دين ميں عقل، فلسفہ اور دليل کا اپنا مقام ہے اور ايمان اور جذبات و احساسات کا اپنا کردار

 

اِس سلسلے ميں آپ نو حہ اور منقبت خواں حضرات کے کردار کے با رے ميں ہم اپني دوسري گفتگو کا آغاز کر رہے ہيں۔اگر چہ دين کي بنيا ديں عقل و عقلانيت،فلسفہ اور استدلال پر قائم ہيں اور اِس ميں کسي قسم کا کوئي شک نہيں ہے ليکن کو ئي بھي عقلي وفلسفي نظريہ اور دليل و بر ہان؛قلبي ايمان و يقين اور دلي احساسات و جذبات کي آبياري کے بغير نہ تونشو نما پا سکتا ہے اور نہ ہي تا ريخ ميں مضبو طي سے قائم رہ سکتا ہے۔دوسرے مکا تب فکر کي نسبت آسماني مذاہب اِسي خصوصيت کے حامل ہيں؛آ سماني مذاہب اپني آئيڈيالوجي،نظريات اور فلسفوں ميںدوسرے مکا تب سے يہي فرق رکھتے ہيں کہ يہ سب انسانوں کے ايمان کو اپني طرف جذب کرتے ہيں۔ايمان ؛علم کے علاوہ ايک بالکل مختلف چيز ہے، ايمان نہ تو استدلال ہے اور نہ ہي فلسفہ بلکہ ايمان ايک ’’قلبي امر‘‘ کا نا م ہے، ايمان، احساسات اور ہمدردي و رحمدلي کے جذبات کي جگہ ايک ہي ہے۔ايمان يعني اپنا دل کسي کے حوالے کرنااور دينا،اِس بنا پريہاں دل کي اہميت کا پتہ چلتا ہے اور يہي وجہ ہے کہ اديان کي پو ري تا ريخ ميں احساسات، ہمدردي اور رحمدلي کے جذبات نے اِس طرح اپني حفاظت کي ہے! عقل سے کسي علمي مقولہ کا ادراک اورچيز ہے اور دل سے اُس پر ايمان لانا ايک الگ بات! اِس بات کي طرف توجہ رکھتے ہو ئے کہ فلسفوں اور نظريات کي جنگ ميںکو ئي فلسفہ اور نظريہ ايسا نہيں ہے کہ جوآسماني مذاہب اور نظريہ توحيد کے فلسفے خصوصاََاسلامي مدوّن فلسفہ کے سامنے جم کر کھڑا ہو سکے؛ليکن مسئلہ يہ نہيں ہے؛بہت سے ايسے افراد ہيں کہ جو اسلامي مفاہيم اور اسلامي اُصول و قوانين کو جا نتے ہيںاور وہ حقائق سے بھي با خبرہيں ليکن اُنہوں نے اپنے دلوںکواُن حقيقتوں کے سپرد نہيں کيا ہے۔

آپ کا کيا خيا ل ہے کہ صدر اسلام کے زمانے ميںاُن تمام افراد نے کہ جنہوں نے حضرت علي ابن ابيطالب کي (ولايت کي)حقا نيت کو خود پيغمبر اسلام ۰ کي زباني سُنا تھا،کيا وہ اِن حقائق اور فضيلتوں کو نہيں جا نتے تھے؟جي ہاں اُن کو يقينا اُن تمام حقائق کا علم تھا۔ہم نے روايا ت ميں پڑھا ہے کہ اُن افراد نے پيغمبر اسلام ۰ کے دونوں لب ہائے مبارک سے خود سنا تھا اور اُنہيں علم بھي تھاليکن جوچيز اُن کے پاس نہيں تھي وہ اُس معلوم چيز پر ايمان تھايعني جو چيز اُنہيں معلوم تھي اُس پر ايمان اُن کے پاس نہيں تھا؛ با الفاظ ديگر جس چيز کا اُنہيں علم تھا اُنہوں نے اپنا دل اُس حقيقت

کے حوالے نہيں کيا تھا۔و ہ کون سي چيز ہے جو ايمان کاراستہ روکتي ہے ؟بہت سي چيزيںايسي ہيں جوايمان کي راہ ميں رکا وٹ ہيں کہ جس کے بيان کیلئے ايک مفصّل بحث کي ضرورت ہے۔ روحِ ايمان کي پرورش ميںنوحہ و منقبت خواني،شاعري اور ادب کاموثر کردار روحِ ايمان کي پرورش کیلئے مختلف عملي ميدانوں ميں موجودگي ،ہنر،شعروشاعري اورادب کا کرداربہت موثراور تعيين کنندہ ہو تا ہے۔آپ اِس مقام پر ايک مداح اورذاکر اہل بيت کا مقام و منزلت ديکھ سکتے ہيں کہ وہ لو گوں کے دلوں ميں ايمان کو پيداکرنے اور اُنہيں جِلا دينے والا،عقيدت و محبت ، مودّت اور تعليمات قرآن و اہل بيت کے چراغوں کو روشن کر نے والا اور پيروکاروں اور اُن کي محبوب ومعصوم شخصيات کے درميان ايک مضبوط قلبي رشتہ اور رابطہ قائم کرنے والا ہے؛وہ ايک ايسے ہي کرادار کا حامل ہے اور اُس کا يہ کردار بہت اہميت رکھتا ہے۔ مجالس اور کربلا کي عظيم نعمت جب ايک انسان کا دامن ايک نعمت سے خالي ہوتا ہے تو اُس سے اُس نعمت کاسوال بھي نہيں کيا جاتا ليکن جب انسان ايک نعمت سے بہرہ مند ہو تا ہے تو اُس سے اُس نعمت کے متعلق ضروربا ز پُرس کي جائے گي۔ ہمارے پاس بزرگترين نعمتوں ميں سے ايک نعمت،مجالس عزا ، محرم اور کربلا کي نعمت ہے؛افسوس يہ ہے کہ ہمارے غير شيعہ مسلمان بھائيوں نے اپنے آپ کو اِس نعمت عظميٰ سے محروم کيا ہوا ہے، وہ اِس نعمت سے بہرہ مند ہوسکتے ہيں اور اِس کے امکانات بھي موجود ہيں۔ البتہ بعض غير شيعہ مسلمان بھي دنيا کے گوشہ و کنار ميں محرم کے ذکر اورواقعہ کربلا سے بہرہ منداور مستفيد ہوتے ہيں۔آج جبکہ ہمارے درميان محرم اور واقعہ کربلا کا تذکرہ اور امام حسين کي بے مثال قرباني کا ذکر موجود ہے تو اِيسے وقت ميںاِن مجالس اور تذکرے سے کيا فائدہ اٹھايا جاسکتا ہے اور اِس نعمت کا شکرانہ کيا ہے؟ ذاکرين،نوحہ و منقبت خوان حضرات کي اہم ذمہ داري ہم يہ عرض کرنا چا ہتے ہيں کہ مداح اہل بيت اپنے کا م کي اہميت کا ادراک کريں اورجب اُنہيں اپنے اِس کام کي اہميت معلوم ہو جا ئے گي تو اِس اہميت کے مدمقابل اُن پر ايک ذمہ داري عائد ہو گي تووہ اِس ذمہ داري کا احساس کريں گے۔اِس ذمہ داري کا کيا مطلب ہے؟يعني جس چيز کے متعلق روز قيامت ہم سے سوال کيا جا ئے گا۔ فردائے قيامت کے سوال کے جواب کیلئے امام زين العابدين کا ايک جملہ! امام زين العابدين کي دعائے مکارم الاخلاق ميں ہم پڑھتے ہيں کہ ’’ وَاستَعمِلنِي بِمَا تَسئَلُنِي غَداََ عَنہُ‘‘؛ دعا کے اِس جملے کا مطلب يہ ہے، ’’خدا وندا!کل فردائے قيامت تو مجھ سے جس چيز کے متعلق سوال کر ے گاتو اے ميرے پروردگار اُس چيز کے بارے ميں ميري مدد فرماکہ جس کا جواب ميں آج اپنے عمل ميں تيار کروں‘‘۔پس آپ پر بھي ايک بڑي ذمہ داري عائد ہوتي ہے يعني آپ سے کل سوال کيا جا ئے گا۔ہميں چاہئے کہ ايسا کام انجام ديںکہ جو فردا ئے قيا مت کے سوال کا جواب بھي ہواورنجات دہندہ بھي! ذمہ داري کي ادائيگي کیلئے تين نصيحتيں! جب يہ بات معلوم ہو گئي تو اب يہ ديکھتے ہيں کہ يہ ذمہ داري کس طرح ادا کي جا سکتي ہے؟جو کچھ ہم نے اور آپ نے کہا؛جو کچھ ذمہ دار ،دانا وعقلمند اور صاحبان فہم و فراست نے اہل بيت کي مدح و ثنائ اوراُن کي منقبت کے بارے ميں کہا،يہ سب اِسي سوال کا جواب تھا کہ ہم کياکام انجام ديں ؟ ’’ہم کيا کام انجام ديں‘‘،صرف ايک جملہ ہے ليکن يہي ايک مختصر سا جملہ ايک ضخيم کتاب کے برابر جواب رکھتا ہے۔اگر اِس کتاب کے تين جملے آپ کي خدمت ميں عرض کريں تو اُن ميں سے ايک يہ ہے: پہلي بات : کلام و اشعار کے ذريعہ سامعين کے ايما ن و معرفت کو زيادہ ہو نا چا ہئے! جب ہم اشعار پڑھتے ہيں تو ہميں اِس بات کي فکر ہو ني چاہئے کہ يہ اشعار ہمارے سامعين اور مخاطَبين کے ايمان کو زيادہ کریں۔پس اِس با ت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نہ توہر شعر پڑھيں گے اور نہ ہي ہر قسم کے طرز ولحن اور سُرودُھن کا استعمال کريں گے بلکہ اِس انداز سے اشعار پڑھيں گے کہ اُن کے الفاظ ، معاني اور طرز ولحن سب مل کر مجموعي طور پر سامعين کے ذہن پر اچھے اثرات مرتب کریں۔ليکن کس چيز کے اثرات مرتب کریں؟سامعين کے ايمان کو بڑھانے اور اُنہيں جلا دينے ميں!البتہ واضح سي بات ہے کہ يہ بات کہنا آسان ہے؛يہ با لکل ايسا ہي ہے کہ انسان اکھاڑے کے با ہر کھڑا ہو کر اکھاڑے کے اندر موجود لڑنے والے پہلوان کو دستور دے ليکن واقعاََ عمل کرنا سخت ہے۔آپ يہ کا م بخوبي انجام دے سکتے ہيں ،آپ حضرات کي آواز بہت اچھي ہے،آپ اِس سلسلے ميں قدرت و طاقت اور نشاط و سرور کے مالک ہيں اور جو کچھ ميں نے آپ کي خدمت ميں عرض کيا آپ اُسے انجام دے سکتے ہيں۔ کلام واشعار کے معنيٰ و مفہوم اور طرز و لحن ميں جدّت پسندي ضرور ہو مگر اسلاف کي روايات کے مطابق! ميں آپ نوجوان شاعر ومداحان اہل بيت اور نوحہ خوان حضرات کو اِ س با ت کي تا کيد اور سفارش کرتا ہو ں کہ اِس سلسلے ميںاپنے اسلاف کي روايات اور اُصول و قوانين کو اپنے ہا تھوں سے نہ جانے ديں اوراُنہي سے مربو ط و متّصل رہيں۔ميں ديني اور غير ديني مسائل ميں نو آوري اور جدّت پسندي کا موافق اور حمايتي ہوں،تخليقي صلاحيتوں کو بروئے کار لا نے اور جدّت پسندي کے استعمال ميں کوئي مضا ئقہ نہيں ہے ليکن اگر آپ کي خواہش ہے کہ جدّت پسندي ميں کمال حاصل کريں تو اِ س نو آوري اور جدّت پسندي کا حصول اسلاف کي روايات اور اُن کي تعليمات کي روشني کے عين مطابق ہو نا چاہئے۔ ’’ اَلعُليٰ مَحظُورَۃ اِلَّاعَليٰ مَن بَنيٰ فَو قَ بِنَائِ السُّلفيٰ‘‘۔کچھ افراد مل کر ايک مکان تعمير کرتے ہيں ،آپ آ کراُسي مکان پر اايک اور منزل تعمير کرتے ہيں،دوسرا شخص آ کر آپ کي تعمير کر دہ منزل پر ايک اور منزل بناتا ہے تو اُس وقت يہ مکان ايک بلند و با لاعمارت کي شکل اختيار کر جا ئے گا۔ليکن اگر ايسا ہو کہ ايک شخص ايک مکا ن کي تعمير کرے،آپ آئيں اور اُسے خراب کر کے اُ س کي جگہ ايک اور مکان تعمير کرديں،اِسي اثنائ ميں ايک اور شخص آئے اور آپ کے تعمير کردہ مکان کو منہدم کر کے اُ س کي جگہ ايک نيا مکان کھڑا کر دے تو يہ مکان اِسي طرح ہميشہ ايک ہي منزل کي صورت ميں با قي رہے گا۔اپنے اُستادوں،بزرگ علمائ، اسلاف اور اُن تمام افراد سے سيکھيں کہ جنہوں نے اِس سلسلے ميں اپنے سر کے با لوں کو سفيد کيا ہے اورآپ اُن سے حاصل شدہ معلو مات ميں اضا فہ کريں۔جدّت پسندي اگر اِس طرح حاصل اور نت نئے شيوے اور راستے اِس طرح دريافت کيے جا ئيں تو بہت کا ر آمد اور اچھے ثابت ہو تے ہيں۔ موجودہ نسل کے نوحہ و منقبت خوان اور گانوں، غزلوںاور قواليوں کي دُھن پر نوحے، سلام اور منقبت ! اب موجودہ نسل کے کچھ نو جوان خواہ وہ (ايراني اور ديگر ميڈيا کے)ريڈيو اورٹي وي پر(جا ئز ترانوں اور اشعار کي) گلو کا ري کر نے والے ہوں (حرام گلو کاري کي بات تو چھوڑ ديئے!)کہ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِن(جا ئز ترانوں کي طرز ،لحن اور دُھن) کي کيفيت اور شکل وصورت بھي بہت خراب ہے يا خواہ مجا لس عزا ميں نو حہ خواني اور مرثيہ اور سوز و سلام پڑھنے والے ہوں يا جشن اور محفل ميلاد ميں منقبت و سلام کے ذريعہ اظہا ر عقيدت کر نے والے ہوں،ايک دم سامنے آکر يورپي موسيقي (يا انڈين و پاکستاني گانوں اور غزلوں)کي طرز و لحن اور دھن پر نہايت بُرے اوربھونڈے انداز سے نو حہ ،سلام ، يامر ثيہ و منقبت کے اشعار پڑھنا شروع کر دیں!اور وہ طرز و لحن اپنا ئيں کہ جو فرض کيجئے کہ جو کسي مغربي(يا انڈو پاک کے کسي) گلو کار یا اُس کي تقليد کرنے والے ( انڈو پا ک کے کسي گلو کار ) نے اپنے کسي معروف گانے یا غزل ميں اپنائي ہو؛ہم آکراُن کي وہي طرز و لحن اور دھن اپنائيںاور اُسے اپني مجالس، نوحوں اور سلام و منقبت ميں استعمال کريں۔(برا اور بھونڈا يوں کہ نوحہ،سلام اور منقبت ميں یا اہل بيت کي عظمت و فضيلت کا بيا ن ہو تا ہے یا اُن کے مصائب کاتذکرہ؛ايک طرف اتني عظمت و بلندي اور دوسري طرف گا نوں ،غزلوں اور با زاري دھن و طرز؛کيا يہ خود اہل بيت کي عظمت وفضيلت سے مذاق نہيں ؟!اِسي طرح نوحوں،سلام ،مرثيوں اور منقبت وقصيدوں ميں بعض اوقات ايسے اشعار پڑھے جاتے ہيں کہ جو آئمہ اہل بيت ٴ اور شہدائے کر بلا کي شان و منزلت اور مقا م و مرتبہ کے نہ صرف شايان شان نہيں ہوتابلکہ بعض اوقات قرآن و اہل بيت ٴ کي تعليمات کے سراسر خلاف اور نظريہ توحيد کے منا في ہو تے ہيں،چنا نچہ يہ علما کرام کي ذمہ داري ہے کہ وہ شعراکو اِ س جانب متوجہ کريں اور يہ شعرا ئ کا فرض ہے کہ وہ اِس با رے ميں علما سے راہنمائي ليںنيزيہ نوحہ اور منقبت خوان حضرات کہ بھي ذمہ داري ہے کہ وہ نوحوں،منقبت اور قصيدوں کي طرزوں کو گا نوں ،غزلوں اور قواليوں کي طرز اور دھنوں سے دور اورمجالس و ميلاد کي روحاني فضا کو پاک وپاکيزہ رکھيں ۔ مترجم) اِن افراد نے ايراني اصلي مو سيقي کہ جس کي ايک قسم حلال بھي ہے،کو خراب کيا ہے؛واضح رہے کہ انقلاب کي کا ميابي کے بعد حالات بہتر ہو ئے ہيں البتہ اِ س قديم ايراني مو سيقي کي ايک حرام قسم بھي ہے اور اِ س ميں ايراني اور غير ايراني مو سيقي ميں کو ئي فرق نہيں ہے۔اب اِن حالا ت ميں ہمار اکوئي نو حہ یا منقبت خواں یا جا ئز ترانوں کو پڑھنے والاکوئي نو جوان ريڈيو اور ٹي وي (اور مجالس و شب بيداري اور فر ش عزائ) پر آئے اور غلط اور حرام چيزوں کي تقليد کرتے ہوئے مغربي یا دوسري مو سيقي یا لھوو لعب کے فنکشنوں اور محفلوںکي موسيقي کو اپني مجالس عزا، نوحوں اور محفل ميلاد ميں لے آئے!يہ بات ہر گز درست نہيں ہے اور سراسر غلط ہے۔البتہ اچھي آواز اور خوبصورت صدا کو بُري مو سيقي سے خراب کيا جا سکتا ہے اِسي طرح متوسط اور نا ر مل آواز کو اچھي موسيقي سے اچھا بنا يا جا سکتا ہے؛ مو سيقي بذات خود اپني جگہ ايک مقو لہ ہے۔ دوسري بات: ايک اچھے اور بہترين شعر کي تصديق اب آيئے اشعار وکلام کے مفاہيم کي جا نب کہ خود يہ داستان بہت طويل ہے۔سب سے پہلي بات يہ کہ اشعار کے الفاظ کو اچھا اور بہترين ہو نا چا ہئے، اِس لئے کہ سب افراد اچھے اشعار کو نہيں جا نتے ہيں،ہر وہ شعر کہ جسے ايک ادبي ذوق نہ کھنے والا اچھا شعر تصور کرے،اِس بات پر دليل نہيں ہے کہ يہ شعر اچھا ہے!ايک شعر شناس اور ادبي ذوق رکھنے والاانسان شعر کي تصديق کرے کہ يہ ايک اچھا اور بہترين شعر ہے۔ ايک اچھے کلام کا فائدہ اور اُس کي خصوصيات ايک اچھے شعر اور کلام کا کيا فا ئدہ ہو تا ہے؟ايک اچھے کلام کا فائدہ يہ ہو تا ہے کہ بغير اِس کے کہ ہم اور آپ کلام اور شعر اور اُس کے مفاہيم کو طرف متوجہ ہوں،وہ اپنے سامع پر بہترين اثرات مرتب کر تا ہے؛ يہ ہے ايک کلام اور شعر کا بہترين اثرو ہنر! خواہ سامع اُس ہنر کے اچھے ہو نے کي تشخيص نہ کر سکے ليکن وہ اپنے سامع کے ذہن و قلب پر ايک با زاري ،سطحي اور اعليٰ مفاہيم و تعليما ت سے عاري کلام و شعرسے بہت زيادہ ،گہرا اور عميق تآثر چھوڑ جا تا ہے؛ يہ ہے ايک اچھے کلام اور شعر کا فائدہ!لہذا ايک کلام اور شعر کے الفاظ کواچھا،خوبصورت وزيبا اور مضبوط؛اُس کے مضا مين و مفاہيم کو جا لب،تا زہ وجديد اورغير تکراري اور اُس کے مطلب و معنيٰ کو کہ جو اِس تمام گفتگو کي جان اور لُبّ لباب ہے، سبق آمو ز ہو نا چا ہئے۔ تيسري بات: اچھے کلام کا مطلب و معنيٰ؛ سبق آموز ہوتا ہے! کلام و اشعار کے الفاظ اور الفاظ سازي کے علا وہ ايک اور مقو لہ ہے کہ جسے کلام و اشعار کا مطلب و معنيٰ کہا جا تا ہے۔يعني وہ با تيںکہ جو آپ اپنے اشعار ميں اہل بيت کے عقيدت مندوں کیلئے بيا ن کر رہے ہيں،اُنہيں درسي ہو نا چاہئے تا کہ وہ اُس سے اپني عملي زندگي ميں سبق لے سکيں۔ايک واعظ کو فرض کيجئے کہ جو منبر پر جا کر اپني گفتگو کي ابتدائ سے لے کر انتہائ تک ’’فصا حت و بلا غت‘‘ کے فن پاسروں سے اپني’’ سخن ‘‘کو زينت دے اور’’قافيوں‘‘ اور ’’بحر‘‘ سے ’’خطابت ‘‘ کو آرائش دے ليکن اپنے موضوع سے متعلق اُس کے سامعين کي معرفت و بصيرت ميں ذرہ برابر اضا فہ نہ ہوتو ايسے شخص نے نہ صرف اپنا وقت تلف کيا ہے بلکہ دوسروں کا وقت بھي بر باد کيا؛ نوحہ خوان اور سلام و منقبت پڑھنے والا بھي اِسي طر ح ہے۔ کلام اورشعراگر معصوم کي حقيقي محبت ومعرفت کو ہمارے دل ميںزيادہ اور اُس کے عمل سے شوق پيدا نہ کرے تووہ قابل اعتراض ہے! وہ کلام و اشعار جو آپ پيش کرتے ہيںخواہ اُس کے الفاظ کتنے ہي خوبصورت کيوںنہ ہوںخواہ وہ حضرت فا طمہ زہرا ٭ کے بارے ميں ہي کيوں نہ ہوںليکن وہ کلام و اشعار ايسے مفاہيم اور مضا مين پر مشتمل ہوں کہ سا معين اُس سے کو ئي بھي فا ئدہ حا صل نہ کر سکيں؛نہ لو گوں کي اُس عظيم ہستي کي نسبت معرفت ميں اضا فہ ہو،نہ وہ اُس عظيم المرتبت خا تون کے توحيدي اور عر فاني مقا مات سے کوئي چيز سمجھیں،نہ بنت رسول ۰ کي مجا ہدانہ زندگي کو اپنے ليے سرمشق قرار دیں اور نہ اُس گو ہر گرانبہا کے رفتار و کردارسے جو بذات خوود ايک درس ہے ؛چونکہ وہ ايک معصوم ہستي ہے اور اُس کي ايک ايک حرکت اور عمل ہمارے لئے درس اور مشعل راہ کي حيثيت رکھتا ہے،کو ئي چيز نہ سمجھیں تو ايسا کلام (شرعي)اعتراض و اِشکال سے خا لي نہيں ہو گا! کلام کو موثر،ہدايت بخش اور جہت دہندہ ہو نا چاہئے ميرے دوستو!پس آ پ کي ذمہ داري بہت سخت ہے،آپ کا کام اُن بعض افراد کے خيا ل کے با لکل بر خلاف ہے جو يہ تصور کر تے ہيں کہ ہم چار جملے اور چند اشعار يا د کر ليں اور( لوگوں کے مذہبي و ديني جذبات و احساسات سے ما دي فوائد حا صل کرنے کیلئے )ايک معقول اور لوگوں کو سر گرم اور مصروف کرنے والي آواز وصدا بھي رکھتے ہوں؛ہر گز نہيں،آپ کا يہ کام بہت سخت ہے چنا نچہ آ پ کے اِس کام کو ہنر مندانہ،موثر،ہدايت بخش اور لوگوں کو جہت دينے والا ہو نا چاہئے۔ دشمن ؛قرآن و اہل بيت سے ہماري محبت اور ايمان کا مخالف ہے! آج کي دنيا ميں ہميں کتنے مسائل کا سامنا ہے؛ہميں صرف امريکي دشمني و مخالفت کا مسئلہ در پيش نہيں ہے ؛صحيح ہے کہ يہ مسائل بھي بہت اہم نو عيت کے حامل ہيںبلکہ آج دنيا کے تمام سياسي وفکري مراکز اور پروپيگنڈا مشينرياںاِس بات کیلئے منصوبہ بندي کر رہي ہيں کہ کس طرح اِس سر زمين سے جنم لينے والے ايمان کے اِس مضبوط رشتے و تعلق اوراسلامي و قرآني اُصولوں سے پا بندي کے عہد و پيمان کواِن مومن قلوب سے با ہر نکال پھينکيں۔ کيا آپ يہاں بيٹھے يہ سوچ رہے ہيں کہ زندگي کي گاڑي ايسے ہي چل رہي ہے!نہيں جناب!يہ ايک ميدان جنگ و کار زار ہے؛يہ ہمارے اِس اسلامي معاشرے اور اسلامي نظام اور اُن افراد کے درميان ايک حقيقي جنگ ہے جو اِس مقدس سر زمين سے ايمان کي جڑوں کو خشک کر نا چاہتے ہيںاور اُن کي خواہش ہے کہ ہمارے قلوب کو قرآن و اہل بيت کي معرفت سے خا لي کر ديں!اِ س لئے کہ يہ افراد يہ بات اچھي طرح جان چکے ہيں کہ قر آن و اہل بيت کي تعليمات کي بنيا دوں پر قائم يہ اسلامي نظام ہمارے ظلم و ستم ،منا فع طلبي اور استحصال کي پا ليسي سے ہر گز ساز گا ر نہيں ہے اور يہ دنيائے استکبار کي تسلط و برتري اور اُس کے ايجنٹوں اور منا فقوں کي جا نب سے استعمال کيے جانے والے ہتھکنڈوں کے مقابلے ميں کبھي خا مو ش نہيں بيٹھے گا؛ وہ اِ ن تمام حقا ئق کو اچھي طرح جانتے ہيں۔وہ اِس بات کے درپے ہيں کہ اِ س توحيدي،ولايت اہل بيت ،محبت و مودت آل محمد ۰،مذہبي تعليمات کي نسبت ديني غيرت و تعصب اور ظلم و ستم سے مقا بلے کے عقيدے اور ظلم و ظالم کو قبول کر نے کي برائي اور قبا حت کو مختلف حيلوں بہانوںکے ذريعہ لوگوں کے دلوں سے با ہر نکال ديں؛اِ س سلسلے ميں وہ مختلف قسم کے ہتھکنڈوں کونہ صرف استعما ل بھي کر رہے ہيں بلکہ انہيں اپني زبان سے بيان بھي کرتے ہيں۔ يہ ڈالر جو اِ س مقصد کے حصول کیلئے خرچ کر نا چا ہتے ہيں يہ خطير رقم بموںاور گوليوں کیلئے خرچ نہيں کي جا تي بلکہ اِس خطير رقم کا بہترين مصرف اسلامي نظام (اور مکتب تشيع )کے خلاف پرو پيگنڈااور مختلف شکلوں ميں انجام پا نے والے يہي مختلف کلچرل اور ثقافتي کام ہيں،پس يہ ايک جنگ ہے۔اِس جنگ ميں جو طبقہ لوگوں کے ايمان و معرفت، اُن کے قلوب،آئمہ معصومين کے نام نامي اور اہل بيت عصمت و طہارت سے سرو کار رکھتا ہے اُس کي ذمہ داري اور و ظيفہ بہت سنگين ہے۔ ميرے بھائيو!آپ اپني ذمہ داري کي صحيح طرح شنا خت کيجئے اور اُس سے صحيح استفا دہ کيجئے۔

 

 

تبصرے
Loading...