دربارِ یزید میں بنتِ زہرا کا انقلاب آفریں خطبہ

جنابِ زینب کا شہیدانِ کربلا کے مقصد شہادت، اپنی مظلومیت اور اسیری کو بیان کرنا اور ہندہ کا دربارِ یزید میں آکر یزید پر نفرین کرنا۔

میرے بھائیو!یہ کربلا میں جو گھر لٹا، یہ کس کا گھر تھا؟ یہ حسین کا گھر تھا۔ یہ خود رسول اللہ کا گھر تھا۔ یہ بیبیاں جو قید ہوئیں، یہ کس کی نواسیاں تھیں اور کس کی پوتیاں تھیں؟ تمہارے رسول ہی کی نواسیاں تو تھیں جو کربلا سے کوفے تک اور کوفے سے شام تک قید ہوکر گئی ہیں۔

کسی وقت اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا، آج اگر کربلا کا یہ واقعہ ہوا ہوتا اور رسول اللہ ہمارے سامنے موجود ہوتے اور آپ اُن کی خدمت میں جاتے تو اظہارِ افسوس کرتے یا نہیں؟ آپ جنابِ رسولِ خدا کو روتا ہوا دیکھتے تو یقینا آپ کا بھی دل روتا، اس لئے کہ محبت ہے رسول سے۔ اُن کے اس فرزند کے گلے پر چھری پھیری گئی کہ جس کو آپ کبھی سینے پر بٹھاتے تھے اور کبھی زانو پربٹھاتے تھے۔ کبھی فرماتے تھے کہ لوگو! دیکھو، یہ میرا فرزند حسین ہے، یہ میری بیٹی فاطمہ زہراء کا بیٹا ہے۔

مسلمانو! یہ میری آنکھوں کا نور ہے۔ اگر کبھی پیاسا ہو تو اسے پانی دے دینا اور اگر کبھی مدد کی درخواست کرے تو اس کی مدد کرنا۔ یہی وہ الفاظ تھے رسول اللہ کے جنہیں دہرا رہے تھے امام حسین ! جب یار و انصار سب مارے گئے:

“ھَلْ مِنْ نَاصِرٍیَنْصُرُنَا”

“کون ہے جو اس عالم بیکسی میں میری مدد کو آئے؟”

تاکہ رسول اللہ کا ارشاد یاد دلادیا جائے۔ دیکھئے! ہم سے کہاجاتا ہے کہ بیبیوں کے نام لئے جاتے ہیں بازاروں میں۔ یہ باتیں کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے مصائب ذکر نہ کئے جائیں؟اگر ایسا ہی ہوتا تو قرآن مجید میں بیبیوں کے نام نہ لئے جاتے۔ کیا حضرتِ مریم کا نام نہیں لیا گیا؟ کیا وہ گھر ہی میں پڑھنے کیلئے ہے؟

دکان پر بیٹھ کر اسے پڑھنا نہیں ہے۔ کیا ان آیتوں کو کھڑے ہوکر لوگوں کو سنانا نہیں ہے؟ جس میں بیبیوں کے نام ہیں، یہ جو روایتیں اور احادیث ہیں، کیا چھپ کر پڑھنے کی ہیں؟ ان کتابوں کو اجتماعات میں پڑھتے ہو، وہاں تو کہتے ہو کہ فلاں بی بی سے یہ حدیث ہے، فلاں بی بی سے یہ روایت ہے!ان سب کے تو نام لئے جائیں اور جہاں مظالم کا تذکرہ ہو، نام نہ لئے جائیں۔ کیوں؟ ظالم سے کوئی محبت ہے؟ مظلوم سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ اگر مظلوم سے محبت ہوتی تو ایسی چیزیں زبان پر نہ آتیں۔

کونسی کتاب ہے جس میں یہ موجود نہیں۔ رسول اللہ کربلا میں موجود تھے جب حسین کے گلے پر چھری پھیری جا رہی تھی۔ آپ امّ سلمہ اور عبداللہ ابن عباس دونوں کے خواب میں آئے ہیں۔ اس طرح سے کہ سر کھلا ہوا، غبار سے اٹا ہوا، آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے، ریش مبارک بھیگی ہوئی، آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی، جنابِ اُمّ سلمہ نے دیکھا، گھبرا گئیں۔ عرض کرتی ہیں: یا رسول اللہ! یہ آپ نے کیا حالت بنائی ہے؟ فرماتے ہیں:

اے اُمّ سلمہ،کربلا سے آرہا ہوں، میرے فرزندحسین کے گلے پر خنجر چل چکا۔

یاد رکھو! جنابِ رسالت مآب نے اِن بزرگوں کے خواب میں آکر اس لئے بتایا کہ مسلمان اچھی طرح جان لیں کہ میں بھی کرلبا میں تھا جہاں میرا گھر لٹ گیا۔ دیکھئے! کسی کے متعلق اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اس کی بیٹی قید ہوگئی ہے تو کیا گزر جاتی ہے؟ مسلمانو! جب ہم کہتے ہیں کہ تمہارے نبی کی نواسیاں قید ہوگئیں تو ہمارے دل پر کیا گزرجانی چاہئے؟

یزید تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے سامنے امام حسین علیہ السلام کا سر بطورِ تحفہ لایا گیا ہے۔ ہماری شہزادیاں قیدیوں کی طرح زمین پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ شمر ملعون آتا ہے، ایک طشت پیش کرتا ہے۔ یزید نے جب رومال اُٹھاتوبیبیوں نے دیکھا کہ حسین کا کٹاہواسر، بیٹی کی نگاہ پڑی، بہن کی نگاہ پڑی، دل میں درد رکھنے والو! کیا گزرگئی ہوگی!

یزید نے یہ کیا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی بید کی۔ وہ یہ لکڑی امام حسین کے دانتوں پر مارنے لگا۔ ایک صحابیِ رسول اتفاق سے دربار میں آگئے تھے۔ وہ ضبط نہ کرسکے۔ ایک مرتبہ کھڑے ہوکر کہنے لگے:

ارے یزید! تو حسین کے دانتوں سے لکڑی ہٹا لے، خدا کی قسم! میں نے دیکھا ہے کہ ان دانتوں کو رسولِ خدا چوماکرتے تھے۔

لہٰذایہ مظالم کیوں بیان نہ کئے جائیں؟ ہماری شہزادیوں کا جب بازار سے گزر ہوا، بازار سے ہائے یہ بازار سے گزرنا ایک بات جو مجھے یاد آئی جو شجر طوبیٰ میں ہے اور تاریخوں میں بھی ہے، ایک وقت آیا جب تیمور نے عرب فتح کیا تو وہ شام میں بھی پہنچا اور اُس کو یاد تھا کہ رسولِ اکرم کی اولاد کے ساتھ شام والوں نے کیا کیا؟ اُسے کچھ نفرت تھی۔ یہ اُن کے اوپر کچھ سختیاں کرنے لگا۔ لوگ نہ سمجھے کہ یہ سختیاں کیوں ہورہی ہیں؟ بعض لوگ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ سے کچھ قرابت حاصل کریں۔ آپ اگر ہمارے ہاں ایک عقد کرلیں تو یہ رشتہ داری ہوجائے گی، ہم فخر کریں گے۔ اس نے کہا: اچھی بات ہے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے بڑے خاندان کی ایک خاتون کو منتخب کیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ پہلے اسے حمام لے جاؤ۔ زیور و غیرہ اور لباسِ فاخرہ بھیج دئیے گئے۔ جب سب کچھ ہوا تو بادشاہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ایک لاغر سا اونٹ لے جاؤ جس کے اوپر کجاوہ تو ہو مگر پردے نہ ہوں۔ جب کوئی پوچھے تو تم کہنا کہ پہلے یہ خاتون بازاروں میں پھرائی جائے گی اس اونٹ پر چنانچہ یہ اونٹ جب گیا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ اونٹ کیوں آیا ہے؟ اُس نے کہا: بادشاہ کا حکم ہے، اس اونٹ پر یہ خاتون بازاروں میں پھرائی جائے گی۔ سب لوگ جمع ہوکر بادشاہ کے پاس پہنچے کہ یہ کیا ظلم ہورہا ہے؟

ہم نے سنا ہے کہ آپ نے ایسا حکم دیا ہے؟ تیمور نے کہا: ہاں، میں نے ہی ایسا حکم دیا ہے۔لوگوں نے پوچھا: آخر کس لئے؟ اُس نے کہا: تمہارے ہاں کا دستور یہی ہے۔ اُن لوگوں نے کہا کہ حضور! اس میں ہماری بڑی بے عزتی ہوگی۔ یہ خاندان ایک معزز خاندان ہے تو اُس نے کہا: خدا تم پر لعنت کرے۔ رسولِ خدا سے زیادہ بھی کوئی معزز ہے؟ جب اُن کی بیٹیاں تمہارے بازاروں میں پھرائی گئیں کہ جن کے ذریعے دنیا نے عبرت کا سبق سیکھا، ارے جس سے پردہ سیکھا تو تم کیا حیثیت رکھتے ہو؟

جس وقت دربار یزید میں پیشی ہوئی اور جنابِ زینب کا خطبہ ہوگیا، خطبہ ہوگیا علی کی بیٹی کا! آپ نے فرمایا:

یزید! کیا کہہ رہا ہے؟ شہادت ہماری میراث ہے۔ تو نے ہمیں قید کیا، اس کا جواب تجھے ہمارے ناناکو دینا ہوگا۔ اس کے بعد فرماتی ہیں:درباروالو! تم ہمارا تماشہ دیکھنے آئے ہو؟ تمہیں پتہ ہے کہ میں کون ہوں اور یہ کٹا ہوا سر میرے بے گناہ مظلوم بھائی حسین کا ہے جا ناحق مارا گیا۔

اس کے بعد آپ نے خطبہ آگے بڑھایا۔ حالت یہ ہوئی کہ دربار والوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس کے بعد اُن میں سے اکثر کی چیخیں نکلنے لگیں۔ جب یہ کیفیت ہوئی تو یزید گھبرا گیا۔ جس جگہ وہ بیٹھا ہوا تھا، اُس کی پشت پر ایک دروازہ تھا، دروازے پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا، یہ دروازہ اُس کے محل سرا میں تھا۔

ایک مرتبہ وہ پردہ اُٹھا اور اندر سے ایک خاتون چادر کے بغیر نکلی اور دربار میں چلی آئی۔ اُس کی زبان پر تھا: ہائے حسین ، ہائے حسین !جب یزید نے یہ دیکھا کہ یہ اُس کی بیوی ہندہ ہے، گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ اپنی عبا اُتار کر اُس کے سر پر ڈالی اور کہا کہ میں رونے سے منع نہیں کرتا مگر میری عزت کا تو خیال کرلیا ہوتا۔ تو چادر اور پردہ کے بغیر گھر سے نکل آئی۔ اُس نے کہا: خدا کی مار تیری عزت پر! ارے یہ رسول کی بیٹیاں چادر کے بغیر تیرے دربار میں بیٹھی ہیں، اِن کی کوئی عزت نہیں ہے؟

تبصرے
Loading...