روزہ رکھنے کے آداب

کیا آپ نے دیکھا ہے کہ ملجس عزا میں کوئی جشن منائے اور ہنسی مذاق والے اشعار پڑھے؟ یا خوشی کی محفل میں کوئی لباس عزا پہنے اور آنسو بہائے؟

یقینا ہر چیز کے کچھ آداب و رسومات ہوتے ہیں۔ جن کی رعایت کرنا حاضرین پر ضروری ہوتا ہے۔

ماہ مبارک رمضان میں روزہ دار بارگاہ رب العزت میں مہمانی کے طور پر بلایا جاتا ہے اور خدا کی طرف سے اس کی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ ضروری ہے اس محفل کے آداب و رسومات کی رعایت کرے۔ تا کہ زیادہ خدا کا لطف و کرم اس کے شامل حال ہو سکے۔ وہ آداب یہ ہیں:

الف: گناہ سے دوری

ہر گناہ اللہ کے غضب کو بر انگیختہ کرتا ہے۔ لیکن ماہ مبارک رمضان میں گناہ سے آلودہ ہونا، زیادہ عتاب و عقاب کا باعث بنتا ہے۔ اس وجہ سے اللہ کے مہمان کو ہر طرح کی آلودگی سے دور رہنا چاہیے۔

ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ماہ مبارک رمضان کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے سوال کیا:

اے رسول خدا[ص] اس مہینہ میں سب سے برتر عمل کون سا ہے؟

پیغمبر اکرم [ص] نے فرمایا: پرہیز کرنا اس سے جو خدا نے حرام قرار دیا ہے۔[۱]

اس بنا پر اگر روزہ دار گناہوں سے دوری اختیار نہ کرے تو سوائے بھوک و پیاس کے تحمل کے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرے گا۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں:

« ما یصنع الصائم بصیامه اذا لم یصن لسانه و سمعه و بصره وجوارحه » (۲)

وہ روزہ دار جو زبان، کان، آنکھ اور دیگر اعضاء و جوراح کو گناہ سے محفوظ نہ رکھ سکے اپنے روزہ کے ساتھ کیا کرے گا؟

یعنی یہ روزہ اس کو کیا فائدہ پہنچائے گا؟

ب: واجبات کی انجام دہی

مہمان خدا کا دوسرا فریضہ یہ ہے کہ خدا کے دیگر دستورات کو نظر انداز نہ کرے کہ یہ خود ایک بہت بڑی بے ادبی ہے بارگاہ خدا وندی میں۔ ایسے مہمان کو عالم ملکوت میں کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔

آپ کی نظر میں کیا روزہ رکھنا اور نماز نہ پڑھنا، روزہ رکھنا اور خمس نہ دینا، روزہ رکھنا اور دوسروں کو اذیت دینا آپس میں سازگار ہیں؟

ج: دعا اور مناجات

ماہ مبارک میں کثرت عبادات، مناجات اور دعائیں پڑھنا اس ماہ کے دیگر آداب میں سے ہے۔ ماہ رمضان کی نمازیں، اور دعائیں پڑھنا اس مہینہ کو زیادہ اہمیت دینا ہے روزہ دار جو اس مہینہ  میں اللہ کے حضور میں دعوت ہوتا ہے کتنا اچھا ہے کہ اس کی بارگاہ میں صرف اس کی عبادت اور اس سے مناجات کرنے میں مشغول رہے۔ زیادہ زیادہ تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

د: تلاوت قرآن

ماہ رمضان قرآن کی بہار ہے قرآن اور رمضان کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم ماہ مبارک رمضان کی ایک رات، یعنی شب قدر نازل ہوا لہذا سزاوار ہے کہ روزہ دار اس رشتہ کو نہ توڑے اور اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کر کے اس ماہ مبارک کی فضا کو معطر کرے۔ قرآن کو لانے والے کے بقول:

« من تلا فیه آیه من القرآن کان له مثل أجر من ختم القرآن فی غیره من الشهور »(۳)

جو شخص ماہ رمضان میں ایک آیت قرآن کی تلاوت کرے دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کے ثواب کے برابر ثواب حاصل کرے گا۔

روزہ کی جزا

خدا وند عالم کی تمام عبادتیں مخصوص جزا کی حامل ہیں اس کے حکم کی اطاعت کرنا انسان کو جزا کا مستحق بنا دیتا ہے روزہ دار کو خدا وند عالم دیگر تمام طرح کی پادائش دینے کے ساتھ خود اپنے آپ کو جزا کے طور پر پیش کرنے کا وعدہ کرتا ہے جیسا کہ اس حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے:

 « الصوم لی و أنا أجزی به » (۴)

روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)  بحارالانوار ، ج ۹۶ ، صفحه ۳۵۸

(۲) وہی ، صفحه ۲۹۵

(۳)بحارالانوار ،ج ۹۶ ، ص ۳۵۷

(۴) وہی صص ۳۵۶ ، ۳۵۷

(۵) وہی ص ۲۵۵

 

تبصرے
Loading...