رمضان المبارک ہمیں ایثار و قربانی سے مشکلات کا مقابلہ کا سبق دیتا ہے

روزہ اگرچہ پہلے ادیان کے ماننے والوں پر بھی فرض رہا ہے لیکن اسلام نے امت مسلمہ پر جس انداز میں اس کی ادائیگی کو اپنے ارکان خمسہ کا حصہ بنایا ہے اس سے اس کے دائرہ کار اور اغراض و مقاصد میں اتنی وسعت آ گئی ہے 

کہ وہ پوری حیات انسانی کو اپنے احاطہ میں لیتے ہوئے مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ شریعت اسلامیہ کے تحت ممنوع اور حرام قرار دی جانے والی اشیاء ہی سے دور نہ رہیں بلکہ زندگی کی ان تمناؤں اور خواہشات نفسانیہ سے بھی ایک معین نظام الاوقات میں اجتناب کریں جو بجائے خود جائز اور درست ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو رمضان المبارک ایثار و قربانی اور مفاہمت کا درس دینے والا ایک ایسا ریفریشر کورس ہے جس کی رضا و رغبت اور مسرت و انبساط سے تکمیل کرنے والا تکبر و غرور اور ان کے تمام لاحقوں سے پاک صاف ہو کر اپنے آپ کو کلیتاً اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کر دیتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے کسی قول و فعل اور حرکت وسکون سے کوئی اشارہ بھی ایسا نہ ملے جس سے احکام الٰہی کی خلاف ورزی مترشح ہو۔

نفس پر قابو پانا اور ایثار و قربانی کی اس منزل تک پہنچنا ایک مشکل اور کٹھن کام ہے کیونکہ شیطان ہر قدم پر انسان کو بہکاتا اور اسے اطاعت خداوندی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع سے ہٹا کر اپنی اتباع کرنے کی ترغیب دیتا ہے

لیکن جو لوگ خلوص نیت اور ایمان کے ساتھ اپنے آپ کو احکام الٰہی کی پیروی کے لئے وقف کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ شیطان ان پر قابو پانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ اوائل اسلام میں چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کی شکل میں نبوت کا آفتاب اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ چمک رہا تھا اس لئے احکام الٰہی کی دانستہ نافرمانی کی کوئی سوچ کسی مسلمان کے حاشیہ خیال تک میں نہ آتی تھی اور اگر ان میں سے کسی کے ذہن میں کوئی ادنیٰ سا خلجان پیدا ہوتا تھا تو وہ فوراً دربار نبوی میں پہنچ کر اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود سے رہنمائی حاصل کر کے اپنی اصلاح کر لیتا تھا اور یوں اس کے قول و فعل میں کوئی تفاوت اورغیریت جنم نہیں لیتی تھی اور وہ کردار و عمل کا ایک ایسا مینارہ نور بن جاتا تھا کہ اس کی روشنی بہت سے دوسرے دلوں کو ایمان کی حرارت سے فروزاں کرنے کا موجب بن جاتی تھی۔ اسی سے زندگی، محبت، معرفت اور نگاہ کی دولت سے آراستہ وہ عظیم الشان کارواں تشکیل پایا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف جزیرہ نمائے عرب کو کفر و شرک کی آلودگیوں سے پاک کر کے اسے ایک ایسی امت واحدہ میں تبدیل کر دیا جس نے چند ہی برسوں میں نہ صرف اس بے آب و گیاہ خطے کو ایمان کی روشنی سے منور کر دیا بلکہ معلوم دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر بھی اپنی سطوت و شوکت کے ایسے لازوال نقش قائم کر دیئے کہ آج چودہ سو برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی ہیبت اور دبدبہ ابھی تک ماند نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ محض اس وجہ سے ظہور پذیر ہوا کہ پاکبازوں کی اس جماعت کا ہر فرد ایثار و قربانی کے جذبے سے اس طرح سرشار تھا کہ اگر اس کے کسی ایک فرد کو کانٹا بھی چبھ جاتا تھا تو دوسرا اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا تھا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف کو دور نہیں کر لیتا تھا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہونے والی ایک جنگ کا یہ واقعہ کس کو یاد نہیں کہ جب ہر طرف سے العطش العطش کی صدائیں بلند ہونے لگیں تو ان میں سے ہر ایک نے اپنی تشنگی کو اپنے مسلمان بھائی کی پیاس بجھانے پر اس طرح ترجیح دی کہ اپنی جان ایک دوسرے پر قربان کر دی۔

روزہ دوسروں کے دکھ درد اور اذیت و کلفت کو اسی طریقے سے محسوس کرنے کا نام ہے ورنہ محض بھوک پیاس کو برداشت کرنا رمضان المبارک کا اصل مقصود نہیں ہے ۔ روزہ ریاضت بدن کے ذریعے دوسروں کی بھوک کا احساس پیدا کرنے کا کام بھی کرتا ہے اور زکوٰة کے ذریعے اپنے اموال سے خلق خدا کے دکھوں کو دور کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔ روزے کی حالت میں اگر کوئی دل آزاری کی بات کہہ دے تو حکم یہ ہے کہ جواب میں صرف کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اسلام کی ان تعلیمات عالیہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو روزہ بدنی و مالی ایثار و قربانی کے علاوہ تطہیر اخلاق کے لئے مفاہمت کا سبق دینے والی ایک ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت عبادت ہے جو انسان کو زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کرنے اور تلخ تر حالات کا پامردی سے سامنا کرنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اگر رمضان المبارک کے ایام میں حاصل ہونے والے اس سبق کو ہم اپنی انفرادی و قومی زندگی میں مشعل راہ بنائیں تو اس سے ہمیں بے شمار مصائب و مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔ اور یہ راستہ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ہمیں کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔

لیکن ہم نے نہ تو عالم اسلام کی سطح پر اس سے فائدہ اٹھا کر امت مسلمہ کو دنیا بھر میں عزت و توقیر کی اس منزل تک پہنچانے کی جدوجہد کی ہے جو ڈیڑھ ارب سے زائد افرادی قوت رکھنے والی اور تیل کی دولت کے 70 فیصد وسائل سے مالامال اس قوم کا فطری حق ہے اور نہ وطن عزیز کی حد تک اس کو عملی شکل دینے کے لئے کوئی موثر کوشش کی ہے اور آج حالت یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ و یورپ کی طاغوتی قوتیں اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ہمیں ہڑپ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تو دوسری طرف ہم خود لسانیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کی دلدل میں اس طرح دھنسے ہوئے ہیں کہ ہمارے دشمنوں نے اسلام اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کا مترادف قرار دے رکھا ہے اور ہمارے مقتدر طبقات کا یہ عالم ہے کہ وہ قوم و ملک کو درپیش مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری، معاشی ناہمواری، صنعتی بدحالی اور امن عامہ کی بدتر صورتحال ایسے سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کی بجائے اپنی توانائیوں کو چھوٹے چھوٹے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ معاشرے کے مستحقین کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اور موثر قانون سازی کریں جو کئی عشروں سے نظر انداز کر دیئے جانے کی وجہ سے اب اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ ان کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے ۔ اگر ہمارے ارباب اقتدار رمضان المبارک کے احکام میں شامل ایثار و قربانی کی اس روح کو سمجھیں اور اس کو پورا کرنے کے لئے قربانی دینے کی اپنی ذات سے ابتدا کریں تو وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکیں گے بلکہ ان کے دنیاوی عزت و احترام میں بھی اضافہ ہو گا ۔ آخر میں ہم حکام اور عوام سب کی خدمت میں گزارش کریں گے کہ زبانی دعووں اور نعروں کی نسبت کردار کی آواز کہیں زیادہ بلند ہوتی ہے اس مہینے کی مبارک ساعتوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگیوں میں حقیقی انقلاب لانے کا عزم کریں کہ اسی سے یہ اندازہ ہو گا کہ انہوں نے اس سے کیا سیکھا ہے۔

حکمتِ روزہ

صوم (روزہ) کے لغوی معنیٰ اور شرعی معنیٰ :

عربی زبان میں صوم کہتے ہیں کہ کسی چیز سے رک جانا اور چھوڑ جانا۔ روزہ دار کو صائم اس لیے کہتے ہیں کہ وہ کھانے پینے اور عمل تزویج سے خود کو روک لیتا ہے۔

روزہ کے شرعی معنیٰ ہیں کسی مسلمان عاقل اور بالغ شخص کا عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع کرنے سے اپنے آپ کو روک لینا اور اپنے نفس کو تقویٰ کے لیے تیار کرنا۔

رمضان لفظ کی معنیٰ

رمضان رمض کا مصدر ہے، اس کی لغوی معنیٰ ہے دھوپ سے تپتی ہوئی زمین، تپتی ہوئی ریت۔ علماء کرام لکھتے ہیں کہ جب رمضان کا نام رکھا گیا، شدت کی گرمی پڑرہی تھی۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ رمضان رمضاء سے لیا گیا ہے۔ رمضاء خریف کی اس بارش کو کہتے ہیں جو زمین سے گرد و غبار کو دھو ڈالتی ہے، اسی طرح رمضان بھی امت محمدیہ کے گناہ دھو ڈالتا ہے اور ان کے دلوں کو پاک کردیتا ہے۔

روزہ عالمگیر عبادت ہے

گذشتہ تمام آسمانی مذاہب و ملل میں بھی روزہ بطور عبادت فرض کیا گیا تھا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے

یا ایہا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلمکم تتقون

ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا لکھتا ہے:

روزہ کے طریقے اور اس کے اغراض آب و ہوا، قوم و نسل اور تہذیب و تمدن اور دوسرے حالات کے پیش نظر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن کسی بھی ایسے قابل ذکر مذہبی سلسلے کا نام لینا مشکل ہے جس میں روزہ سے کلیتاً انکار کیا گیا ہو اور اسے تسلیم نہ کیا گیا ہو۔

(انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا از مضمون روزہ Fasting)

اس کے علاوہ تاریخ انسانی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ ادوار میں صرف آسمانی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی روزہ نہیں رکھتے تھے بلکہ دنیا میں موجود مختلف قدیم تہذیبوں مثلا مصری، یونانی، رومن اور ہندو تہذیب میں بھی روزہ رکھا جانا ثابت ہے۔

روزہ فرض ہونے کی تاریخ

علامہ علاؤالدین حصکفی نے لکھا ہے کہ ہجرت کے ڈیڑھ سال اور تحویل قبلہ کے بعد دس شعبان کو روزے فرض ہوئے اور یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:

یا ایہا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلمکم تتقون

مؤرخین بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ہجرت مدینہ کے دوسرے سال اٹھارھویں مہینہ شعبان کے نصف میں روزے فرض کیے گئے۔ (بحوالہ تاریخ ابن خلدون وتاریخ طبری)

اس کے علاوہ صدقہ عیدالفطر کا حکم بھی اسی سال سے جاری ہوا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے فضائل بیان فرمائے۔ پھر صدقے کرنے کا امر فرمایا۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کی نماز بھی اسی سال عیدگاہ میں ادا فرمائی اس سے پہلے عید کی نماز ادا نہیں کی جاتی تھی۔

روزے کے شرائط

علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ روزے کے صحیح ہونے کے لیے نیت کرنا اور حیض و نفاس سے پاک ہونا شرط ہے۔ تاہم اس کے ساتھ مسلمان ہونا بھی روزہ دار کے لیے ضروری شرط ہے۔ شیخ علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ روزہ کے نفس وجود کے لیے مسلمان ہونا، بالغ ہونا اور عاقل ہونا شرط ہے۔ (بحوالہ شرح صحیح مسلم جلد ثالث علامہ غلام رسول سعیدی)

روزے کی حکمتیں

روزے کی حالت میں جب انسان کھانے پینے اور ازدواجی تعلق سے کنارہ کش ہوجاتا ہے تو ہر قسم کی بری عادتوں سے بھی دور رہتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہر ممکن حد تک کوشش کرتا ہے اور حکم خداوندی کے مطابق نفس امارہ کی مخالفت کرتا ہے تو اس کی روح کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور اس کی روحانی قوت تیز ہوجاتی ہے۔ اس طرح وہ اخلاق باری تعالیٰ اور صفات الاہیہ سے متصف ہوجاتا ہے اور اس پر مکاشفات کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ اسرار و رموز پر اطلاع پاتا ہے۔ اس وجہ سے صوفیاء کرام اس ماہ کو تنویر قلب کہتے ہیں۔ اس مہینے میں قلب انسانی خدا تعالیٰ کی قدرت و کرشموں سے آگاہ ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں روزے دار کو سائم کے لفظ سے بھی پکارا گیا ہے جس کی معنیٰ ہے روحانی منازل طے کرنے والا۔

خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں روزے کا ایک اور مقصد بیان فرمایا ہے ”لعلکم تتقون“ جس کی معنیٰ ہے کہ تاکہ تم تقویٰ حاصل کرلو۔

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص شادی کرنے کے اسباب نہیں پاتا وہ شہوانی قوت کو ختم کرنے کے لیے روزہ رکھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے سے شہوانی قوت میں ضعف پیدا ہوتا ہے اور قلب انسانی میں تقویٰ و خشیت کا حصول ممکن و آسان تر ہوجاتا ہے۔

روزے رکھنے سے ہمدردی و مساوات کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے، کیونکہ فطرت انسان ہے کہ جب تک انسان خود تکلیف دہ کیفیت سے نہیں گزرتا تب تک اس کے لیے اس کیفیت کا سمجھنا اور اس کی تکلیف کو محسوس کرنا مشکل تر ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام نے امراء کو غریبوں و مسکینوں کی بھوک و پیاس کا عملی احساس دلانے کے لیے روزے لازم کیے ہیں تاکہ پیٹ بھر کر کھانے والے افراد غریبوں کی بھوک و پیاس کی تکلیف کو سمجھ پائیں اور ان کے دلوں میں غریبوں کے لیے ہمدردی و مساوات کا احساس پیدا ہوجائے۔

اس کے ساتھ روزہ ضبط نفس کے لیے عمدہ دوا ہے کہ انسان صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے کی جملہ چیزوں سے اجتناب برتتا ہے۔ اجمالاً کہ حلال و طیب چیزوں کی طرف بھی ہاتھ تک نہیں بڑھاتا۔ یہ چیز نفس پر ضبط کرنے کے لیے عمدہ مشق کا کام دیتی ہے ۔ بھوک پیاس پر صبر کرنے سے انسان کو صبر و برداشت کی تعلیم حاصل ہوتی ہے۔ اور روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو نہ نظر آتی ہے اور نہ اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ روزہ دار کھانے پینے اور جماع کرنے کو چھوڑ دیتا ہے اور یہ ایسے اعمال ہیں جو ظاہراً کسی کو بھی نظر نہیں آتے۔ اس لیے یہ ایک مخفی عبادت ہے اور اس میں ریا نہیں ہوسکتا۔ من جملہ یہ عبادت اخلاص کے سوا کچھ نہیں ہے۔

 

 

 

 

 

تبصرے
Loading...