دین اور اسلام

الف۔ دین

لفظ”دین” اسلامی شریعت میں دو معنی میں استعمال ہوا ہے :

١ ۔جزا، کیونکہ ، یوم الدین قرآن میںجو استعمال ہوا ہے اس سے مراد روز جزا ہے ، اسی طرح سورۂ فاتحہ( الحمد) میں مالک یوم الدین (١)آیا ہے یعنی روز جزا کا مالک۔

٢۔ شریعت جس میں اطاعت و تسلیم پائی جاتی ہو، شریعت اسلامی میں زیادہ تر دین کا استعمال اسی معنی میں ہوتا ہے ، جیسے خدا وند عالم کا یوسف اور ان کے بھائیوں کے بارے میں قول:

(ماکان لیأخذ أخاہ فی دین الملک )

( یوسف) بادشاہی قانون و شریعت کے مطابق اپنے بھائی کو گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔(٢)

اور سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین)

خدا وند سبحان نے اطاعت اور تسلیم کے ساتھ تمہارے لئے شریعت کا انتخاب کیا ہے ۔(٣)

(١) فاتحہ٤(٢)یوسف٧٦(٣)بقرہ١٣٢

ب۔  اسلام اور مسلمان

اسلام ؛ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کے احکام ا و رشریعتوں کے سامنے سر جھکانا۔

خدا وند سبحان نے فرمایا:

( ان الدین عند اللہ الاسلام) (١)

یعنی خدا کے نزدیک دین اسلام ہے ۔ اور مسلمان وہ شخص ہے جو خد اور اس کے دین کے سامنے سراپاسر تسلیم خم کر دے۔

اس اعتبارسے حضرت آدم کے زمانے میں اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کی شریعت کے مطابق رفتار کرنا ہے اور اس زمانے میں مسلمان وہ تھا جو خدا اور آدم پر نازل شدہ شریعت کے سامنیسراپا تسلیم تھا؛ یہ سراپا تسلیم ہونا حضرت آدم کے سامنے تسلیم ہونے کو بھی شامل ہے جو کہ خدا کے برگزیدہ اور اپنے زمانے کی شریعت کے بھی حامل تھے۔

اسلام؛ نوح  کے زمانے میں بھی خد ا کے سامنے تسلیم ہونا ، ان کی شریعت کا پاس رکھنا ، حضرت نوح کی خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی کے عنوان سے پیروی کرنا اور گز شتہ شریعت آدم پر ایمان لانا تھا۔ اور مسلمان وہ تھا جو تمام بتائی گئی باتوں پر ایمان رکھتا تھا، حضرت ابراہیم کے زمانے میں بھی اسلام خدا کے سامنے  سراپا تسلیم ہونے ہی کے معنی میں تھا اور حضرت نوح  کی شریعت پر عمل کرنے اور حضرت ابراہیم کی بعنوان بنی مرسل پیروی کرنے نیز آدم تک گز شتہ انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا ہی تھا۔

اور حضرت موسی  اور حضرت عیسیٰ  کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔

نیز حضرت محمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بھی وہی اسلام کا گزشتہ مفہوم ہے اور

(١)آل عمران١٩

اس کی حد زبان سے اقرار شہادتین ”اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ” تھا۔

اس زبانی اقرار کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ضروریات دین خواہ عقائد ہوںیا احکام یا گز شتہ انبیاء کی نبوتیں کہ جن کا ذکرقرآن کریم میں ہوا ہے ان میں سے کسی کاا نکار نہ ہو، یعنی جو چیز تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہے اور اسے اسلام میں شمار کرتے ہیںاس کا انکارنہیں کرنا چاہئے جیسے نماز، روزہ اور حج کا وجوب یا شراب نوشی، سود کھانا،محرموں سے شادی بیاہ کرنا وغیرہ کی حرمت یا اس جیسی اور چیزیں کہ جن کے حکم سے تمام مسلمان واقف ہیں،ان کا کبھی انکار نہیں کرنا چاہئے۔

ج۔ مومن اور منافق

اول : مومن

مومن وہ ہے جو شہادتین زبان پر جاری کرے نیز اسلام کے عقائد پر قلبی ایمان بھی رکھتا ہو۔

اور اس کے احکام پر عمل کرے اور اگر اسلام کے خلاف کوئی عمل اس سے سرزد ہو جائے تو اسے گناہ سمجھے اور خدا کی بارگاہ میں توبہ و انابت اور تضرع و زاری کرتے ہوئے اپنے اوپر طلب بخشش و مغفرت کو واجب سمجھے۔

مومن اور مسلم کے درمیان فرق قیامت کے دن واضح ہوگا لیکن دنیا میں دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کے احکام میں شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ خدا وند منان نے سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایا:

(قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا و لما یدخل الاِیْمان فی قلوبکم…)

صحرا نشینوں نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں ، تو ان سے کہو: تم لوگ ایمان نہیں لائے ہو بلکہ کہو اسلام لائے ہیں اور ابھی تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے …(١)

دوسرے ۔ منافق

الف۔ نفاق لغت میں: نفاق لغت میں باہر جانے کو کہتے ہیں، نافق الیربوع، یعنی چوہا

اپنے ٹھکانے یعنی بل کے مخفی دروازہ پر سرمار کر سوراخ سے باہر نکل گیا، یہ اس لئے ہے کہ ایک قسم کاچوہا جس کے دونوں ہاتھ چھوٹے اور پائوں لمبے ہوتے ہیں وہ اپنے بل میںہمیشہ دودروازے رکھتا ہے ایک داخل ہونے کا آشکار دروازہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں ہوتا؛ایک نکلنے کا مخفی اور پوشیدہ دروازہ ،وہ باہر نکلنے والے دروازہ کو اس طرح مہارت اور چالاکی سے پوشیدہ رکھتا ہے کہ جیسے ہی داخل ہونے والے دروازہ سے دشمن آئے؛

(١)حجرات١٤

آہٹ ملتے ہی مخفی دروازے پر سرمار کر اس سے نکل کر فرار کر جائے تواس وقت کہتے ہیں: ”نافق الیربوع”۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں نفاق: اسلامی اصطلاح میں نفاق، ظاہر ی عمل اور باطنی کفر ہے ۔ نافق الرجل نفاقاًیعنی اسلام کا اظہار کرکے اس پر عمل کیا اور اپنے کفر کو پنہاں اور پوشیدہ رکھا، لہٰذا وہ منافق ہے خدا وند عالم سورۂ منافقون میں فرماتا ہے :

(اذا جاء ک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ و اللہ یعلم انک لرسولہ و اللہ یشھد ان المنافقین لکاٰذبون٭ اتخذوا أَیمانھم جنة…)

جب منافقین تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم شہادت و گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں،خدا وند عالم جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو، لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافقین ( اپنے دعوے میں) جھوٹے ہیں، انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے۔

یعنی ان لوگوں نے اپنی قسموں کو اس طرح اپنے چھپانے کا پردہ بنا رکھا ہے اور اپنے نفاق کو اپنی جھوٹی قسموں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور خدا وند عالم ان کے گفتار کی نادرستگی (جھوٹے دعوے )کو پیغمبر اکرمۖ کے لئے ظاہر کرتا ہے ۔(١)

سورۂ نساء میں ارشاد ہوا:

( ان المنافقین یخادعون اللہ و ھو خادعھم و اذا قاموا الیٰ الصلٰوة قاموا کسالیٰ یرآء ون الناس…)

منافقین خدا سے دھوکہ بازی کرتے ہیں، جبکہ وہ خود ہی ان کو دھوکہ میں ڈالے ہوئے ہے اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور کسالت سے اٹھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ریا کرتے ہیں۔(٢)

(١)منافقون١۔٢(٢)نسائ١٤٢

د۔  اسلام تمام شریعتوںکا نام ہے

اسلام کا نام قرآن کریم میں گز شتہ امتوں کے بارے میں بھی ذکر ہوا ہے ، خدا وند عالم سورۂ یونس میں فرماتا ہے:

نوح نے اپنی قوم سے کہا:

( فأِن تولیتم فما سئلتکم من اجر ان اجری  اِ لَّاعلیٰ اللہ و أمرت ان اکون من المسلمین)

اگر میری دعوت سے روگردانی کروگے تومیں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا؛ میرا اجر تو خدا پر ہے ، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمان رہوں۔(١)

ابراہیم کے بارے میں فرمایا:

(ماکان ابراہیم یہودیاً ولا نصرانیاً ولکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین )

ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ خالص موحد ( توحید پرست) اور مسلمان تھے وہ کبھی مشرکوں میںسے نہیں تھے۔(٢)

٢۔(ووصیٰ بھا ابراہیم بنیہ و یعقوب یا بنیَّ ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون)

ابرہیم و یعقوب نے اپنے فرزندوںکو اسلام کی وصیت کی اور کہا: اے میرے بیٹو! خدا وند عالم نے تمہارے لئے دین کا انتخاب کیا ہے اور تم دنیا سے جائو تو اسلام کے آئین کے ساتھ۔(٣)

٣۔(ما جعل علیکم فی الدین من حرجٍ ملة ابیکم ابراہیم ھو سما کم المسلمین من قبل)

(١)  بقرہ١٣٢(٢)  حج٧٨(٣)  ذاریات٣٥۔٣٦

خدا وند عالم نے اس دین میں جو کہ تمہارے باپ کا دین ہے کسی قسم کی سختی اور حرج نہیں قرار دیا ہے اس نے تمہیں پہلے بھی مسلمان کے نام سے یاد کیا ہے۔(١)

سورۂ ذاریات میں قوم لوط کے بارے میں فرمایا:

(فأَخرجنا من کان فیھا من المؤمنین ٭ فما وجدنا فیھا غیر بیت من المسلمین)

ہم نے اس شہر میں موجود مومنین کو باہر کیا،لیکن اس میں ایک مسلمان گھرانے کے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں پایا۔(٢)

جناب موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے : انہوں نے اپنی قوم سے کہا:

(یا قوم ان کنتم آمنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین)(٣)

اے میری قوم! اگر تم لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر توکل اور بھرو سہ کرو اگر مسلمان ہو۔

اورسورۂ اعراف میں فرعونی ساحروں کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

(ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین)

خدا وندا! ہمیں صبرو استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔(٤)

فرعون کی داستان سے متعلق سورۂ یونس میں فرماتا ہے :

(حتی اذا ادرکہ الغرق قال آمنت انہ لا الٰہ الا الذی آمنت بہ بنو اسرائیل ٭ و انا من المسلمین)

جب ڈوبنے لگا توکہا: میں ایمان لایا کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔(٥)

سلیمان نبی کا ملکہ ٔسبا کے نام خطلکھنے کے بارے میں سورۂ نمل میں ذکر ہوا ۔

(انہ من سلیمان و انہ بسم اللہ الرحمن الرحیم٭ الا تعلو علی و أْتونی مسلمین)

یہ سلیمان کا خط ہے جو اس طرح ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے، میری یہ نسبت فوقیت اور برتری کا تصور نہ کرو اور میری طرف مسلمان ہو کر آجائو۔(٦)

نیز اس سورہ میں فرماتا ہے :

(١) حج٧٨(٢)  ذاریات٣٥۔٣٦(٣)  یونس٨٤(٤)  اعراف١٢٦(٥)یونس٩٠.(٦)نمل٣٠۔٣١.

( یا ایھا الملاء ایکم یأ تینی بعرشھا قبل ان یأتونی مسلمین)

اے گروہ!(اشراف سلطنت) تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس حاضرکرے گا ان کے میرے پاس مسلمان ہو کر آنے سے پہلے۔(١)

سورۂ مائدہ میں عیسیٰ کے حواریوں کے بارے میں فرماتا ہے :

(واذا اوحیت الیٰ الحواریین ان آمنوا بی و برسولی قالوا آمنا و اشھد بأَِنا مسلمون)

جب میں نے حواریوں کو وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لائے لہٰذا تو گواہی دے کہ ہم مسلمان ہیں۔(٢)

سورۂ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے :

(فلمّا احس عیسیٰ منھم الکفرقال من انصاری الیٰ اللہ قال الحواریون نحن انصار اللہ آمنا باللہ واشھد بأِنا مسلمون)

جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان میں کفر محسوس کیا تو کہا: خدا کے واسطے میرے انصار کون لوگ ہیں؟

حواریوں نے کہا: ہم خدا کے انصار ہیں؛ ہم خدا پر ایمان لائے، آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں۔(٣)

یہ اصطلاح گز شتہ امتوں سے متعلق قرآن کریم میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوسرے اسلامی مدارک  میں بھی ان کے واقعات کے ذکر کے وقت آئی ہے مثال کے طور پر ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نوح کے کشتی سے باہر آنے کاذکر کرنے کے بعد کہا : ” نوح کے آباء و اجداد حضرت آدم تک سب کے سب دین اسلام کے پابند تھے اس کے بعد روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ جناب آدم ونوح کے درمیان دس قرن کا فاصلہ تھا اس طولانی فاصلے میں سب کے سب اسلام پر تھے؛ اور اس نے ابن عباس کی روایت کے ذیل میں ذکرکیاہے کہ آپ نے ان لوگوں کے بارے میں جو کشتی سے باہر آئے اور ایک شہر میں سکونت اختیار کی کہا ہے: ان کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ افراد تک پہنچ گئی تھی اور سارے کے سارے دین اسلام کے پابند تھے۔(٤)

(١)نمل٣٨.(٢)مائدہ١١١.(٣)ال عمران٥٢.(٤)طبقات ابن سعد طبع یورپ، ج١،ص١٨، ابن کثیر نے اپنی تاریخ ج١، ص ١٠١ پر یہ روایت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ عشرہ قرون کلھم علیٰ الاسلام.

ھ۔ گز شتہ شریعتوں اور ان کے اسماء میں تحریف

گز شتہ امتوں نے جس طرح رب العالمین کی اصل شریعت میں تحریف کر دی اسی طرح ان کے اسماء بھی تبدیل کر دئے ہیں ، اس لئے کہ بعض ادیان کا اسلام کے علاوہ نام پر نام رکھنا جیسے یہودیت و نصرانیت و غیرہ بھی ایک تحریف ہے جو دین کے نام میں ایک تحریف شمار کی جاتی ہے جس کی وضاحت اس طرح ہے:

الف۔ یہود کی نام گز اری

یہود یروشلم کے مغربی جنوب میں واقع صہیون نامی پہاڑ کے دامن میںشہر یہوداسے منسوب نام ہے کہ جو جناب داؤد کی حکومت کا پایۂ تخت تھا، انہوں نے اس تابوت کیلئے ایک خاص عمارت تعمیر کی، جس میں توریت اور بنی اسرائیل کی تمام میراث تھی بنی اسرائیل کے بادشاہ وہیں دفن ہوئے ہیں۔(١)

ب۔  نصاریٰ کی وجہ تسمیہ

جلیل نامی علاقے میں جہاں حضرت عیسیٰ نے اپنا عہد طفولیت گز ارا ہے ایک ناصرہ نامی شہر ہے اسی سے نصرانی منسوب ہیں، حضرت عیسی اپنے زمانے میں ”عیسائے ناصری” سے مشہور تھے ان کے شاگرد بھی اسی وجہ سے ناصری مشہور ہوگئے۔(٢)

مسیحیت بھی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے منسوب ہے حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو  ١ ٤ ء سے مسیحی کہا جانے لگا اور اس لقب سے ان کی اہانت اور مذمت کا ارادہ کرتے تھے۔

(١)قاموس کتاب مقدس مادہ ”یہود” یہودا” صیہون۔

(٢)قاموس کتاب مقدس، مادہ ناصرہ و ناصری

ج۔ شریعت کی تحریف

ہم اس وجہ سے کہ ”الوہیت” اور ”ربوبیت” کی معرفت اور شناخت؛ دین کے احکام اور عقائد کی شناخت اور معرفت کی بنیادواساس ہے لہٰذایہود و نصاریٰ کے ذریعہ  شریعت حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ کی تحریف کی کیفیت کے بیان میںہوا ہے یہاں پرہم صرف ان کے ذریعہ عقیدۂ ”الوہیت”اور ”ربوبیت”میں تحریف کے ذکرپر اکتفا کر تے ہیں۔

الف۔ شریعت موسیٰ میں یہود کے ذریعہ تحریف

جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے وہ  توریت کے رسالہ ٔ پیدائش ( سفر تکوین ) سے دوسرے باب  کا خلاصہ ہے اور تیسرا باب پورا جوکہ اصل عبرانی ، کلدانی اور یونانی زبان سے فارسی زبان میں ١٩٣٢ئ میں ترجمہ ہو کر دار السلطنت لندن میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔

پروردگار خالق نے عدن میں ایک باغ خلق کیا اور اس کے اندر چار نہریں جاری کیں فرات اور جیحون بھی انہیں میں سے ہیں اور اس باغ میں درخت لگائے؛ اور ان کے درمیان زندگی کا درخت اور اچھے برے میں تمیز کرنے والا درخت لگایا اور آدم کو وہان جگہ دی، پروردگار خالق نے آدم سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ان درختوں میں سے جو چاہو کھائو، لیکن خوب و بد کے درمیان فرق کرنے والے درخت سے کچھ نہیں کھانا، ا س لئے کہ جس دن اس سے کھا  لوگے سختی کے ساتھ مر جا ؤ گے اس کے بعد آدم پرنیندکا غلبہ ہوااور ان کی ایک پسلی سے ان کی بیوی حوا کو پیدا کیا،آدم و حوا دونوں ہی عریان و برہنہ تھے اس سے شرمسار نہیں ہوئے ۔

تیسرا باب

سانپ تمام جنگلی جانوروںمیں جسے خدا نے بنایا تھا سب سے زیادہ ہوشیار اور چالاک تھااس نے عورت سے کہا: کیا حقیقت میں خدا نے کہا ہے کہ باغ کے سارے درختوں سے نہ کھائو ، عورت نے سانپ سے کہا: ہم باغ کے درختوں کے میوے کھاتے ہیں لیکن اس درخت کے میوہ سے استفادہ نہیں کرتے جو باغ کے وسط میں واقع ہے خدا نے کہا ہے اس سے نہ کھانا اور اسے لمس نہ کرنا کہیں مر نہ جائو، سانپ نے عورت سے کہا یقینا نہیں مروگے بلکہ خدا یہ جانتا ہے کہ جس دن اس سے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی؛ اور خدا کی طرح نیک و بد کے عارف بن جائو گے جب اس عورت نے دیکھا کہ یہ درخت کھانے کے اعتبار سے بہت اچھا اور دیکھنے کے لحاظ سے دلچسپ؛ اور جاذب نظر اور دانش افزا ہے تواس نے اس کا پھل توڑ کر خود بھی کھایا اور اپنے شوہر کو بھی کھلا دیا اس وقت ان دونوں کی نگاہیںکھل گئیں تو خود کو برہنہ دیکھا تو انجیر کے پتوں کو سل کراپنے لئے لباس بنایا اس وقت خدا کی آواز سنی جو اس وقت باغ میں نسیم نہار کے جھونکے کے وقت ٹہل رہا تھا آدم اور ان کی بیوی نے اپنے آپ کوباغ کے درمیان خداسے پوشیدہ کر لیا،خدا نے آدم کو آواز دی اور کہا کہاں ہو؟ بولے جب تیری آواز باغ میں سنی توڈر گئے چونکہ ہم عریاں ہیں اس لئے خود کو پوشیدہ کر لیا، اس نے کہا : کس نے تمہیں آگاہ کیا کہ عریاں ہو؟ کیا میں نے جس درخت سے منع کیا تھا تم نے کھا لیا؟آدم نے کہا اس عورت نے جس کو تونے میرا ساتھی بنایا ہے مجھے کھانے کو دیا تو خدا نے اس عورت سے کہا کیا یہ کام تو نے کیا ہے ؟عورت نے جواب دیا سانپ نے مجھے دھوکہ دیا اور میں نے کھا لیا پھر خدا نے سانپ سے کہا چونکہ تونے ایسا کام کیاہے لہٰذا تو تمام چوپایوں اور تمام جنگلی جانوروں سے زیادہ ملعون ہے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی پوری زندگی مٹی کھاتا رہے گا، تیرے اور عورت کے درمیان عداوت و دشمنی نیز تیر ی ذریت اور اس کی ذریت کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عداوت پیدا کر دوں گا وہ تیرا سر کچلے گی اور تو اس کی ایڑی میں ڈسے گااور اس عورت سے کہا تیرے حمل کے در دو الم کو زیادہ بڑھادوں گا کہ درد و الم کے ساتھ بچے جنے گی اور اپنے شوہر کے اشتیاق میں رہے گی اور وہ تجھ پر حکمرانی کرے گا اور آدم سے کہا چونکہ تونے اپنی بیوی کی بات مانی ہے اور اس درخت سے کھایا جس سے کہ منع کیا گیا تھالہٰذا تیری وجہ سے زمین ملعون گئی، لہٰذا اپنی پوری عمراس سے رنج و الم اٹھائے گا ،یہ زمین کانٹے ، خس و خاشاک بھی تیرے لئے اگائے گی اور جنگل و بیانوں کی سبزیاں کھائے گا اور گاڑھی کمائی کی روٹی نصیب ہوگی ۔ یہاں تک کہ اس مٹی کی طرف لوٹ آئو جس سے بنائے گئے ہوچونکہ تم خاک ہو لہٰذا خاک کی طرف بازگشت کروگے ،آدم نے اپنی بیوی کا نام حوارکھا اس لئے کہ وہ تمام زندوںکی ماں ہیں خدا نے آدم اوران کی بیوی کا لباس کھال سے بنایا اور انہیں پہنایا،خدا نے کہایہ انسان تو ہم میں سے کسی ایک کی طرح نیک و بد کا عارف ہو گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ دست درازی کرے اور درخت حیات سے بھی لیکر کھالے اور ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے لہٰذا خدا نے اسے باغ عدن سے باہر کر دیا تاکہ زمین کا کام انجام دے کہ جس سے اس کی تخلیق ہوئی تھی ،پھر آدم کو باہر کر کے باغ عدن کے مشرقی سمت میں مقرب فرشتوں کو جگہ دی اورآتش بارتلوار رکھ دی جو ہر طرف گردش کرتی تھی تاکہ درخت حیات کے راستے محفوظ رہیں ۔

ان دو باب کے مطالب کا تجزیہ

مذکورہ بیان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ : پروردگار خالق نے اپنی مخلوق آدم سے جھوٹ کہا، اس لئے کہ ان سے فرمایا: خیر و شر میں فرق کرنے والے درخت سے کھائو گے تو مر جائو گے؛ اور سانپ نے حوا کو حقیقت امر اور خالق کے جھوٹ سے آگاہ کیا، ان دونوں نے کھایا اور آنکھیں کھل گئیں اور اپنی عریانیت دیکھ لی اور جب باغ میں سیر کرتے ہوئے اپنے خالق پروردگار کی آواز سنی تو چھپ گئے،چونکہ خدا ان کی جگہ سے واقف نہیں تھا اس لئے آدم کو آوا زدی کہ کہاں ہو؟ آدم نے بھی عریانیت کے سبب اپنے چھپنے کو خدا سے بتایا اور خدا نے اس معنی کو درک کرنے کے متعلق آدم سے دریافت کرتے ہوئے کہا: کیا تم نے اس درخت سے کھا لیا ہے ؟ آدم نے حقیقت واقعہ سے با خبر کر دیا تو خداوند خالق نے آدم و حوا اور سانپ پر غیظ و غضب کا اظہار کیا اور انہیں زمین پر بھیج دیا اور ان کے کرتوت کی بنا پر انہیں سزا دی اور پروردگار خالق نے جب یہ دیکھا کہ یہ مخلوق اس کی طرح خیر و شر سے آشنا ہو گئی ہے اوراسے خوف محسوس ہوا کہ کہیں حیات کے درخت سے کچھ کھانہ لے کہ ہمیشہ زندہ رہے ، تو اس نے باغِ عدن سے نکال دیا اور زندگی کے درخت کے راستے میں محافظ اور نگہبان قرار دیا وہ بھی کر ّوبیوں(مقرب فرشتے) کو تاکہ انسان کو اس درخت سے نزدیک نہ ہونے دیں۔

سچ ہے کہ یہ خالق پروردگار کس درجہ ضعیف و ناتواں ہے ؟!( خدا اس بات سے پاک و پاکیزہ ہے کہ جس کی اس کی طرف نسبت دیتے ہیں)۔ یعنی اس خدا کا تصور پیش کرتے ہیں جو یہ خوف رکھتاہے کہ کہیں اس کی مخلوق اس کے جیسی نہ ہو جائے اسی لئے وہ تمام اسباب و ذرائع کہ جو مخلوقات کو اس کے مرتبہ تک پہونچنے سے باز رکھے بروئے کار لاتا ہے اور کتنا جھوٹااور دھوکہ باز ہے کہ اپنی مخلوق کے خلاف کام کرتا ہے اور اس سے جھوٹ بولتا ہے ، وہ بھی ایسا جھوٹ جو بعد میں فاش ہو جاتا ہے !

اور کتنا ظالم ہے کہ سانپ کو صرف اس لئے کہ اس نے حوا سے حقیقت بیان کر دی ہے سزا دیتاہے اور ہم نہیں سمجھ سکے کہ اس بات سے اس کی کیا مراد تھی کہ اس نے کہا :” یہ انسان ہم ہی میں سے ایک کی طرح ہو گیا ہے ” آیا اس سے مرا دیہ ہے کہ یکتا اور واحد خالق پروردگار کے علاوہ بھی دوسرے خدائوںکا وجود تھا کہ”مِنَّا” جمع کی ضمیر استعمال کی ہے ؟!

آخر کلام میں ہم کہیں گے ، اس شناخت او ر معرفت کا اثر اس شخص پر جو توریت کی صحت و درستگی کا قائل ہے کیا ہوگا؟! جب وہ توریت میں پڑھے گا: خدا وند خالق ہستی جھوٹ بولتا ہے اور دھوکہ دھڑی کرتا ہے اور اس انسان کے خوف سے ، اسے کمال تک پہنچنے سے روکتا ہے تووہ کیا سوچے گا؟!

یقینا خدا وند عالم اس بات سے بہت ہی منزہ؛ پاک و پاکیزہ نیز بلند و بالا ہے جو ظالمین اس کی طرف نسبت دیتے ہیں ۔

ب۔ نصاریٰ کی تحریف

جو کچھ ہم نے اب تک بیان کیا ہے یہود و نصاریٰ کے درمیان مشترک چیزیں تھیں لیکن نصاریٰ دوسری خصوصیات بھی رکھتے ہیں اور وہ: عقیدۂ الوہیت اور ”ربوبیت” میں تحریف ہے جس کا بیان یہ ہے :

نصاریٰ کے نزدیک تثلیث( تین خدا کا نظریہ)

نصاریٰ کہتے ہیں: مسیح خدا کے فرزند ہیں اور خدا ان کا باپ ہے اور یہ دونوں روح القدس کے ساتھ ایک شۓ ہیں کہ وہی خدا ہے ، لہٰذا خدا وند یکتا تین عدد ہے : باپ ، بیٹااور روح القدس اور یہ تینوں، خدا،عیسیٰ اور روح القدس ایک ہی ہیں کہ وہی خد اہے تین افراد ایک ہیں اور ایک، تین عدد ہے۔

خدا وند عالم سورۂ مائدہ میں فرماتا ہے :

(لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ھو المسیح بن مریم و قال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدوا اللہ ربی و ربکم انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنة و مأواہ النار و ما للظالمین من انصار٭ لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثة وما من الٰہ الا الٰہ واحد۔۔۔٭ ما المسیح بن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل و اُمہ صدیقة کانا یأکلان الطعام انظر کیف نبین لھم الآیات ثم انظر أنی یؤفکون)

جن لوگوںنے یہ کہا: خدا وہی مریم کے فرزند مسیح ہیں، یقینا وہ کافر ہوگئے، ( جبکہ خود) مسیح نے کہا: اے بنی اسرائیل !واحد اور ایک خدا کی عبادت اور پرستش کرو جو ہمارا اور تمہارا پروردگارہے اس لئے کہ جو کسی کو خدا کا شریک قرار دے گاتو خدا وند عالم نے اس پربہشت حرام کی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ؛ اور ستمگروں کا کوئی نا صر و مدد گار نہیں ہے، جن لوگوں نے کہا: خدا وند تین خدائوں میں سے ایک ہے یقینا وہ بھی کافر ہیں خدائے واحد کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے…، حضرت مسیح جناب مریم کے فرزند صرف اس کے رسول ہیں کہ ان سے پہلے بھی دیگر رسول آ چکے ہیں؛ ان کی ماں ( مریم ) بہت سچی اور نیک کردار خاتون تھیں، دونوں غذا کھاتے تھے؛ غور کرو کہ کس طرح ہم ان کیلئے صراحت کے ساتھ نشانیوں کو بیان کرتے ہیں، پھر غور کرو کہ کس طرح وہ حق سے منحرف ہو رہے ہیں۔(١)

نیز سورۂ  نساء میں فرماتا ہے :

(یا اھل الکتاب لا تغلوا فی دینکم و لا تقولوا علیٰ اللہ الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ و کلمتہ القاٰھا الیٰ مریم و روح منہ فآمنوا باللہ و رسولہ و لا تقولوا ثلاثة انتھوا خیراً لکم انما اللہ  الٰہواحد سبحانہ ان یکون لہ ولد لہ ما فی السمٰوات وما فی الارض و کفیٰ باللہ وکیلا ً)

اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں غلو اور افراط سے کام نہ لو اور خدا کے بارے میں جو حق ہے وہی کہو! مسیح عیسیٰ بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں کہ اسے مریم کو القاء کیا؛ نیز اس کی طرف سے روح بھی ہیں لہٰذا خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو: خدا وندسہ گانہ ہے اس بات سے باز آ جائو اسی میں تمہاری بھلائی ہے اللہ فقط خدائے واحد ہے ؛وہ صاحب فرزند ہونے سے منزہ اور پاک ہے، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب اسی کا ہے یہی کافی ہے کہ خدا مدبر ہے ۔(٢)

سچ ہے کہ خدا وند سبحان نے صحیح فرمایا ہے اور تحریف کرنے والوں نے جھوٹ کہا ہے ، اللہ کی پاک و پاکیزہ ذات ستمگروں کے قول سے بلند و بالاہے۔

اب اگر مسئلہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم نے بیان کیا (اور واقع میں بھی ایسا ہی ہے) اور خدا کا مطلوب اور پسندیدہ دین صرف اور صرف اسلام ہے اور دین کی اسلام کے علاوہ نام گز اری تحریف ہے اور یہودیت و نصرانیت دونوں ہی اسم و صفت کے اعتبار سے تحریف ہو چکے ہیں، لہٰذا صحیح اسلام کیا ہے ؟ اور اسلامی شریعت کون ہے ؟

(١)مائدہ٧٢،٧٣،٧٥(٢)نسائ١٧١

و۔ اسلام انسانی فطرت سے سازگار ہے

خدا وندسبحان سورۂ روم میں فرماتا ہے :

(فاقم وجھک للدین حنیفا فطرة اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون)

پھر اپنے چہرہ کو پروردگار کے خالص آئین کی جانب موڑلو یہ وہ فطرت ہے جس پر خدا وند عالم نے انسانوں کو خلق کیا ، تخلیق پروردگار میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ، یہ ہے ثابت اور پائدار دین ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔(١)

کلمات کی تشریح

١۔حنیفاً: حنف کجروی سے راہ راست پر آنا اور حنف درستگی اور راستی سے کجی کی طرف جانا ہے،حنیف: مخلص، وہ شخص جو خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہواور کبھی دین خدا وندی سے منحرف نہ ہوا ہو۔

٢۔ فطر: اختراع و ایجاد کیا، فطر اللہ العالم ، یعنی خدا نے دنیا کی ایجاد کی ،(پیدا کیا)۔

خدا وند عالم نے گز شتہ آیات میںراہ اسلام سے گمراہ ہونے والوں کے انحراف کے چند نمونے بیان کرنے اور نیک اعمال کی طرف اشارہ کرنے کے بعد:اس موضوع کو اس پر فروعی عنوان سے اضافہ کرتے ہوئے فرمایا:

پھر اپنے چہرے کو دین کی جانب موڑ لو۔( ایسے دین کی طرف جو خدا کے نزدیک اسلام ہے) اور بے راہ روی سے راستی اور درستگی و اعتدال یعنی حق کی طرفرخ کرلو کہ دین اسلام کی طر ف رخ کرنا انسانی فطرت کا اقتضا ہے ایسی فطرت جس کے مطابق خدا وند عالم نے اسے خلق کیاہے اور فطرت خدا وندی میں کسی قسم کی تبدیلی اور دگرگونی کی گنجائش نہیں ہے ، اس لئے، اس کے دین میں جو کہ آدمی کی فطرت کے موافق اور سازگار ہے ، تبدیلی نہیں ہوگی اور اس کا فطرت سے ہم آہنگ اور موافق ہونا اس دین کے محکم اور استوار

(١)روم٣٠.

ہونے کی روشن اور واضح دلیل ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔

اس سلسلہ میں تمام جاندار انسان کی طرح ہیں اور اپنی فطرت کے مطابق ہدایت پاتے ہیں، مثال کے طور پر شہد کی مکھی اس غریزی فطرت اور ہدایت کے مطابق جو خدا نے اس کی ذات میں ودیعت کی ہے ، پھولوں کے شگوفوں سے وہی حصے کو جو عسل بننے کے کام آتے ہیں، چوستی ہے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنی فطرت اور غریزی ہدایت کے بر خلاف نامناسب اور نقصان دہ چیزیںکھالیتی ہے جو شہد بننے کے کام نہیں آتیں تو داخل ہوتے وقت دربان جو محافظت کے لئے ہوتا ہے اسے ر وک دیتا ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا ہے ۔

مرغ بھی خد اداد فطرت اور غریزی ہدایت کے مطابق پاک و پاکیزہ دانوں اور سبزیوں کو چنتا ہے  اور جب بھی خدا داد صلاحیت اور غریزی ہدایت کے بر خلاف عمل کرتے ہوئے غلاظت کھا لیتا ہے تو شریعت اسلامیہ میں اسے ”جلاَّلہ” (نجاست خور )کہا جاتا ہے اور اس کا گوشت کھانا ممنوع ہو جاتا ہے جب تک کہ تین دن پاکیزہ دانے کھا کر پاک نہ ہو جائے۔

ہاں، خدا وند عالم کا حکم تمام مخلوقات کے لئے یکساں ہے انہیں ہدایت کرتا ہے تاکہ اپنے لئے کارآمد اور مفید کاموں کا انتخاب کریں اور ان نقصان دہ امور سے پرہیز کریں جو ان کے وجود کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ انسان کی بہ نسبت خدا وند عالم نے سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے:

(یسئلونک ما ذا احل لھم قل احل لکم الطیبات…)(١)

تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کون سی چیز حلال ہے ؟ تو ان سے کہو: ہر پاکیزہ چیز تمہارے لئے حلا ل ہے ۔

سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا:

(الذین یتبعون الرسول النبی الاُمی الذی یجدونہ مکتوباًً عندھم فی التوراة و الأِنجیل یأمرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر و یحل لھم الطیبات و یحرم علیہم الخبائث…)

جو لوگ خدا کے رسول پیغمبر امی کا اتباع کرتے ہیں؛ ایساپیغمبر جس کے صفات اپنے پاس موجود توریت اور انجیل میں لکھے ہوئے دیکھتے ہیں کہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور منکر و برائی سے روکتا ہے ، پاکیزہ چیزوںکو ان کے لئے حلال کرتا ہے اور نجاسات اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے ۔(١)

(١)اعراف١٥٧۔

لہٰذا اسلامی احکام میں معیار؛ انسان کے لئے نفع و نقصان ہے ، خدا وند عالم نے نجاستوں کو حرام کیا ہے ، چونکہ انسان کے لئے نقصان دہ ہیں اور پاکیزہ چیزوںکو حلال کیا ہے کیونکہ اس کے لئے مفید و کارآمد ہیں۔ اس بات کی تائید سورۂ رعد میں خدا وند عالم کے قول سے ہوتی ہے کہ فرماتا ہے :

(فاما الزبد فیذھب جفاء واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض..)

لیکن جھاگ، کنارے جاکر نابود ہو جاتا ہے ، لیکن جو چیزیں انسان کے لئے مفید اور سود مند ہے زمین میں رہ جاتی ہیں۔(١)

سورۂ حج میں فرمایا:

(وأذّن فی الناس بالحج یأتوک رجالاً و علیٰ کل ضامر یأتین من کل فجٍ عمیق لیشھدوا منافع لھم)

لوگوں کو حج کی دعوت دو، تاکہ پیادہ اور کمزور و لاغر سواری پر سوار ہو کر دور و دراز مقامات سے تمہاری طرف آئیں اور اپنے منافع کا مشاہدہ کریں۔ (٢)

نیز اسی سورہ کی گز شتہ آیات میں فرمایا:

(یدعوا من دون اللہ ما لا یضرہ ولا ینفعہ ذلک ھو الضلال البعید یدعوا لمن ضرہ اقرب من نفعہ…)

بعض لوگ خدا کے علاوہ کسی اور کو پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ پہونچاسکتے ہیں یہ وہی زبردست گمراہی ہے وہ ایسے کو پکارتے ہیں جس کا نقصان نفع سے زیادہ نزدیک ہے۔(٣)

پروردگار عالم نے جو چیزیں نفع و نقصان دونوں رکھتی ہیں لیکن ان کا نقصان زیادہ ہوان کو بھی حرام قرار دیاہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

(یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیما اثم کبیر و منافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما)

یہتم سے شراب اور جو ئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو ان سے کہو: اس میںگناہ عظیم اور زبردست نقصان ہے اور لوگوں کے لئے منفعت بھی ہے لیکن اس کا گناہ نفع سے کہیں زیادہ سنگین و عظیم ہے ۔

(١)رعد١٧(٢)حج٢٧۔٢٨(١)حج١٢۔١٣

جتنا نفع و نقصان کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اس کے ضمن میں حلال و حرام کا دائرہ بھی ، مخلوقات کے لئے ہر ایک اس کے ابعاد وجودی( وجودی پہلوؤں)کے اعتبار سے بڑھتا جائے گا؛ لیکن انسان کے ابعاد وجود وسیع ترین ہیں لہٰذا نفع و نقصان کی رعایت بھی حکمت کے تقاضے کے مطابق اس کے وجودی ابعاد کے مناسب ہونی چاہئے، مثال کے طور پر چونکہ انسان جسم مادی رکھتا ہے تو طبعی طور پر کچھ چیزیں اس کے لئے نقصان دہ ہیں اور کچھ چیزیں مفید اور سود مند ہیں؛ خدا وند عالم نے اسی لئے جوچیزیں اس کے جسم کے لئے مفید ہیں جیسے پاکیزہ خوراکیں انسان کے لئے حلال کیں اور جو چیزیں اس کے جسم کے لئے نقصان دہ تھیں جیسے نجاستوں کا کھاناانہیں حرام کر دیا۔

اس طرح کے احکام انسان کے لئے انفرادی ہوں گے چاہے جہاںبھی ہوغارمیںہویاپہاڑیوں پر، جنگلوںمیںہو یا کچھار میں ،انسانی سماج میں ہو، یا ستاروںپر یا کسی دوسرے کرۂ وجودمیں ہو۔

لیکن چونکہ خدا وند عالم نے انسانی زندگی کا کمال اور اس کا ارتقاء اجتماعی زندگی میں رکھا ہے لہٰذا دوسری چیزیں جیسے بہت سے معاملات جیسے لین دین اور، تجارت کوجو کہ اجتماعی فائدہ رکھتی ہے انسان کے لئے حلال کیا ہے اور جو امور سماج کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں جیسے: سود ، جوااسے حرام کیا ہے ۔

اور چونکہ انسان ”نفس انسانی” کا مالک ہے اور تہذیب نفس ضروریات زندگی میں ہے لہٰذا حج کہ اسمیں تہذیب نفس کے ساتھ ساتھ دیگر منافع کا بھی وجودہے اس پر واجب کیا ہے اور جو چیز سماج اور اجتماع کو نقصان پہنچاتی ہے اسے حرام فرمایااور انسان کے سماج کے لٔے جن چیزوںمیں منفعت ہے ان کی طرف راہنمائی کی ہے اور سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایاہے:

(انما المؤمنون اخوةفصلحوا بین اخویکم…، یا ایھا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیرًا منھم ولا نساء من نسائً عسیٰ ان یکن خیراً منھن ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالألقا ب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان و من لم یتب فأولٰئک ھم الظالمون٭ یا ایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرًا من الظن ان بعض الظن اثم و لا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضأایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتاً فکرھتموہ و اتقواا للہ ان اللہ تواب رحیم)

مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو…اے صاحبان ایمان! ایسا نہ ہو کہ تمہارا ایک گروہ دوسرے گروہ کا مذاق اڑائے اور اس کاتمسخرکرے شاید وہ لوگ ان سے بہتر ہوں ؛ اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں؛ شاید وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کی مذمت اور عیب جویٔ نہ کرو اور ایک دوسرے کو ناپسند اور برے القاب سے یاد نہ کرو؛ ایمان کے بعد یہ بہت بری بات ہے کہ کسی کو برے القاب سے یاد کرو اور کفر آمیز باتیں کرواور جو لوگ توبہ نہیں کرتے وہ ظالم اور ستمگرہیں۔

اے مومنو! بہت سارے گمان سے پرہیز کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور کبھی ٹوہ اور تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟! یقینا ناپسند کروگے؛ خدا کا خوف کرو خدا توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا ہے۔(١)

یہ اسلامی شریعت کی شان ہے کہ ہر زمانے اورہر جگہ انسان کی فطرت کے مطابق ہے اسی لئے قرآن کریم میں ذکرہوا ہے کہ جس طرح خدا وند متعال نے نماز ،روزہ اور زکوةکو ہم پر واجب کیا اسی طرح گزشتہ امتوں پر بھی واجب کیا تھا، جیسا کہ یہ بات ابرہیم، لوط، اسحاق اور یعقوب کے بارے میں سورۂ انبیاء میں بیان فرماتا ہے :

(وجعلنا ہم ائمة یہدون بأمرنا و اَوحینا الیہم فعل الخیرات واِقام الصلوة و اِیتاء الزکوة…)(٢)

انہیں ہم نے ایسا پیشوا بنایا جو ہمارے فرمان کی ہدایت کرتے ہیں نیز انہیں نیک اعمال کی بجاآوری، اقامۂ نماز اور زکواة دینے کی وحی کی۔

سورۂ مریم میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :

(واوصانی بالصلٰوة والزکوٰة ما دمت حیا)

جب تک کہ میں زندہ ہوں خدا وند عالم نے مجھے نماز اور زکوة کی وصیت کی ہے ۔(٣)

اسی طرح وعدے کے پکے حضرت اسماعیل کے حال کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

(وکان یأمر اھلہ بالصلوة و الزکوٰة و کان عند ربہ مرضیاً)

وہ مسلسل اپنے اہل و عیال کو نماز پڑھنے اور زکوة دینے کا حکم دیتے تھے اور ہمیشہ اپنے رب کے نزدیک موردرضایت اور پسندیدہ تھے۔(٤)

خدا وند عالم نے ہمیں روزہ کی تاکید کرتے ہوئے سورۂ بقرہ میں فرمایا:

(یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون)

(١)حجرات١٠۔١٢(٢) انبیاء ٧٣(٣)مریم ٣١(٤) مریم  ٥٥.

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پر اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا شاید کہ تم لوگ اہل تقوی بن جائو۔(١)

نیز ہمیں ربا( سودخوری) سے منع کیا جس طرح گز شتہ امتوں کو منع کیا تھا اور بنی اسرائیل کے بارے میں سورۂ نساء میں فرماتا ہے :(واخذھم الربا و قد نھوا عنہ…) اور ربا (سود) لینے کی وجہ سے جبکہ اس سے ممانعت کی گئی تھی(٢)

نیز ہم پر قصاص واجب کیا ہے ، جس طرح ہم سے پہلے والوں پر واجب کیا تھا، جیسا کہ سورۂ مائدہ میں توریت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

(انا انزلنا التوراة فیھا ھدی و نور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا للذین ھادوا…، و کتبنا علیہم فیھا ان النفس بالنفس و العین با لعین و الانف بالانف و الاذن بالاذن و السن بالسن و الجروح قصاص…)

ہم نے توریت نازل کی اس میں ہدایت اور نور تھا نیز خدا کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم انبیاء اس کے ذریعہ یہود کو حکم دیتے تھے… اور ان پر توریت میں مقررکیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت نیز ہر زخم قصاص رکھتا ہے …(٣)

جب خدا وند عالم نے سورۂ  بقرہ میں فرمایا:(والو الدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة…)مائیں اپنی اولاد کو پورے دوسال تک دودھ پلائیں ۔یہ اس کے لئے ہے جو ایام رضاعت کی تکمیل کرنا چاہتاہے… اس نظام کو انسان کے بچپن کے لئے ایک نظام قرار دیا ہے ۔ حضرت آدم و حوا کے پہلے بچے سے آخری بچے تک کے لئے یہی نظام ہے خواہ کسی جگہ پیدا ہوں، کسی مخصوص شریعت سے اختصاص بھی نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ یہ نظام آدمی کی فطرت سے جس پر اسکو پیدا کیاگیاہے مناسبت رکھتا ہے اور سازگار ہے اور خدا کی تخلیق میں کوئی تغیر اورتبدل نہیں ہے ، اسی لئے دین الٰہی میں بھی کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، یہ محکم اور استوار، ثابت و پائددار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں انسان احکام الٰہی کے فطرت کے مطابق ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کرتا ہے ؟ اس کو خدا وند عالم کی تائید و توفیق سے انشا ء اللہ آئندہ بحث میں ذکر کریں گے ۔

(١)  بقرہ١٨٣(٢)نسائ١٦١(٣)مائدہ٤٤۔٤٥

ز۔ انسان اور نفس امارہ بالسوئ( برائی پر ابھارنے والا نفس)

گز شتہ مطالب سے یہ معلوم ہوا کہ وہ موجودات جو ہدایت تسخری کی مالک ہیں ان کے علاوہ، جاندار موجودات، کبھی کبھی اپنے پروردگار کی ہدایت غریزی کی مخالفت کرتے ہیں جیسے مرغ سبزہ اور دانہ چننے کے بجائے غلاظت کھاتا ہے اور اس کی وجہ سے اسے تین روز تک پاک غذا کھاناپڑتا ہے تاکہ استبرا ہو سکے۔

شہد کی مکھی بھی جو کہ پھولوںکا رس چوستی ہے، کبھی کبھی ایسی چیزوں کا استعمال کرتی ہے جو اس کے چھتہ میںشہد کے لئے ضرر رساںہوتاہے، اس لئے اس چھتہ کا نگہبان اس کے داخل ہوتے ہی اسے پکڑ کر نسل کی حفاظت اور بقاء کے لئے اور سب کی زندگی کے استمرار و دوام کی خاطر اسے نابود کر دیتا ہے۔

انسان بھی ، اسی طرح ہے ، کیونکہ انسانوں کے درمیان بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو انسانی فطرت اور خدائی ہدایت کے موافق اور مطابق نظام کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی نفسانی خواہشات کا اتباع کرتے ہیں۔

اس کی توضیح یہ ہے کہ خدا وند متعال نے انسان کو تمام جانداروں پر فوقیت اور برتری عطا کی ہے ۔ اور اسے انسانی نفس عطا فرمایا ہے: ایسا نفس جس کے ابعاد وجود ی کو اس کے خالق کے علاوہ کوئی نہیںجانتا، اور اسی نفس انسانی کی خصوصیتوں میں ایک عقل بھی ہے کہ انسان اس کے ذریعہ تمام چیزوں کو استعمال کرتا اور اپنے کام میں لاتا ہے ،ایٹم سے لیکر ان تمام دیگر اشیا ء تک جو ابھی کشف نہیں ہوئی ہیں۔ خداوند سبحان اس نفس کی توصیف میں سورۂ شمس میں ارشاد فرماتا ہے:(و نفس وما سواھا٭ فأَلھمھا فجورھا و تقواٰھا)قسم ہے نفس انسان کی اور قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے اسے منظم کیا ہے اور پھرفسق وفجور اور تقویٰ کو اس کی طرف الہام کیا۔ (١)

کلمات کی تشریح

١۔نفس ، نفس عربی زبان میں متعدد معنی میں استعمال ہوا ہے انہیں میں سے چند یہ ہیں:

(١) شمس٧۔٨

الف۔ ایسی روح جو زندگی کا سرچشمہ ہے اور اگر جسم سے وہ مفارقت کر جائے تو موت آجائے گی،کہتے ہیں محتضر یعنی وہ شخص جو حالت احتضار میں ہے اس کا نفس خارج ہو گیا۔

ب۔ کسی شۓ کی حقیقت اور ذات کو کہتے ہیں، اگر نفس انسان اورنفس جن کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی حقیقت اور جن کی حقیقت ۔

ج۔ عین ہر چیز، جیسا کہ تاکید کے وقت استعمال ہوتا ہے جاء نی محمد نفسہ، محمد بنفس نفیس میرے پاس آیا ….۔

د۔جو چیز قلب کی جگہ استعمال ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے ادراک کیا جاتا ہے اور تمیز دی جاتی ہے۔ نیز انسان اسی کے ذریعہ اپنے گرد و پیش کی اشیاء کا احساس کرتا ہے ، اور نیند اور بیہوشی کے وقت اس سے جدا ہوجاتا ہے نیز وہی شعور جو اسے خیر و شر کی جانب متوجہ کرتا ہے ، جیسا کہ کہا جاتا ہے : میرے نفس نے مجھے حکم دیا ہے ، میرے نفس نے مجھے اس برے کام پر آمادہ کیا، آیت کریمہ میں نفس سے مراد یہی معنی ہے ۔

٢۔ سواھا: اس کی آفرینش کی تکمیل کی یہاں تک کہ کمال کی حد تک پہنچ جائے اور ہدایت پذیری کے لئے آمادہ ہو جائے۔

٣۔ فالھمھا فجورھا و تقواھا:یعنی اس کے نفس میں ایسا احساس پیدا کیا ،جس کے ذریعہ ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے ۔ ہمارے دور میں ایسے شعور کو ضمیر اور وجدان سے تعبیر کرتے ہیں۔

خیر و شر کے درمیان فرق کرنے والی، نیز خبیث اور طیب کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والی عقل کے علاوہ نفس کے کچھ خصوصیات اور بھی ہیں جن میں انسان اور حیوان دونوں شریک ہیں، جیسے محبت و رضا،رغبت و کراہت، دشمنی ونفرت۔

اگر انسان عقل کی راہنمائی کے مطابق رفتار رکھے اور برائیوں اور گندگیوں سے کنارہ کشی اختیار کرے تو جزا پائے گا۔ اور جب حکم عقلی کی مخالفت کرے اور نفسانی خواہشات کا اتباع کرے گا تو سزا اور عذاب پائے گا ۔ جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ نازعات میں ارشادفرماتا ہے :

(وأَما من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوی٭ فاِنَّ الجنة ھی الماویٰ)

جو مقام خدا سے خوف کھائے اور نفس کو نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے باز رکھے تو یقینا اس کی منزل اور ٹھکانہ بہشت ہے ۔(١)

(فأَما من طغی، و آثر الدنیا٭ فاِنِّ الجحیم ھی الماویٰ)

لیکن جو سرکشی اور طغیانی کرے اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دے تو یقینا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔(٢) خداوندعالم نے سورۂ مریم میں ایک قوم کی اس طرح توصیف فرمائی ہے:

(اضاعوا الصلوة واتبعوا الشہوات)

انہوںنے نماز کو ضائع کیا اور نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔(٣)

جس طرح نفس انسانی کے اندر متفاوت دو قوتیںہیں: خیر خواہی اور شر پسندی، یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے سے کشمکش اور ٹکرائو رکھتی ہیں، خدا وند عالم نے انسان کے لئے اس کے نفس کے باہر بھی اس طرح کی دو طاقتوںکو ایجاد کیا ہے ،ایک گروہ اسے ہوای نفس کی مخالفت کی دعوت دیتا ہے ، یہ لوگ انبیاء اور ان کے ماننے والے ہیں۔ اور ایک گروہ اسے گمراہی و ضلالت نیز اتباع نفس کی دعوت دیتا ہے وہ لوگ شیاطین جن و انس ہیں، یہ دونوں گروہ انسان پر کسی طرح کا تسلط نہیں رکھتے ، بلکہ ان میں سے ہر ایک  صرف اپنی دعوت یعنی ہدایت و گمراہی کی باتوں کو زینت بخشتا اور اس کی تشریح کرتا ہے ، جیسا کہ خدا وند متعال سورۂ حجر میں شیطان کے راندۂ درگاہ ہونے کے بعد اس کی گفتار کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے (رب بما اغویتی لازیّنن لھم فی الارض)(٤)

خداوندا! جبکہ تونے مجھے گمراہ کر دیا ہے تو میں زمین کی چیزوں کو ان کی نگاہوں میں زینت بخشوںگا۔ خدا وند عالم قرآن میں قیامت کے دن شیطان کے اپنے ماننے والوں سے خطاب کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

(وقال الشیطان لما قضی الأمر ان اللہ وعدکم وعد الحق ووعد تکم فأخلفتکم وما کان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم…)

جب شیطان کا کام تمام ہو جاتا ہے تو کہتا ہے : خدا وند متعال نے تم سے وعدۂ بر حق کیااور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا اور مخالفت کی! میں تم پر مسلط نہیں تھا، سوائے اس کے کہ تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہی: لہٰذا مجھے ملامت اور سرزنش نہ کرو اور اگر کرنا ہی چاہتے ہو تو اپنے آپ کوملامت کرو!(٥)

لوگوں کے ساتھ پیغمبروں کا حال بھی اسی طرح ہے ، جیسا کہ خدا وند عالم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو

(١)نازعات٤٠۔٤١(٢)نازعات٣٧،٢٩(٣)مریم٥٩(٤) حجر  ٢٩.(١)ابراہیم٢٢۔

خطاب کرتے ہوئے سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :

(فذکر انما انت مذکر٭ لست علیہم بمصیطر)(١)

بس تم انہیں یاد دلائو کیونکہ تم یاد دلانے والے ہو! تم انہیں مجبور کرنے والے اور ان کے حاکم نہیں ہو اور سورۂ بلد میں ارشاد فرمایا: (وھدیناہ النجدین)(٢) یعنی خیر و شر کے راستوں کو اسے (انسان کو) دکھادیا اور سورۂ انسان میں ارشاد ہوا:

(اِنَّا ھدیناہ السبیل اِمَّا شاکرا ًو اِمَّاکفورا)

ہم نے اسے راہِ راست دکھائی خواہ شکر گز ار رہے یا نا شکرا۔(٣)

سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

(لا اِکراہ فی الدین قد تبیَّن الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن باللہ فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لاانفصام لھا و اللہ سمیع علیم٭ اللہ ولی الذین آمنوا یخرجھم من الظلمات الیٰ النور و الذین کفروا اولیائھم الطاغوت یخرجونھم من النور الیٰ الظلمات اولئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون)

دین قبول کرنے میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے ، راہ راست گمراہی سے جدا ہو چکی ہے، لہٰذا جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے خدا پر ایمان لائے،اس نے اٹوٹ مضبوط رسی کو پکڑ لیا ہے جس میں جدائی نہیں ہے خداوند سمیع و علیم ہے ۔

خدا وند عالم ان لوگوں کا ولی اور سر پرست ہے جو ایمان لائے ہیں، انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے سرپرست طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ظلمت کی طرف لے جاتے ہیں،وہ لوگ اہل جہنم ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔(٤)

اس لئے انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے ۔ جیسا کہ سورۂ زلزال میں ارشاد ہوتا ہے :

(فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یرہ٭ و من یعمل مثقال ذرة شرا ًیرہ)

لہٰذا جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا اسے دیکھے گا اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا اسے بھی دیکھے گا(٥)

یہ سب کچھ ایسے امور ہیں جن کے بارے میں خدا وند متعال نے انسان کو آگاہ کیا ہے اور جنات بھی اس میں اس کے شریک ہیں ، جیسا کہ اصناف خلق کی بحث میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے اور تفصیل انشاء اللہ آئندہ بحث میں آئے گی۔

(١)غاشیہ ٢١۔٢٢(٢)بلد١٠(٣)انسان٣(٤)بقرہ٢٥٦۔٢٥٧(٥)زلزال٧۔٨

ح۔:شریعت اسلام میں جن و انس کی مشارکت

خدا وند عالم سورۂ احقاف میں فرماتا ہے :

(و اذصرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروہ قالوا انصتوا فلما قضی ولّوا الیٰ قومھم منذرین٭قالوا یا قومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاًلما بین یدیہ یہدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم٭ یا قومنا اجیبوا داعی اللہ و آمنوا بہ…)

جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیںپس جب حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے خاموشی سے سنو! اور جب ( تلاوت) تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہیں ڈرایا اور کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اس سے پہلے جو کتابیں آئیں ان سے ہم آہنگ ہے حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے ، اے ہماری قوم! اللہ کے داعی کی بات سنو اور لبیک کہہ کر اس پر ایمان لائو۔(١)

اور سورۂ جن میں ارشاد ہوتا ہے :

(قل اوحی اِلَیَّ انہ استمع نفر من الجن فقالوا اِنّا سمعنا قرآنا عجباً٭ یہدی الیٰ الرشد فآمنا بہ ولن نشرک بربنا احدا٭و انہ تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبة و لا ولدا، و انہ کان یقول سفیھنا علی اللہ شططا٭ و اناظننا ان لن تقول الأِنس و الجن علٰی اللہ کذبا٭ و انہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوھم رھقا٭ و انھم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث اللہ احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ھا ملئت حرساً شدیداً و شھبا٭و انا کنا نقعد منھا مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد لہ شھاباً رصدا٭ و انا لا ندری اشر اُرید بمن فی الارض ام اراد بھم ربھم

(١)احقاف٢٩،٣١

رشدا٭ و انا منا الصالحون ومنا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز اللہ فی الارض و لن نعجزہ ھربا٭و انا لما سمعنا الھدی آمنا بہ فمن یؤمن بربہ فلا یخاف بخساً ولا رھقا٭ و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فأُولٰئک تحروا رشدا٭و اما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا٭و ان واستقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناھم مائً غدقا)

کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوںکو سنا ، پھر انہوں نے کہا:ہم نے ایک ایسا عجیب قرآن سنا جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ، پھر اس پر ہم ایمان لائے اور کبھی کسی کو اپنے رب کا شریک قرار نہیں دیں گے اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بلند و بالا ہے ، اس نے کبھی اپنے لئے بیوی اور فرزند کا انتخاب نہیں کیا۔ لیکن ہمارے سفیہ (ابلیس) نے اس کے بارے میں نازیبا اور ناروا کلمات استعمال کئے اور ہمارا خیال تھا کہ جن و انس کبھی خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیں گے ۔

اور یہ بھی ہے کہ کچھ انسانوں نے کچھ جنوں کی پناہ مانگی ، تو وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بن گئے اور ان لوگوں نے اسی طرح گمان کیا جیسا کہ تم گمان رکھتے ہو کہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا اور بیشک ہم نے آسمان کیجستجو کی تو سب کو قوی محافظوں اور شہاب کے تیروں سے پُر پایا اور اس سے قبل ہم بات چرانے کے لئے آسمان پر گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے؛ لیکن اس وقت کوئی بات سننا چاہے تو ایک شہاب کو اپنے کمین میں پائے گا ۔

اور یقینا ہم نہیں جانتے کہ آیا اہل زمین کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ ہے یا ان کے رب نے انہیں ہدایت کرنے کی ٹھانی ہے ؟! بیشک ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد پائے جاتے ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں! بیشک ہمیں یقین ہے کہ ہم کبھی ارادۂ الٰہی پر غالب نہیں آ سکتے اور اس کے قبضۂ قدرت سے فرار نہیں کر سکتے! اور جب ہم نے ہدایت قرآن سنی تو اس پر ایمان لائے؛ اور جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے وہ نہ تو نقصان سے خوف کھاتا ہے اور نہ ہی ظلم سے ڈرتا ہے ،یقینا ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم ہیں جو اسلام لایا گویا اس نے راہ راست اختیار کی ہے ، لیکن ظالمین جہنم کا ایندھن ہیں۔

اگر وہ لوگ ( جن و انس) راہ راست میں ثابت قدم رہے ، تو انہیں ہم بے حساب پانی سے سیراب کریں گے۔(١)

(١)سورۂ جن١تا ١٦

سورۂ انعام میں ارشاد ہوتا ہے :

(و یوم یحشرھم جمیعاً یا معشر الجن قد استکثرتم من الانس و قال اولیاؤھم من الانس ربنا استمتع بعضنا ببعض و بلغنا اجلنا الذی اجلت لنا قال النار مثواکم خالدین فیھا الا ما شاء اللہ ان ربک حکیم علیم۔۔۔یا معشر الجن و الانس الم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم  ھذا قالوا شہدنا علیٰ انفسنا و غرتھم الحیاة الدنیا و شھدوا علیٰ انفسھم انھم کانوا کافرین)

جس دن سب کومحشورکرے گا، تو کہے گا: اے گروہ جن! تم نے بہت سارے انسانوں کو گمراہ کیا ہے : تو انسانوں میں سے ان کے ساتھی کہیں گے : خدا وندا! ہم میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے اور ہم اس مدت کوپہنچے جو تونے ہمارے لئے معین کی تھی ، خد اوند فرمائے گا: جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے ، ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہو گے ، مگر یہ کہ خدا کی جو مرضی ہو تمہارا رب حکیم اور دانا ہے… ۔

اے گروہ انس و جن ! کیا تمہاری طرف ہمارے رسول نہیں آئے ہیں جو ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے تھے اور تمہیں ایسے (ہولناک) دن(قیامت) سے ڈراتے تھے ؟!

کہیں گے : ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیںاور دنیاوی زندگی نے انہیں فریب دیا وہ اور اپنے خلاف خودگواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔(١)

(١)انعام١٢٨۔١٣٠

کلمات کی تشریح

١۔جدّ: جد ّیہاں پر عظمت و جلال کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

٢۔غدقاً: زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے :(و ھم فی غدق من العیش) یعنی وہ لوگ نعمت کی فراوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

آیات کی تفسیر

خد ا وند عالم نے حضرت خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد جنوں کے کچھ گروہ کو ایک ایسی راہ میں قرار دیا کہ حضرت رسول اکرمۖ کی زبان مبارک سے قرآن کی تلاوت سنیں، وہ لوگ سنتے وقت ایک دوسرے سے بولے: خاموش رہو! جب رسول اللہ کی تلاوت تمام ہوئی ، اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں انذار کرتے ہوئے بولے: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب (قرآن) سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرتی اور راہ راست کی ہدایت کرتی ہے، اے قوم! اللہ کے داعی کی آوازپر ہم لبیک کہیں اور اس پر ایمان لائیں اور کسی کو اپنے پروردگار کا شریک قرار نہ دیں، یقینا ہمارا رب اس سے بلند اور برتر ہے کہ کسی کوبیوی یا فرزند بنائے۔ بعض انسان بھی تمہارے ہی جیسا خیال رکھتے ہیں کہ خدا کسی کو رسالت کے لئے مبعوث نہیں کرے گا، ہم جناتوں کے درمیان صالح اور غیر صالح دونوںہی طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں اور ہماری روش اور رفتار مختلف ہے، ہم میں سے بعض مسلمان ہیں تو بعض ظالم وستمگر اور حق سے روگرداں،  یقینا اپنے پروردگار پر ایمان رکھنے والے مومنین اپنے حق میں کمی اور نقصان،نیز اپنے اوپر ظلم و ستم کی پرواہ نہیں کرتے اور خائف نہیں ہوتے۔

لیکن ستمگر حق سے فرار کرتے ہیں، یقینا وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے اور عذاب میں گرفتار ہوں گے، یہ دن وہی دن ہے کہ اس دن خدا وند عالم سب کو جمع کرے گا اور گنہگاروں کے اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کے بعد ان سے کہے گا: یہ آگ تمہاری منزل ہے ، اس میںہمیشہ رہو ، سوائے اس کے کہ خدا کی مرضی ہو اور اس کی مشیت بدل جائے اور اپنی رحمت ان کے شامل حال کر دے۔

خدا وند عالم اس دن فرمائے گا: اے گروہ جن! کیا تم میں سے کوئی رسول تمہارے درمیان مبعوث نہیں ہوئے جو تم پر میری آیتوں کی تلاوت کرتے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے؟ تو وہ لوگ اپنے خلاف اپنے کفر کی گواہی دیں گے۔

جنات کی گفتگو کہ انہوں نے کہا: حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہونے والی کتاب سنی ہے …اور اے ہماری قوم! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہیں، ان باتوں سے استنباط ہوتا ہے اور نتیجہ نکلتا ہے کہ جنات صاحب شریعت پیغمبروں کی کتابوں کے ذریعہ ہدایت یافتہ ہونے میں انسانوںکے شریک ہیں اور شاید جویہ خد انے فرمایا:

(الم یأتکم رسل منکم یقصون٭علیکم آیاتی و ینذرونکم لقا یومکم ہٰذا)

اس سے مراد وہی اولو العزم پیغمبر ہیں۔ 

روایات میں آیات کی تفسیر

صحیح مسلم وغیرہ میں ابن عباس سے منقول ہے ۔ اور ہم مسلم کی عبارت ذکر کرہے ہیں کہ انہوں نے کہا: پیغمبر اکرمۖ اپنے اصحاب کے ہمراہ عکاظ نامی بازار کی طرف روانہ ہوئے اور یہ اس وقت ہوا جب شیاطین اور آسمانی خبروں کے درمیان فاصلہ ایجاد ہو چکا تھا اور انہیں تیر شہاب کے ذریعہ مارا جاتاتھا، شیاطین اپنی قوم کے درمیان واپس گئے تو قوم نے ان سے کہا:تمہیں کیا ہوگیاہے ؟انہوں نے جواب دیا : ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان فاصلہ ہو گیا ہے اور شہابی تیر ہماری طرف روانہ کئے جاتے ہیں ،ان لوگوں نے ان سے کہا: یقینا کوئی اہم حادثہ رونما ہوا ہے کہ تمہیں آسمانی اخبار سے روک دیا گیا ہے، شرق و غرب عالم کا چکر لگائو اور اس کی تحقیق کرو کہ کونسی چیز تمہارے اور آسمانی اخبار کے درمیان حائل ہو گئی ہے ، ان میں سے ایک گروہ جو تہامہ کی طرف روانہ ہوا تھا پیغمبر اکرمۖ کی طرف متوجہ ہوا آنحضرت نخلہ کے علاقہ میں بازار عکاظ کے راستے میں اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز صبح ادا کر رہے تھے اور جب قرآن سنا تو توجہ سے سننے لگے اور بولے: خد اکی قسم یہی بات ہے جو تمہارے اور آسمانی اخبار کے درمیان حائل ہے ، پھر اپنی قوم کے درمیان آئے اور بولے: اے ہماری قوم! ہم نے عجیب قرآن سنا جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور کسی کو رب کا شریک نہیں قرار دیتے ہیں اس کے بعد خدا نے اس آیت کو اپنے پیغمبرۖ پر نازل کیا :(قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن)کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے توجہ سے سنا اور جو کچھ حضرت پر وحی ہوئی وہی جنوں کی باتیں تھیں۔(١)

بحار الانوار میں علی بن ابراہیم قمی کی تفسیر سے سورہ ٔ احقاف کی آیۂ کریمہ:(یا قومنا انا سمعنا)کے ذیل میں ذکر ہوا ہے وہ کہتے ہیں : اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہوا کہ رسول خداۖ اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ سے بازار عکاظ کی طرف روانہ ہوئے زید بن حارثہ بھی ان کے ساتھ تھے لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے اور جب کسی نے ان کی دعوت پر لبیک نہیں کہی اور کسی نے ان کی دعوت قبول نہیں کی، تو مکہ واپس آ گئے اور جب ”وادی مجنة”نامی مقام پر پہنچے،تو آدھی رات کو تہجدکے لئے اٹھے اور قرآن کی تلاوت کرنے لگے اس اثنا میں جنات کے ایک گروہ کا گز ر ہوا وہ ٹھہرکر اسے سننے لگے اور ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تاکید کی اور جب رسول خداۖ نے تلاوت تمام کی تو اپنی قوم کے پاس آئے انہیں ڈرایا اور کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ  کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق و راہِ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے، اے ہماری قوم!اللہ کی طر ف دعوت دینے والے کی بات سنو اور اس پر ایمان لائو…، خدا کے اس قول : ”یہ گروہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے”تک اس کے بعد اسلام کے احکام اور اصول سے آشنا ہونے کے لئے رسول خداۖ کی خدمت میں آئے اور اسلام کا اظہار کیا اور ایمان لائے، رسول اکرمۖ نے بھی انہیں اسلامی احکام کی تعلیم دی ۔

اس کے بعد خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرۖ پر یہ سورہ نازل کیا کہ کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے میری بات سنی..سورہ کے آخرتک خدا وند عالم نے ان کی باتوں کو بیان کیا ہے ، رسول خداۖ نے انہیں میں سے ایک کو ان کاسر پرست بنا یا و…(٢)

بحث کا نتیجہ

جنات بھی الٰہی کتابوںجیسے توریت اور قرآن دریافت کرنے کے اعتبار سے انسان کی طرح ہیں، نیز جنات میں بھی ایسے لوگ پائے گئے ہیں جو اپنی قوم کے درمیان ڈرانے والوں کی منزل پر فائز تھے اور ایسے تھے جنہوں نے اپنی قوم کو قرآن کے وجود اور اس بات سے کہ قرآن گز شتہ کتابوںکی تصدیق کرنے والی

(١) مسلم ، کتاب صلاة باب الجہر بالقرائة حدیث، ١٤٩و بخاری کتاب التفسیر، سورۂ جن، ج٣ ص ١٣٩۔

(٢)بحار الانوار ج٦٣،ص٨١ ماخوذ از تفسیر قمی ٦٢٤۔ ٦٢٣

کتاب ہے (وہ بھی کلمۂ مصدِّق کے پورے معنی کے ساتھ جو قرآن کی صحت کی دلیل ہے) باخبر کیا دوسرے یہ کہ جنات بھی انسانوں کی طرح مشرکین موجود ہیں، نیز سیاق عبارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنات معتقد ہیں کہ خدا وند صاحب فرزند ہے جیسا کہ بعض انسان ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح خدا کے فرزند ہیں۔ اور جنات کے کچھ لوگ انسان کے بعض افراد کی طرح گمان کرتے ہیں کہ خدا وند عالم نے کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا ہے اور دنیاوی حیات کے تمام ہونے کے بعد حشر و نشر نہیں ہے ۔

خلاصہ یہ کہ: جنات انسان کے مانند ہیں ان کے درمیان خدا پر ایمان رکھنے والے مسلمان اور ظالم و نابکار کافر دونوں ہی پائے جاتے ہیں لیکن اپنے معبود پر ایمان رکھنے والے نیز جو ہم نے بیان کیا ہے اس پر اعتقاد رکھنے والے قیامت کے دن کامیاب ہیں، لیکن کفار عنقریب آتش دوزخ کا عذاب دیکھیں گے اور جہنم کا ایندھن ہوںگے۔

نیز جن و انس کو عقائد میں ہم مشترک دیکھتے ہیں کہ بعض مشرک ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ خدا صاحب فرزند ہے اور بعض ان میں سے انبیاء کے دشمن ہیں اور بعض دوسروں کوورغلانے او ربہکانے والے ہیں۔اور کچھ مسلمان ،خدا ،پیغمبرۖ اور اس کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ دونوں ہی گروہ قیامت کے دن محشور ہوں گے اور محاسبہ کئے جائیں گے یا انہیں عذاب ہوگا یا ثواب اور جزا ملے گی ،یہ دونوں صنف تمام موارد میں مشترک ہے لیکن صنف جن کے اسلامی احکام پر عمل کی کیفیت لا محالہ کچھ ایسی ہونی چاہئے جو ان کی خدا داد فطرت سے تناسب رکھتی ہو اور ان کے وجودی قالب سے میل کھاتی ہو اور سازگار ہو،اس لحاظ سے ، اسلام وہی خدا کا دین اور اس کی شریعت ہے جوجن و انس دونوںکے لئے ہے جو پیغمبروں کے ذریعہ اور ان کے بعد ان کے جانشینوں کے ذریعہ جن و انس تک پہونچی ہے، خدا وند عالم کی توفیق و تائید سے انشاء اللہ اس کی کیفیت آئندہ بحث میں بیان کریں گے ۔

تبصرے
Loading...