روایات عزا(۲)

 

عاشورہ کا دن، نمازِ ظہر کا وقت آیا۔ کچھ اصحاب باقی ہیں۔ اُن میں سے ایک عرض کرتے ہیں: فرزند رسول! زوال کا وقت شروع ہوگیا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اقتداء میں آخری نماز پڑھ لیں۔ امام حسین بڑے خوش ہوئے۔ کس طرح کی نماز ہوئی۔ کچھ اصحاب اس طرف آگے کھڑے ہوگئے ، جدھر فوج تیر برسارہی تھی۔ حسین نماز میں مصروف ہوئے۔ یہ آگے امام حسین کے کھڑے ہوگئے۔ اِدھر سے تیر آرہے ہیں۔ ہڈیوں کو توڑ رہے ہیں۔ سینے میں پیوست ہورہے ہیں لیکن ان میں سے ایک نہیں گرتا۔ کیوں اس قدر استغراق ہے۔ اس قدر غرق ہوچکے ہیں عشقِ حسین میں کہ تیروں کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں لگ رہے ہیں۔ امام حسین کی جب آواز آئی: 

“اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَا تُہ” 

اب سمجھے کہ نماز ختم ہوئی۔ اُدھر نماز ختم ہوئی حسین کی، اِدھر یہ ختم ہوگئے۔آپ نے خیال فرمایا کہ اتنی روحانیت کے مالک کبھی آپ نے دیکھے ہیں کہ آئے ہیں اپنی جانیں بیچنے کیلئے۔ 

امام حسین علیہ السلام سے عہد ہوچکا ہے۔ حضرت نے فرمایا: بھائیو! تم چلے جاؤ، آج کی شام میں نہیں دیکھوں گا۔ عاشورہ کا دن ہے، رات کو کہا تھا کہ یہ رات جو آنے والی ہے، میری زندگی میں نہیں آئے گی۔ چلے جاؤ، اپنے بال بچوں سے جاکر مل لو جن کے بال بچے ہیں، وہ مل آئیں۔ 

وہ آوازیں دیتے ہیں کہ حسین ! اگر ہم چلے جائیں تو خدا کرے ہمیں درندے کھا جائیں۔ حسین فرماتے ہیں:بھائیو! میں نانا کو تم سے راضی کروالوں گا۔ میں یہ کہہ دوں گا: نانا! میں نے خود ان کو بھیجا تھا، یہ خود نہیں آئے تھے۔ میرے نانا تم سے ناخوش نہیں ہوں گے۔ امام حسین نے یہ فرمایا۔ جانتے ہیں، کیا جواب دیا ہے اصحابِ باوفا نے: اگر ہم ہزار بار قتل کئے جائیں اور پھر جلا دئیے جائیں اور ہماری راکھ اُڑا دی جائے تو ہر بار ہماری راکھ کا ہر ذرہ آپ کے قدموں میں گرے گا۔ آپ کو چھوڑ کر کیوں چلے جائیں؟ رہ گئے یہ بال بچے، حسین ! اگر آپ کی راہ میں ان کو تکلیف ہو تو اس تکلیف سے بڑی راحت کیا ہے؟ کہیں دنیا میں ایسے واقعات ہوئے ہیں؟ 

میں آپ سے عرض کروں۔ اس وقت یزید کی بیعت کس کس نے کرلی تھی؟مجھے اس کا ذکر نہیں کرنا ہے۔ اتنی بات کہنی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا خاندان ایسا نہیں رہا تھا جس نے یزید کے ہاتھوں پر بیعت نہ کرلی ہو۔ عبداللہ ابن زبیر مکہ چلے گئے تھے۔ اپنی خلافت کا اعلان کردیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جن کی دسترس میں یہ چیز نہ تھی، انہوں نے سب نے بیعت کرلی تھی۔ حسین نے کہانانا کے روضے پر جاکر: نانا!میں آپ کی قبر کو کبھی نہیں چھوڑتا لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی محنتیں برباد ہورہی ہیں۔ میرے علی اکبر کے سینے پر برچھی لگ جائے گی۔ میری بہنیں قید ہوجائیں گی لیکن آپ کی محنت کو برباد نہیں ہونے دوں گا۔ 

اے میرے بزرگو! کبھی تصور میں سوچنا اِن چیزوں کو، اپنی جان کو پیش کردینا اور بات ہے، غیروں کو بلا کر آگے کردینا اور بات ہے۔ عزیزوں کو بھی آگے بڑھا دینا اور بات ہے۔ لیکن حضور!ناموس کا معاملہ ایساہے کہ جب یہ معاملہ آتا ہے تو اولاد کو بھی فدا کردیا جاتا ہے کہ ناموس پر حرف نہ آنے پائے۔ جان کو بھی فدا کردیا جاتا ہے۔ سب کچھ فدا کردیتا ہے لیکن جب دین پر مصیبت آتی ہے تو پھر ناموس کو بھی فدا کردینا چاہئے۔ لیکن دنیا میں آج تک ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا سوائے امام حسین کے جو گھر سے اپنی بیٹیوں اوربہنوں کو لے کر چلے۔ جنہوں نے غالباً دن کے وقت گھر کے باہر کی دیوار تک نہ دیکھی تھی۔ اگر کبھی نانا کی زیارت کا شوق ہوا، خود نہیں گئیں، امیر الموٴمنین علیہ السلام سے یا بھائیوں سے کہا کرتی تھیں۔ 

بابا! اماں کی قبر کی زیارت کو دل چاہتا ہے۔نانا کی قبر کی زیارت کو دل چاہتا ہے، اجازت دیجئے۔ امیر الموٴمنین اجازت دیتے تھے ۔ مگر پہلے یہ حکم دیتے تھے کہ یہاں سے جنت البقیع تک جو راستہ ہے، اس راستے میں اِدھر اُدھر جو کوچے ہیں، پہلے وہ بندکردئیے جائیں کہ کوئی اِن کوچوں سے گزرنے والا نہ گزرے۔ اس کے بعد جب نکلتی تھیں شہزادیاں تو ایک طرف امام حسن ہوتے تھے اور ایک طرف امام حسین ہوتے تھے۔ اِن شہزادیوں کو حسین اپنے ہمراہ لے کر جارہے ہیں کہ اُن کی شہادت کے بعد بازاروں میں پھرائی جائیں گی۔ یہ درباروں میں لائی جائیں گی۔ اب آپ سمجھئے کہ دین پر حسین کا کتنا بڑا احسان ہے۔ 

عاشورہ کا دن ہے، کوئی نہیں رہاامام حسین کے ساتھ۔ علی اصغر کو دفن کرچکے۔ علی اکبر کا لاشہ اُٹھا کر لے جاچکے ہیں۔ عباس کے بازو قلم ہوچکے۔ دریا پر چھوڑ آئے کیونکہ وصیت یہ تھی کہ مجھے نہ لے جائیے گا۔ یہ سب کچھ ہوچکا۔ اب امام حسین میدان میں کھڑے ہوئے اُن سے کہہ رہے ہیں: 

کوفے اور شام کے لوگو!دیکھو، اب میرا کوئی نہیں، میں زندہ نہیں رہوں گا لیکن تھوڑا سا پانی تو پلا دو۔ کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا۔ چند لمحوں کے بعد ایک شخص کی آواز آتی ہے داہنی طرف سے :پیاسے میرا سلام!امام حسین اُس طرف دیکھتے ہیں، ایک شخص کھڑا ہوا ہے مسافرانہ لباس میں۔ ہاتھ میں کشکول پانی سے بھرا ہوا۔ آپ نے فرمایا: تو کون ہے جو یہاں مجھے سلام کررہا ہے کیونکہ یہاں تو کوئی مجھے سلام کے قابل ہی نہیں سمجھتا۔ اس نے کہا کہ میں فلاں جگہ کا رہنے والا ہوں، میرا دل چاہا کہ میں کچھ سیاحت کروں۔ سیاحت کیلئے گھر سے چلا تھا۔ آج اس دریا کے کنارے پہنچا، کنارے پر بیٹھ گیا۔پانی پیا، منہ ہاتھ دھویا۔ بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ تھوڑا سا دم لے لوں، پھر چلوں گا۔ پیاسے! ایک مرتبہ تیری آواز جو کان میں آئی کہ مجھے پانی پلا دو، میرے دل کی رگیں کٹ گئیں۔ اتنا اثر کیا کہ میں بیٹھ نہ سکا۔یہ پانی بھر کر لایا ہوں، لے پی لے۔آپ نے فرمایا: خدا تجھے جزائے خیر دے، میں پانی نہ پیوں گا، چلا جا ، دور نکل جا کیونکہ اس کے بعد جو میری فریاد کی آواز بلند ہوگی، وہ جو کوئی سن لے گا اور نہ آئے گا، تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تو چلا جا۔ اُس نے کہا : میں چلا تو جاؤں لیکن تو پانی تو پی لے۔ دیکھ! تیرے ہونٹ خشک ہوگئے ہیں، تیری آنکھوں میں حلقے پڑے ہوئے ہیں۔ 

جلدی سے یہ پانی پی لے۔ آپ نے فرمایا: بھائی! اب کیا پیوں گا؟ ابھی ابھی اپنے چھ ماہ کے بچے کی قبر بنائی ہے جو پیاسا اُٹھ گیا۔ وہ میرے جوان بیٹے کی لاش پڑی ہوئی ہے جو پیاسا اُٹھ گیا۔ وہ میرا بھائی نہر کے کنارے پڑا ہوا ہے، پانی ہی کیلئے گیا تھا۔ اب میں کیا پانی پیوں گا۔ وہ کہتا ہے: پھر کیوں مانگ رہے تھے پانی؟ آپ نے فرمایا: اتمامِ حجت کررہا تھا کہ کل یہ نہ کہیں کہ مانگتے تو دے دیتے۔ مظلوم! یہ تیرا سارا خاندان تباہ ہوگیا، کوئی نہ رہا، آخر تیرا کیا قصور تھا؟ 

آپ نے فرمایا: یہ قصور تھا کہ وہ کہتے تھے کہ یزید کی بیعت کرلو۔ میں کہتا تھا کہ فاسق و فاجر کی بیعت نہ کروں گا،دین تباہ ہوجائے گا۔ یہ جو لفظ آپ نے کہے تو وہ ایک مرتبہ گھبرا گیا۔ سر سے پاؤں تک دیکھا اور اس کے بعد کہتا ہے: مظلوم! تیرا وطن کہاں ہے؟ امام حسین نے فرمایا: مدینہ۔ ارے کس قبیلے کا ہے؟کہا بنی ہاشم۔ یہ جو کہا تو ایک مرتبہ اُس کا دل دھڑکنے لگا۔ رسول سے کیا قربت ہے؟ فرمایا: میرے نانا ہوتے ہیں۔ تیرا نام کیا ہے؟ کہا: حسین ابن علی ۔ یہ نام سننا تھا کہ وہ کہتا ہے کہ جنابِ فاطمہ زہرا کے فرزندآپ ہی ہیں؟ امام حسین نے فرمایا: ہاں، میں ہی ہوں۔ اُس

نے کہا: آقا! مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں ان لوگوں سے لڑکر اپنی جان فدا کردوں۔ آپ نے فرمایا: تجھے اجازت نہیں دوں گا بلکہ تو اپنے گھر چلا جا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جو تو اپنی ایک بیٹی چھوڑکر آیا ہے، وہ تجھے بہت یاد کرتی ہے۔ یا حسین ! سکینہ کا بھی کبھی خیال آیاکہ آپ کے بعد کیا ہوگا؟ 

 

امام زین العابدین پر غشی کا طاری ہونا

اگر امام حسین علیہ السلام اپنی زندگی میں امام زین العابدین علیہ السلام کو اپنا وصی نہ بناگئے ہوتے تو زمین وآسمان نہ رہتے۔ یہ ضروری ہے کہ حجت ِخدا ہر وقت رہے۔ خلق سے پہلے بھی حجت خدا، بعد میں بھی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ولی اُٹھتا نہیں جب تک کہ دوسرے کو اپنا قائم مقام نہ بنا لے۔ آئمہ طاہرین میں یہی رہا۔ 

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام قید خانے میں ہیں اور زہر دے دیا گیا ہے اور آپ کی حالت بس قریب المرگ پہنچ چکی ہے۔ تیسرے دن آپ زمین سے اُٹھ نہیں سکتے تھے۔ لیٹ کر ہی اشاروں سے نمازیں ہورہی ہیں۔ ایک غلام تھا جو مقرر کیا گیا تھا کہ دروازہ اس وقت تک نہ کھولنا جب تک یہ مر نہ جائیں۔ یہ کھڑا ہوا ہے دروازے پر۔یہ تیسرے دن کا واقعہ ہے۔ اس کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان یکایک میرے سامنے آیا۔ وہ اتنا حسین تھا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے چودہویں رات کا چاند ہو۔ اُس نے حکم دیا کہ دروازہ کھول دو۔ میں نے کہا کہ بادشاہ کا حکم نہیں ہے۔ 

اُس نے کہا کہ ہٹتا کیوں نہیں۔ میرا باپ دنیا سے جارہا ہے، میں اُس کی آخری زیارت کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ چنانچہ غلام ایک طرف ہٹا۔ وہ جوان آگے ہوا، دروازہ خود بخود کھلا۔ وہ داخل ہوا اور دروازہ پھر بند ہوگیا۔ اس کو دیکھتے ہی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ہاتھ اُٹھادئیے اور سینے سے لگا لیا۔ یہ کیوں؟ یہ اس لئے کہ زمین حجت ِ خدا سے خالی نہ رہ جائے۔ 

امام حسین علیہ السلام بھی آئے اپنے فرزند بیمار کے پاس۔ امام زین العابدین پر عالمِ غشی طاری ہے۔ آپ کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہوچکا۔ صبح سے اب تک آپ اس وقت آئے ہیں جب علی اصغر کو بھی دفن کرچکے۔ آخری رخصت کیلئے بیبیوں کے خیمے میں آئے ہیں اور آواز دی کہ میرا آخری سلام قبول کرلو۔ چنانچہ زینب نے پاس بلالیا۔ بھائی سے لپٹ گئیں۔ بھیا! کیا میرے سر 

سے چادر اُترنے کا وقت آگیا؟ کیا میرے بازوؤں کے بندھنے کا وقت آگیا؟ امام حسین نے آپ کو تسلیاں دیں۔ آپ نے فرمایا: بہن! اتنی مضطرب نہ ہو۔ اگر تم اتنی مضطرب ہوجاؤ گی تو ان بیبیوں کو شام تک کون لے جائے گا؟ تمہیں سنبھالنا ہے، خدا کے بعد یہ بیبیاں تمہارے حوالے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے تمہارے حوالے ہیں۔ آپ نے وصیتیں کیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بہن! ذرا مجھے میرے بیمار بیٹے تک پہنچا دو۔ 

جنابِ زینب امام زین العابدین علیہ السلام کے خیمے میں لے گئیں۔ خدا کسی باپ کو بیٹے کی یہ حالت نہ دکھائے۔ عالمِ غشی میں پڑے ہیں۔ صبح سے بخار کی جو شدت ہوئی ہے تو آنکھ نہیں کھول سکے امام زین العابدین علیہ السلام۔ امام حسین پاس بیٹھ گئے، بیٹے کی شکل دیکھی۔ حالت ملاحظہ کی، آوازدی:بیٹازین العابدین ! باپ کو آخری مرتبہ دیکھ لو۔ اب میں بھی جارہا ہوں۔ امام زین العابدین کی آنکھ نہ کھلی۔ شانے پر ہاتھ رکھا۔ شانہ ہلایا، آنکھ نہ کھلی۔ آواز دی،آنکھ نہ کھلی۔ ایک مرتبہ نبض پر ہاتھ رکھا، بخار کی شدت معلوم ہوئی۔ انجام یاد آگیاکہ تھوڑی دیر کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ آخر باپ کا دل تھا، حسین رونے لگے۔ گرم گرم آنسو جو چہرئہ بیمار پر پڑے، آپ نے آنکھیں کھول دیں۔ دیکھا کہ ایک شخص سر سے پاؤں تک خون میں ڈوبا ہوا سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر عابد ِ بیمار پریشان ہوگئے۔ 

امام حسین نے فوراً کہا:بیٹا! گھبراؤ نہیں۔ اور کوئی نہیں ، تمہارا مظلوم باپ ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کو خیال آیا کہ میرے باپ کے اتنے دوست اور رفقاء تھے، یہ کس طرح زخمی ہوگئے؟ آپ پوچھتے ہیں: بابا! حبیب ابن مظاہر کہاں گئے؟ فرمایا: بیٹا! وہ مارے گئے۔ کہا مسلم ابن عوسجہ کیا ہوئے؟ کہا کہ وہ بھی مارے گئے۔ اس کے بعد پوچھا : پھر میرے بہادر اور جری چچا عباس علمدارکیا ہوئے؟ فرمایا: دریا کے کنارے بازو کٹائے سورہے ہیں۔ عرض کرتے ہیں: بابا! پھر بھائی علی اکبر کہاں ہیں؟فرماتے ہیں: بیٹا! کس کس کا پوچھو گے؟ وہ بھی نہیں، صرف میں رہ گیا اور تم رہ گئے ہو۔ 

میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں آخری وصیت کروں اور اسرارِامامت سپرد کردوں۔ اس کے بعد کچھ فرمایا کہ جس کا تعلق اسرارِ امامت سے تھا اور ایک مرتبہ اُٹھے کہ بیٹا! میں جارہا ہوں۔ اب نہیں آؤں گا۔ دیکھو! ماں بہنوں کا ساتھ ہے بازاروں میں جانا ہے دربار میں جانا ہے، جلال میں نہ آجانا ۔ 

امام حسین کا مدینہ سے کربلاپہنچنا میدانِ شہادت میں آنا (اورحضرت علی اصغر کے بارے میں ایک روایت)

میرے مسلمان بھائیو! حضرت ابراہیم ہمارے رسول کے داداؤں میں سے ہیں جن کو تقریباً اڑھائی ہزار برس کا فاصلہ ہے۔ ہمارے رسول کے ایک دادا کے گھر میں ایک خوشی ہوئی تھی کہ اُن کا بچہ ذبح ہونے سے بچ گیا تو قیامت تک کیلئے یادگار بن گئی یہ خوشی ۔ تو مسلمانو! اگر تمہارے رسول کا بیٹا ذبح ہوگیا اور اُس کا گھر برباد ہوگیا تو کیا وہ یادگار بننے کے قابل نہیں؟ 

آپ اس یادگار کی اہمیت کا اندازہ فرمائیں۔ اگر اس کو اس وقت تک ہی رکھا جاتا جب تک کہ شریعت ِ ابراہیمی تھی مگر جب منسوخ ہوگئے احکامِ شریعت ِ ابراہیمی تو اس کے بعد کیا ضرورت تھی اس یادگار کے قائم رکھنے کی؟ مگر نہیں، ایسا نہیں۔ پروردگارِ عالم نے اُمت ِ جنابِ رسالتمآب میں بھی اسے زندہ رکھا۔ جو فریضہ حج سے فارغ ہوچکے ہیں، اُن سے پوچھئے، وہاں جتنے اعمال ہیں، وہ یا جنابِ ابراہیم کی یادگار ہیں یا جنابِ ہاجرہ کی یادگار ہیں۔ 

وہ چند مرتبہ گئی تھیں اور آئی تھیں پانی کی تلاش میں۔ آج حاجیوں پر وہ عمل فرض ہوگیا جس کا نام ہے سعی یہ بزرگوں کی چیزیں یادگار بن جاتی ہیں۔ ارے یہ واقعہ جس میں ایک نہیں، بہتر(۷۲) قربان ہوگئے جس میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی قید ہوگئیں۔ اس لئے قید ہوگئیں کہ دین خدا اور رسول بچ جائے، کیایہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی بھی یادگار قائم کی جائے۔ 

میرے بزرگو! یہ تو ایک چیز ہے، اتفاقات ہیں زمانے کے کہ کبھی صرف اس وجہ سے کہ نفس میں ایک کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کہ چونکہ تم کرتے ہو، لہٰذا ہم نہ کریں گے لیکن اگر یہ صحیح چیز کے متعلق ہے تو کتنی غلط بات ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں ، میں سمجھتا نہیں ہوں بلکہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت وہ ہے جو مسلمانوں میں سب کے نزدیک یکساں عزت و وقار رکھتی ہے بلکہ غیر مسلموں کے بھی۔ اگر حسین کا نام آتا ہے تو سر جھک جاتے ہیں۔ آپ حضرات میں سے کم ہوں گے ایسے لوگ جو اِن چیزوں کو جانتے ہیں۔ آپ اگر جاکر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کسی کا نام نہیں ہے غیر مسلموں کی زبان پر، مگر حسین کا کلمہ پڑھا جارہا ہے۔ساڑھے پانچ سو کے قریب ہیں ہندوؤں کی ریاستیں۔راجیوتانے میں ایک بھی ریاست ایسی نہیں جس میں حسین کا تعزیہ نہ بنایا جارہا ہو۔یہ کیوں ہے؟ کیا تعلق ہے ان کا؟ ہمارے ساتھ تو کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ وہ لوگ رسولِ خدا کو نہیں پہچانتے، وہ علی کو نہیں جانتے، اسلام سے واقف نہیں مگر یہ سمجھتے ہیں کہ حسین وہ ہے کہ جس نے انسانیت کو زندہ رکھنے کیلئے سارا گھر لٹا دیا۔ 

گوالیار کا محرم دیکھیں اور اسی طریقے سے، جس طرف بھی چلے جائیں، غیر مسلم اس واقعہ کی یادگار قائم کئے ہوئے ہیں۔ یہاں بھی، اس لاہو رمیں خدائے وحدہ لاشریک گواہ ہے۔ میں نے پارٹیشن سے پہلے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے گھر میں سال بھر تعزیہ رکھا رہتا ہے۔وہ صبح اُٹھ کر، دروازہ کھول کر، سب گھر والے، ہاتھ جوڑ کو، چوکھٹ پر بیٹھتے تھے اور اپنی پیشانی رکھتے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا: بھائیو! تمہیں کیا ہوا؟ تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ کہنے لگے کہ بزرگوں سے چلی آرہی ہے یہ بات کہ یہ ہے بڑا مظلوم اور خدا کی رضا مندی کیلئے انسانیت کے اصولوں کی سربلندی کیلئے، اس نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ اس لئے یہ وہ ہے کہ اسے کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ 

موہنی روڈ(لاہور) پر ایک ہندو رہتا تھا، دریائی مل ، جو ریلوے میں ملازم تھا۔ مولانا ظفر مہدی صاحب جو سرمراتب علی کے ہاں رہا کرتے تھے، اُن کے بڑے مخالفین میں تھا۔ وہ مجھے خود لے گیا اپنے ہاں اور اُس نے وہ تعزیہ دکھایا جو اُس کے بزرگوں سے چلتا رہا تھا۔تو اب یہ کیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ امام حسین چھا گئے ہیں تمام دنیا کے اوپر۔ وہ کام کرگئے، وہ کارنامہ پیش کرگئے جو ہمارے لئے یعنی مسلمانوں کیلئے تو باعث ِسربلندی اور باعث فخر ہے ہی، غیر مسلم بھی فخر کرتے ہیں کہ انسانیت میں ایک ایسا شخص پیدا ہوچکا ہے جس نے تمام دنیا سے قطع تعلق کرکے، خدا کے نام کو باقی رکھنے کیلئے اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ 

آج ساتویں تاریخ ہے۔ آج سے امام حسین اور آپ کے جملہ متعلقین پر پانی بھی بند کردیا گیا۔ یعنی مصیبتوں کا ہجوم بڑھتا جارہا ہے۔ مدینہ سے چلے ، محلہ والوں سے کہا، شہر والوں سے نہیں کہا کہ چلو میرے نانا کے دین پر تباہی آرہی ہے۔ علامہ مودودی نے پہلی تاریخ، اس محرم کی، ایک تقریر فرمائی تھی جس میں انہوں نے کئی چیزیں کہی تھیں۔ ان میں یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں دستور اور آئین اسلامی تباہ ہوچکا تھا۔ امام حسین نے دیکھا کہ اگر یہی حالت رہی تو پھر اسلام کا نام رہ جائے گا، باقی کچھ نہ رہے گا۔ اس لئے انہوں نے اپنے گھر کو تباہ و برباد کرنے کیلئے تیار کرلیا کہ یہ رہے نہ رہے مگر خدا کا دین ضرور رہے۔ 

چنانچہ گھر سے نکلے تو کسی سے نہ کہا کہ تم میرے ساتھ چلو۔ صرف اپنی بہنوں، بھائیوں اور گھر والوں سے کہا کہ نانا کی بڑی محنتیں ہیں، انہوں نے اس دین کو بڑی مصیبتیں جھیل جھیل کر یہاں تک پہنچایا ہے، یہ تباہ ہورہا ہے،تم میری مدد کروگے یا نہیں؟ سب نے ایک زبان ہوکر کہا کہ آخر ہم میں بھی انہی کا خون ہے۔ اس لئے ہم تیار ہیں۔ بہنوں نے کہا کہ حسین ! اگر تم قتل ہوسکتے ہو تو ہم قید کی مصیبت جھیل سکتی ہیں۔ 

سارے کنبے کو لے کر چلے حضرت امام حسین ایک نانی رہ گئیں اُم الموٴمنین اُمّ سلمہ ، جنہوں نے حسین کو اپنی گودمیں پالا تھا۔ ایک وہ بی بی رہ گئیں جن کے چار بیٹے تھے اور اتنے حسین و خوبصورت تھے کہ اُن کی کوئی نظیر نہ تھی۔ یہاں تک کہ بڑا بیٹا تمام حجاز میں قمر بنی ہاشم کہاجاتا تھااور سنتے ہیں کہ ایک چھوٹی بچی رہ گئی۔ 

امام حسین علیہ السلام مدینہ سے عازمِ سفر ہوئے۔ مکہ میں پہنچے ، دنیا کو یہ بتلانے کیلئے کہ دیکھو! مجھے یہاں بھی امان نہیں، اس کے بعد کربلا پہنچے، وہاں فوجوں نے گھیرنا شروع کیا۔ چاروں طرف سے فوجیں جمع ہونے لگیں۔آج جب ساتویں تاریخ آگئی محرم کی تو نہر پر پہرے بٹھادئیے گئے کہ جانور پانی پی لیں۔ اگر کوئی کافر آئے تو پانی پی لے مگر فاطمہ کے بیٹے کیلئے پانی نہ دیا جائے۔ امام حسین علیہ السلام سے آپ کے ساتھیوں نے عرض کیا: فرزند رسول! اگر اجازت ہو تو ہم ان سے بھی لڑیں، ہم سیروسیراب ہیں۔ یہ اتنے نہیں ہیں کہ ٹھہر سکیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ “نہ”، میں لڑنے کیلئے نہیں آیا ہوں۔ میں تو مرکردنیا کو یہ دکھلاؤں گا کہ یزید ایسا فاسق و فاجر انسان مجھ سے اتنا کینہ رکھتا تھا جتنا میرے نانا محمد مصطفےٰ کا دشمن ہے۔ 

اپنی اسی پہلی حیثیت سے جس طرح یہ دشمنی چلی آرہی تھی، کیونکہ یہ اگر رسول کا دشمن نہ ہوتا تو اتنا ہی خیال کرلیتا کہ یہ رسول ہی کی بیٹیاں تو ہیں۔ چنانچہ عاشور کا دن آگیا۔ ساتویں کو حکم دیتے تو لڑائی ہوتی، اچھی لڑائی ہوجاتی مگر امام حسین جانتے تھے کہ بنی ہاشم کے بہادر تھوڑی دیر میں ان کو بھگا دیں گے۔میرا مقصد نہیں رہے گا،آٹھویں تاریخ بھی کہا اصحاب نے کہ مولا ! اب بھی موقعہ ہے، مگر آپ دیکھ رہے تھے ان بہادروں کے تیور کہ بازوؤں میں ابھی قوتیں ہیں ، چہروں پر شادابی ہے، ابھی انکار کرتے رہے کہ میں اجازت نہیں دوں گا۔ جب عاشور کی صبح ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ جب چلتے تو پاؤں لرزنے لگتے ہیں، ہاتھ اُٹھتے ہیں تو کانپنے لگتے ہیں بھوک اور پیاس کی وجہ سے۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ اچھا بہادرو! جب یہ لڑتے ہیں تو تم بھی لڑلو۔ ورنہ اجازت نہیں دی تھی، کیوں؟ اس لئے کہ اگر لڑائی ہوجائے تو ایسا نہ ہو کہ معاملہ اُلٹ جائے۔ 

حضور! بیٹوں کو، بھتیجوں کو، خود سوار کرکے بھیجا کہ جاؤ اور دشمنوں کی تلواریں کھاؤ۔ پھر آواز آئی کہ بابا! دنیا سے جارہا ہوں۔ باپ پہنچتا ہے اور خود لاش اُتھا کرلاتا ہے اور لاش جب رکھتا ہے تو سجدئہ شکر ادا کرتا ہے کہ پروردگار! تیرا شکر، تو نے اس مقام پر بھی ثابت قدم رکھا۔ 

اولاد والو!کبھی دنیا میں یہ چیز آپ نے دیکھی ہے؟ یا کسی تاریخ میں پڑھا ہے کہ کسی باپ نے اس طرح سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی لاشیں اُٹھائی ہوں۔ اصحاب کی لاشیں بھی میدانِ جنگ سے خود اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ اگر کوئی کہتا کہ مولا ! ہم جائیں؟ تو آپ فرماتے کہ اُس نے مجھے پکارا ہے، تم ٹھہرو، میں جاؤں گا۔ جتنی اُس وقت میرے اوپر مصیبتیں زیادہ ہوں گی، پروردگارِ عالم کی بارگاہ میں اتنے میرے درجات بلند ہوں گے۔ 

میرے بزرگو! امام حسین کی جنگ کربلا میں ایک شخص سے جنگ نہ تھی بلکہ دس گروہ تھے جن سے جنگ تھی۔کس سے جنگ تھی؟ ان دشمنوں سے جنگ تھی جو قتل کیلئے آئے تھے ۔ اور کس سے جنگ تھی؟ ان آوازوں کے ساتھ جنگ تھی جو خیموں سے بلند ہوتی تھیں کہ “العطش”، پیاس نے مار ڈالا۔ اس تخیل سے جنگ تھی کہ بیبیاں قید ہوجائیں گی۔ بھوک اور پیاس سے جنگ تھی۔ اصحاب کے صدمات، عزیزوں کے مصائب یعنی اِن تمام سے امام حسین ایک وقت میں مقابلہ کررہے تھے۔ 

میرے بھائیو! اپنے گھر جاکر یہ سوچنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ پوچھ بیٹھیں کہ میرے فرزند نے تمہارا کیا قصور کیا تھا کہ دنیا کی چیزیں یادگار کے قابل اور میرے بیٹے کو یاد کرنے کیلئے کوئی وقت نہیں؟جس نے دین بچانے کیلئے سارا گھر لٹا دیا؟ آخری دو فقرے عرض کرکے ختم کرتا ہوں۔ 

حضور! آخر میں کوئی نہ رہا تو آپ نے ایک آواز دی تھی کہ کوئی اگر مدد کرنے والا ہے تو آجائے۔ کل یہ نہ ہو کہ کوئی کہے کہ حسین نے پکارانہ تھا۔ یہ آواز جو خیموں میں پہنچی تو ایک بچہ تھا چھ مہینے کا حسین ہی کا وہ کچھ اس طرح سے تڑپا کہ گہوارے سے گر پڑا۔ آپ نے بچے کو لیا، میدان میں آئے۔ فرماتے ہیں : کوفے اور شام کے رہنے والو! اس بچے کو دو گھونٹ پانی کے پلا دو۔یہ بچہ تو کسی مذہب و ملت میں قصوروار نہیں۔ اس کے بعد بچے سے کہتے تھے:بیٹا! تم بھی مانگ کر دیکھ لو۔ علی اصغر نے اپنی سوکھی زبان ہونٹوں پر پھیرنی شروع کردی۔ فوجِ شام یہ دیکھ کر گھبرائی۔ عمر سعد نے حرملہ سے کہا: کیا دیکھتا ہے، امام کے کلام کو قطع کر۔ اُس نے تیر کمان میں جوڑا۔ 

اولاد والو! تمام کتب مقاتل میں لکھا ہے کہ تین بھال کا تیر تھا، ہائے اصغر کا گلا، تیر آیا اور گلے کو چھیدتا ہوا، حسین کے بازو میں پیوست ہوگیا۔ امام حسین نے تیر جو بازو سے نکالا تو تیر کے ساتھ ساتھ اصغر کا گلابھی چلا آیا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:بیٹا! اب تیر تیری گردن سے نکالنے لگا ہوں۔ اصغر مسکرائے، مطلب یہ کہ میری ماں سے کہہ دینا کہ امی جان! تیرا بیٹا رویا نہیں۔ 

شہادتِ مسلم بن عوسجہ

(امام زین العابدین کا آوازِ استغاثہ سن کر میدانِ جنگ کی طرف جانا،امام حسین کا کہنا کہ بیٹا! واپس چلے جاوٴ، ابھی تم نے اس سے بھی بڑا جہاد کرنا ہے) 

آج ساتویں تاریخ ہوگئی۔ آج کربلا میں نہر کے گھاٹ پر پہرے بٹھادئیے گئے کہ کافر اگر پانی پینا چاہیں تو پلادینا مگر رسول کی اولاد کو پانی نہ دینا۔ یہ غالباً آج ہی تاریخ ہے سات محرم کہ جب فوجوں کے ہجوم ہونے لگے تو مسلم ابن عوسجہ نے امام زین العابدین علیہ السلام سے یہ کہا کہ آقا زادے! ذرا آپ کچھ ادھر آئیں تو میں کچھ بات کروں۔ آپ چلے گئے۔ مسلم ابن عوسجہ نے کہا: شہزادے ! دیکھ رہے ہیں آپ، یہ فوجیں چلی آرہی ہیں اور یہ صرف ہمارے امام کے ایک سر کیلئے آرہی ہیں۔ آپ ہم میں موجود ہیں اور آپ کے رگ و پے میں علی کا خون دوڑ رہا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے ہم بغیر امام نہ ہوں گے۔ یہ جو مسلم نے کہاتو امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک انگڑائی لی اور فرماتے ہیں کہ :مسلم! مجھے شجاع بنانا چاہتے ہو، ارے کس کی مجال ہے کہ میں موجود ہوں اور میرے باپ کو کوئی میلی نظر سے دیکھ سکے۔ خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ 

امام حسین علیہ السلام کا گھر بھی ایسا گھر تھا کہ کبھی چشم فلک نے نہ دیکھا ہوگا۔ امام زین العابدین اپنے دادا امیرالموٴمنین علیہ السلام سے مشابہ تھے۔ بائیس سال کی عمر تھی جب کربلا میں آئے تھے۔جب کبھی گھوڑے پر سوار ہوکر گزر جاتے تھے تو یہی گمان ہوتا تھا کہ علی جارہے ہیں۔ دوسرا بیٹا نانا کا ہم شکل ، سر سے پاؤں تک معلوم ہوتا تھا کہ رسول ہیں۔ کیسا پُر رونق گھر تھا ۔ کربلا میں سارا گھر تباہ ہوگیا۔ 

جب امام زین العابدین علیہ السلام نے مسلم سے یہ کہا تو جنابِ مسلم ابن عوسجہ چپ ہو 

گئے۔امام زین العابدین آئے خیمے کی طرف اور غلام کو آواز دی کہ گھوڑے پر زین رکھ کر لے آؤ۔ آپ اندر چلے گئے۔ پھر واپس آئے تو خَود تھا سر پر۔ جسم مبارک پر زرہ تھی اور مسلح تھے۔ غلام نے گھوڑا آگے بڑھایا۔ آپ سوار ہوئے، میدانِ کربلا میں ٹہلنا شروع کیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ علی آئے ہیں اور ٹہل رہے ہیں۔ کبھی فوجوں کی طرف نگاہِ غیظ کہ میرے باپ کے قتل کیلئے جمع ہوئے ہیں اور کبھی اپنے مظلوم باپ کی طرف نظر۔ جب تھوڑی دیر ہوگئی اور امام حسین نے یہ طور دیکھے تو آواز دی: بڑی دیر سے ٹہل رہے ہو، آؤ نا گھر میں چلے آؤ۔ باپ کا جو حکم ہواتو گردن جھکائے ہوئے واپس ہوئے اور خیمے میں داخل ہوگئے۔ خیمے میں داخل ہونا تھاکہ اس کے بعد اس وقت نہ نکل سکے کہ جب تک ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہ پڑ گئیں۔ ایک مرتبہ ذرا نکلے تھے اور جنابِ اُمّ کلثوم پھر لے گئی تھیں۔ جاتے ہی بخار چڑھا اور بخار شدید ہوتا گیا، یہاں تک کہ صبح ہوئی ہے آٹھویں کی تو آپ اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ قدرت کو منظور تھا یہی کہ سلسلہٴ امامت قائم رہے اور پھر یہ بھی تو تھا کہ یہ شہزادیاں تنہا کس طرح جائیں گی! کوئی تو ہو جو کبھی اُن سے بات کرسکے۔ اس لئے یہ بخار چڑھا اور ایسا چڑھا کہ آپ اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔ صبح کے وقت کچھ افاقہ ہوتا تھا، پھر آنکھیں بند ہوجاتی تھیں۔ نویں تاریخ کو کمزوری بہت بڑھ گئی۔ ذرا رات کو آنکھ کھلی تھی تو پھوپھی سے کچھ باتیں کرلیں۔ 

فرماتے ہیں: پھوپھی جان! میرے بابا کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا:اصحاب سے باتیں کررہے ہیں۔ تو سرکتے سرکتے کچھ آگے آئے اور امام حسین کی یہ بات جو سنی کہ میرے ساتھیو! میرے صحابیو! مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ۔ میں کل شام تک شہید ہوجاؤں گا۔ یہ آواز جو سنی تو آپ نے ایک چیخ ماری۔ امام حسین کے کانوں میں یہ آواز پہنچی، دوڑتے ہوئے باہر نکل آئے۔ اُٹھا کر اندر لے گئے۔ فرماتے ہیں: بہن زینب ! میرے بیٹے کا خیال رکھنا۔ نمازِ صبح کے وقت افاقہ سا ہوا، نماز پڑھی۔ گھر میں بھائیوں کو دیکھ لیا، چچاؤں کو دیکھ لیا۔ باپ کا دیدار کرلیا۔ سب صحیح و سالم تھے۔ ادھر آفتاب نکلا، اُدھر بخار کی شدت ہوئی اور غشی طاری ہوگئی۔ 

حبیب ابن مظاہر مارے گئے، زہیر بن قین مارے گئے، مسلم ابن عوسجہ مارے گئے، قاسم کی لاش آگئی اور خیمہ میں بیبیوں کا ماتم ہوگیا۔ مگر امام زین العابدین پر ابھی غشی طاری ہے۔ علی اکبر بھی اُٹھ گئے دنیا سے۔ علی اصغر کی ننھی سی لاش کو سپردِ خاک کیا جاچکا۔علی اصغر کی قبر بناکر امام حسین خیمے کے دروازے پر آئے اور آواز دی: میری بہنو! میراآخری سلام، جنابِ زینب نے عرض کیا: بھیا!خیمے میں آجائیے۔ خیمے میں آئے تو بہن نے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور رونا شروع کیا۔ امام نے فرمایا: بہن! اب رونے کا وقت نہیں۔ میرا امتحان ختم ہورہا ہے۔ تمہارا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ بہن! اتنی خواتین کو ساتھ لے کر جانا ہے، صبر سے کام لینا، بددعا نہ کردینا۔ 

پھر فرماتے ہیں : اچھا بہن!ذرا مجھے میرے بیمار فرزند تک تو لے چلو۔ میں اُس کو آخری مرتبہ دیکھ لوں۔ آپ امام زین العابدین علیہ السلام کے خیمے میں آئے۔ عالمِ غشی میں آنکھیں بند ہیں۔ بیٹھ گئے، آواز دی، زین العابدین بیٹا! باپ آیا ہے، ذرا آنکھیں کھولو،کچھ باتیں کرلو۔آپ کی آنکھ نہ کھلی۔ شانہ پکڑ کر ہلایا، بیہوشی نہ ٹوٹی۔ نبض پرہاتھ رکھا، بخار کی شدت محسوس ہوئی۔ خیال آیا :ارے یہ بخار کی یہ کیفیت! کمزوری کی یہ حالت!اِن ہاتھوں میں ہتھکڑیاں کیسے پڑیں گی؟ پاؤں میں بیڑیاں کس طرح پڑیں گی؟ آخر باپ کا دل تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یہ آنسو بیمار کے چہرے پر پڑے، آپ نے آنکھیں کھول دیں۔ آنکھیں جو کھولیں تو صبح باپ کو دیکھا تھا کہ نہ کوئی زخم ہے، نہ کپڑوں پر خون کا کوئی نشان تھا۔ اب جو آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ایک شخص سر سے پاؤں تک زخمی، خون میں ڈوبا ہوا سامنے ہے۔ 

پریشان ہوگئے۔ امام حسین نے فرمایا: بیٹا! گھبراؤ نہیں، تمہارا مظلوم باپ تمہیں ملنے کیلئے آیا ہے۔ امام حسین کو پہچانا۔ خیال آیا کہ میرے باپ اتنے زخمی ہوگئے۔ اتنے عزیز تھے، دوست تھے، وہ کیا ہوئے؟ تو پوچھتے ہیں: بابا! وہ بچپن کے دوست حبیب کہاں گئے کہ آپ زخمی ہیں؟ فرمایا: بیٹا! وہ مارے گئے۔ کہا: مسلم بن عوسجہ کیا ہوئے؟ بیٹا وہ بھی مارے گئے۔ آخر میں عرض کرتے ہیں: پھر میرے بہادر اور جری چچا عباس کہاں گئے جو آپ زخمی ہوگئے؟ فرماتے ہیں :بیٹا! نہر کے کنارے بازوؤں کو کٹائے ہوئے سورہے ہیں۔ 

اس کے بعد عرض کرتے ہیں: بابا! میرے بھائی علی اکبر ؟ فرماتے ہیں: سینے پر نیزہ کھا کر دنیا سے اُٹھ گئے۔ بیٹا! اب میں آیا ہوں تم سے رخصت ہونے کیلئے۔ تھوڑی دیر باقی ہے کہ میں بھی نہ رہوں گا۔ یہاں بہنوں کا ساتھ ہے، کمزوری ہے، تکلیف زیادہ ہو تو بددعا نہ کرنا۔ 

امام حسین میدان میں آئے، اِدھر دیکھا، اُدھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا تو ایک مرتبہ آپ نے آواز دی۔ یہ غالباً آخری مرتبہ کا استغاثہ ہے:”ھَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا” ۔ “کوئی ہے جو اس عالم بیکسی میں میری فریاد رسی کرے”۔ یہ آواز وہ تھی جو عالم کے ہر ذرّہ تک پہنچی اور تو کسی نے جواب نہ دیا لیکن خیموں سے بیبیوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوگئیں۔اب جو امام نے خیموں کی طرف مڑ کر دیکھا تو کیا قیامت دیکھی!امام زین العابدین علیہ السلام ایک تلوار پکڑے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر سرکتے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ جنابِ اُمّ کلثوم پیچھے سے قمیص کا دامن پکڑے ہوئے ارے بیٹا! کدھر جارہے ہو؟عرض کرتے ہیں: پھوپھی جان! میرا مظلوم باپ فریاد کررہا ہے، مجھے جانے دیجئے۔ 

مجلسِ شبِ عاشور

حضراتِ محترم! امام حسین کی زندگی کی آخری رات آگئی۔ آج کچھ بیان کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ بس دل یہ چاہتا ہے کہ کچھ میں رولوں اور کچھ آپ رولیں۔ خداجانے اس کے بعد زندگی ہے یا نہیں۔ یہ رونا وہ رونا ہے کہ انبیاء روتے رہے، مرسلین گریاں رہے۔آئمہ طاہرین کی وصیتیں ہیں کہ کچھ ہوجائے، دنیا کتنی ہی کروٹیں لے مگر حسین کو نہ بھول جانا۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کی عاشور کی صبح کو اس طرح سے گریہ کرنا جس طرح سے ایک ماں اپنے جوان بیٹے کی لاش پر روتی ہے۔ 

افسوس! کہ جن کی وجہ سے اسلام، اسلام بنا، جن کی وجہ سے اسلام کی تکمیل ہوئی تھی، آج وہ وقت آگیا کہ عبادت کیلئے ایک رات کی بھیک مانگنا پڑی۔یہ الفاظ، بہت ممکن ہے کہ آپ حضرات کو گراں گزرے ہوں لیکن کیا کروں کہ واقعہ یہی ہے۔ 

آج دوپہر کے وقت شمر ملعون کربلا کی سرزمین پر پہنچا ہے دوہزار سواروں کے ساتھ۔ جس طرح سے اور بہت سے واقعات اہلِ بیت کو معلوم تھے، یہ بھی معلوم تھا کہ امام حسین کا قاتل ایک شخص ہوگا جس کا نام ہوگا شمر جب یہ لوگ کربلا پہنچے تو انہوں نے گھوڑے اِدھر اُدھر اور اُدھر سے اِدھردوڑانے شروع کئے تو زمین لرزنے لگی۔ بیبیوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟کسی نے کہا کہ شمر آگیا۔ بیبیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور مایوسانہ نگاہ سے دیکھا۔ دن ختم ہونے کو تھا۔ امام حسین کسی فکر میں ایک کرسی پر بیٹھے تھے جو جنابِ زینب کے خیمے کے باہر لگی ہوئی ہے۔ کچھ نیند سی آگئی۔ شمر یہ حکم لایا تھا ابن سعد کے نام ، ابن زیاد نے حکم دیا کہ پانچ ہزار سوار خیمہ گاہِ حسین پر حملہ کردیں۔ جس وقت وہ سوار آگے بڑھے، جنابِ زینب خیمے کے پردے سے لگی ہوئی کھڑی تھیں۔ بھائی کا منہ دیکھ رہی تھیں اور غالباً یہ خیال تھا کہ کل میرا بھائی مجھ سے بچھڑ جائے گا۔ 

جب میدان کی طرف دیکھا تو نظر آیا کہ سوار خیموں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایک 

مرتبہ ہاتھ بڑھا کر امام حسین کا بازوپکڑ کر ہلایا۔ آپ نے فرمایا : بہن کیا بات ہے؟ کہا: بھیا! فوجیں بڑھ رہی ہیں۔امام حسین نے جنابِ عباس کو آواز دی۔ عباس ! ذرا ان سے جاکر پوچھو، یہ خیموں کی طرف کیوں آرہے ہیں؟ اِن کا ارادہ کیا ہے؟ جنابِ عباس ، حبیب ابن مظاہر ، زہیر بن قین، مسلم بن عوسجہ ، یہ سب کے سب آگے بڑھے۔ قریب پہنچ کر جنابِ عباس نے آواز دی: رُک جاؤ وہیں، خدا جانے کیسا اثر تھا کہ ایک مرتبہ گھوڑوں کی باگیں کھنچیں اور فوج رُک گئی۔ فرمایا: کیوں بڑھ رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ابن زیاد کا حکم آیا ہے کہ خیمہ ہائے حسین پر حملہ کردیا جائے۔ اسی کی تعمیل میں ہم بڑھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہیں ٹھہرے رہو جب تک میں اپنے آقا سے اجازت نہ لے آؤں۔ جو کچھ وہ جواب دیں گے، اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ ٹھہر گئے وہ لوگ۔ جنابِ عباس آئے: آقا! یہ جنگ اس وقت کرنا چاہتے ہیں۔ امام حسین نے فرمایا: بھیا! ان سے کہہ دو کہ میں ایک رات میں کہیں نہیں چلا جاؤں گا۔ مجھے ایک رات کی مہلت دے دو کہ میں جی بھر کر اپنے خدا کو یاد کرلوں۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہمیں حکم نہیں ہے، ہم اجازت نہیں دیں گے۔مگر فوراً ہی ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اگر ترک و دیلم کافر ہوتے اور وہ ہم سے ایک رات کی اجازت مانگتے تو ہم دے دیتے۔ ارے یہ تو فرزند رسول ہیں۔یہ اگر ایک رات کی اجازت مانگ رہے ہیں تو دے دینے میں کیا حرج ہے؟ابن سعد کو خبر کی گئی۔ اُس نے یہ بات منظور کرلی گئی کہ اچھا اب جنگ کل صبح کو ہوگی۔ 

حضور! ایک رات مل گئی۔ میں نے یہ کہا تھا کہ مانگی ہوئی رات ہے، کیا حالت ہے؟ بیبیوں کی کیا حالت ہوگی؟ اصحاب کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کا تصور کوئی نہیں کرسکتا۔ بیبیاں یہ سمجھ رہی ہیں کہ کل تک یہ خیمے کچھ نہ ہوں گے۔ اصحاب یہ جان رہے ہیں کہ کل ہم نہ ہوں گے۔ جس قدر ہوسکے، خدا کی عبادت کرلو۔ سبحان اللہ! تاریخوں میں یہ الفاظ ہیں کہ سوکھے ہوئے ہونٹوں سے خدا کی تسبیح اس طرح سے کررہے تھے حسین کے ساتھی کہ آسمان و زمین گونج رہے تھے۔ 

اب مثال یہ دی ہے کہ جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز پھیلتی ہے۔ اسی طرح سے میدانِ کربلا میں اُن کی تسبیح کی آواز پھیل رہی تھی۔ امام حسین کی کیفیت یہ تھی کہ کبھی اصحاب کے ساتھ بیٹھ کر تسبیح فرماتے تھے اور کبھی تھوڑی دیر کے بعد خیموں میں چلے جاتے تھے بیبیوں کو تسلیاں دینے کیلئے۔ ایک اہم واقعہ جو جو اِس شب میں ہوا، وہ یہ ہے کہ جنابِ زینب نے فضہ سے کہا ہے کہ فضہ! ذرا میرے ماں جائے کو تو بلالاؤ۔ امام حسین کو فضہ نے آواز دی: آقا! شہزادیٴ عالم یادکررہی ہیں۔ امام حسین علیہ السلام فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے۔ گردن جھکائے ہوئے خیمے کے دروازے پہر پہنچے، پردہ اُٹھایا، اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ جنابِ زینب زمین پر سرجھکائے بیٹھی رو رہی ہیں۔ 

عزادارانِ حسین ! امام حسین نے پاس جاکر آواز دی: بہن! مجھے کیوں بلایاہے؟ بہن نے بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈال دئیے۔ فرمایا:بھیا حسین ! ذرا بیٹھ جاؤ، میری ایک بات سن لو۔ جب مدینہ سے چلے، بہت مرتبہ دل گھبرایا مگر بھیا! تم سے نہ کہا تاکہ ایسا نہ ہو کہ میرے بھائی کو رنج ہو۔ اس کے بعد جب مکہ آئے اور مکہ سے نکلنا پڑگیا تو میرا دل اور زیادہ گھبرانے لگا مگر میں ضبط کرتی رہی۔ آپ سے کبھی ذکر نہ کیا۔ میرے بھائی حسین ! جس دن سے اس زمین پر پہنچے ہیں، ہر وقت میرا دل دھڑکتا رہا مگر میں نے آپ سے ذکر نہ کیا۔ میرے بھائی حسین ! یہ کیسی رات ہے کہ دل کو کسی طرح سے قرار نہیں آتا؟ 

میرے بھیا حسین !اس وقت میرا دل بڑا گھبرا رہا ہے۔ امام حسین نے کچھ تسلی دی۔ بہن! ابھی تو پوری رات ہے۔ کل ہوگا، جو کچھ ہوگا۔ اتنی کیوں گھبرا گئیں؟ اگر اتنی گھبرا جاؤ گی تو یہ بچے اور خواتین کس کے سپرد کروں گا؟ یہ بیبیاں کس کے ساتھ جائیں گی؟جنابِ زینب نے عرض کیا:میرے بھائی! اور سب چیزوں کو جانے دیں، مجھے یہ بتلائیں کہ یہ کون بی بی ہے جو خیموں کے دوسری طرف اکثر فریاد کرتی ہیں؟امام حسین نے فرمایا: بہن! پہچانا نہیں، یہ ہماری ماں فاطمہ زہرا ہیں جو ہمارے قافلے کے ساتھ ساتھ آئی ہیں۔۔ 

اچھا حضور!اصحاب کی یہ کیفیت ہے کہ باری باری کچھ پہرہ دے رہے ہیں اور باقی عبادت میں مشغول ہیں۔ کبھی پہرہ دینے والے عبادت کیلئے چلے جاتے ہیں اور باقی آکر پہرہ دینے لگتے ہیں۔ کیا دنیا نے کبھی ایسے اصحاب دیکھے ہیں؟ 

ارے جنگ ِاُحد میں رسول کے ساتھ تین آدمی رہ گئے تھے۔ جنگ ِحنین میں زیادہ سے زیادہ نو(۹) آدمی جنابِ رسولِ خدا کے ساتھ رہ گئے تھے۔ دنیا میں کبھی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو جانتے ہوں کہ زندگی ختم ہورہی ہے لیکن ہونے سے پہلے یہ نہ دیکھیں کہ حسین کا کوئی بچہ زخمی ہوا۔ 

اس شب کا ایک واقعہ کتابوں میں آگیا اور وہ یہ کہ ادھر ابن سعد نے افسرانِ فوج کو جمع کیا ہے اور مشورہ ہو رہا ہے کہ کل صبح جنگ کس طرح سے شروع کی جائے تاکہ جلدی ختم ہو اور ابن زیاد کو خبر دی جائے کہ ختم ہوگئی۔ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ میں ایسا کرسکتا ہوں کہ آج رات کو ہی جنگ ختم ہوجائے۔ کل ضرورت ہی نہ رہے فو ج کے لڑنے کی۔ لوگوں نے کہا کہ وہ کس طرح؟ اس نے کہا کہ جنگ ختم ہوجانے کا مقصد بس حسین کا قتل ہوجانا ہی تو ہے۔اگر حسین آج رات ہی قتل ہوجائیں تو پھر باقی کیا رہ جائے گا! اس سے پوچھا گیا کہ اس وقت کیسے اُنہیں قتل کیا جاسکتا ہے؟ اُس نے کہا کہ میں ابھی جاتا ہوں امام حسین کے پاس۔ اُن پر حملہ کردوں گا۔ اس میں شک نہیں کہ میں بھی مارا جاؤں گا لیکن تم ابن زیاد کے پاس جاکر میرے بچوں کی سفارش کردینا۔ چنانچہ یہ وہاں سے چلا، تلوار اس کے ہاتھ میں ہے۔ رات کا وقت ہے، آدھی رات سے زیادہ گزرچکی ہے۔ یہ جس طرف سے آرہا تھا، اس طرف ہلال پہرہ دے رہے تھے۔ ہلال نے دیکھا کہ کوئی شخص ادھر آرہا ہے۔ جب وہ قریب آیا تو اُنہوں نے اس کو روکا : کون ہے جو ادھر آرہا ہے؟ اُس نے اپنا نام بتایا۔ جب اور قریب آگیا تو انہوں نے کہا: کدھر جارہے ہو؟ اُس نے کہا کہ میں امام حسین کے پاس جارہا ہوں، کچھ میرا کام ہے۔ 

آپ نے کہا: بے شک جاؤ، وہ امامِ وقت ہیں۔حاجت روائے عالم ہیں، تم جاؤ مگر یہ تلوا ریہاں رکھ جاؤ۔ اُس نے کہا: دیکھو! یہ میری توہین ہے ، میں تلوار ساتھ لے کر جاؤں گا۔ ہلال نے کہا: آج تو نہیں جانے دوں گا۔ اُس نے کہا: نہیں، مجھے ضروری جانا ہے۔ اس کے بعد اُس نے قدم بڑھانے کا ارادہ کیا۔ ہلال نے وہیں سے آواز دی: قدم بڑھایا تو سر نہ ہوگا۔ یہ آواز کچھ اتنی بلند ہوگئی تھی کہ امام حسین کے کانوں تک پہنچی۔ امام حسین نے آواز دی: ہلال! کون ہے؟ کس سے باتیں کررہے ہو؟ جنابِ ہلال نے عرض کیا: مولا !یہ شخص آپ کی خدمت میں آنا چاہتا ہے۔ میں اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک تلوار نہ رکھ دے۔ مجھے اس کی صورت سے اندیشہ معلوم ہوتا ہے ۔ امام حسین نے فرمایا: ہلال! آنے دو۔ اب امام کا حکم، کیا کریں ۔ ہلال نے اُسے چھوڑا مگر کس طرح؟ جب وہ امام حسین کے سامنے جا کھڑا ہوا تو امام حسین نے دیکھا کہ اُس کی تلوار کے قبضے پر ہلال کا ہاتھ ہے۔ یہ دیکھ کر امام حسین مسکرائے۔ہلال! یہ کیا ہے؟ عرض کرتے ہیں: مولا ! مجھے اس بات کی اجازت دیجئے کہ میں اس کی تلوار کے قبضے پر سے ہاتھ نہ ہٹاؤں۔ 

ہلال نے اس وقت اس کی تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ارے عاشور کے دن تم سب کے سب کہاں تھے جب شمر خنجر لے کر آیا تھا، کوئی نہ تھا جو اس پر ہاتھ رکھتا۔ کیا عرض کروں، رات گزررہی ہے۔ بس ایک دفعہ عرض کردوں۔ کتابوں میں یہ چیز بھی ہے کہ امام حسین بیبیوں کے خیموں کی طرف وقفوں وقفوں سے جاتے ہیں۔ ایک یہ مقصد ہے کہ کوئی چھپ کر ادھر نہ آجائے اور یہ بھی مقصد ہے کہ ذرا بیبیوں کو دیکھیں کہ کس عالم میں ہیں۔ بعض کتابوں میں یہ بھی ہے کہ جب مادرِ علی اکبر کے خیمے کی طرف تھے تو دیکھا کہ علی اکبر کچھ آرام کررہے ہیں۔ ماں نے ایک شمع جلا رکھی ہے اور پاس بیٹھی ہوئی علی اکبر کی صورت دیکھ رہی ہیں۔ ماں کہہ رہی ہے: میرے لال! کل یہ چاند سی تصویر مٹ جائے گی۔ جنابِ زینب کے خیموں کی طرف گئے، دیکھا کہ زینب نے اپنے بچوں کو بٹھا رکھا ہے اور فرمارہی ہیں: بچو! کل قربانی کا دن ہے۔ میں تمہیں اپنے بھائی پر قربان کردوں گی۔ بہرحال امام حسین روتے رہے۔ 

بس حضور!اب اس سے آگے نہیں کہہ سکتا۔ بس ایک دو فقرے آخر کے سن لیں۔ کل نہ خیمے ہوں گے، یہ بیبیاں اس وقت پردے میں بیٹھی ہیں، کل فرش پر بیٹھی ہوں گی، نہ اُن کے بھائی ہوں گے، نہ اُن کے بیٹے ہوں گے۔ 

صبح سے جنگ شروع ہوگئی۔ وہ وقت آیاکہ اب حسین کا کوئی مددگارنہ رہا۔ ایک مرتبہ فریاد کی آواز بلند کی: 

“ھَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا،ھَلْ مِنْ مُغِیْثٍ یُغِیْثُنَا”۔ 

“کوئی ہے جو اس عالمِ بیکسی میں میری مدد کو آئے”۔ 

بیبیوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ حسین آئے، جنابِ زینب نے کہا:علی اصغر نے اپنے آپ کو گہوارے سے گرادیا۔ فرماتے ہیں: ہاں! مجھے دے دو۔ لے آئے میدان میں۔ بچے کے تیر لگا۔ حسین نے قبر بنائی، دورکعت نمازِ شکر ادا کی۔ پھر اس کے بعد خیمے میں آئے۔ آخری مرتبہ خیمے میں آئے۔ اب ذراتصور تو کیجئے، صبح کے وقت گھر بھرا ہوا تھا۔ اس وقت کوئی نہیں ہے۔ علی اکبر بھی سینے پر برچھی کھائے ہوئے سورہے ہیں۔ عباس بھی نہر کے کنارے بازو کٹائے ہوئے آرام کررہے ہیں۔ امام حسین خیمے کی طرف تشریف لائے اور اب وہ فریاد کی آواز ہے۔ دنیا میں کوئی نہ تھا جس کے کان میں یہ آواز نہ پہنچی ہو۔ امام حسین نے فرمایا: کوئی ہے جو اس مصیبت کو حرمِ رسول سے دور کرے! کوئی ہے جو میری فریاد کو پہنچے! 

حضورِ والا!یہ جو ایک دو مرتبہ آواز بلند کی اور کسی طرف سے جواب نہ آیا۔ میرے خیال میں جو انبیاء کھڑے ہوئے ہیں نا میدانِ کربلا میں، انہوں نے لبیک کہا ہوگا مگر حسین نے فرمادیا ہوگا: تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔ اب کیا ہوا، یہ دوسری مرتبہ فریاد کی آواز جو بلند کی، یہ دوسری مرتبہ ہے کہ خیموں سے بیبیوں کے رونے کی آواز باہر آئی۔ اب جو دیکھا تو یہ قیامت دیکھی کہ امام زین العابدین علیہ السلام ، جو غشی کے عالم میں تھے، جب یہ آواز اُن کے کان میں پہنچی، ایک مرتبہ اُٹھے، تلوار پکڑی، گھٹنوں کے بل چلے، خیمے کا پردہ اُٹھایا، باہر نکل گئے۔ اُمّ کلثوم نے دامن سے پکڑا، کہا: بیٹا! کدھر جارہے ہو؟ امام زین العابدین فرماتے ہیں: مجھے چھوڑ دو۔ میرا مظلوم باپ مدد کیلئے پکار رہا ہے۔ امام حسین نے جب یہ دیکھا تو تشریف لائے، آواز دی:بہن ! میرے بیٹے کو نہ چھوڑنا۔ نسلِ امامت منقطع ہوجائے گی۔ امام زین العابدین علیہ السلام کو خیمے میں لے گئے۔ اس کے بعد امام زین العابدین نے ایک چیخ ماری اور پھر آنکھیں بند ہوگئیں۔ اچھا بس آخری منزل میں پہنچ جاؤں۔ وہ وقت آیا کہ حسین گھوڑے سے گرنے لگے۔ بس حضور! اس کے بعد ختم۔ سنبھلا نہ جاسکا کیونکہ پیشانی کا تیر جب نکالا تو خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔ 

حسین کا گھوڑے پر سنبھلنا مشکل ہوگیا۔ ایک مرتبہ زمین کی طرف دیکھا: فرماتے ہیں: میرے نانا کے وفادار گھوڑے! میں اگر یہاں گرگیا تو خیمے سامنے ہیں۔ میری بہن خیمے کے دروازے پر کھڑی ہے۔ 

اگر قاتل نے آکر میرا سرکاٹا، میری بہن مر جائے گی۔ مجھے اس جگہ لے جا جہاں سے خیمے دکھلائی نہ دیں۔ گھوڑا ایک نشیب کے مقام پر ٹھہرا۔ آپ نے آنکھ کھول کر دیکھا : کہا، ہاں! یہی تو وہ زمین ہے جو میرے نانا نے مجھے دکھلائی تھی۔ گھوڑے نے اپنے گھٹنے ٹیکے۔ حسین ایک طرف کو جھکے ۔ اور کیا عرض کروں؟ فوراً زمین پر نہ پہنچ سکے۔ زبان سے نکلتی نہیں ہے بات! زمین سے لگنا تھا کہ ایک مرتبہ زمین کو دھچکا سا لگا۔ فضا کا رنگ بدلا، زینب دروازے پر کھڑی ہوئی یہ دیکھ کر گھبرا گئیں۔ آج زینب کا کوئی نہیں ہے ۔ یہ سمجھ کرکہ بھائی قتل ہوگئے، ایک مرتبہ خیمے سے باہر آگئیں۔ چادر کا ایک سرا سر پر ، ایک زمین پر لگتا ہوا۔ ایک جگہ پہنچیں۔ یہ کچھ بلند تھیں، وہاں سے دیکھا کہ حسین گرم زمین پرتڑپ رہے ہیں۔ 

عزادارو!ذرا تصور کرنا، زینب کس سے کہے؟ ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک شخص فوج سے نکلا خنجر لئے ہوئے، زینب سمجھیں کہ یہ میرے بھائی کو قتل کرنے کیلئے آرہا ہے۔ ہائے! بیکس بہن کیا کرے، کس سے کہے؟ ایک مرتبہ آواز بلند کی: 

“وَامُحَمَّدَاہُ، وَا عَلِیَّاہُ”۔ 

بابا! نجف سے آؤ، نانا مدینہ سے آؤ۔ 

امام حسین کے کان میں آواز پہنچی۔ سر اُٹھایا، دیکھا کہ بہن کھڑی ہوئی فریاد کررہی ہے۔ امام حسین نے اشارے سے کہا کہ ابھی میں زندہ ہوں۔ خیمے میں چلی جاؤ۔ بھائی کا حکم، زینب چلیں خیمے کی طرف۔ بس دو تین قدم چلیں، پھر آواز دی:یا محمداہ! 

ارے اس طرح سے خیمے میں جب پہنچیں ، تھوری دیر کے بعد زمین میں زلزلہ آیا۔ گھبرا گئیں کہ یہ زلزلہ کیسا! گھبرائی ہوئی امام زین العابدین کے خیمے میں پہنچیں۔ ایک مرتبہ بازو پکڑ کر ہلایا:بیٹا زین العابدین ! اُٹھو! امام زین العابدین کی آنکھ کھلی، فرمایا: پھوپھی جان! کیا ہے؟ کہا دیکھو یہ زلزلہ آرہا ہے۔ امام زین العابدین نے فرمایا: پھوپھی جان! خیمے کا پردہ ذرا اُٹھاؤ، اب جو پردہ اُٹھا، کیا دیکھا کہ حسین کس سر نیزے پر بلند ہے اور فوجِ یزید خوشیاں منارہی ہے۔

 

تبصرے
Loading...