دینی اور ثقافتی وراثت

ان قوانین پر عمل کر نے کے سبب، مذہب کو اس کی تمام ذاتی وراثتوں کے ساتھ بخوبی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جس مقام پر گذشتہ نسل کا خاتمہ ہوتا ہے وہیں سے آنے والی دوسری نسل کا آغاز ہوتا ہے۔ انھیں اسباب کے ذریعہ، اس عظیم دینی اور فکری تحریک کا آغاز جو حضرت آدم سے لے کر حضرت ابراہیم، نوح، موسیٰ، عیسیٰ علیھم السلام اور حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کے ذریعہ ہم تک پہونچا ہے۔ ہم بھی اسی مستحکم اور استوار ماضی کا ایک حصہ اور تاریخ کی گہرائیوں میں انھیں عمیق اور طولانی جڑوں کی شاخوں میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ ان اسلامی معارف اور عقائد کے خزانوں کو دینی میراث کے ذریعہ اس کے مقدسات کو سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل منتقل کرنے میں مشغول ہیں۔

بیشک، یکے بعد دیگرے، ان ارتباطی پُلوں کی حفاظت نے، مذہبی وراثت کے انتقال کے کام میں سرعت بخشی ہے، جیسا کہ ان ارتباطی پُلوں میں رکاوٹ ایجاد کرنا اور ان کو ڈھا دینا، ایک نسل سے دوسری نسلوں کے درمیان بہت بڑی رکاوٹ سدّ راہ محسوب ہوگی۔

نتیجتاً اگر ان ارتباطی پُلوں کی فعاّلیت کو سماج میں مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روک دیا جائے، تو بیشک نسل حاضر کا گذشتہ نسلوں اور آنے والی تمام نسلوں کے درمیان یکسر رابطہ ختم ہو جائے گا۔

اور وہ اہمیت کے حامل خاص ارتباطی پُل مندرجہ ذیل ہیں:

(١) گھر

(٢) مدرسہ

(٣) مسجد

ان تینوں ارتباطی پُلوں کے ذریعہ ہمیشہ سیاست اور دین کی جدائی کے مسئلہ میں دینی تحریک (یعنی دین اور سیاست میں جدائی ممکن نہیں ہے) ہمیشہ آگے آگے اور پیش قدم رہی ہے، زمانہ حاضر کو گذشتہ زمانہ سے اور اولاد کو ان کے باپ دادائوں (آباء اجداد) سے اس طرح منسلک کر دیا ہے جس طرح تسبیح کے دانوں کو ایک دوسرے سے پرو دیا جاتا ہے۔ گھر، مدرسہ (School) اور مسجد کے اس اہم اور کلیدی کردار کے ذریعہ جو مذہب کی تبلیغ و ترویج اور نسلوں کو ا پس میں ایک دوسرے سے جوڑنے کا وسیلہ ہیں۔ دین اسلام نے ان تینوں مراکز پر خصوصی توجہ مبذول کرائی ہے اور ان کے ساز و کار پر خاص توجہ رکھنے کی سفارش اور نصیحت کی ہے۔ اب ان تمام باتوں کے بیان کرنے کے بعد ہم ان پُلوں کے کلیدی اور اساسی کردار ادا کرنے کے بارے میں درج ذیل عبارت میں اختصار سے وضاحت کررہے ہیں:

گھر(١)

یہاں گھر سے مراد گھرانہ ہے۔ جوانوں میں دینی وراثت کو منتقل کرنے میں گھر اور گھر والوں کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے؛ اس لئے کہ عقائد کی بنیادیں ایک بچہ کی شخصیت کے نکھار پر موقوف ہیں۔ اس کی شخصیت میں نکھار گھر اور گھر والوں سے وجود میں آتا ہے۔ یہ بنیادی چیزیں انسان کی شخصیت کو اجاگر کرنے میں اس کے مستقبل کے حوالہ سے بہت تیزی سے اثر انداز ہوتی ہیں۔

مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی نے امام حسن مجتبیٰ سے فرمایا:

( اِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ کَالْاَرْضِ الْخَالِیَّةِ، مَا اُُلْقَِ فِیْھَا مِنْ شَْئٍِ قَبِلَتْہُ، فَبَادَرْتُکَ بِالْاَدَبِ قَبْلَ اَنْ یَّقْسُوَ قَلْبُکَ وَ یَشْتَغِلُ لُبُّکَ)َ (١)

”بچہ کا دل اس آمادہ زمین کے مانند ہے کہ اس میں جو بھی چیز ڈالی جاتی ہے، وہ اس کو قبول کر لیتی ہے، اسی لئے میں نے تمھیں پہلے ادب سکھانا شروع کردیا، قبل اس کے

…………..

(١)نہج البلاغة صبحی صالح ص٣٩٣۔

کہ تمہارا دل سخت ہو جائے اور تمہارے سر میں کوئی دوسرا سودا پرورش پانے لگے” (یعنی تمہاری فکر تم کو دوسرے امور میں مشغول کردے۔)

ہر گھر کی سلامتی اور امنیت اس کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، لڑکوں کو صحیح تربیت دینے میں سلامتی کے اثرات بہت زیادہ ہیں اور ان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے؛ جیسا کہ گھر کے اندر کا فساد (فاسد گھرانہ) نسل نو کو فساد میں آلودہ کرنے اور جوانوں کو برباد کرنے میں اساسی اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔

رسول اکرم ۖ سے روایت کی گئی ہے:

( مَا مِنْ بَیْتٍ لَیْسَ فِیْہِ شَْئ مِنَ الْحِکْمَةِ اِلاَّ کَانَ خَرَاباً.) (١)

”جس گھر میں حکمت کا یکسر گذر نہ ہو، (یعنی حق و حقیقت کا بالکل نام و نشان بھی باقی نہ رہے) بلا شک و شبہہ یہ گھر بربادی کے دہانے پر ہے۔”

اس کے بر خلاف، صالح اور نیک گھرانہ؛ ایسا گھرانہ ہے جو اس بات پر قادر ہے کہ نسلوں کی اصلاح اور اس کے سنوارنے اور سدھارنے کی صلاحیت اور قدرت کو بڑی ہی جد و جہد اور عرق ریزی کے ساتھ بروئے کار لائے۔ مذہب کے مقدسات اور اس کی وراثت کو بڑی ہی دیانت اور امانت داری کے ساتھ اس نسل کے حوالہ کردے جس کی وہ خود پرورش کر رہا ہو۔

مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے دین، دینداری اور

…………..

(١)مجمع البیان ج١، ص٣٨٢ ۔

تاریخی معلومات اور درآمدات کا خلاصہ نیز اس کے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کی کیفیت کو اپنے بیٹے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے اس طرح بیان فرمایا:

(اَْ بُنََّ! اِنِّ وَ اِنْ لَمْ اَکُنْ عُمِّرْتُ عُمْرَ مَنْ کَانَ قَبْلِْ، وَ قَدْ نَظَرْتُ فِ اَعْمَالِہِمْ وَ فَکَّرْتُ فِ اَخْبَارِہِمْ و َسِرْتُ فِ آثَارِہِمْ، حَتیّٰ عُدْتُ کَاَحَدِہِمْ، بَلْ کَاَنِّ بِمَاْ اِنْتَہیٰ اِلَّ مِنْ اُمُورِہِمْ قَدْ عُمِّرْتُ مَعْ اَوَّلِہِمْ اِلیٰ آخِرِہِمْ فَعَرَفْتُ صَفْوَ ذَلِکَ مِنْ کَدِرِہ، وَ نَفْعِہ مِنْ ضَرَرِہ، فَاْسْتَخْلَصْتُ لَکَ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ نَخِیْلَہُ وَ تَوَخَّیْتُ لَکَ جَمِیْلَہُ، صَرَّفْتُ عَنْکَ مَجْہُولَہ۔) (١)

”اے میرے لخت جگر! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہوا کرتی تھی، لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور و خوض کیا ہے، ان کے اخبار میں غور و فکر اور دقت کی ہے؛ ان کے آثار میں سیر و سیاحت کی ہے۔ میں صاف اور گندے کو خوب پہچانتا ہوں۔ نفع و ضرر میں امتیاز (کی صلاحیت) رکھتا ہوں۔ میں نے ہر امر کی خوب چھان بین کرکے اس کا نچوڑ اور حقیقت سامنے پیش کر دیا ہے اور سب سے اچھے کی تلاش کر لی ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے دور کر دیا ہے۔”

حضرت امیر المؤمنین مولائے کائنات امام علی بن ابی طالب علیہما السلام نے

روشنی ڈالی ہے، جس میں آپ نے اپنی حد درجہ عالی تربیت و پرورش نیز حضرت کی شخصیت کی تعمیر میں کن کن چیزوں کی رعایت کی گئی اس کی اس طرح خبر دے رہے ہیں:

…………..

(١)نہج البلاغة نامہ ٣١۔

(و َقَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ۖ بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیْبَةِ و َالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ، وَضَعَنِ فِ حِجْرِہ وَ اَنَا وَلَد یَضُمُّنِ اِلیٰ صَدْرِہ، وَ یَکْنِفُنِ فِ فَرَاشِہ و َیَمَسُّنِ جَسَدَہُ، یَشُمُّنِ عِرْفَہُ، وَ کَانَ یَمْضَغُ الشَّیْئَ یُلَقِّمُنِیْہِ، و َمَا وَجَدَ لِ کَذِبْة فِ قَوْلٍ، و َلاَ خَطْلَةٍ فِ فِعْلٍِ… وَ لَقَدْ کُنْتُ اَتَّبِعُہُ اِتِّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اُمِّہ یَرْفَعُ لِ فِ کُلِّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاَقِہ عِلْماً، و َیَأْمُرُ بِالْاِقْتِدَائِ بِہ و َلَقَدْ کَانَ یُجَاوِر ُفِ کُلِّ سَنَةٍ بِحَرَائَ فَأَرَاہُ، و َلَا یَرَاہُ غَیْرِ. وَلَمْ یَجْمَعْ بَیْت وَاحِد یَوْمَئِذٍ فِ الْاِسْلاَمِ غَیْرَ رَسُولِ اللّٰہِ ۖ وَخَدِیْجَةَ و َاَنَا ثَالِثُہُمَا. اَریٰ نُورَ الْوَحِْ وَ الرِّسَالَةِ و َاَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَّةِ.)(١)

”رسول اکرم ۖ کے نزدیک میرے مقام اور میری منزلت اور آپ سے میری رشتہ داری اور قرابتداری اور آپ سے میری قربت کو خوب جانتے ہو۔ انھوں نے بچپنے سے ہی مجھے اپنی گود میں لیکر اپنے سینے سے لگاتے، اپنے بستر پر سلاتے، جیسے ہی میرا جسم آپ کے بدن مبارک سے مس ہوتا تو آپ مجھے مسلسل شمیم رسالت سے سر فراز فرماتے۔ اور آپ غذا کو اپنے دانتوں سے چبا کر مجھ کو کھلاتے تھے۔ نہ انھوں نے میری گفتار میں جھوٹ کا مشاہدہ کیا، اور نہ ہی میرے اعمال و کردار میں کبھی کسی لغزش کو سرزد ہوتے ہوئے دیکھا۔ … اور میں ہمیشہ ہر حالت (سفر و حضر) میں آپ کے ساتھ اسی طرح چلتا تھا، جیسے اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ ہر روز آپ اپنی اخلاقی

خصوصیات کی مجھے نشاندہی فرماتے اور پھر مجھے اس کے اتباع پر مقرر فرماتے تھے۔ آنحضرت ہر سال ایک وقت غار حرا میں جاکر خلوت اور گوشۂ تنہائی اختیار فرماتے تھے، جہاں فقط میں ہی آپ کے نور کو دیکھنے پر قادر تھا، وہاں پر کوئی اور نہ ہوتا تھا۔ اور یہ کسی اور کے بس کا روگ بھی نہ تھا۔ اس وقت رسول خدا ۖ اور خدیجہ کے علاوہ مسلمان گھر دیکھنے کو نہیں ملتے تھے، ان لوگوں کے علاوہ تیسرا صرف میں تھا۔ صرف میں نور وحی و رسالت کا مشاہدہ کرتا تھا، اور شمیم نبوت سے اپنے دل و دماغ کو معطر رکھتا تھا۔”

…………..

(١)نہج البلاغة خطبہ ١٩٢،]خطبۂ قاصعہ [

مدرسہ(٢)

مدرسہ سے مراد وہ دینی مراکز، وسائل اور ذرائع تبلیغ ہیں، جو انسان کی زندگی کے مختلف مراحل میں لوگوں کی دینی تحریک اور جوانوں کو تعلیم دینے کا واحد وسیلہ اور ذریعہ ہیں اور اس کا میدان بہت وسیع ہے۔ مدرسہ، کتاب اور جوانوں کی تعلیم کے لئے مختلف طریقۂ کار، تعلیم دینے والے افراد، اور مدرسین، دینی و مذہبی نیز ثقافتی و تربیتی کو ششیں، رسم الخط، ( طرز تحریر) زبان، مذہب، تبلیغات، اور اخبارات وغیرہ وغیرہ سب کو شامل ہے۔

اس وسیع دائرہ کے تحت مدرسہ ان اہم ترین پلوں میں سے ایک ہے جو دینی وراثت کو ایک نسل سے دو سر ی نسل میں منتقل کرنے، بعض نسلوں کو بعض دوسری نسلوں سے جوڑنے اور اسی طرح ترقی یافتہ نسل کو پست او ر عقب ماندہ نسل سے جوڑ کر ان میں آپس میں میل ملاپ کی ذمہ داری کا حامل ہے۔

چنانچہ یہ (مدرسہ) تمام لوگوں کی پہلی اور ابتدائی تعلیم گاہ، گھر ہی میں سمٹ جاتی ہے، اور ہر انسان اپنی ابتدائی تعلیم کو گھر ہی سے حاصل کرنا شروع کرتا ہے، اس لئے بلا شک و شبہہ دوسرے درجہ میں، یعنی اس کی تعلیمات کا دوسرا مرکز مدرسہ اور اسکول (School ) ہے؛ جہاں اس کی عقل میں نکھار آتا ہے۔

اسلامی قوانین اور اس کے دستور میں استاد کی عظمت و منزلت اور اس کے احترام کے بارے میں بہت زیادہ تاکید اور شفارش کی گئی ہے، ہمارے اور آپ کے پانچویں امام، حضرت امام محمد باقر ـ نے رسول خدا ۖ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا:

(اِنَّ مُعَلِّمَ الْخَیْرِ یَسْتَغْفِرُ لَہُ دَوَابُّ الْاَرْضِ و َحِیْتَانُ الْبَحْرِ وَ کُلُّ ذِ رُوحٍ فِ الْھَوَائِ وَ جَمِیْعُ اَھْلِ السَّمَائِ وَ الْاَرْض)(١)

جو استاد نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے، اس کے لئے زمین پر تمام بسنے، چلنے اور رینگنے والے، دریا کی مچھلیاں، ہوا اور فضا میں زندگی بسر کرنے والے، اسی طرح زمین و آسمان میں بسنے والی (خداوند عالم کی) تمام مخلوق اس استاد (اور معلم) کے لئے استغفار کرتی ہیں۔”

امام صادق نے بھی ارشاد فرمایا:

(مَنْ عَلَّمَ خَیْراً فَلَہُ بِمِثْلِ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِہ. قُلْتُ: فَأِنْ

عَلَّمَہُ غَیْرُہُ یَجْرِی ذَلِکَ لَہُ ؟ قَالَ(ع) اِنْ عَلَّمَ النَّاسَ کُلَّہُمْ جَریٰ لَہُ. قُلْتُ: و َاِنْ مَاتَ ؟ قَالَ(ع): و َاِنْ مَاتَ)۔(٢)

…………..

(١)بحارالانوار ج٢، ص١٧۔

(٢)بحارالانوار ج٢ ص١٧

ہر وہ شخص جو خیر کی تعلیم دے، اس کا اجر اس شخص کے جیسا ہے جس نے اس پر عمل کیا ہو۔ راوی نے سوال کیا: اگر وہ شخص جس نے اس (استاد) سے براہ راست تعلیم حاصل کی ہو اور بعد میں دوسرے شخص کو تعلیم دے، تو اس کا اجر کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: اگر دوسرا فرد (یعنی سیکھ کر سکھانے والا) روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دے دے، پھر بھی سکھانے والے پہلے استاد کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ راوی نے پھر سوال کیا: اگر پہلے والا استاد دنیا سے اٹھ چکا ہو تو کیا ہوگا ؟ تو حضرت نے (اس سوال کے جواب میں) فرمایا : پھر بھی اس کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور اس کو (یعنی پہلے والے استاد اور معلم کو) وہی اجر دیا جائے گا۔”

حضرت امام صادق نے رسول خدا اۖ سے یوں نقل فرمایا:

(یَجِیُٔ الرَّجُلُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ لَہُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَالسَّحَابِ الرُّکَامِ اَوْ کَالْجِبَالِ الرَّوَاسِی، فَیَقُولُ: یَارَبِّ اَنّٰی لِی ھٰذا و َلَمْ اَعْمِلْہَا؟ فَیَقُولُ: ھٰذا عِلْمُکَ الَّذِی عَلَّمْتَہُ النَّاسَ یُعْمَلُ بِہ بَعْدَکَ)(١)

”قیامت کے دن ایک شخص عرصہ حساب میں لایا جائے گا، اس عالم میں کہ اس کی نیکیاں بادلوں کی طرح آفاق میں پھیلی اور مستحکم پہاڑوں کی طرح استوار ہوں گی۔ وہ شخص آتے ہی (یہ سب نیکیاں دیکھنے کے بعد) بڑی حیرت اور بے چینی سے بول پڑے گا: اے میرے پروردگار! اور اے میرے پالن ہار! میں کہاں؟ اور اتنی ساری نیکیاں کہاں؟! میں نے ان سب نیکیو ں کو ہرگز انجام نہیں دیا۔ خدایا! یہ میرے اعمال نہیں ہیں،

…………..

(١)بحارالانوار ج٢، ص١٨

میں نے ا ن تمام اعمال کو انجام نہیں دیا تو اسے بتایا جائے گا: کہ یہ وہی علم ہے جس کو تونے لوگوں کو سکھایا ہے اور انھوں نے تیرے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد اس پر عمل کیا ہے۔”

عبد الرحمٰن سَلَمِی نے حضرت ابا عبد اللہ امام حسین ـ کے بیٹوں میں سے

ایک بیٹے کو سورۂ حمد کی تعلیم دی۔ جب اس بچے نے سورہ حمد کو اپنے والد گرامی

(حضرت امام حسین ـ) کے حضور تلاوت کی تو امام نے بہت سارا مال زیورات اور گہنے اپنے بیٹے کے معلم کو بخش دیئے اور اس (معلم) کے منھ کو موتیوں سے بھردیا۔ جب آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

”مال اور زیورات کی اتنی تھوڑی سی مقدار اس (استاد) کے تعلیم دینے کی اجرت کے برابر ہرگز قرار نہیں پاسکتی!”(١)

…………..

(١)المناقب ابن شہر آشوب، مطبوعہ نجف اشرف، ج٣، ص٢٢٢؛ مستدرک الوسائل، ج١، ص٢٩

مسجد (٣)

ارتباطی پلوں کی قسموں میں سے تیسرا اور آخری پل جو تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے ایک نسل کو دوسری نسل سے جوڑتا ہے،وہ مسجد ہے۔ (یعنی وہ تیسرا وسیلہ جس کے ذریعہ دین میں وسعت دیکر اس کی حفاظت کی جائے۔) اسلام میں مسجد، عبادت اور فکری ارتقا نیز انتظام و انسجام کا بہترین مرکز ہے، اخلاقی، سیاسی اور نیک کاموں کی انجام دہی پر تعاون اور یہ (مسجد) خدمت خلق کا بہترین مرکز ہے، اور اس طرح کی کوشش اور

فعالیت میں کلیدی اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے؛ نیز یہ جگہ ایک مقدس فریضہ کو اپنے دامن

میں لئے ہوئے ہے۔

درج ذیل بیان مسجد کے کردار اور اس کے ابدی نقوش اور اس کی اہمیت اور حیثیت کو اسلام نے بڑے آب و تاب کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے۔

مولائے کائنات مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی نے اس سلسلہ میں اس طرح فرمایا:

(مَنِ اْخْتَلَفَ اِلیٰ الْمَسْجِدِ، أَصَابَ اِحْدیٰ الثَّمَانِ: ١۔أَخاً مُسْتَفَاداً فِی اللّٰہ ٢۔أَوْ عِلْماً مُسْتَطْرِفاً ٣۔أَوْ آیَةً مُحْکَمَةً ٤۔أَوْ رَحْمَةً مُنْتَظِرة ٥۔أَوْ کَلِمَةً تَرُدُّہُ عَنْ رَدیً

٦۔أَوْ یَسْمَعُ کَلِمَةً تَدُلُّ عَلیٰ الْھُدیٰ ٧۔أَوْ یُتْرَکُ دُنْیَا خَسِیْسَةً ٨۔أَوْ حَیَائً)(١)

”جو شخص بھی مسجد میں رفت و آمد رکھتا ہے ، اس کو ان آٹھ چیزوں میں سے ایک چیز ضرور حاصل ہو جاتی ہے: ١۔ دین میں بھائی چارگی؛ ٢۔ نت نئی اور جدید معلومات؛ ٣۔ مستحکم نشانی؛ ٤۔ اور ایسی رحمت و بخشش جس کا انتظار کیا جا رہا ہو؛ ٥۔ ایسی بات جو ہم کو پستی اور ذلت (ہلاکت) سے دور کردے ؛٦۔ ایسی بات پر کان دھرنے اور غور سے سننے کی توفیق جو انسان کو صحیح راستہ دکھائے اور اس کی ہدایت کر سکے؛ ٧۔ اور اس ذلیل اور پست دنیا کو ترک کر دے اور اس سے لو نہ لگائے؛٨۔ حیا کو اپنا پیشہ بنالے۔”

اسلامی تاریخ میں، مسجدیں، دینی اور مذہبی مدارس، وہ منبر جو اخلاق اور تربیت

…………..

(١)بحارالانوار ج٨٣، ص٣٥١

کے رواج اور اس کو وسعت دینے میں مددگار ہیں، فعالیت و کوشش اور جد و جہد کے مراکز، معاشرتی، سماجی اور سیاسی خدمات میں سماجی اور معاشرتی مراکز، اور ایسے پرکار (فعاّل) ادارے، مسلمانوں کی زندگی میںاسلامی تمدن کی وراثت کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے میں بنیادی ذمہ داری اور کلیدی حیثیت کے حامل ہیں، جیسا کہ یہی مراکز اسلامی افکا رکے مضبوط قلعے اور مقدسات اسلامی بھی شمار کئے جاتے ہیں۔ انھیں محاذوں کے ذریعہ مسلمان اپنی فکری اور مذہبی وراثت کو جاہل دشمن کی غارت، یلغار اور لوٹ پاٹ سے بچا لیتے ہیں۔

تبصرے
Loading...