دعا قرآن کی نظرمیں

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ. (سوره بقره، آيه 186)

اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں. پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے لہٰذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ ہی پرایمان و اعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں

قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنْتُمْ صَادِقِينَ * بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ * وَلَقَدْأَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ * فَلَوْلَا إِذْجَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(سوره انعام، آيات 43 – 40)

آپ ان سے کہئے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے پاس عذاب یا قیامت آجائے تو کیا تم اپنے دعوے کی صداقت میں غیر خدا کو بلاؤ گے ۔نہیں تم خدا ہی کو پکارو گے اور وہی اگر چاہے گا تو اس مصیبت کو رفع کرسکتا ہے ….اور تم اپنے مشرکانہ خداؤں کو بھول جاؤ گے ۔ہم نے تم سے پہلے والی اُمتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں ۔پھر ان سختیوں کے بعد انہوں نے کیوں فریاد نہیں کی بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے

قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِن هذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ * قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُم مِنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ(سوره انعام، آيات 64 – 63)

ان سے کہئے کہ خشکی اور تری کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے جسے تم گڑگڑا کر اور خفیہ طریقہ سے آواز دیتے ہو کہ اگر اس مصیبت سے نجات دے دے گا تو ہم شکر گزار بن جائیں گے ۔کہہ دیجئے کہ خد اہی تمہیں ان تمام ظلمات سے اور ہر کرب و بے چینی سے نجات دینے والا ہے اس کے بعد تم لوگ شرک اختیار کرلیتے ہو۔

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ۔(سوره اعراف، آيه 56)اور خبردار زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پیدا کرنا اور خدا سے ڈرتے ڈرتے اور امیدوار بن کر دعا کرو کہ اس کی رحمت صاحبان حسن عمل سے قریب تر ہے۔

سب سے پہلے اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ دعا کیلئے اہداف اور حکمتیں ہیں اگر انسان ان کو جان لیں گویا اس نے بہت بڑے خزانے کو پایا لیا ہے ۔ایک ایسا خزانہ جس کے بارے میں اسے پہلے کوئی علم نہیں تھا ۔  اپنے زندگی کے  پیچیدہ مشکلات کیلئے  چارہ کار   پا لیتا ہے  اپنے دشواریوں کیلئے راہ حل مل جاتا ہے  دل کی آلودگیوں اور دردوں کے واسطے دوا  پالیتا ہے ۔اگرچہ دعا کے بارے میں قرآنی آیات پراکندہ طور پر وارد ہوئی ہیں لیکن مجموعی طور پر ایک فکر کو  تشکیل دیتی ہیں ۔

ہر مکان میں دعا :

انسان مشکلات کے وقت راہ حل کی تلاش میں ہوتا ہے اور فطرتا جانتا ہے کہ راہ حل خدا کے ہاتھ میں ہے ۔اور مشکل چاہے جتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو اور انسان کو نا امیدی کیطرف بلا رہا ہو  پھر بھی اس کا راہ حل خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن خدا کہاں ہے ؟ کس طرف ہم رخ کر لیں تاکہ خدا  سے نزدیک ہو جائیں آیا خدا مسجد میں ہے ؟ یا صحر ا  اور پہاڑوں میں ہے ؟ بلآخرہ کہاں پر ہم خدا کے زیادہ نزدیک ہیں ؟ یہ سوال ہم سب کے لئے پیش آتا ہے ۔ صرف رسول اکرم ص  کے زمانے والے لوگوں کے ساتھ مختص نہیں ہے  جو رسول اکرم خدا کے بارے پوچھا کرتے تھ ۔ ہم  بھی جب مشکلات کیساتھ روبرو  ہوجاتے ہیں تو ایسی  جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک ہو  تاکہ وہاں سے بہتر طریقے پر خدا کو بلا سکیں ۔لیکن خدا نے اس سوال کا کچھ اسطرح سے جواب دیا ہے ۔

 وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ۔۔۔۔۔۔۔(بقرہ ۱۸۶) ۔ اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں۔پس لازم نہیں ہے کہ انسان فاصلہ طے کرِکے کسی خاص مکان میں خدا کو پکارے  کیونکہ خدا ہر بندے کے قریب ہے ۔ دعای ابو حمزہ ثمالی میں ہم پڑھتے ہیں کہ ۔۔”وَاَنَّ الرَّاحِلَ إِلَيْكَ قَريبُ الْمَسافَةِ، وَأَنَّكَ لا تَحْتَجِبُ عَنْ خَلْقِكَ اِلّا أَنْ تَحْجُبَهُمُ الْأَعْمالُ دُونَكَ”. آپ کی طرف کوچ کرنے والے کا راستہ کوتاہ ہے  اور  اپنے مخلوق سے پوشیدہ نہیں ہے  مگر یہ کہ ان کے اعمال ان کو پس پردہ ڈال دیتے ہیں ۔

امیر المومنین سے خدا اور زمین و آسمان کے درمیان فاصلے کے بارے میں پوچھا گیا  تو آپ نے فرمایا  یہ فاصلہ وہی مستجاب شدہ  دعا ہے ۔ چونکہ مستجاب دعا اربوں میل زمین و آسمان کے فاصلے کو  پلک جپکتے  طے کر لیتا ہے ۔  اسی طرح رسول اکرم سے سوال ہو ا کہ آیا  خدا ہمارے نزدیک ہے تاکہ اس سے آہستہ طور پر راز و نیاز کریں یا نہیں بلکہ دور ہے تاکہ بلند آواز سے اس کو بلا لیں ۔ تو  آنحضرت وحی کے انتظار میں خاموش  رہا  کہ اس حوالے سے سورہ بقرہ کی ۱۸۶ نمبر  آیت نازل ہوئی ۔ جس میں خطاب ہے کہ جب میرے بندے تم میرے بارے میں پوچھے تو انہیں بتا دو کہ میں قریب ہوں ۔۔۔۔خدا  اپنے بندوں کی دعا دو شرطوں کی بنا پر قبول کر لیتا ہے ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ صرف خدا کو پکارے  یعنی جب خدا کو پکار رہا ہو تو ہمہ تن و جان خدا کی طرف متوجہ ہو اور پیوند  ظاہری کے ساتھ ساتھ باطنی پیوند بھی برقرار رہے ۔ إِذَا دَعَانِ اسی مطلب کیطرف اشارہ کر رہا ہے   ایسا نہ ہو کہ ظاہری طور پر  یا رب پڑھ رہا  ہو مگر  دلی رابطہ کہی اور ہو  ۔جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں ہے ۔

( …فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً)سوره طه، آيه 12)

کہ جوتوں کے اتارنے سے  مراد بیوی بچوں کی محبت ہے  یعنی جب مجھ سے ملنا چاہتے ہو  تو ضروری ہے کہ  دلی محبت میرے بغیر کسی اور سے نہ ہو   چونکہ یہ آیت حضرت موسی علیہ السلام کے متعلق ہے جب وہ بیابان میں اس تاریک  اور ٹھنڈی رات میں اپنی حاملہ بیوی کے لئے آگ کی جستجو میں تھا  جس کا دل  اسی کے بارے میں مشغول تھا ۔جب پروردگار عالم اس نازک حالت میں اپنی نبی کو  مستجاب الدعا کے لئے یہ حکم دے رہا ہے  تو  ہم سب تو بہتر طور پر اس حکم اور شرط کے پابند ہونے چاہیئے کہ جب بھی خدا کو پکاریں تو پورے اخلاص کیساتھ پکاریں اور اسوقت صرف اور صرف اسی ذات کی طرف توجہ ہو  ۔ ایسا نہ ہو کہ ظاہری طور پر خدا خدا کر رہا ہو لیکن دل و جان سے اسباب مادی پر امید باندھا ہو ۔

دوسری شرط یہ ہے کہ خدا پر حقیقی ایمان ہو اور اس کے مطابق اس کے فرامین پر عمل ہو ۔ 

اس شرط کو ہم بقرہ کی آیت ۱۸۶ کے دوسرے حصے میں پاتے ہیں  ۔  …فَلْيَسْتَجِيبُوا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ۔

لہٰذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ ہی پرایمان و اعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں ۔ جیسا کہ روایت میں اس حال میں مجھ سے دعا کریں جب قبول دعا پر  یقین رکھتے ہو ں (عدہ الداعی ص ۱۰۳ )۔ تب خدا ہماری دعا قبول کرلیتا ہے کہ ہم بھی اس کے فرامین پر عمل پیرا ہو   خد ا کی ذات پر مکمل ایمان ہوں  اور ساری زندگی اس کے فرامین کے مطابق ہو اس طرح ہو تو  انسان راہ راست اور  راہ رشد میں قرار پاتا ہے ۔اسی حوالے ایک روایت میں اسطرح آیا ہے ایک گروہ نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ ہم خدا کو پکارتے ہیں مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں ؟امام نے فرمایا : اس وجہ یہ ہے کہ جسے پکارتے ہے اسکو  جانتے نہیں ہو۔   (تفسیر میزان ج دوم ص ۴۵)

دعا  کی حکمت:

دعا کی حکمت کے حوالے سے آیت میں آیا ہے ۔

 قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنْتُمْ صَادِقِينَ * بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَاتُشْرِكُونَ * وَلَقَدْأَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ(سوره انعام، آيات 42 – 40)

آپ ان سے کہئے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے پاس عذاب یا قیامت آجائے تو کیا تم اپنے دعوے کی صداقت میں غیر خدا کو بلاؤ گے .نہیں تم خدا ہی کو پکارو گے اور وہی اگر چاہے گا تو اس مصیبت کو رفع کرسکتا ہے ….اور تم اپنے مشرکانہ خداؤں کو بھول جاؤ گے . ہم نے تم سے پہلے والی اُمتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں .اس آیت کے ابتدا میں خدا  فرماتے ہیں کہ جب عذاب الہی یا موت  آجاتاہے تو انسان خدا کو پکارتا ہے اور جعلی شرکاء کو بھول جاتا ہے ۔ اس کے بعد دعا کی ایک حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خداوند متعال  کیوں اپنے بندوں کو سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے ؟ کیوں انہیں آزمائش میں ڈال دیتا ہے ؟ آیت میں اس کا جواب آیا ہے ۔  لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ۔ کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں ۔یعنی ہدف یہ ہے کہ بندے خدا کے طرف جائیں ۔ چونکہ عام حالات میں انسان خدا کو بھول جاتا ہے  جب مشکلات کیساتھ روبرو ہوجاتا ہے تو خدا یاد آتا ہے ۔امام صادق علیہ السلام سے فرماتے ہیں : دعا کرو یہ نہ  کہو کہ مقدر میں سب کچھ پہلے سے لکھا ہے اور دعا اسے تبدیل نہیں کرسکتا ہے چونکہ دعا خود ایک عبادت ہے ۔ اورخدا نے فرمایا ہے   إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ۔(غافر /60) یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلّت کے ساتھ جہّنم میں داخل ہوں گے نیز فرمایا ہے  ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۔   (اصول کافی ج ۲ ح ۳ )

البتہ ِ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو  عذاب اور سختی کی حالت میں بھی خدا کو یاد نہیں کرتے ہیں  اس کی وجہ یہ ہے ان کی فطرت وضمیر مر چکی ہوتی ہے  وہ ضمیر اور وجدان جو مشکلات کے وقت بیدار ہوجاتی ہے ۔ جیسا کہ خود خدا ان کے بارے میں یوں فرماتے ہیں ۔

فَلَوْلاَ إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوايَعْمَلُونَ

(سوره انعام، آيه 43) پھر ان سختیوں کے بعد انہوں نے کیوں فریاد نہیں کی بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے۔

پس ان آ یات کے مطابق خدا کی طرف توجہ اور  گریہ و زاری مشکلات و مصائب کی فوائد میں سے ہیں ۔ حالانکہ مشکلات ختم ہو جایئنگے لیکن وہ ایمان جو توجہ بہ خدا اور گریہ و زاری سے دل میں پختہ ہوا ہے وہ قائم رہے گا ۔

روایت میں آیا ہے کہ  رسول اکرم ایک شخص کی دعوت پر اس کے گھر  گئے  جب داخل ہوئے تو کیا دیکھا کہ گھر کی دیوار پر مرغی نے انڈا دیا ہے اس پر رسول اکرنے حیرت کا اظہار کیا  تو جواب میں اس شخص نے آنحضرت سے فرمایا کہ یا  رسول اللہ آپ اس بات پر تعجب کر رہے ہو  قسم اس ذات پر جس نے آپ کو   بر حق مبعو ث کیا ہے میں اب تک کسی مصیبت میں گرفتار نہیں ہوا ہوں ۔ اس پر رسول اکرم اس کے ہاں سے فورا  اٹھ کر  جانے لگے اور فرمایا  جس شخص پر کوئی مصیبت نہیں آتا ہو  اس انسان  میں خدا کو کوئی اچھائی نہیں دکھاتی ہے ۔ پس وہ انسان جو زندگی میں کسی مشکل اور مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتا ہو اسے خوشحال نہیں ہونا چاہیئے  چونکہ یہ غرور کی علامت ہے  اس کے مقابلے میں جو شخص مشکلات اور میں مصائب میں گرفتار ہوتا ہے اس کا روح بلندی حاصل کرلیتا ہے اور نور خدا کیساتھ منور ہو جاتا ہے ذات لایزال کیطرف متوجہ ہوجاتا کا اس توجہ اور رابطہ بہ خدا  کا فائدہ  ان مشکلات میں گرفتاری سے کہیں زیادہ ہے ۔  پس دعا کی ایک حکمت یہ ہے کہ انسان خدا کے حضور میں جایئں اور اس ذات سے وابستہ و مرتبط رہے ۔

دعا کرنے کے اصول :

جیسا کہ آیت مجیدہ میں آیا ہے : قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً…

(.سوره انعام، آيه 63)ان سے کہئے کہ خشکی اور تری کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے جسے تم گڑگڑا کر اور خفیہ طریقہ سے آواز دیتے ہو۔

اس بنا پر دعا تضرع اور گڑگڑا ہت کی حال میں ہونی چاہیے دوسری بات یہ کہ  خفیہ طریقے سے ہو  یعنی خد ا اور بندے کے درمیان راز ہو ۔ اسی طرح بندے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے رب سے عہد کریں کہ اگر خدا نے اس کی دعا مستجاب کرلی تو وہ خدا کا شکر گزار اور فرمان بردار بندہ رہے گا ۔ …لَئِنْ أَنْجَانَا مِن هذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ(سوره انعام، آيه 63)

کہ اگر اس مصیبت سے نجات دے دے گا تو ہم شکر گزار بن جائیں گے۔ لیکن بہت سارے ایسے افراد ہیں جن کی مشکلات کو خدا برطرف کر دیتاہے لیکن وہ اپنے عہد و پیمان کے مخافت کرتے ہوئے  اپنی گذشتہ والی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ قُلْ اللَّهُ يُنَجِّيكُم مِنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ۔(سوره انعام، آيه 64)کہہ دیجئے کہ خد اہی تمہیں ان تمام ظلمات سے اور ہر کرب و بے چینی سے نجات دینے والا ہے اس کے بعد تم لوگ شرک اختیار کرلیتے ہو۔

وَلاَ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ(سوره اعراف، آيه 56)

اور خبردار زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پیدا کرنا اور خدا سے ڈرتے ڈرتے اور امیدوار بن کر دعا کرو کہ اس کی رحمت صاحبان حسن عمل سے قریب تر ہے۔پس دعا کی حالت میں انسان کو  امید و خوف کیساتھ ہونا چاہیئے ۔ دعا کی فورا استجابت پر  مطمئن نہیں ہونا چاہئے ۔  اسی طرح رحمت خدا سے نا امید بھی نہیں ہونا چاہیئے ۔  دعا کی متعلق قرآن مجید میں بہت سارے آیات نازل ہوئی ہے لیکن اس مختصر سے مقالے میں اس سے زیادہ گنجائش نہیں تھی اس دعا کیساتھ کہ خدا وند متعال مسلمین و مستضعفین جہان کو ظالم حکرانوں پر فتح و نصرت عطا کریں ۔

تبصرے
Loading...