دعا اور نماز میں حضور قلب کے حصول کا طریقہ

بے شک دعا اور نماز کی روح حضور قلب ہے اور بغیر اس کے تربیت و تزکیہ کے مہم آثار و روح کی نوار نیت کمتر حاصل ہوتی ہے، اس کے لئے پہلے قوی ومحکم ارادے کی ضرورت ہے اور پھر اس کے حصول کے طریقوں میں جد و جہد و تلاش بہت مہم ہے، کیونکہ غالباً جو لوگ دعا اور نماز میں خضوع و حضور قلب کی تمنا رکھتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس توفیق سے محروم رہتے ہیں، خشوع و حضور قلب کے حصول کے لئے مندرجہ ذیل امور پر توجہ کی ضرورت ہے ۔

۱۔ ان تعلیمات کا حاصل کرنا جو دنیا کو انسان کی نگاہ میں پست و حقیر کردے اور خدا کو عظیم و بزرگ، تاکہ دنیا کی کوئی چیز اسے اپنے معبود سے راز و نیاز کرتے وقت، خدا سے منحرف کر کے اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے۔

۲۔ دنیا کے ذرق و برق اور مختلف حرکات و سکنات کی طرف توجہ، مبذول ہونے کی وجہ سے حواس متمرکز نہیں ہوپاتے ہیں انسان جسقدر بیہودہ مشغلوں سے اپنے کو دور رکھے گا اتنا ہی اس کی عبادتوں میں حضور قلب و غیرہ کا اضافہ ہوگا۔

۳۔ نماز، دعا اور تمام عبادات کو انجام دینے کیلئے اچھی جگہ کا انتخاب کرے کیونکہ دعا کے موثر ہونے میں اس کا بہت بڑا اثر ہے، اسی وجہ سے ایسی چیزوں کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے جو انسان کے ذہن کو اپنے آپ میں مشغول کرلیتی ہیں، اسی طرح کھلے ہوئے دروازوں، لوگوں کے آنے جانے کی جگہ، شیشہ (آئینہ) کے سامنے اور تصویروں وغیرہ کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے ، اسی وجہ سے مسلمانوں کی مسجدیں اور عبادت گاہیں جس قدر بھی سادہ اور زرق و برق سے خالی ہوں بہتر ہے کیونکہ اس سے حضور قلب میں مدد ملتی ہے۔

۴۔ گناہوں سے پرہیز کرنا بھی دعا کے قبول ہونے میں موثر ہے ، کیونکہ گناہ، قلب کے آئینہ کو مکدر کردیتا ہے اور محبوب حقیقی کے جمال کو اس میں منعکس ہونے سے مانع ہوتا ہے اور دعا کرنے والے انسان یا نماز گزار کو جو حجاب پیش آتے ہیں وہ اپنے آپ کو اس میں منحصر نہیں سمجھتا اسی دلیل کی بنیاد پر ہر نماز اور دعا سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردینا چاہئے ۔ نماز کے مقدمہ میں جو اذکار بیان ہوئے ہیں ان کی طرف توجہ بہت زیادہ مفید ہے۔

۵۔ نماز، دعا کے معنی سے آشنائی اور افعال و اذکار کے فلسفہ سے آشنائی بھی بہت حضور قلب کے لئے بہت زیادہ موثر ہے کیونکہ انسان جب عبادت کے معانی اور فلسفہ کو جانتا ہے اور اس کی طرف متوجہ رہتا ہے تو حضور قلب کی راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں۔

۶۔ مستحبات نماز، عبادت اور دعا کے مخصوص آداب کو انجام دینا، چاہے نماز کے مقدمات میں اور چاہے اصل نماز میں حضور قلب کیلئے بہت زیادہ مدد فراہم کرتا ہے۔

۷۔ ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہر کام کیلئے تمرین ، استمرار اور اس کی طرف توجہ ضروری ہے ، بہت زیادہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کے شروع میں ایک لمحہ یا چندلمحہ کیلئے حضور قلب اور اپنی فکر کو متمرکز کرتا ہے لیکن اس کام کو ہمیشہ انجام دینے اور اس کی طرف توجہ رکھنے سے اس کے نفس کے اندر اتنی زیادہ قدرت آجاتی ہے کہ وہ نماز او ردعا کے وقت اپنی فکر کے تمام دریچوں کو غیر معبود کیلئے بند کردیتا ہے اور اپنے آپ کو خدا کے حضور میں دیکھتا ہے اور اس کے ساتھ راز و نیاز کرنے لگتا ہے۔

اس بناء پر تمام لوگوں خصوصا جوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ہوش و حواس کو پراکندہ ہونے اور اپنی عبادت میں حضور قلب نہ ہونے کی وجہ سے رنجیدہ اور مایوس نہ ہوں ، اس بتائے ہوئے طریقہ پر چلتے رہیں انشاء اللہ ایک روز ضرور کامیاب ہوں گے۔

۸۔ جو عبادتیں بار بار انجام دی جاتی ہیں جیسے نماز تو ان کی ظاہری شکل کو تبدیل کرنے سے حضور قلب میں مدد ملتی ہے مثلا نماز میں سورہ حمد کے بعد جو سورہ پڑھے جاتے ہیں ان کو بدلتا رہے ، رکوع و سجود میں کبھی ذکر”سبحان اللہ“ اور کبھی ”سبحان ربی العظیم و بحمدہ“ اور ”سبحان ربی الاعلی و بحمدہ“ پڑھے دعائے قنوت کو بدل بدل کر پڑھے یا مثلا دعائے کمیل کو کبھی عام طریقہ سے اور کبھی ترتیل اور کبھی آواز کے ساتھ پڑھے ، نماز اور دعا کو پڑھتے وقت اپنے آپ کو مکہ اور مدینہ کے حرم وغیرہ میں تصور کرے۔

تجربہ بتاتا ہے کہ ظاہری صورت کو بدلنے سے حضور قلب اور فکر کو متمرکز کرنے میں مدد ملتی ہے۔

۹۔ جن غذاؤں میں حرام یا نجس ہونے کا شبہ پایا جائے ان سے پرہیز کرنا، دعا کی قبولیت میں بہت زیادہ موثر ہے۔

۱۰۔ ان سب باتوں کے باوجود، اپنے تمام وجود کے ساتھ دعا، نماز اور زیارتوں میں حضور قلب جیسی نعمتوں کی خداوند عالم سے درخواست کرے وہ کریم اور رحیم ہے اور کوشش کرنے والے کو ناامید نہیں کرتا۔

چنین شنیدم کہ لطف ایزد بہ روی جویندہ در نبندد!

دری کہ بگشاید از حقیقت بر اہل عرفان، دگر نبندد!

تبصرے
Loading...