ریوڑ سے بچھڑا ہوا اونٹ

روایت ہے کہ ایک صحرا نشیں عرب جو مدنیت، آداب معاشرت اور ابتدائی اخلاق زندگی سے بھی بے بہرہ تھا، اپنی اس صحرائی سخت مزاجی کے ساتھ مدینہ آیا اور پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت (ص) اپنے اصحاب کے ہمراہ تھے۔ اس شخص نے آپ (ص) سے کچھ مانگا تو آپ (ص) نے اس کی مدد کردی، مثال کے طور پر کھانا، پیسہ یا لباس عطا کیا۔ اس کے بعد آپ (ص)نے اس صحرا نشیں سے دریافت کیا کہ میں نے تمہارے ساتھ نیکی کی، کیا تم اس سے راضی ہو، خوش ہو؟ اس شخص نے اپنی صحرائی سخت مزاجی کی بنیاد پر بڑی صراحت کے ساتھ جواب دیا کہ نہیں!

روایت ہے کہ ایک صحرا نشیں عرب جو مدنیت، آداب معاشرت اور ابتدائی اخلاق زندگی سے بھی بے بہرہ تھا، اپنی اس صحرائی سخت مزاجی کے ساتھ مدینہ آیا اور پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت (ص) اپنے اصحاب کے ہمراہ تھے۔ اس شخص نے آپ (ص) سے کچھ مانگا تو آپ (ص) نے اس کی مدد کردی، مثال کے طور پر کھانا، پیسہ یا لباس عطا کیا۔ اس کے بعد آپ (ص)نے اس صحرا نشیں سے دریافت کیا کہ میں نے تمہارے ساتھ نیکی کی، کیا تم اس سے راضی ہو، خوش ہو؟ اس شخص نے اپنی صحرائی سخت مزاجی کی بنیاد پر بڑی صراحت کے ساتھ جواب دیا کہ نہیں! آپ نے کیا ہی کیا ہے؟ کوئی مہربانی نہیں کی اور جو آپ نے دیا ہے وہ تو کچھ بھی نہیں ہے!!

ظاہر ہے حضور (ص) سے اس طرح کی سخت کلامی اور بے ادبی آپ (ص) کے اصحاب کو کب گوارا تھی! سب ناراض ہوگئے، بعض نے چاہا کہ اسی غصہ کے عالم میں اسے سبق سکھائیں لیکن حضور (ص) نے انہیں روکتے ہوئے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، میں خود مسئلہ کو حل کروں گا۔ آپ (ص) اپنے اصحاب سے جدا ہوکر اس صحرا نشیں کے ساتھ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ (ص)اصحاب کے درمیان تھے تو اس وقت آپ کے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا ورنہ اور عطا فرماتے۔ آپ (ص) اسے اپنے گھر لے گئے اور دوبارہ اس کی حاجت  پوری کی اور پھر دریافت کیا: اب تو راضی ہو؟ کہا: ہاں! وہ شخص حضور (ص) کے اخلاق و حلم کو دیکھ کر شرمسار ہوا اور اپنی خوشنودی کا اظہار کیا۔

حضور (ص) نے فرمایا:””ابھی چند گھڑی پہلے تم نے میرے اصحاب کے سامنے ایسی باتیں کہیں جن کی وجہ سے وہ تم سے ناراض ہیں۔ اگر بہتر سمجھو تو میرے ساتھ چلو اور ابھی جو تم نے میرے سامنے خوشنودی کا اظہار کیا ہے وہ ان کے سامنے بھی کردو۔””

جواب دیا:””جی ہاں! ضرور۔””

آپ (ص) اسی دن شب میں یا دوسرے دن اس کے ساتھ اپنے اصحاب کے درمیان تشریف لائے اور فرمایا:

“”اب یہ ہمارا صحرا نشیں بھائی ہم سے خوش ہے۔””

 اس نے بھی حضور (ص) کی تعریف کرتے ہوئے اپنی خوشنودی کا اظہار کیا اور چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد آنحضرت (ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ اس اعرابی کی مثال اس اونٹ جیسی ہے جو اپنے غول سے جدا ہوگیا ہو اور اِدھر اُدھر بھٹک رہا ہو اور تم میرے اصحاب اسے میری طرف پلٹانے کے لئے اس پر حملہ کرتے ہو اور چاروں طرف سے اس کے پیچھے دوڑتے ہو لیکن تمہارا یہ عمل اس کی وحشت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے جس کی بنیاد پر وہ تم سے مزید دور بھاگتا ہے اور اسے پکڑنا اور زیادہ دشوار ہوجاتا ہے۔ جتنا تم نے اس اعرابی کو مجھ سے دور کردیا تھا، اس سے زیادہ میں نے اسے دور نہیں ہونے دیا۔ محبت و نوازش کے ساتھ اس کے قریب گیا اور اسے اپنے حلقہ میں واپس لے لیا۔

“” یہ ہے پیغمبر (ص) روش۔””

تبصرے
Loading...