دينى حكومت كے منكرين

”دينى حكومت” ايك سياسى نظريہ ہے ، جو مختلف سياسى و حكومتى امور ميں دين كى حكمرانى كوتسليم كرنے سے وجود ميں آتا ہے _ دينى حكومت وہ حكومت ہے جو دين كے ساتھ سازگار ہوتى ہے اور كوشش كرتى ہے كہ دين كے پيغام پر لبيك كہے جو انتظامى امور ، اجتماعى و سماجى روابط اور ديگر حكومتى امور ميں دين كى باتوں پركان دھرے اور معاشرتى امور كو دينى تعليمات كى روشنى ميں منظم كرے _يہ تمام بحث گذر چكى ہے _

دين اور حكومت كى تركيب اور دينى حكومت كے قيام كے ماضى ميں بھى مخالفين رہے ہيں اور آج بھى موجود ہيں _ اس مخالفت سے ہمارى مراد دين اور حكومت كى تركيب كا نظرياتى انكار ہے اور دينى حكومت كے خلاف سياسى جنگ اور عملى مخالفت ہمارى بحث سے خارج ہے_ دينى حكومت كے منكرين وہ افراد ہيں جو نظريہ” تركيب دين و حكومت ”اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حكمرانى كو منفى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور اس كاانكار كرتے ہيں_ اس انكار كى مختلف ادلّہ ہيں اختلاف ادلّہ كے اعتبار سے دينى حكومت كے مخالفين و منكرين كى ايك مجموعى تقسيم بندى كى جاسكتى ہے _

دينى حكومت كے مخالفين تين گروہوں ميں تقسيم ہوتے ہيں_

1_ وہ مسلمان جو معتقد ہيں كہ اسلام صرف انسان كى معنوى اور اخلاقى ہدايت كيلئے آيا ہے اور فقط انسان كو آداب عبوديت سيكھاتا ہے ان افراد كے بقول اسلام نے سياسى امور ميں كسى قسم كى مداخلت نہيں كى ہے _ دين اور سياست دو الگ الگ چيزيں ہيں اور دينى اہداف سياست ميں دين كى دخالت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتے _

دينى حكومت كے مخالفين كايہ گروہ سياسى امور ميں دين كى حكمرانى كا كلى طور پر انكار نہيں كرتا بلكہ اس كا اصرار يہ ہے كہ اسلامى و دينى تعليمات ميں سياسى پہلو مفقود ہے _ يہ افراد اس بات كو تسليم كرتے ہيں كہ اگر دينى تعليمات ميں تشكيل حكومت كى دعوت دى گئي ہوتى اور دين نے مختلف سياسى شعبوں اور حكومتى امور ميں عملى طور پر راہنمائي كى ہوتى تو دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہ ہوتى _ بنابريں دينى حكومت كے قائلين كے ساتھ ان كاجھگڑا فقہى و كلامى ہے _ نزاع يہ ہے كہ كيا دينى تعليمات ميں ايسے دلائل اور شواہد موجود ہيں جوہميں دينى حكومت كى تشكيل اور دين و سياست كى تركيب كى دعوت ديتے ہيں ؟

2_ دينى حكومت كے مخالفين كا دوسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے ، جو تاريخى تجربات اور دينى حكومتوں كے قيام كے منفى نتائج كى وجہ سے دين اور سياست كى جدائي كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں دينى حكومت كى تشكيل كے بعض تاريخى تجربات كچھ زيادہ خوشگوار نہيں تھے _ اس كى واضح مثال قرون وسطى ميں يورپ ميں قائم كليسا كى حكومت ہے كہ جس كے نتائج بہت تلخ تھے _

اس نظريہ كے قائلين كى نظر ميں دين و سياست كى تركيب دين كے چہرہ كو بگاڑ ديتى ہے اور اس سے لوگوں كا دين كو قبول كرنا خطرے ميں پڑجاتاہے_ لہذا بہتر ہے كہ دين كو سياست سے جدا ركھا جائے_ چاہے سياست اور حكومت كے سلسلہ ميں دينى تعليمات موجود ہى كيوں نہ ہوں _ بنابريں اس گروہ كے بقول بحث

اس ميں نہيں ہے كہ دين سياسى پہلو كا حامل نہيں ہے بلكہ يہ افراد سياست اور حكومت ميں دينى تعليمات كى دخالت ميں مصلحت نہيں سمجھتے _ ان كا عقيدہ ہے كہ اگر چہ دين سياسى جہات كا حامل ہى كيوں نہ ہو تب بھى دينى حكومت كى تشكيل كے منفى اور تلخ نتائج كى وجہ سے اس قسم كى دينى تعليمات سے ہاتھ كھينچ لينا چاہيے اور سياست كو خالصة ً لوگوں پر چھوڑ ديناچاہيے _

3_ دينى حكومت كے مخالفين كا تيسرا گروہ وہ ہے جو امور سياست ميں دين كى مداخلت كاكلى طور پرمخالف ہے _ يہ افراد سياسى اور حكومتى امور ميں دين كى حكمرانى كو تسليم نہيں كرتے _ ان كى نظر ميں بات يہ نہيں ہے كہ كيا حكومتى امور او رمعاشرتى نظام كے متعلق دين كے پاس تعليمات ہيں يا نہيں ؟ بلكہ ان كى نظر ميں دين كو اجتماعى اور سياسى امو رسے الگ رہنا چاہيے اگر چہ اجتماعى اور سياسى امور كے متعلق اس كے پاس بہت سے اصول اور تعليمات ہى كيوں نہ ہوں _ اس نظريہ كى بنياد پر اگر دين، سياسى امور ميں اپنے لئے حكمرانى كا قائل ہو اور اس نے دينى حكومت تشكيل دينے كا كہا ہو ،اور مختلف سياسى امور ميں اپنى تعليمات پيش بھى كى ہوں ليكن عملى طور پر سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو تسليم نہيں كيا جا سكتا كيونكہ سياست او رمعاشرتى نظام مكمل طو ر پر انسانى اور عقلى امر ہے او ردين اس ميں مداخلت كى صلاحيت نہيں ركھتا اور اس ميں دين كو دخيل كرنے كا واضح مطلب، انسانى علم و دانش اور تدبر وعقل سے چشم پوشى كرنا ہے_يہ افراد در حقيقت سيكو لر حكومت كى حمايت كرتے ہے اور مكمل طور پر سيكولرازم كے وفادار ہيں _

سياست سے اسلام كى جدائي

جيسا كہ اشارہ ہو چكا ہے : دينى حكومت كے مخالفين كا پہلا گروہ يہ اعتقاد ركھتا ہے كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى ترغيب نہيں دلائي _ان كا زور اس بات پر ہے كہ

آنحضرت (ص) مدينہ ميں كئي سال رہے ليكن كيا آپ (ص) نے وہاں حكومت تشكيل دى ؟اگر مان بھى ليا جائے كہ حكومت قائم كى تھى سوال يہ ہے كہ كيا اس حكومت كے قيام كا سرچشمہ فرمان الہى اور دعوت دينى تھى ؟ يا نہيں بلكہ اس كا سرچشمہ صرف عوام تھے ،اور تشكيل حكومت كے سلسلہ ميں اسلامى تعليمات خاموش تھيں ؟

تاريخى حقيقت يہ ہے كہ ہجرت مدينہ كے بعد آنحضرت (ص) نے اطراف مدينہ كے قبائل كو اسلام كى دعوت دى تھى اورايك اتحاد تشكيل ديا كہ جس كا مركز مدينة النبى تھا_

اس سے مسلمانوں نے ہميشہ يہى سمجھا كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں حكومت بنائي تھي_ نبوت اور ہدايت وراہنمائي كے ساتھ ساتھ مسلمانوں كے سياسى امور كى باگ ڈور بھى آپ (ص) كے ہاتھ ميں تھى آپ (ص) كے اس اقدام كا سرچشمہ وحى اور الہى تعليمات تھيں او رآنحضرت (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ فرمان الہى تھا:

” النبى اولى بالمؤمنين من انفسہم ”

نبى تمام مومنين سے ان كے نفس كى نسبت زيادہ اولى ہے_ (سورہ احزاب آيت6)

”انّا انزلنااليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بمااريك الله ”

ہم نے آپ پر برحق كتاب نازل كى ہے تاكہ آپ لو گوں كے در ميان حكم خدا كے مطابق فيصلہ كريں_(سورہ نساء آيت 105)

ان دو آيات ميں الله تعالى نے مسلمانوں پر آنحضرت (ص) كو ولايت عطا فرمائي ہے اور آپ (ص) كو حكم دياہے كہ قرآن نے آپ كو جو سيكھاياہے اس كے مطابق لوگوں كے در ميان فيصلہ كريں_ اسى طرح دوسرى آيات ميں مسلمانوں كو حكم دياہے كہ وہ آپ (ص) كى اطاعت كريں_

”اطيعواالله واطيعواالرسول ”

خدا اور رسول كى اطاعت كرو (سورہ نساء آيت59)

”فلا و ربّك لا يؤمنون حتى يحكّموك فيما شجر بينہم ثم لا يجدوافى انفسہم حرجامّما قضيتَ و يسلّمواتسليماً”

پس آپ(ص) كے پروردگار كى قسم يہ كبھى بھى صاحب ايمان نہيں بن سكتے جب تك آپ كو اپنے باہمى اختلاف ميں منصف نہ بنائيں اور پھر جب آپ فيصلہ كرديں تو اپنے دل ميں كسى تنگى كا احساس نہ كريں_ اور آپ كے فيصلہ كے سامنے سرا پا تسليم ہوجا ہيں_(سورہ نساء آيت 65)

اس مشہور و معروف تفسير كى بنياد پر صدر اسلام ميں مسلمانوں كے دينى حكومت كے تشكيل دينے كا سرچشمہ دين اور اس كى تعليمات تھيں اور يہ اقدام مكمل طور پر دينى اور مشروع تھا اور در حقيقت يہ دين كے پيغام پر لبيك تھا_ ليكن آخرى عشروں ميںبعض سنى اور بہت كم شيعہ مصنفين نے اس معروف تفسير اور نظريہ كى مخالفت كى ہے_(1)

مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى اس سياسى حاكميت كى يہ افراد كچھ اور تفسير كرتے ہيں_ بعض تو سرے سے ہى اس كے منكر ہيں اور اس بات پر مصر ہيں كہ آنحضرت (ص) صرف دينى رہبر و قائد تھے اور انہوں نے حكومتى و سياسى امور كبھى بھى اپنے ہاتھ ميں نہيں لئے تھے_ جبكہ اس كے مقابلہ ميں بعض افراد معتقد ہيں كہ آنحضرت (ص) سياسى ولايت بھى ركھتے تھے ليكن يہ ولايت خدا كى طرف سے عطا نہيں ہوئي تھى بلكہ اس كا سرچشمہ رائے عامہ تھي_ اورلوگوںنے ہى حكومت آپ كے سپرد كى تھي_ پس دين نے اپنى تعليمات ميں تشكيل حكومت كى دعوت نہيں دى ہے اور رسولخدا (ص) كى حكومت خالصةًايك تاريخى اور اتفاقى واقعہ تھا لہذا اسے ايك دينى دستور كے طور پر نہيں ليا جاسكتا_

ہم اس كتاب كے دوسرے باب ميں جو اسلام كے سياسى تفكر كى بحث پر مشتمل ہے مذكورہ نظريوں كے

1) اس بحث كا آغاز 1925 عيسوى ميں مصرى مصنف على عبدالرزاق كى كتاب ” الاسلام و اصول الحكم” كے چھپنے كے بعد ہوا_

بارے ميں تفصيلى گفتگو كريں گے اور دينى حكومت كے مخالف اس گروہ كى ادلہ كا جواب ديں گے_

دينى حكومت كا تاريخى تجربہ :

پہلے اشارہ كر چكے ہيں كہ دينى حكومت كے مخالفين كا دوسرا گروہ دينى حكومت كى تشكيل كے منفى اور تلخ نتائج پر مصر ہے اور يہ افراد اپنے انكار كى بنياد انہى منفى نتائج كو قرار ديتے ہيں_ ان كى ادلّہ كا محور دينى حكومت كے قيام كے تاريخى تجربات كا تنقيدى جائزہ ہے_

ان افراد كے جواب كے طور پر ہم چند نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

1_ انسانى تاريخ مختلف قسم كى دينى حكومتوں كى گواہ ہے_ ان ميں سے بعض اپنى تاريخى آزمائشےوں ميں كامياب نہ ہوسكيں ليكن بعض انبيائ اور اوليا الہى كى حق اور عدل و انصاف پر مبنى حكومتيں دينى حكومت كى تاريخ كا سنہرى ورق ہيں_ مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى دس سالہ قيادت و رہبرى اور حضرت امير المؤمنين كى تقريباً پانچ سالہ حكومت، دينى حكومت كى بہترين مثاليں ہيں_ جن كى جزئيات اور درخشاں دور تاريخ كے ہر محقق اور مورّخ كے سامنے ہے_ اس دور ميں عدل ، تقوى اور فضيلت كى حكمرانى كے روح پرور جلوے ايسے خوشگوار اور مسرت انگيز ہيں كہ نہ صرف مسلمانوں كيلئے بلكہ پورى انسانيت كيلئے قابل فخر و مباہات ہيں_ بنابريں كلى طور پر تمام دينى حكومتوں كو يكسر رد نہيں كيا جاسكتا _ بلكہ علمى انصاف كا تقاضا يہ ہے كہ ہر تاريخى تجربہ كا باريك بينى سے جائزہ ليا جائے_

2_ دينى حكومت كے بھى مراتب اور درجات ہيں_ عالم اسلام اور عيسائيت كى بعض دينى حكومتيں اگر چہ بہت اعلى اور مطلوب حد تك نہيں تھيں ليكن اپنے دور كى غير دينى حكومتوں سے بہت بہتر تھيں_ عالم اسلام كى

ابتدائي سو سالہ اسلامى حكومتيں ” اگر چہ ہمارے نزديك ان ميں سے اكثر حكومتيں غاصب تھيں اور اسلامى اصولوں پر استوار نہيں تھيں” اس كے باوجود دينى حكومت كے كچھ مراتب كا پاس ضرور ركھتى تھي_ لہذا يہ ادعا كيا جاسكتا ہے كہ يہ حكومتيں اپنے دور كى غير دينى حكومتوں كى نسبت بہت سے بہتر نكات كى حامل تھيں_مفتوحہ علاقوں كے رہنے والوں سے مسلمان فاتحين كے سلوك كو بطور نمونہ پيش كيا جاسكتا ہے كہ جس نے ان كے اسلام لانے ميں اہم كردار ادا كيا_ اس لحاظ سے كشور كشائي كے خواہشمند سلاطين اور دوسرى فاتح حكومتوں كا ان سے مقائسہ نہيں كيا جاسكتا_

3_ اس حقيقت سے انكار نہيں كيا جاسكتا كہ بہت سے اعلى حقائق ، گرانقدرمفاہيم اور بلند و بالا اہداف سے غلط استفادہ كيا جاسكتا ہے _ كيا نبوت كے جھوٹے دعوے نہيں كئے گئے ؟ كيا آبادكارى اور تعمير و ترقى كے بہانے استعمارى حكومتوں نے كمزور ممالك كو تاراج نہيں كيا؟ موجودہ دور ميں جمہوريت اور آزادى كى علمبردار مغربى حكومتوں نے حقوق بشر اور آزادى كے بہانے عظيم جرائم كا ارتكاب نہيں كيا؟ اور فلسطين جيسى مظلوم قوموں كے حق ميں تجاوز نہيں كيا؟

ان غلط استفادوں اور تحريفات كا كيا كيا جائے؟ كيا نبوت ، امامت ، دين ، آزادى اور حقوق بشر كو ترك كرديا جائے؟ صرف اس دليل كى بنياد پر كہ بعض افراد نے بعض موارد ميں ان گرانقدر اور مقدس امور سے غلط استفادہ كيا ہے؟ بلكہ معقول اور منطقى بات يہ ہے كہ ہوشيارى ، دقت ، آگاہى اور طاقت سے غلط كاريوں اور سوء استفادہ كى روك تھام كى جائے_

دينى حكومت بھى ان مشكلات سے دوچار ہے _ دين كے تقدس اوردينى حكومت سے غلط فائدہ اٹھانے اور دين كى حقيقت اور روح كو پس پشت ڈال دينے كا امكان ہميشہ موجود ہے_ دينى حكومتوں كو راہ راست سے بھٹكنے اور دينى تعليمات سے ہٹنے كا خطرہ ہميشہ موجود رہتا ہے لہذا صاحبان دين كى علمى آگاہى اور نظارت كى ضرورت مزيد بڑھ جاتى ہے_ ليكن كسى صورت ميں بھى يہ بات عقلى و منطقى نہيں ہے كہ ان خطرات كى وجہ سے دين كى اصل حاكميت اور سماج و سياست ميں اس كے كردار سے منہ موڑليا جائے_صاحبان دين كو ہميشہ اس كى طرف متوجہ رہنا چاہيے كہ حقيقى اسلام كا نفاد اور دين مقدس كى گرانقدر تعليمات كى بنياد پر اجتماعى امور كى تدبير لوگوں كيلئے كس قدر شيريں ، گوارا اور پر ثمر ہے_

خلاصہ

1) دين اور سياست كى تركيب كے مخالفين تين قسم كے ہيں_

الف : دينى حكومت كے مخالفين كا ايك گروہ وہ مسلمان ہيں جن كا عقيدہ يہ ہے كہ اسلام نے دينى حكومت كے قيام كى دعوت نہيں دى اور سياست كے متعلق اس كے پاس كوئي خاص اصول اور تعليمات نہيں ہيں_

ب: مخالفين كا دوسرا گروہ دينى حكومت كے انكار كى بنياد ماضى ميں قائم دينى حكومتوں كے تلخ اور ناخوشگوار نتائج كو قرار ديتا ہے_

ج : تيسرا گروہ سرے سے اجتماعى اور سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو تسليم ہى نہيںكرتا_

2) تاريخى حقيقت يہ ہے كہ آنحضرت (ص) نے دينى حكومت قائم كى تھى اور ان كى سياسى فرمانروائي كا سرچشمہ وحى الہى تھى _

3) طول تاريخ ميں تمام دينى حكومتيں منفى نہيں تھيں بلكہ ان ميں سے بعض قابل فخر اور درخشاں دور كى حامل تھيں_

4)مقدس امور سے غلط استفادہ كا امكان صرف دين اور دينى حكومت ميں منحصر نہيں ہے بلكہ دوسرے مقدس الفاظ و مفاہيم سے بھى غلط استفادہ كيا جاسكتا ہے_

تبصرے
Loading...