رحمۃللعالمین

عبدالکریم پاک نیا 

خداے رحمان و رحیم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی رحمت مھربانی اور ومھر محبت کا مظہر بنا کر بھیجا ہے آپ کی شان میں ارشاد ربانی ہے “وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین 

رحمۃ للعالمین 

خداے رحمان و رحیم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی رحمت مھربانی اور ومھر محبت کا مظہر بنا کر بھیجا ہے آپ کی شان میں ارشاد ربانی ہے “وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین “ہم نے تمہیں نہیں بھیجا مگر عالمین کے لۓ رحمت بنا کر ۔ 

متعدد آیات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مھربانی دلسوزی اور بے پناہ عنایات کا ذکر کیا گيا ہے اور آپ کی حیات طیبہ کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خوان رحمت محبت و عطوفت و رافت سے نہ صرف اھل ایمان بہرہ ور ہیں بلکہ سارے انسان یہانتک کے موجودات بھی بہرہ مند ہیں ۔ 

رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا سرچشمہ ذات احدیت کی رحمت ہے اور اسی اسم مبارک(رحمان و رحیم ) سے قرآن کی تمام سورتیں شروع ہوتی ہیں ۔ 

خدا کے بارے میں رحمت کے معنی عطا،افاضہ اور حاجت و ضرورت پوری کرنے کے ہیں ،صفت رحمان و رحیم میں رحمت خدا کے معنی بے پناہ رحمت کے ہیں جو وسیع البنیاد اور دائمی ہے اور تمام موجودات عالم منجملہ انسانوں کو خواہ مومن ہوں یا کافر شامل ہے ۔ 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود مقدس ،آپ کی رسالت اور پیغام وحی اور آپ کی تمام زحمتیں اور کوششیں سب خداے واحد و رحمان کی رحمت کا مظہرہیں خود آپ نے فرمایا ہے “مجھے رحمت کے لۓ مبعوث کیا گيا ہے ” 

توحیدی حکومت 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا ایک اہم ترین جلوہ مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت کی تشکیل ،ترویج توحید، سلامتی عدل و انصاف قائم کرنا اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے کام کرنا ہے آپ نے مدینے میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے بعد دین اسلام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا عزم فرمایا اور اگر کچھ مسائل پیش نہ آتے اور مسلمان آپ کی بتائي ہوئي راہ پر گامزن رہتے تو ساری دنیا توحیدی حکومت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتی جیسے کہ انشاء اللہ آپ کے آخری جانشین حضرت مھدی علیہ السلام کی حکومت میں مھر نبوی، عدل مھدوی اور دیگر نعمات خداوندی سے فیضیاب ہوگي دعاے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ “خداونداہمیں امام زمانہ علیہ السلام کی رحمت ورافت دعا وخیر عنایت فرما تاکہ ہم اس کے ذریعے تیرے دریاے رحمت سے متصل اور تیرے حضور کامیاب ہوں “بنیادی طور پر سرزمین حجازمیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کا مبعوث ہونا سارے انسانوں کے لۓ رحمت ہے کیونکہ آنحضرت نے مبعوث برسالت ہوکر جاھلیت کے غلط آداب اور خرافات کو مٹایا عورتوں اور دیگر پسماندہ لوگوں کو حقوق دلواے ظلم وستم و استثمارسے مقابلہ کیا قبیلوں کو آپسی جنگ وخونریزی سے روکا عدل وانصاف ومساوات قائم کی تمام قبیلوں قوموں اور حکومتوں کو پیغام وحی پہنچایا ،اپنے ساتھیوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ فداکار مومن مدبر و اسلامی و انسانی اخلاق سے آراستہ ہوگۓ اخلاقی و روحانی فضائل سے انسانوں کو آراستہ کیا توحید و اتحاد کے ساے میں انسانوں کو عزت وآزادی عطاکی مخلوق و خالق کے درمیان مستحکم رابطہ قائم کیا یہ سب چیزیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا مظہرنہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟ 

وجود مقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے سب سے زیادہ فائدہ مومنین کو پہنچتا ہے کیونکہ مومنین اپنی ذاتی اھلیت و لیاقت سے آپ کے توحیدی پیغام کو اچھی طرح سمجھنےکی صلاحیت رکھتے ہیں اور سعادت و رستگاری کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں اسی بناپر خدا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مومنین کے لۓ خاص سفارشیں کی ہیں سورہ شعراء میں ارشاد ہوتا ہےکہ اے رسول جو مومنین تمہارے پیرو ہوگۓ ہیں ان کے لۓ اپنا بازو جھکاو یعنی فروتنی سے پیش آؤ۔ 

اسی طرح سورہ حجر میں ارشادہوتا ہے “ایمان داروں سے جھک کرملاکرو”۔ 

رسول اکرم نے بھی مومنین کے سروں پر اپنا سایہ رحمت و رافت اور محبت و توضع پھیلادیا تھا ،رسول اکرم کے اس عمل کو سراھتے ہوۓ خدا فرماتا ہے “تو اے رسول یہ بھی خدا کی مھربانی ہےکہ تم جیسا نرم دل سردار ان کو ملا اور اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو تب یہ لوگ تمہارے پاس سے تتربتر ہوجاتے ۔ 

بے شک رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت مومنین کے شامل حال تھی اور مومنین بھی آپ کو دل سے چاہتے اور آپ پر اپنی جان نچھاور کیاکرتے تھے آّپ کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹانے کو تیاررہتے اور آپ کے سامنے سرتسلیم خم تھے ۔ 

مثال کے طور پر ابوذر غفاری نے شدید تشنگي برداشت کی لیکن رسول اکرم کے پانی پینے کے بعد ہی پانی پیا ،بلال نے شدید ترین ایذائيں برداشت کیں لیکن آپ کی راہ سے منہ نہیں موڑا اسی طرح سلمان فارسی نے آپ کی محبت میں لمبی مسافت طے کی اور سفر کی طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کیں ان سب سے بڑہ کر حضرت علی علیہ السلام نے بارھا اپنی جان پر کھیل کر آنحضرت کی نصرت کی ۔ 

فرشتوں کو بھی رسول اکرم کی رحمت سے فیض پہنچتاہے امین وحی جب یہ آیت وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین لیکر آے تو رسول نے پوچھا کہ کیا اس رحمت سے تمہیں بھی فیض پہنچے گا تو جبرئيل نے کہا کہ میں اپنی عاقبت کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھا لیکن اس آيت کے نازل ہونے کےبعد مجھے اطمئنان ہوگیا ۔ 

مخالفین کے کو بھی آنحضرت کی رحمت سے فیض پہنچتاہے اگر مخالفین و کفار اھلیت و لیاقت کا ثبوت پیش کرتے تو بے شک رحمت نبوی سے استفادہ کرکے اخروی اور معنوی مقامات تک پہنچ سکتے تھے لیکن انہوں نے رسول اسلام کی محبت و مھربانی کو نظراندازکیا بلکہ آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے لہذا اس سنہری موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکے رسول اکرم انہیں توحید کی دعوت دیتے تھے لیکن وہ انکار کرجاتے تھے لیکن مشرکین کی ایذارسانیوں کے باوجود رسول اسلام نے فتح مکہ کے دن اپنی رحمت و مھربانی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ انہیں معاف فرمادیا ۔ہجرت کے آٹھویں سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوۓ ،مشرکین و کفاراور آپ کے دشمنوں نے برسوں اسلام کو مٹانے کی کوشش کی تھی اور آپ پر اور آپ کے ساتھیوں کو شدید ترین مصائب و ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا ان ہی لوگوں نے بارھا آپ کے قتل کا منصوبہ بنایاتھا اور کئی مرتبہ ان منصوبوں پر عمل بھی کیاتھاان ہی لوگوں نے آپ کے بہترين ساتھیوں کو خاک وخون میں غلطان کیاتھا اور جب انہوں نے فتح مکہ کے دن آپ کی عظمت وشوکت دیکھی تو رعب وحشت وخوف سے لرزنے لگے ان کا خیال تھا کہ رسول اسلام ان سے انتقام لیں گے لیکن رسول رحمت نے ہرگزان سے انتقام نہیں لیا بلکہ قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی” آج سے تم پر کچھ الزام نہیں خدا تمہارے گناہ معاف فرماۓ “(یوسف 92)اور یہ معروف جملہ فرمایا کہ جاؤ زندگي کی طرف لوٹ جاؤ تم آزاد شدہ ہو۔ 

تبصرے
Loading...