سرکار سیّد الشہداء کااپنے انصار و اہل بیت کے ہمراہ سر زمین کربلا میں وارد ہونا

حضرت امام حسین دوسری محرّم بروز جمعرات سن ۶۱ ہجری کو وارد کربلا ہوئے،وہ روایات جو  عظمت  و اہمیّت کربلا کو روشن و واضح کرتی ہیں   ان میں کچھ اس طرح بیان ہواہے کہ : امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب  جنگ صفّین سے واپسی پر جب سر زمین کربلا  پہونچے تو آپ اپنے مرکب سے اترگئے اور  نماز صبح بجالائے پھر اسکے بعد ایک مشت خاک کو اٹھا کر استشمام فرمایا ، تعقیبات کی جگہ یہ جملہ ارشاد فرمایا :”واھاً لک ایّتھا التربۃ لیحشرن ّ منک اقوام یدخلون الجنّۃ بغیر حساب “اے سر زمین کربلا!خوشا نصیب  ،تجھ سے کچھ ایسے افراد اٹھے گے کہ جو روز قیامت بغیر حساب و کتاب وارد بہشت ہوں گے صاحب کتاب خرائج تحریر فرماتے ہیں ؛جب علی  کا گزر سرزمین کربلاسے ہو ا آپ نے اس کی طرف اشارہ کیا اور ارشاد فرمایا ؛ ” مناخ رکاب مصارع عشاق شہداء لا یسبقہم کان قبلہم ولایلحقہم من بعدہم “

اے سرزمین کربلا!اے عاشقان الٰہی اور اسکی راہ میں شہید ہونے والے باعظمت افراد کی آرام گاہ ! کہ نہ اسلاف میں ان کے جیسا کوئی ہے ،اور نہ قیام قیامت تک آنے والی نسلوں میں کوئی ان کے مرتبے کو پا سکتا ہے   

امام زمانہ  اپنے اس  خط میں کہ  جوآپ نے  قاسم بن علاء ہمدانی کو لکھاتھا انہیں   زیارت امام حسین  کی طرف   اشارہ  کرتے ہوئے  فرماتے ہیں “الشفاء فی تربتہ “اے قاسم بن علاء خداوند عالم نے اس خاک میں تمام بیماریوں کا علاج رکھا ہے   

روایات میں وارد ہواہے کہ خاک قبر امام حسین (خاک شفا )پر سجدہ کرنے سے نماز کےثواب میں اضافہ ہوتا ہے اور  نماز کے معنوی عیب بھی   چھپ جاتے ہیں  ،

صاحب کتاب معالی السبطین امام محمد باقر سے فضائل کربلاکے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا؛ “ھی اکرم ارض عند اللہ”سر زمین کربلااللہ کے نزدیک سب سے محترم زمین ہے   

اس کے بعد  فرماتے ہیں ؛کہ جیسے ہی امام حسین(ع) کربلا  پہونچے تو آپ(ع) کاگھوڑاچلتے چلتے  رک گیاآپ(ع) نے بہت کوشش کی لیکن اس نے اپنی جگہ سے قدم تک نہ اٹھایا آپ ؑ نے ارشاد فرمایا دوسرا گھوڑا لے کر آؤ !لہذا دوسرا گھوڑا لایا گیا لیکن پہلے کی مانند اس نے بھی آگے قدم نہیں بڑھایا  اسی طرح سات گھوڑے تبدیل کئے گئے آخر کار امام ؑ نے فرمایا: اس زمین کاکیا نام ہے ؟تو بتایا گیا  کہ اس کا نام غاضریہ ہے ،تو آپ(ع)نے فرمایا:کہ کیا اس کا کوئی دوسرا نام بھی ہے ؟ جواب ملا ، مولا اس کو نینوا بھی کہتے ہیں، پھر آپؑ نے پوچھا: اس کے علاوہ اس کو کیا کہتے ہیں ؟ تو بتایا گیا :شط فرات بھی اس کاایک نام ہے ، پھر اس کے بعد آپ(ع)نے اپنے سوال کو دہرایا کہ ان ناموں کے علاوہ بھی  دوسرا کوئی نام بتاؤ؟ تو بتانے والوں نے بتایا :مولا اس کا ایک نام کربلا بھی ہے ،پس یہ سن کر آپ(ع) نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا؛” ارض کرب و بلاء ” اس کےبعد فرمایا ؛اپنی اپنی سواریوں سے اتر جاؤ !اس سر زمین سے آگے نہ بڑھو، “فھا ھنا واللہ مناخ رکابنا” خدا کی قسم یہ ہمارے سواروں کے اترنے کی جگہ ہے “و ھاھنا واللہ  سفک دمائنا “خدا کی قسم یہیں پر ہمارا خون بہایاجائے گا ! “وھاھنا واللہ ھتک حرمیمنا “خداکی قسم یہ وہی جگہ ہے جہاں ہماری حرمت پامال کر دی جائے گی “وھا ھنا واللہ قتل رجالنا ” یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں ہمارے بڑے  بوڑھے قتل کئے جائیں گے  اور لوگ دور و دراز سے ہماری زیارت کرنے کے لئے آئیں گے ،”و بھذہ التربۃوعدنی جدّی رسول اللہ ولا خلف لقولہ (ع) “یہ وہی سر زمین ہے جس کی خبر مجھے میرے نانا رسول اللہ (ع) نے دی تھی  ،آپ نے جو کہا تھا وہی سچ ہے   سیّد ابن طاووس کہ جو تمام علمآئے اسلام کی نظر میں مورد اطمینان ہیں اپنی کتاب لہوف میں (کہ جس کو ملہوف بھی کہتے ہیں)بیان فرماتے ہیں :جب حضرت (ع) اپنے مرکب سے اترکر زمین پر بیٹھے تو آپ نے یہ اشعار پڑھے “یادھر افّ لک من خلیل “جن کا مضمون یہ ہے :اے زمانے !تجھ سے دوستی پر افسوس ہے کتنے لوگ اپنے جائز مطالبات پر اس دنیا میں قتل کر دیے گئے   ،موت بہت قریب ہے اور ہر ذی روح آہستہ آہستہ اس راستے کو طے کر رہا ہے اور خدا کی جانب بڑھ رہا ہے ،  

دوسرے مقام پر سیّد ابن طاووس فرماتے ہیں :جب زینب کبریٰ (ع) نے یہ اشعار سنے عرض کی :میرے ماں جائے !یہ باتیں تو وہ کرتا ہے جسے اپنی موت کایقین ہو ،آپ نے فرمایا:ہاں بہن ایسا ہی ہے ،حضرت زینب(ع) کبریٰ رونے لگی اور فرمایا:اے  میرے بھائی ! اے میرے نور نظر!آپ تو ہمارے بزرگوں کی  امانت  اور ان کا حسن و جمال ہیں کاش! زینب یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی مر جاتی 

 اس کے بعد سیّد ابن طاووس     فرماتے ہیں :مخدرات عصمت و طہارت زینب کبری ٰکے یہ بین سن کر رونے لگیں اور اپنے منھ پر طمانچے مارنے لگیں  اور سب نے اپنے گریبان چاک کر لئے امّ کلثوم نے یہ نوحہ پڑھا ،”وا محمداہ ،وا علیاہ،وا اماہ، وا اخاہ وا حسیناہ     ،” 

  مقتل الحسین ،ابو مخنف ،ص۵۵ الارشاد المفید ،ج۲ ص۶۳ الملہوف علی قتلی الطفوف ،  سید ابن طاووس ،ص۱۲۲ لواعج الاشجان ،ص۵۱ منتھی الآمال ،القمی ج۲ ص۷۳۹ ۔۷۴۰  ،تاریخ الطبری ،ج۴ ص۲۸۳  الامالی الصدوق ص۱۱۸ ،المجلس۲۸ ،ح۶و عنہ فی مدینۃ المعاجز،البحرانی ج۲ ص۱۷۰،ح۴۷۳ بحارالانور ج۴۴ ص ۲۵۵۔۲۵۶،الباب ۳۱

معالی السبطین ، المازندرانی، ج۱ ص ۲۹۱ ، المجلس ۲

الملہوف عل قتلی الطفوف ،سید ابن طاووس،ص۱۴۰۔۱۴۱   

تبصرے
Loading...