خود احتسابی ۔۔۔ایام ِمیلاد النبی(ص) کا ایک اہم تقاضا

عالمِ بشریت میں ہر فردِ بشر اپنی شخصیت کے تئیں جداگانہ حیثیت کا نہ صرف خواہاں ہے بلکہ حتی المقدور کوشاں بھی نظر آتا ہے۔ جسے دیکھیئے وہ اپنی منفرد حیثیت کو دوسروں پر ظاہر کرنے کیلئے ہزار جتن کرتا دکھائی دے گا

 خود احتسابی ۔۔۔ایام ِمیلاد النبی(ص) کا ایک اہم تقاضا

عالمِ بشریت میں ہر فردِ بشر اپنی شخصیت کے تئیں جداگانہ حیثیت کا نہ صرف خواہاں ہے بلکہ حتی المقدور کوشاں بھی نظر آتا ہے۔ جسے دیکھیئے وہ اپنی منفرد حیثیت کو دوسروں پر ظاہر کرنے کیلئے ہزار جتن کرتا دکھائی دے گا اس سلسلے  میں  ہر فرد ِ بشرمشقت طلب مراحل سے گزرنے پر بھی ہمہ وقت آمادہ رہتا ہے۔ دنیا میں ایسا شخص شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے جو اوروں کی توجہ کا مرکز بننے سے گریزاں ہو۔ لیکن خود کو دوسروں کی توجہ کا مرکز بنانے کیلئے امتیازی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ جس کے بل پر ایک فردِ واحد جم غفیر میں ابھرتا ہوا دکھائی دے۔ ایک خوب رو اور خوش پوش نوجوان جب بازار کی بھیڑ بھاڑ میں جلوہ نما ہوتاہے تو اس کے ذہن کے کسی کونے میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ جو بھی اسے  دیکھے بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ طالب علم دن رات ایک کرکے امتحان میں امتیازی نمبرات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ باقی ہم جماعت طالب علموں پر سبقت لے جائے اور ممتاز کہلایا جائے۔ دنیا کے اس پُرہنگم میلے میں جب تک کوئی شخص گُم ہے اسے عدم توجہ کا شکار ہونا پڑے گا ۔ اور اس گمنامی سے چھٹکارا پانے کے لئے اسے اپنے اور بے شمار انسانوں پر مشتمل بھیڑ کے مابین خطِ امتیاز کھینچتا ہوگا۔ یہ خط امتیاز نمایاں کارکردگی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ غیر معمولی صلاحیت و صلابت کا ثمرہ ہوسکتا ہے۔ یا پھر قضائے الہی کے ہاتھوں کھینچیں گئی مقدر کی لکیروں کا کرشمہ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن انسانی جمیعیت سے کسی فرد واحد کا نمایاں طور پر سامنے آجانا اور خاص و عام کی توجہ کا مرکز بننے کی ایک اور نوعیت بالکل مختلف بلکہ متضاد ہے۔ یہ امر لازمی نہیں ہے کہ ایک فرد کیلئے ہر وقت عوام الناس سے ہٹ کر ایک الگ پہچان قائم کرنا بہر صورت مستحسن قرار پائے۔ بعض اوقات اس کی نوعیت منفی بھی ہوسکتی ہے۔ مثبت امتیازی حیثیت اور منفی امتیازی حیثیت کے مابین حد فاصل قائم کرنے میں یہ مثال ضرور معاون ثابت ہوگی کہ ہمارے یہاں (کشمیری سماج میں) ماضی قریب میں شادی بیاہ کو ایک خاص اہمیت ہوا کرتی تھی۔ نیز دلہا دلہن اس پر مسرت تقریب کے خاص الخاص کردار کے حامل ہوتے تھے۔ ان کے مخصوص کردار کو ظاہر کرنے کیلئے دلہے میاں کو پرزیب لباس پہنا کر اور سرپر سہرا باندھ کر بڑ ے ہی تزک و احتشام کے ساتھ گھوڑے پر بٹھایا جاتا تھا اور پھر اسے اس انداز میں مختلف گلی کوچوں کی سیر کروائی جاتی تھی کہ اس کی معیت میں مردو زن پر مشتمل ایک بڑا ہجوم ہوتا تھا۔ شادی بیاہ کی اس رسم سے مماثلت رکھنے والا ایک اور منظر پیش کیا جائے تو بظاہر دونوں میں کوئی خاص تفاوت دکھائی نہیں دے گی۔ لیکن مماثل دکھائی دینے والے ہر دو مناظر اصلا ً متصادم ہیں۔ ایک اور شخص کو بھی اسی طرح گدھے یا گھوڑے پر بٹھاکر گلی کوچوں میں پھرایا جاتا تھا۔اور اسکے تعاقب میں لوگوں کا ہجوم شوروغل مچاتا ہوا تماشہ بینوں کو گدھے یا گھوڑے پر سوار مذکورہ فرد کی جانب متوجہ کراتا تھا گویا اسے بھی ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ مگر یہ مرکزی حیثیت ہرگز مستحسن  نہیں  ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ یہ ملزمانہ سلوک کسی جرم کی سزا کے طور کیا جاتا تھا۔اب ذرا ہر دو مناظر میں تقابلی جائزہ لیجئے۔ اول الذکر سماجی رویہ ایک فرد کے تئیں بہت سے افراد کی نیک خواہشات کا غمازہے۔ جبکہ آخرالذکر مثال میں کسی مجرمانہ فعل کے خلاف عوام الناس کا انوکھا احتجاج ملتا ہے۔ وہ بھی سیکڑوں نظروں کا مرکز ہے اور اس پر بھی بہت سی نگاہیں مرکوز ہیں۔ مگر وہاں نظریں پیغام تبریک لے کر کسی طرف اٹھتی ہیں۔ قلوب جذبہ خیر خواہی سے مملو دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہاں نفرت و بیزاری کے ہزاروں تیر دیکھنے والوں کی نظروں سے بیک وقت ایک ہدف کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔اورملامت کے الفاظ زبانوں پر جاری ہوتے ہیں۔ گویا وہاں اظہارمسرت ہے اور یہاں اظہار برات پایا جاتا ہے۔ اس کا برمحل نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دلہے کے چہرے پر حیا آمیز خوشی کے آثار مچلتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور مجرم و خطاکار کی جبین خجالت و شرمساری سے عرق آلود ہوتی ہے۔ بیان کردہ مثال سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایک فرد کا اپنے معاشرے یا دیگر افراد سے جدا گانہ  حیثیت مستحسن بھی ہو سکتی ہیں اور باعث ننگ و عار بھی۔ ممتاز شخص اگر کسی اچھے کارنامے کی وجہ سے ابھر کر سامنے آگیا تو اس کی عزت و توقیر دوبالا ہوگی۔ اس پر پھول نچھاور ہوں گے بصورتِ دیگر یہی امتیاز اسکے وقار اور شخصیت کو لے ڈوبے گا۔ اور اس پر پھول نہیں برسیں گے بلکہ پتھروں کی بارش ہوگی۔ آو بھگت کے بجائے اسکو دھتکارا جائے گا اسے  سماجی اور اجتماعی سطح پر دھتکار اور پھٹکار کا سامنا ہوگا۔ اس قسم کے انتخاب و امتیاز سے ہر انسان خائف رہتا ہے۔ ذہن میں اس طرح کا خیالی منظر بھی اضطرابی کیفیت پیدا کرسکتا ہے کہ ایک جانب وہ شخص ہے جسکے ذہن میں یہ خیال گزرے اور دوسری جانب لوگوں کا اژدھام اسی شخص کے حق میں اظہارِ نفرین کررہا ہے۔ معاشرے میں جرائم کی روک تھام کیلئے اس طرح کا خوف بہت ہی موثر ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مومن کے سامنے اسی طرح کا ایک منظر کھینچا ہے۔ ان چند تمہیدی سطور کی غرض و غایت بھی درج ذیل منظر کی حساسیت کو اجاگر کرنا ہے ۔اور قرآن پاک کی ایک آیتِ مبارکہ سے بقدر ظرف سامان عبرت حاصل کرنا ہے  سورہ یسین کی آیت نمبر( ٥٩ )کو اس کے پس منظر کے ساتھ ذہن میں منعکس کیجئے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ قیامت بپا ہوگئی ہے روزِ حساب آن پہنچا ہے تمام جن و انس میدان محشر میں اپنے ہاتھوں میں دفتر عمل لئے لرزاں و ترساں ہیں۔ ہر سو النفسی النفسی کا عالم ہے کوئی کسی کا یارو یاور نہیں۔ سوائے پروردگار کے کوئی کسی کا حامی و ناصر نہیں۔ اپنے بیگانے سب یہاں پر یکساں ہیں۔ باپ کوبیٹے کی فکر نہیں۔ بیٹے کو باپ کا اتہ پتہ نہیں۔ ماں اپنی بیٹی سے بے خبر ہے۔ بہن اپنے بھائی سے بے فکر ہے۔ ہر نفس اپنے ہی غم میں مبتلا ہے۔ اب ذرا اس عظیم اجتماع کی ہیتِ ترکیبی پر بھی خیالی نظر دوڑائیے۔ پوری کائنات میدانِ حشر میں سمٹ آئی ہے۔ خالق کائنات کی عدالت برپا ہے۔ رسول کائینات ۖشاید و گواہ اور بحیثیتِ میر ِ محفل موجود ہیں۔ تمام انبیا ء و صالحین زینت افروز ہیں۔ ایسے میں ایک آواز گونجی “ومتاذوالیوم ایھاالمجرمون”
”اے مجرمو!ج تم چھٹ کر الگ ہو جاؤ”(ترجمہ از تفہیم القرآن)
اتنے بڑے اجتماع میں بطور مجرم جو کوئی ممتاز ہوگا،جو کوئی بھی الگ ہوگا اس کی بدبختی کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اور اس کی روحانی کیفیت کا احصا دنیاوی عزت و ذلت کے پیمانے سے نہیں ہوسکتا ہے۔چنانچہ جب بھی ایک انسان کو کسی خفت کا سامنا ہوتا ہے تو جسمانی آزار سے بڑھ کر اسے روحانی عذاب تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کو اس کی غلطی کی پاداش میں کوئی دوسرا شخص برسرِ بازار زوردار تھپڑماردے۔ تووہ اپنے چہرے کے درد کو اس احساس کے مقابلے میں ہیچ محسوس کر ے گا،جو ذلت کے تصور سے اسکے اندرون سے ابھرتا ہے۔ اس کے برعکس قیامت میں انسان کا روحانی پہلو پورے وجود پر غالب ہوگا۔ لہذا وہاں کی ہر سزا روح کو زیادہ متاثر کردے گی۔ دنیاوی عزت و ذلت کے بعض معیارات ایسے بھی ہیں جو سراسر غیر اصولی اور غیر منطقی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں دولت مند افراد کی ہرجگہ آو بھگت کی جاتی ہے خواہ وہ اسکے حقدار نہ بھی ہوں۔ اسی طرح غربت و تنگدستی کو باعثِ ننگ و عار تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ بنیادی طورپر غریبی میں کوئی عیب نہیں ہے۔ مگر روزِ قیامت ذلت و عزت کا معیار الہی اصولوں پر مبنی ہوگا۔ وہاں کی ذلت حقیقی ذلت ہے ۔یہاں کی ذلت کے بارے میں طے ہے کہ ایک مدت کے بعد وقت خود بخود اس کے نقوش مٹادیتا ہے۔ یا پھر گناہ اور غلطی کی تلافی کرکے خود انسان اپنا وقار پھر سے بحال کرسکتا ہے۔ لیکن ذلتِ عقبیٰ معدوم ہوسکتی ہے نہ اسکی تلافی ہی ممکن ہے۔ پھر اس انسان پر حیرت کیوں نہ ہو جو یہاں کی بے عزتی سے دامن بچانے کی حتی الامکان سعی کرتا ہو مگر روز قیامت مجرموں کی فہرست میں سے اپنا نام خارج کرنے کیلئے کوشان نہ ہو۔  جب گنہگاروں کو الگ کرنے کا حکم ہوگا  تو اسے بھی انہی کے ساتھ الگ کیا جائے گا۔ آپ تصور کیجئے کہ  جب اوائل ِ عمری میں کبھی اسکول ٹیچر نے بہت سارے بچوں میں سے چن کر بطورِ سزا آپ کو الگ کیا تھا تو آپ کی کیفیت دگرگوں ہو چکی ہو گی ۔ تو پھرآپ کے وجود کو میدانِ محشر کا وہ ہولناک منظر ہلاکر کیوں نہ ر کھ دے کر جب یہ آواز گونجے گی۔
  وامتازوالیوم ایھا المجرمون”اے مجرمو!ج تم چھَٹ کر الگ ہو جاؤ” (ترجمہ از تفہیم القرآن)اور اس حکم کی تعمیل میں اسے بھی مجرموں کی صف میں کھڑا ہونا پڑے گا اور جمیع انبیا و صلحاء کے بشمول تمام جن و انس اس منظر کا مشاہدہ کریں گے۔ اس پر مستزادیہ کہ رحمت اللعالمینۖ کی نگاہ کے سامنے ہی اتنی عظیم رسوائی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ایک حقیقی مسلمان کیلئے اس طرح کا خیال بھی اسکی غیرت و حمیت پر کاری ضرب ہے کہ کل روز قیامت اسکو بھی مبادا مجرموں کے ساتھ اٹھا یا جائے گا۔ عشق رسول ۖ کے اولین تقاضوں میں سے ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ عشقِ رسول کے دعوی ٰ داروں کو ایسے عظیم اجتماع میں کائنات کی محبوب ترین ہستی کے سامنے کسی قسم کی خفت و رسوائی کا سامنا نہ ہو ۔ جو مسلمان اس فانی دنیا میں خطارکار انسانی جمعیت کے سامنے خجالت کا  بارِگراں دوشہائے حمیت پرلینے کے لئے تیار نہیں ہے اسے کیوں کر یہ بات منظور ہو کہ کائینات کی عزیز ترین،معصوم تریں ،اعلیٰ ترین،اور اس کی محبوب ترین شخصیت کے روبرو خالقِ کائینات کی بار گاہ کا ہاتفی اس کا نام بھی مجرموں کی فہرست میں پکارے اور اسے بطور مجرم الگ ہونے کا حکم سنائے۔کیا یہ روحانی عذاب ،عذابِ جہنم سے کچھ کم ہے۔خاصانِ خدا تو جہنم سے بھی زیادہ اسی شرمناک مرحلے سے خائف ہوا کرتے ہیں حکیم الامت علامہ اقبال نے شاید اسی منظر کو مدنظر رکھ کر ان اشعار کی صورت میں اپنی تمنا کا اظہار فرمایا ہے۔
بہ پایاںچوں رسد ایں عالمِ پیر       شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن رسوا حضورِ خواجہ مارا    حساب َ ِمن بہ چشم اور نہاں گیر
یعنی اے خالقِ دوجہاں !جب یہ بوڑھی دنیا اپنے انجام کو پہنچے گی اور تمام راز ہائے سربستہ آشکار ہوں گے۔قرآن کریم کے مطابق “یوم تبلی السرائر” جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہو گی ”مفہوم سور طارق آیت نمبر (٩) از تفہیم القرآن
ہمیں اپنے خواجہ  (حضورِ اکرمۖ کے حضور شرمساری کا منہ نہ دکھانا،  اس لئے (اے خداوندِ روز جزا مجھ عاصی پر یہ کرم کیجئے )کہ( گناہوں سے اٹا ہوا )میرا نامہ اعمال نگاہ رسالت مآب کے سامنے نہ لانا۔



source : abna24

تبصرے
Loading...