (ص) كي رحلت كے بعد انصار كا ايك گروہ جس ميں اوس و خزرج 2 دونوں ھي شامل تھے يہاں جمع ھوئے تاكہ پيغمبر اسلام (ص) كي خلافت كے سلسلے ميں كوئي چارہ جوئي كريں 3 ۔

انصار كيوں اور كس مقصد كے تحت وھاں جمع ھوئے؟ كيا تقريريں ھوئيں اور ان كا نتيجہ كيا نكلا؟ يہ تمام موضوعات ايسے ھيں جن كے بارے ميں اس كتاب ميں تفصيلي بحث كي گئي ھے۔

قابل غور بات يہ ھے كہ يہ واقعہ ايك اچھي خاصي اھميت كا حامل تھا اور ھے اور بہت سے مورخين كي توجہ كا مركز بنا رھا اس كے باوجود محدثين نے اس اھم واقعہ كے فقط چند پہلوؤں كے بيان پر ھي اكتفا كي ھے ليكن ابو مخنف ان راويوں ميں سے ايك ھيں جنہوں نے اس واقعہ كي باريكيوں كو تفصيل سے بيان كيا بلكہ سقيفہ كے موضوع پر ايك پوري كتاب بھي لكھى 3 ليكن ھمارے پاس اس كتاب كا فقط وہ حصہ موجود ھے جو تاريخ طبري ميں نقل ھوا ھے۔

اس كتاب ميں ھماري كوشش ھے كہ ابو مخنف (جو تاريخ اسلام كے ايك عظيم اور باريك بين محدث ھيں) كے تعارف كے ساتھ ساتھ واقعۂ سقيفہ كے بارے ميں ان كي اھم روايت پر محققانہ اور منصفانہ نظر كي جائے نيز معتبر تاريخي كتابوں سے متن روايت كو پيش كريں اور حاشيہ پر مآخذ و منابع كا ذكر كرتے ھوئے دوران بحث ھر قسم كي جانبداري اور بے بنياد باتوں سے پرھيز كريں۔

مصنف نے اپني كم علمي كے باوجود بے حد كوشش كي ھے كہ واقعہ سقيفہ كے بارے ميں زيادہ سے زيادہ معتبر كتابوں كا سہارا ليا جائے، اور ھر مسئلہ ميں طرفين كے نظريہ اور تنقيد كو بيان كرتے ھوئے ايك خاص نظر پيش كي جاتي۔

اميد ھے كہ اس كتاب كے اسلوب تحرير سے تاريخ ميں ايك نئے باب كا اضافہ ھوگا، جسے “اجتہادي تاريخ” كے نام سے ياد كيا جاسكتا ھے۔

آخر ميں خدا كے شكر كے بعد تمام ان افراد كي قدر داني كو ضروري سمجھتا ھوں جنہوں نے ميري تعليم و تربيت ميں مؤثر كردار ادا كيا بالخصوص اپنے محترم والدين، بھائى، اساتذہ نيز جناب ڈاكٹر صادق آئينہ وند اور حجة الاسلام والمسلمين رسول جعفريان كا شكر گزار ھوں جنہوں نے اس كتاب كي تخليق ميں ميري رھنمائي فرمائي۔

جليل تارى۔ 1423 ھجرى

 تمہيدات

ابو مخنف كا تعارف

كيونكہ ھم سقيفہ سے متعلق ابو مخنف كي روايت كے بارے ميں گفتگو كريں گے لھٰذا ضروري ھے كہ سب سے پہلے ان سوالات كا مختصر جواب دے ديا جائے جن كا قارئين كے ذہن ميں ابھرنے كا امكان ھے، مثال كے طور پر ابو مخنف كون تھے؟ كس دور ميں تھے؟ شيعہ اور سني علماء ان كے بارے ميں كيا نظريہ ركھتے ھيں ان كا مذہب كيا تھا؟ كتاب كا يہ حصہ انہيں سوالات كے جوابات پر مشتمل ھے۔

ابو مخنف كون تھے؟

ابو مخنف كا نام، لوط بن يحيٰ بن سعيد بن مخنف 5 بن سُليم ازدي 6 ھے ان كا اصلي وطن كوفہ ھے اور ان كا شمار دوسري صدي ھجري كے عظيم محدثين اور مورخين ميں ھوتا ھے۔ انہوں نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت كے بعد سے اموي حكومت كے آخري دور تك كے اھم حالات و واقعات پر كتابيں لكھيں، جيسے كتاب المغازى، كتاب السقيفہ، كتاب الردہ، كتاب فتوح الاسلام، كتاب فتوح العراق، كتاب فتوح خراسان، كتاب الشوريٰ، كتاب قتل عثمان، كتاب الجمل، كتاب صفين، كتاب مقتل أمير المؤمنين كتاب مقتل الحسن (عليہ السلام) كتاب مقتل الحسين (عليہ السلام) و ۔ ۔ ۔

جو مجموعي طور پر اٹھائيس كتابيں ھيں اور ان كي تفصيل علم رجال كي كتابوں ميں موجود ھے 7۔ ليكن ان ميں سے اكثر كتابيں ھماري دسترس ميں نھيں ھيں البتہ ان كتابوں كے كچھ مطالب ان كے بعد لكھي جانے والي كتابوں ميں روايت ابي مخنف كے عنوان سے موجود ھيں مثلاً تاريخ طبرى8 ميں ابو مخنف سے مجموعي طور پر پانچ سو سے زيادہ روايتيں موضوعات پر نقل ھوئي ھيں اور ان نقل شدہ روايات ميں سے اكثر كا تعلق كہ جو تقريباً ايك سو چھبيس روايتيں ھيں حضرت علي عليہ السلام كے دوران حكومت كے حالات و واقعات سے ھے۔ ايك سو اٹھارہ روايتيں واقعۂ كربلا اور ايك سو چوبيس روايتيں حضرت مختار كے قيام كے بارے ميں ھيں۔

صدر اسلام ميں رونما ھونے والے واقعات كے بارے ميں ابو مخنف كي روايات اس قدر دقيق، مفصّل اور مكمل جزئيات كے ساتھ ھيں جو ھر قسم كے تعصب سے دور ھونے كے علاوہ ھر واقعہ كے پہلوؤں كي طرف قارئين كي رھنمائي كرتي ھيں يہاں تك كہ اس كے بعد لكھي جانے والي شيعہ اور سني تاريخي كتابوں نے ان كي روايات سے كافي استفادہ كيا ھے اور روايت كے ذكر كے ساتھ ساتھ اس پر مكمل اعتماد كا اظہار بھي كيا ھے۔

ابو مخنف كا دور

اگر چہ ان كي تاريخ ولادت معلوم نہيں ھے ليكن ان كي تاريخ وفات عام طور سے سن 157 ھجري قمري نقل كي گئي ھے ان كي تاريخ ولادت معلوم نہ ھونے كي وجہ سے بعض علماء رجال غلط فہمي كا شكار ھوئے ھيں۔ بعض نے انہيں امام علي عليہ السلام، امام حسن عليہ السلام، اور امام حسين عليہ السلام كا صحابي كہا ھے، جب كہ بعض علماء نے انہيں امام جعفر صادق عليہ السلام كا صحابي جانا ھے، جيسا كہ شيخ طوسي عليہ الرحمہ 9 نے “كشّى” سے نقل كيا ھے كہ ابو مخنف امام علي عليہ السلام امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام كے اصحاب ميں سے ھيں۔ ليكن ان كا خود يہ نظريہ نہيں ھے بلكہ ان كا كہنا ھے كہ ابو مخنف كے والد “يحييٰ” امام علي عليہ السلام كے صحابي تھے جب كہ خود ابو مخنف (لوط) نے آپ كا زمانہ نہيں ديكھا ھے۔

شيخ نجاشي كا كہنا ھے كہ ابو مخنف امام صادق عليہ السلام كے اصحاب ميں سے ھيں 10 اور يہ بھي كہا گيا ھے كہ انہوں نے امام محمد باقر عليہ السلام سے بھي روايت نقل كي ھے۔ مگر يہ قول صحيح نہيں ھے شيخ نجاشي كے قول كے مطابق ابو مخنف صرف امام صادق عليہ السلام سے روايت نقل كرتے تھے اور آپ كے اصحاب ميں سے تھے اور انہوں نے امام محمد باقر عليہ السلام سے كوئي روايت نقل نہيں كي چہ جائيكہ وہ امام علي عليہ السلام سے روايت نقل كرتے۔ تمام شواھد و قرائن شيخ نجاشي كے قول كي تصديق كرتے ھيں اس لئے كہ

1۔ تاريخ طبرى ميں ابو مخنف كي جو روايت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل ھوئي ھے وہ بغير كسي واسطہ كے ھے جب كہ امام محمد باقر عليہ السلام سے ان كي روايت ايك واسطہ كے ساتھ نقل ھوئي ھے 11۔

2۔ حضرت امام علي عليہ السلام كے خطبات اور حضرت فاطمہ زھرا (س) كے خطبہ سے متعلق ابو مخنف كي روايت دو واسطوں كے ذريعہ نقل ھوئي ھے 12۔

3۔ اگر ابو مخنف كي تاريخ وفات كو ملحوظ نظر ركھا جائے جو 157ھجري ھے اور يہ كھا جائے كہ انہوں نے امام علي عليہ السلام كا زمانہ بھي ديكھا ھے (يعني كم از كم وہ اس دور ميں شعور ركھتے تھے) تو ايسي صورت ميں وفات كے وقت ان كي عمر تقريباً ايك سو تيس سال ھوجائے گي13 جب كہ كسي راوي نے بھي اس قسم كي بات كا تذكرہ نھيں كيا ھے۔

يہ تمام قرائن شيخ نجاشي كے قول كے صحيح ھونے كي دليل ھيں كہ وہ امام جعفر صادق عليہ السلام كے اصحاب ميں سے تھے اور آپ ھي سے روايت كرتے تھے۔

ليكن كتاب “الكافى” 14 ميں ابو مخنف كي ايك روايت بغير كسي واسطہ كے حضرت امام علي عليہ السلام كے دور حكومت سے متعلق نقل ھوئي ھے۔ اس حديث ميں ان كا بيان ھے كہ شيعوں كا ايك گروہ امير المومنين عليہ السلام كے پاس آيا۔ ۔ ۔ ليكن يہ حديث ھرگز يہ ثابت نہيں كرتي كہ وہ حضرت علي عليہ السلام كے دور ميں تھے۔ اس لئے كہ ممكن ھے يہ حديث “مرسلہ” 15 ھو جو بات يقيني ھے وہ يہ كہ ابو مخنف كے پر دادا “مخنف بن سليم” رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور حضرت علي عليہ السلام كے اصحاب ميں سے تھے 16 اور آپ كي طرف سے شہر اصفہان كے گورنر مقرر ھوئے 17 اور جنگ جمل كے دوران حضرت علي عليہ السلام كي فوج ميں قبيلہ ازد كے دستہ كي سالاري كے فرائض انجام ديتے ھوئے اس جنگ ميں شہادت كے درجہ پر فائز ھوئے۔

سوانح حيات سے متعلق اكثر كتابوں كے مطابق ان كي شہادت جنگ جمل ميں ھوئي مثلاً “الكني والالقاب” شيخ عباس قمي “الذريعہ” آقا بزرگ تہرانى، “اعلام” زركلي اور اسي طرح “تاريخ طبرى” 18ميں ابو مخنف كي روايت اسي چيز پر دلالت كرتي ھے، ليكن اسي تاريخ طبرى 19 ميں مخنف بن سليم كي ايك روايت واقعہ صفين سے متعلق نقل ھوئي ھے جو اس بات سے تناسب نہيں ركھتي كہ وہ جنگ جمل ميں شہيد ھوئے تھے۔

اس نكتہ كي طرف اشارہ كرنا ضروري سمجھتا ھوں كہ شيخ طوسي عليہ الرحمہ نے اپني كتاب “رجال” اور “فہرست” 20 ميں ابو مخنف كے والد كا ذكر كرتے ھوئے فرمايا ھے كہ آپ حضرت علي عليہ السلام كے صحابي تھے جب كہ جو چيز مسلم ھے وہ يہ كہ ابو مخنف كے والد يحييٰ حضرت علي عليہ السلام كے صحابي نہ تھے بلكہ آپ كے پردادا حضرت كے اصحاب ميں سے تھے لھٰذا يہ بات قابل توجہ ھے كہ مخنف بن سليم، ابو مخنف كے نہ والد ھيں اور نہ دادا جيسا كہ بعض افراد ان كے بارے ميں غلط فہمي كا شكار ھوگئے ھيں اور انہيں ابو مخنف كا دادا كہا ھے 21 جب كہ وہ ابو مخنف كے پردادا ھيں۔

ابو مخنف شيعہ اور سني علماء كي نظر ميں

اھل تشيع كي علم رجال سے متعلق كتابوں سے يہ بات روشن ھے كہ ابو مخنف ايك قابل اعتماد شخص تھے، شيخ نجاشي ان كے بارے ميں كہتے ھيں كہ ابو مخنف كوفہ كے بزرگ راويوں كے شيوخ (اساتذہ) ميں سے ھيں ان كي روايت پر اعتماد كيا جاسكتا ھے 22 شيخ طوسي 23 نے اپني علم رجال كي كتاب ميں انہيں امام جعفر صادق عليہ السلام كا صحابي كہا ھے شيخ عباس قمي نجاشي جيسي عبارت نقل كرنے كے بعد فرماتے ھيں ابو مخنف عظيم شيعہ مورخين ميں سے ايك ھيں نيز آپ فرماتے ھيں كہ ابو مخنف كے شيعہ مشھور ھونے كے باوجود طبرى، اور ابن اثير 24، جيسے علماء اھل سنت نے ان پر اعتماد كيا ھے، آقا بزرگ تہرانى نجاشي كي چند عبارتيں نقل كرنے كے بعد فرماتے ھيں “ان كے شيعہ مشہور ھونے كے باوجود علمائے اھل سنت جيسے طبري اور ابن اثير نے ان پر اعتماد كيا ھے بلكہ ابن جرير كي كتاب تاريخ الكبير 25 تو ابو مخنف كي روايات سے پُر ھے۔ آية اللہ خوئي نے بھي انہيں ثقہ كہا ھے اور شيخ طوسي (رح) سے ابو مخنف تك جو سند ھے اسے آپ نے صحيح جانا ھے 26۔

ليكن بعض علماء اھل سنت نے ان كے شيعہ ھونے كا ذكر كرتے ھوئے ان كي روايت كو متروك قرار ديا ھے اور بعض افراد نے ان كے شيعہ ھونے كا ذكر كئے بغير ان كي روايت كو ضعيف كہا ھے جيسا كہ يحييٰ بن معين كا كہنا ھے “ابو مخنف ليس بشئ 27 يعني ابو مخنف قابل اعتماد نہيں ھيں) اور ابن ابي حاتم نے يحيي بن معين كا قول نقل كيا ھے كہ وہ ثقہ نہيں ھيں 28 اور دوسروں سے بھي اس بات كو نقل كيا ھے كہ وہ “متروك الحديث” ھيں 29۔

ابن عدي يحييٰ بن معين كا قول نقل كرنے كے بعد كہتا ھے كہ گذشتہ علماء بھي اسي بات كے قائل ھيں، (يوافقہ عليہ الائمہ) اس كے بعد وہ كہتا ھے كہ ابو مخنف ايك افراطي قسم كے شيعہ ھيں، ان كي احاديث كي سند نہيں ھے ان كي احاديث كي سند نہيں ھے ان سے ايسي ناپسنديدہ اور مكروہ روايات نقل ھوئي ھيں جو نقل كرنے كے لائق نہيں 30۔

ذھبي كا كہنا ھے كہ وہ متروك ھيں 31 اور دوسري جگہ پر كہا ھے كہ ابو مخنف نے مجھول افراد سے روايت نقل كي ھے 32 دار قُطني كا قول ھے كہ ابو مخنف ايك ضعيف اخباري ھيں 33 ابن حجر عسقلاني كا كہنا ھے كہ ان پر اطمينان نہيں كيا جاسكتا ھے پھر بعض علماء كا قول نقل كرتا ھے كہ ابو مخنف قابل اعتماد اور مورد اطمينان نہيں ھيں 34۔

ليكن ابن نديم كا ان كے بارے ميں كہنا ھے كہ ميں نے احمد بن حارث خزار كے ھاتھ سے لكھي ھوئي تحرير ميں ديكھا ھے كہ علماء كا كہنا ھے، كہ ابو مخنف كي عراق اور اس كي فتوحات سے متعلق روايات سب سے زيادہ اور سب سے بہتر ھيں، جس طرح سے خراسان، ھندوستان اور فارس كے بارے ميں مدائنى، حجاز و سيرت كے بارے ميں واقدى، اور شام كي فتوحات كے بارے ميں ان تينوں كي معلومات يكساں ھيں 35 يہ عبارت ياقوت حموي نے بھي اپني كتاب “معجم الادباء” ميں ذكر كي ھے، 36 مجموعي طور پر اكثر علماء اھل سنت نے يحييٰ بن معين كے قول كا سہارا لے كر ابو مخنف كو غير ثقہ قرار ديا ھے۔

البتہ ابو مخنف كے بارے ميں ابن نديم اور حموي نے جس حقيقت كا اظھار كيا ھے اس كي وجہ سے

ان كے قول كے متروك ھونے كے باوجود اھل سنت كے برجستہ علماء نے ان سے روايات نقل كي ھيں اور شايد عراق كے وہ حالات و واقعات جو تاريخ اسلام كے عظيم تحولات كا سبب ھيں ان تك ابو مخنف كي روايات كے بغير دسترسي ناممكن ھے، لھٰذا علماء اھل سنت كے نظريات كے سلسلے ميں اس بات كو نظر انداز نہيں كيا جاسكتا كہ شايد ان كے نزديك ابو مخنف كے متروك ھونے كي وجہ وھي ھو جو ابن عدي نے اپنے كلام كے آخر ميں كہي ھے اور وہ يہ كہ ابو مخنف كي روايات ميں ايسے واقعات كا ذكر ھے كہ جو بعض افراد پر گراں گزرتے ھيں كيونكہ وہ واقعات ان كے مفروضہ عقائد اور نظريات سے مطابقت نہيں ركھتے۔

ابو مِخنف كا مذھب

ابو مخنف كے مذھب كے بارے ميں اقوال ھيں:

شيخ طوسي كا اپني كتاب “فہرست” ميں اور نجاشي كا اپني كتاب “رجال” ميں ان كے مذھب كے بارے ميں كوئي رائے پيش نہ كرنا ان كے شيعہ ھونے كي طرف اشارہ ھے جيسا كہ بيان كيا جاچكا ھے كہ شيخ عباس قمي اور آقا بزرگ تہرانى نے واضح طور پر ان كے شيعہ ھونے كو بيان كيا ھے بلكہ يھاں تك كہا ھے كہ ان كا شيعہ ھونا مشھور ھے ليكن آقا خوئي نے اپني كتاب “معجم رجال الحديث” ميں ان كے شيعہ يا غير شيعہ ھونے كو بيان كئے بغير انہيں ثقہ كہا ھے۔

اكثر علماء اھل سنت نے ان كے شيعہ ھونے كے بارے ميں كوئي اشارہ نہيں كيا يہاں تك كہ ابن قتيبہ اور ابن نديم نے شيعہ افراد كے لئے ايك الگ باب تحرير كيا ھے ليكن ابو مخنف كے نام كا وھاں ذكر نہ ھونا ان كے غير شيعہ ھونے كو ظاھر كرتا ھے 37 علماء اھل سنت ميں سے ابن ابي الحديد وہ ھے جو اس بات كا قائل ھے كہ ابو مخنف كا شمار محدثين ميں ھوتا ھے اور وہ امامت پر اعتقاد ركھتے تھے۔ ليكن ان كا شمار شيعہ راويوں ميں نہيں ھوتا 38 صاحب قاموس الرجال اقوال پر تنقيد كرنے كے بعد فرماتے ھيں كہ ابو مخنف كي روايت ان كے متعصب نہ ھونے كي وجہ سے قابل اعتماد ھے ليكن ان كے شيعہ ھونے كے بارے ميں كوئي رائے پيش نہيں كي جاسكتي 39۔

لھٰذا ان كے مذھب كے بارے ميں بحث كرنے كا كوئي خاص عملي فائدہ نہيں ھے ليكن اگر ابو مخنف كي روايات پر غور و فكر كيا جائے جو اكثر سقيفہ، شوريٰ، جنگ جمل، جنگ صفين، مقتل امام حسين عليہ السلام سے متعلق ھيں تو آپ اس نتيجہ پر پہنچيں گے كہ وہ شيعي افكار كے مالك تھے، البتہ ممكن ھے كہ ان كي روايات ميں بعض مطالب ايسے پائے جاتے ھوں جو كامل طور پر شيعہ عقيدہ كے ساتھ مطابقت نہ ركھتے ھوں ليكن ھميں چاھيے كہ ھم ابو مخنف كے دور زندگي كو بھي پيش نظر ركھيں كيونكہ بعض اوقات ائمہ معصومين عليھم السلام بھي تقيہ كي وجہ سے ايسے مطالب بيان كرتے تھے جو اھل سنت كے عقيدہ كے مطابق ھوا كرتے تھے اور يہ بات بھي قابل غور ھے كہ وہ ايك معتدل شخص تھے جس كي وجہ سے اھل سنت كي اكثر كتابوں ميں ان كي روايات كا مشاھدہ كيا جاسكتا ھے۔

بہر حال تاريخ ابو مخنف كي عظمت غير قابل انكار ھے اور شيعہ و سني تمام مورخين نے ان سے كافي استفادہ كيا ھے اور چونكہ تمام شيعہ علماء نے انہيں ثقہ جانا ھے اور ان كي روايت پر اعتماد كا اظھار كيا ھے لھٰذا ان كي روايات كے مضامين پر غور و فكر كرنے سے صدر اسلام كے بہت سے اھم حالات و واقعات كي صحيح نشاندھي كي جاسكتي ھے۔

روايت ابي مخنف كي تحقيق كا طريقۂ كار

ابو مخنف كي روايات كے متن كے صحيح يا غلط ھونے كے بارے ميں فيصلہ كرنا آسان كام نہيں ھے كيونكہ ابو مخنف كو تاريخي روايات نقل كرنے والوں ميں ايك بنيادي حيثيت حاصل ھے لھٰذا دوسري روايات كے پيش نظر ان كي روايت كے صحيح يا غلط ھونے كا فيصلہ نہيں كيا جاسكتا اس لئے كہ تاريخ كے تمام راوي جيسے ھشام كلبى، واقدى، مدائنى، ابن سعد وغيرہ يہ سب ان كے دور كے بعد سے تعلق ركھتے ھيں اور اسي كے مرھون منت ھيں۔

كافي غور و فكر اور جستجو كے بعد اس كتاب ميں تحقيق كا جو طريقۂ كار اپنايا گيا ھے وہ كچھ اس طرح ھے كہ سب سے پھلے ابو مخنف كي اس روايت كے مضمون كو تاريخ كي اھم كتابوں سے، جو تاريخ طبرى سے پہلے اور اس كے بعد لكھي گئي ھيں نيز خود تاريخ طبرى كي متعدد روايات سے اس كا موازنہ كيا جائے اس كے بعد تمام قرائن و شواھد كي روشني ميں اس كے صحيح يا غلط ھونے كا فيصلہ كيا جائے، اس سلسلے ميں جن كتابوں سے استفادہ كيا گيا ھے وہ تاريخ كي معتبر، معروف و مشھور كتابيں ھيں جن ميں سے اكثر كتابيں اھل سنت كي ھيں۔ ھم آپ كي معلومات كے لئے ان كتابوں كے نام كے ساتھ ساتھ ان كا مختصر تعارف كرانا بھي ضروري سمجھتے ھيں 40

البتہ اس سے پہلے كہ تاريخ طبرى سے پہلے لكھي جانے والي كتابوں كا تعارف كرايا جائے سب سے پہلے خود تاريخ طبرى كا تعارف پيش كرتے ھيں كيونكہ يہ ھماري بحث كا محور ھے اور تاريخ كي ايك جامع كتاب ھے۔

تاريخ طبرى:

اس كتاب كا نام “تاريخ الامم والملوك يا تاريخ الرسل والملوك” ھے جس كے مولف ابو جعفر محمد بن جرير طبري ھيں وہ 224 ھجري ميں آمل طبرستان (مازندران: ايران كا ايك شہر) ميں پيدا ھوئے اور تحصيل علوم كے سلسلے ميں مقامات كا سفر كيا پھر بغداد ميں سكونت اختيار كرلي اور 310 ھجري ميں وھيں انتقال كر گئے 41۔

آپ كا شمار فقہ، تفسير اور تاريخ كے عظيم علماء ميں ھوتا تھا خاص طور پر آپ كي تاريخ اور تفسير كي كتابيں تو علماء اھل فن كي توجہ كا مركز رھي ھيں۔

طبري نے اپني كتاب ميں اكثر روايات اپنے سے پہلے والے راويوں سے نقل كي ھيں اور طبري كے پاس ان كے ما قبل لكھي جانے والي كتابوں كا كافي ذخيرہ موجود تھا جن سے انھوں نے خوب استفادہ كيا اور چونكہ ان ميں سے بعض كتابيں زمانے كے گزرنے كے ساتھ ساتھ ناپيد ھوگئيں تو ان كتابوں كے مطالب كو نقل كرنے كا واحد مآخذ فقط تاريخ طبرى ھي ھے اسي لئے يہ كتاب ايك خاص اھميت كي حامل ھے اور ابو مخنف كي كتاب “مقتل حسين (ع)” جو اپني نوعيت كي واحد كتاب تھي اور اس بات كا زندہ ثبوت ھے كيونكہ اس كتاب كي روايتيں تاريخ طبرى ميں متعدد مقامات پر كثرت سے ذكر كي گئي ھيں 42

تاريخ طبرى نے خلقت كي ابتداء، اس كے بعد حضرت آدم عليہ السلام سے ليكر خاتم الانبياء تك اور پھر ان كي ھجرت سے ليكر 302 ھجري تك كے ھر سال كے حالات و واقعات كو الگ الگ بيان كيا ھے۔

طبري كا كسي بھي واقعہ يا حادثہ كو نقل كرنے كا طريقہ جس كا تذكرہ انہوں نے اپنے مقدمہ ميں كيا ھے 43 يہ ھے كہ كسي واقعہ كے بارے ميں راويوں سے روايتوں كو سند كے ساتھ نقل كرنے كے بعد اس كے بارے ميں اپني رائے دئے بغير اسے قارئين كي نظر پر چھوڑ ديتے ھيں، البتہ يہ بات قابل ذكر ھے كہ طبري كے پاس جو روايتيں موجود تھيں ان ميں سے انہوں نے صرف چند روايتوں كا انتخاب كر كے انہيں اپني كتاب ميں ذكر كيا ھے ليكن واقعہ غدير كے بارے ميں انہوں نے ايك روايت بھي ذكر نہيں كي ھے۔

وہ تمام راوي جن سے طبري نے روايتوں كو نقل كيا ھے وثاقت كے اعتبار سے برابر نہيں ھيں۔ جيسے ابن اسحاق، ابو مخنف، مدائنى، زُھري اور واقدى يہ تمام افراد وہ ھيں جنہوں نے تاريخي واقعات كو نقل كرنے ميں ايك خاص طريقۂ كار اپنايا ھے اور اسي طبري كے راويوں ميں سے ايك سيف بن عمر بھي ھے جو صرف روايتيں گڑھتا تھا اور نہايت ھي جھوٹا آدمي تھا  44۔

اگر چہ طبري سني مذھب تھے مگر زندگي كے آخري لمحات ميں ان كے تشيع كي طرف مائل ھونے كا احتمال ديا جاسكتا ھے۔

طبري سے پھلے لكھي جانے والي وہ كتابيں جو اس گفتگو كے لئے منتخب كي گئي ھيں

1۔ السيرة النبويہ لابن ھشام:

در اصل اس كتاب كے مولف ابن اسحاق ھيں، اور سيرت نبوي پر لكھي جانے والي اھم اور مصادر كي كتابوں ميں اس كا شمار ھوتا ھے اس سے پہلے سيرت نبوي پر اتني جامع كتاب نہيں لكھي گئي تھي۔ عبدالملك بن ھشام (وفات 213 يا 218 ھجري) نے اس كتاب كي تلخيص كي اور اپنے خيال ميں اس كي كچھ غير ضروري عبارتوں كو حذف كرنے كے ساتھ ساتھ اس ميں كچھ مطالب كا اضافہ بھي كيا 45 اس كے بعد يہ كتاب “السيرة النبويہ ابن ھشام” كے نام سے مشہور ھوگئي۔

2۔ المغازي واقدى:

اس كتاب كے مولف محمد بن عمر واقدى (ولادت 130 ھجري وفات 207 ھجري) ھيں ان كا تعلق عثماني مذھب سے تھا وہ مدينہ سے تعليم حاصل كرنے كے بعد 180 ھجري ميں بغداد تشريف لائے اور مامون كي طرف سے بغداد كے قاضي مقرر ھوئے اور اسي شہر ميں انتقال كرگئے، وہ غزوات اور فتوحات كے سلسلے ميں اچھي خاصي معلومات ركھتے تھے انہوں نے ھجرت سے ليكر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت تك كي روايات كے بارےميں عمدہ تحقيق كي ھے جس كي وجہ سے وہ پيغمبر اسلام (ص) كي جنگوں كو تفصيل كے ساتھ بيان كرنے ميں كافي حد تك كامياب رھے۔

 الطبقات الكبريٰ:

اس كتاب كے مولف محمد بن سعد (ولادت 168 ھجري وفات 230 ھجري) ھيں وہ كاتب واقدى كے نام سے مشہور تھے اور ايك نہايت ھي متعصب قسم كے سني تھے ان كا تعلق بصرہ سے تھا اور پھر بغداد جاكر واقدى كے پاس ان كے كاتب كي حيثيت سے تعليم ميں مشغول ھوگئے، انھوں نے اپني كتاب كي پھلي دو جلدوں ميں پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي سيرت اور اس كے بعد كي جلدوں ميں صحابہ اور تابعين كے بارے ميں بحث كي ھے جو اس سلسلے كي ايك اھم ترين كتاب سمجھي جاتي ھے۔

4۔ تاريخ خليفہ بن خياط (وفات 240 ھجري):

خليفہ بن خياط تيسري صدي ھجري كے ايك اھم مورخ سمجھے جاتے ھيں جو سني مذھب سے تعلق ركھتے ھيں، ابن كثير نے انہيں امام تاريخ كہہ كر ياد كيا ھے 46 يہ كتاب تاريخي كتابوں ميں قديم ترين كتاب ھے كہ جس نے تاريخي حالات و واقعات كو ھر سال كے اعتبار سے پيش كيا ھے۔

5۔ الامامہ والسياسة:

يہ كتاب ابن قتيبہ دينوري (ولادت 213 ھجري وفات 276 ھجري) كي طرف منسوب ھے جن كا شمار تيسري صدي ھجري كے اھل سنت سے تعلق ركھنے والے اديبوں اور مورخين ميں ھوتا ھے، ان كي ولادت بغداد ميں ھوئي مگر كچھ عرصہ دينور ميں قاضي رھے اگر چہ اس كتاب كي نسبت دينوري كي طرف مشكوك ھے ليكن بہر حال يہ كتاب سن تين ھجري كے آثار ميں سے ايك اھم كتاب ھے۔

6۔ انساب الاشراف:

يہ كتاب احمد بن يحييٰ بلاذُري (ولادت 170 ھجري سے 180 ھجري كے درميان، وفات 279 ھجري) نے لكھي ھے جو تيسري صدي ھجري كے برجستہ مورخين اور نسب شناس افراد ميں سے ايك تھے وہ سني مذھب اور عباسيوں كے ھم خيال افراد ميں سے تھے، اس كتاب ميں تاريخ اسلام سے متعلق خاندانوں كا نام اور ان كا نسب وغيرہ بيان كيا گيا ھے۔

7۔ تاريخ يعقوبى:

اس كتاب كے مولف احمد بن ابي يعقوب اسحاق بن جعفر بن وھب بن واضح ھيں 284 ھجري ميں انتقال ھوا، آپ كا تعلق شيعہ مذھب سے تھا يہ كتاب تاريخ كي موجودہ قديم ترين كتابوں ميں سے ايك ھے۔

تاريخ طبرى كے بعد لكھي جانے والي وہ كتابيں جن سے اس گفتگو ميں استفادہ كيا گيا ھے يہ ھيں۔

1۔ السقيفہ و فدك:

يہ كتاب ابوبكر جوھري (وفات 323 ھجري) نے لكھي مگر زمانے كے گذرنے كے ساتھا ساتھ گم ھوگئي اس كتاب كے عمدہ مطالب دوسري كتابوں ميں موجود ھيں، يہ كتاب ابن ابي الحديد كے پاس موجود تھي انہوں نے شرح نہج البلاغہ ميں اس كتاب سے بہت كچھ نقل كيا ھے، اب يہ كتاب محمد ھادي اميني كي كوششوں سے مآخذ سے جمع آوري كے بعد “السقيفہ و فدك” كے نام سے شائع ھوچكي ھے۔

2۔ مروج الذھب:

يہ كتاب علي بن حسين مسعودي (وفات 346 ھجري) نے لكھي ھے، ممكن ھے كہ وہ شيعہ اثنا عشري ھوں مگر اس بات كا اندازہ “مروج الذھب” ميں موجود مطالب سے نہيں لگايا جاسكتا بلكہ اس سے فقط ان كے مذھب شيعہ كي طرف مائل ھونے كا اندازہ لگايا جاسكتا ھے يہ كتاب مقامات كے سفر كر كے نہايت تحقيق اور جستجو كے بعد لكھے جانے كي وجہ سے كافي اھميت كي حامل ھے، انہوں نے اپني كتاب ميں ابو مخنف كا بہت ذكر كيا ھے۔

3۔ الارشاد:

اس كتاب كے مولف شيخ مفيد (ولادت 336 ھجري وفات 413 ھجري) ھيں وہ ايك شيعہ متكلم، فقيہ اور نامور مورخ ھيں، يہ كتاب اگر چہ شيعوں كے آئمہ (ع) كي زندگي كے بارے ميں لكھي گئي ھے ليكن اس كے باوجود اس كتاب ميں پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي زندگي سے متعلق بھي بہت سے واقعات ملتے ھيں۔ شيخ مفيد كے علمي مقام و مرتبہ اور تقويٰ و پرھيز گاري كي وجہ سے انكي تحريريں شيعہ علماء كے نزديك ايك معتبر سند كي حيثيت ركھتي ھيں۔

4۔ المنتظم في تاريخ الملوك والامم:

يہ كتاب ابن جوزي (ولادت 508 ھجري وفات 597 ھجري) نے لكھي ھے، وہ چھٹي صدي ھجري كے مفسرين، خطباء اور مورخين ميں سے ايك تھے، يہ كتاب عام طور سے بعد ميں آنے والے مورخين كے لئے بہت زيادہ قابل استفادہ قرار پائي۔

5۔ الكامل في التاريخ:

يہ كتاب ابن اثير (ولادت 555 ھجري وفات 630 ھجري) نے لكھي ھے، انہوں نے اس كتاب ميں ايسي دلچسپ روش اور طريقۂ كار كا انتخاب كيا ھے كہ جس نے اس كتاب كو تاريخ سے دلچسپي ركھنے والے تمام افراد كے لئے قابل استفادہ بنا ديا ھے، انہوں نے مطالب كي جمع آوري اور انھيں نقل كرنے كے سلسلے ميں بہت محنت اور توجہ سے كام ليا ھے۔

6۔ البدايہ والنھايہ:

يہ كتاب ابن كثير (ولادت 701 ھجري وفات 774 ھجري) نے لكھي ھے۔ اور قابل ذكر بات يہ ھے كہ وہ ابن تيميہ 47 كے شاگردوں ميں سے ھيں۔

اس كتاب ميں بعض بحثيں جيسے سيرت نبوي كو مختصر طور پر بيان كرنے كے بعد نظريات پر تنقيد كے علاوہ ان كي تحقيق كي گئي ھے۔

يھاں اس بات كا ذكر ضروري ھے كہ يہ جتني بھي كتابيں ذكر كي گئي ھيں يہ ھماري بحث كے تاريخي مآخذ ھيں اور اس سے ھرگز مراد يہ نھيں ھے كہ ھم نے فقط ان ھي كتابوں پر اكتفا كي ھے۔ بلكہ بعض مقامات پر احاديث كي كتابوں سے بھي استفادہ كيا ھے جيسا كہ اھل سنت كي احاديث كي كتابوں ميں سے صحيح بخارى، مسند احمد بن حنبل اور شيعہ احاديث كي كتابوں ميں سے كافي اور بحار الانوار كو اس گفتگو كے لئے منتخب كيا گيا ھے۔

اگر چہ بعض مخصوص مطالب كے سلسلے ميں ان كتابوں سے استفادہ كيا گيا ھے جو انہيں موضوعات پر لكھي گئي ھيں مجموعي طور پر يہ كھا جاسكتا ھے كہ اس كتاب ميں تحقيق كا جو طريقۂ كار اپنايا گيا ھے اگر چہ وہ بہت مشكل اور سنگين كام ھے ليكن ممكن ھے كہ يہ طريقۂ كار بہت سي تاريخي مباحث كي تحقيق كے سلسلے ميں مفيد ثابت ھو۔

________________________________________

1. صاحب حسن اللغات كے مطابق سقيفہ ايك ايسا خفيہ مكان تھا جہاں عرب باطل مشوروں اور بے ھودہ باتوں كے لئے جمع ھوتے تھے (مترجم)

2. مدينہ كے دو بڑے قبيلوں كے نام ھيں۔ (مترجم)

3. رجال نجاشى: ص302

5. مخنف، منبر كے وزن پر ھے۔

6. الفہرست۔ ابن نديم، ص 105

8. بعض افراد نے تاريخ طبرى ميں ابو مخنف كي روايات كي تعداد پانچ سو پچاسي كہي ھے جب كہ تحقيق كے بعد مصنف كا كہنا يہ ھے كہ ان كي تعداد پانچ سو باسٹھ ھے ممكن ھے كہ بعض روايات كے چند حصے الگ الگ جگہ نقل ھوگئے ھوں۔

9. رجال طوسي۔ ص81، الفہرست شيخ طوسي۔ ص129

10. رجال نجاشي۔ ص320

13. اس بات كے پيش نظر كہ حضرت علي (ع.كي تاريخ شہادت سن چاليس ھجري قمري ھے۔

14. الكافى۔ ج2 ص31۔

15. مرسلہ ايسي روايت كو كہتے ھيں جس ميں راوي ايك يا چند واسطوں كو حذف كرنے كے بعد معصوم سے روايت نقل كرتا ھے (مترجم)

16. الطبقات الكبريٰ: ج6 ص35، الفہرست ابن نديم: ج105، 106

17. ذكر اخبار اصفہان: ترجمہ دكتر كسائى، ص189

18. تاريخ طبرى۔ ج4 ص521

19. تاريخ طبرى۔ ج4 ص570

20. رجال طوسي۔ ص81، فہرست، ص129

21. الكني والالقاب۔ ج1 ص55، الذريعہ۔ ج1 ص312۔

22. رجال نجاشي : ص320۔ (ابو مخنف شيخ اصحاب الاخبار بالكوفہ وجھھم وكان يسكن الي ما يرويہ)

23. رجال طوسي۔ ص275

24. الكني والالقاب۔ ص155

25. الذريعہ۔ ج1 ص312

27. تاريخ يحييٰ بن معين ج1 ص210

28. قابل اعتماد۔ (مترجم)

31. ديوان الضعفاء والمتروكين: ج2 ص265

32. سير اعلام النبلاء۔ ج7ص301

33. الضعفاء والمتروكين: ص333

35. الفہرست: ابن نديم۔ ص105، 106

36. معجم الادباء: ج5 ص2252۔

37. نقل از قاموس الرجال تستري۔ ج8 ص620

38. شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد: ج1 ص147 (ابو مخنف من المحدثين وممن يري صحة الامامة بالاختيار وليس من الشيعہ ولا معدوداً من رجالھا)

43. طبري۔ ج1 ص7، 8

45. السيرة النبويہ ابن ھشام ج1 ص4 (ابن اسحاق نے ايسے مطالب كا ذكر نہيں كيا كہ جو رسول خدا (ص.سے متعلق نہيں تھے يا يہ كہ بعض مطالب غير مناسب تھے)

46. منابع تاريخ اسلام۔ ص121

47. ابن تيميہ كے افكار ھي در حقيقت وھابيت كي بنياد ھيں۔

 

 

 

تبصرے
Loading...