خطبہ 4 نہج البلاغہ: حضرت علی (ع)کی دور رس بصیرت اور دین میں یقین کامل اور حضرت موسی(ع) کے خوفزدہ ہونے کی وجہ

و من خطبة له ( عليه السلام ) و هي من أفصح كلامه ( عليه السلام ) و فيها يعظ الناس و يهديهم من ضلالتهم و يقال إنه خطبها بعد قتل طلحة و الزبير :

بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِي الظَّلْمَاءِ وَ تَسَنَّمْتُمْ ذُرْوَةَ الْعَلْيَاءِ وَ بِنَا أَفْجَرْتُمْ عَنِ السِّرَارِ وُقِرَ سَمْعٌ لَمْ يَفْقَهِ الْوَاعِيَةَ وَ كَيْفَ يُرَاعِي النَّبْأَةَ مَنْ أَصَمَّتْهُ الصَّيْحَةُ رُبِطَ جَنَانٌ لَمْ يُفَارِقْهُ الْخَفَقَانُ مَا زِلْتُ أَنْتَظِرُ بِكُمْ عَوَاقِبَ الْغَدْرِ وَ أَتَوَسَّمُكُمْ بِحِلْيَةِ الْمُغْتَرِّينَ حَتَّى سَتَرَنِي عَنْكُمْ جِلْبَابُ الدِّينِ وَ بَصَّرَنِيكُمْ صِدْقُ النِّيَّةِ أَقَمْتُ لَكُمْ عَلَى سَنَنِ الْحَقِّ فِي جَوَادِّ الْمَضَلَّةِ حَيْثُ تَلْتَقُونَ وَ لَا دَلِيلَ وَ تَحْتَفِرُونَ وَ لَا تُمِيهُونَ الْيَوْمَ أُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَاءَ ذَاتَ الْبَيَانِ عَزَبَ رَأْيُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّي مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُهُ لَمْ يُوجِسْ مُوسَى ( عليه السلام ) خِيفَةً عَلَى نَفْسِهِ بَلْ أَشْفَقَ مِنْ غَلَبَةِ الْجُهَّالِ وَ دُوَلِ الضَّلَالِ الْيَوْمَ تَوَاقَفْنَا عَلَى سَبِيلِ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ مَنْ وَثِقَ بِمَاءٍ لَمْ يَظْمَأْ . 

ہماری وجہ سے تم نے (گمراہی ) کی تیرگیوں میں ہدایت کی روشنی پائی اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں قدم رکھا , اور ہمارے سبب سے اندھیری راتوں کو اندھیاریوں سے صبح (ہدایت) کے اجالوں میں آگئے . وہ کان بہرے ہو جائیں جو چلانے والے کی چیخ پکار کو نہ سنیں , بھلا وہ کیونکر میری کمزور اور دھیمی آواز کو سن پائیں گے جو اللہ و رسول کی بلند بانگ صداؤں کے سننے سے بھی بہرے رہ چکے ہوں , ان دلوں کو سکون و قرار نصیب ہو, جن سے خوفِ خدا کی دھڑکنین الگ نہیں ہوتیں میں تم سے ہمیشہ عذرو, بیوفائی ہی کے نتائج کا منتظر رہا اور فریب خوردہ لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ کے ساتھ تمہیں بھانپ لیا تھا. اگرچہ دین کی نقاب نے مجھ کو تم سے چھپائے رکھا. لیکن میرے نیت کے صدق و صفا نے تمہاری صورتیں مجھے دکھا دی تھیں . میں بھٹکانے والی راہوں میں تمہارے لئے جا دئہ حق پر کھڑا تھا. جہاں تم ملتے ملاتے تھے مگر کوئی راہ دکھانے والا نہ تھا. تم کنواں کھودتے تھے مگر پانی نہیں نکال سکتے تھے. آج میں نے اپنی اس خاموش زبان کو جس میں بڑی بیان کی قوت ہے , گو یا کیا ہے اس شخص کی رائے کے لئے دوری ہو , جس نے مجھ سے کنارہ کشی کی . جب سے مجھے حق دکھایا گیاہے میں نے کبھی اس میں شک و شبہ نہیں کیا. حضرت موسیٰ نے اپنی جان کے لئے خوف کا لحاظ کبھی نہیں کیا. بلکہ جاہلوں کے غلبہ اور گمراہی کے تسلط کا ڈر تھا( اسی طرح میری اب تک کی خاموشی کوسمجھنا چاہئیے) آج ہم اور تم حق و باطل کے دورا ہے پر کھڑے ہوئے ہیں جسے پانی کا اطمینان ہو وہ پیاس نہیں محسوس کرتا. اسی طرح میری موجودگی میں تمہیں میری قدر نہیں .

حضرت موسیٰ ع کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب ان کے مقابلے میں جادو گر بلائے گئے اور انہوں نے رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینک کر اپنا سحر دکھایا تو آپ ڈرنے لگے . چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

موسیٰ علیہ السّلام یوں محسوس ہوا کہ وہ دوڑ رہی ہیں جس سے وہ جی میں ڈرے. ہم نے کہا کہ موسیٰ ع تم کوئی اندیشہ نہ کرو . یقینا تم ہی غالب رہو گے.

امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے خوف کھانے کا باعث یہ نہیں تھا کہ وہ چونکہ رسیوں اور لاٹھیوں کی سانپ کی طرح دوڑتے دیکھ رہے تھے. اس لئے انہیں اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گیا ہو اور وہ اس سبب سے خائف ہو گئے ہوں بلکہ ان کے ڈرنے کا سبب یہ خیال تھا کہ کہیں دنیا والے ان شعبدہ بازیوں سے متاثر ہو کر گمراہی میں نہ پڑ جائیں اور ان نظر بندیوں سے باطل کی بنیادیں مستحکم نہ ہو جائیں . چنانچہ موسیٰ علیہ السّلام کو یہ کہ ڈھارس نہیں دی جاتی کہ تمہاری جان محفوط ہے . بلکہ یہ کہا گیا کہ تم ہی غالب رہو گے. اور تمہارا ہی بول بالا ہو گا. چونکہ انہیں اندیشہ حق کے دب جانے اور باطل کے ابھر آنے کا تھا نہ اپنی جان کے جانے کا کہ حق کی فتح و کامرانی کے بجائے حفظُ جان کی انہیں تسلی دی جاتی. حضرت فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خوف یہی ہے کہ کہیں دنیا والے ان لوگوں (طلحہ و زبیر وغیرہ ) کی فریب کاریوں کے پھندے میں نہ پھنس جائیں اور حق سے منہ توڑ کر ضلالت و گمراہی میں نہ جا پڑیں . ورنہ مجھے اپنی جان کی کبھی پرواہ نہیں ہوئی.

 

تبصرے
Loading...