رجعت عقلی اور نقلی نقطہ نظر سے

 

شیعہ امامیہ معتقد ہیں کہ مہدی موعود(ع) کے ظہور اور حکومت عدل الہی تمام عالم میں قائم ہونے کے بعد اولیاء الہی اور خاندان رسالت کے محبوں اور بعض خانداون وحی ونبوت کے دشمنوں کو (جو دنیا سے جاچکے ہیں) دنیا ہی میں دوبارہ پلٹایا جائے گا۔

 اولیاء الہی اورصالحین حق وعدل کی حاکمیت تمام کرئہ ارض میں دیکھ کر خوش حال ہوں گے اور اپنے نیک اعمال اور ایمان کے ثمرات ونتائج کا دنیا میں مشاہدہ کریں گے۔ دشمنان اہل بیت بھی خاندان رسالت پر روارکھے گئے تمام ظلم وستم کی سزا اسی سرائے فانی میں دیکھیں گے۔ اگر چہ وہ قیامت میں اپنے آخری کیفر کردارکی جزا پائیں گے۔

رجعت کا قول امامیہ عقائد میں سے ہے 

 عقیدئہ رجعت، ان بنیادی مباحث میں سے ہے جو شیعہ امامیہ مذہب کے آغاز وظہور کے زمانہ سے چلا آرہا ہے اور اس پر اعتقاد رکھنا مکتب اہل بیت(ع) کے امتیازات اور خصوصیات میں شمار کیاگیا ہے۔ لہذا اہل سنت کی رجالی کتابوں میں مراجعہ کرنے کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ شیعہ امامیہ کو اس عقیدہ کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اصحاب آئمہ کے درمیان بھی مشاہدہ کیا جاتاہے کہ ان میں سے بعض افراد نے اپنے مخالفین کے ہمراہ اس مسئلہ میں مباحثات انجام دئیے ہیں، جیسے مومن طاق اور ابوحنیفہ کی باہمی بحث، اسی دلیل سے طول تاریخ میں شیعہ علماء نے اس عقیدہ کوثابت کرنے کے لئے کتابیں تحریر کیں۔ منجملہ ان میں سے شیخ مفید، سید مرتضی، علامہ مجلسی،شیخ حر عاملی اور دوسرے علماء کا نام لیا جاسکتا ہے۔ 

رجعت کا مفہوم 

رجعت لغت میں بازگشت کے معنی میں ہے اور اصطلاح میں امام مہدی(ع) کے عالمی قیام کے بعد صبح قیامت آنے سے پہلے لوگوں میں سے ایک جماعت کا اسی دنیا کی طرف بازگشت کرناہے۔ 

۱۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں: اننا نعتقد بشان الرجعة ان ھذہ الحادثة ستقع حتما (اعتقادات صدوق)۔ 

”ہمارا اعتقاد رجعت کے متعلق یہ ہے کہ یہ واقعہ عنقریب نہ کہ تاخیر سے حتما اور یقینا واقع ہوگا“۔ 

۲۔ شیخ مفید فرماتے ہیں:… ان اللہ تعالی یحشر قوما من امة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعد موتہم قبل یوم القیامة و ہذا مذہب یختص بہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والقرآن شاہد بہ…(بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۳۶(المسائل السرویة سے نقل شدہ،ص ۳۲))۔ 

۳۔ سید مرتضی فرماتے ہیں: ”ان الذی تذھب الشیعة الامامیة الیہ ان اللہ تعالی یعید عند ظہور امام الزمان المہدی(ع) قوما ممن کان قد تقدم موتہ من شیعتہ، لیفوزوا بثوب نصرتہ و معونتہ و مشاہدة دولتہ، ویعید ایضا قوما من اعدائہ لینتقم منھم…“ 

)بحارالانوار ج۵۳، ص۱۳۸ بنقل رسائل المرتضی ج۱ص۲۵)۔ 

”شیعہ امامیہ کے اعتقادات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالی امام مہدی کے ظہور کے وقت شیعوں میں سے ایک گروہ کو جوپہلے مرچکے ہوں گے ان کو دوبارہ زندہ کرکے دنیا میں بھیجے گا تاکہ وہ امام زمانہ(ع) کی نصرت ومددکا بھی ثواب حاصل کریں گے اوراپنی آنکھوں سے ان کی حکومت کا مشاہدہ کرکے خوش حال ہوں۔ نیز اللہ تعالی ان کے دشمنوںسے بھی ایک گروہ کو دوبارہ زندہ کرکے دنیا میں بھیجے گا تاکہ شیعہ مومنین ان سے اپنا انتقام لیں“ 

رجعت کی ایک تقسیم 

سید محمد صدر نے کتاب بحث حول الرجعة میں رجعت کی دو تقسیم بیان کی ہے: 

۱۔ رجعت معنوی (اخروی):اس معنی میں کہ فلسفہ میں ثابت ہوچکا ہے کہ تمام موجودات واشیاء، رشد ونمو کی حالت میں برقرار رہیں، ہمیشہ کمال مطلق اور ایک نقطہٴ آغاز کی طرف متوجہ ہیں جو وہاں سے اس کائنات میںآئی ہیں، اللہ تعالی فرماتاہے: ”الی اللہ ترجع الامور“ (سورہ بقرة آیت ۲۱۰)۔ خدا ہی کی طرف تمام امور کی بازگشت ہوتی ہے۔”ان الی ربک الرجعی“ (سورہٴ علق آیت۸) بیشک آپ کی رب کی طرف واپسی ہے۔ ”و ان الی ربک المنتھی “ (سورہ ٴ نجم آیت ۴۲)۔ اور بیشک سب کی آخری منزل پروردگار کی بارگاہ ہے ۔ ان للہ و انا الیہ راجعون“ (سورہٴ بقرہ آیت ۱۵۶) ہم اللہ ہی کے لئے ہیںاور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں۔ 

رجعت کا یہ معنی مسلمانوں کے نزدیک اتفاقی ہے۔ 

۲۔ مادی وظاہری (دنیوی) رجعت : اس قسم کی رجعت (جس کے متعلق قرآن نے بھی اشارہ کیا) سے مراد یہ ہے کہ مردوں کا دنیا میں اعمال انجام دینے کے لئے واپس آنا(بحث حول الرجعة،ص۸۔۱۲)۔

 

 

تبصرے
Loading...