خاتون کا ملکوتي مرتبہ

چودہ سو سال سے بھي پہلے پيغمبر اسلام نے ايک ايسي بيٹي کي تربيت کي کہ يہ دختر نيک اختر لياقت و شائستگي کي اس منزل پر پہنچ گئي کہ خدا کا رسول اس کے ہاتھوں کے بوسے ليتا ہے! حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا کے ہاتھوں پر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بوسے کو جذباتي مسئلے پر ہرگز محمول نہ کيجئے- يہ سوچنا کہ چونہ وہ آپ کي بيٹي تھيں اور آپ کو ان سے بڑي محبت و انسيت تھي لہذا آپ ان کے ہاتھوں کو بوسہ ديتے تھے، بالکل غلط اور سطحي فکر ہے-

اس بے مثال اور گراں قدر شخصيت کا مالک اور زيور عدل و حکمت سے آراستہ پيغمبر کہ جس کے افعال و اقوال کا دار و مدار وحي و الہام پر ہے، بھلا کيسے ممکن ہے کہ جھکے اور اپني بيٹي کے ہاتھ چومے؟ يہ نہيں ہو سکتا، يہاں مسئلہ کچھ اور ہے، يہ ماجرا ہي کچھ اور ہے، يہ اس بات کي علامت ہے کہ يہ دختر نيک اختر يہ خاتون جس کي دنيا سے رخصت کے وقت عمر اٹھارہ سے پچيس سال کے درميان تھي، در حقيقت انسان کي ملکوتي بلنديوں پر فائز تھي اور ايک غير معمولي ہستي کي مالک تھي- يہ ہے خاتون کے سلسلے ميں اسلام کا نقطہ نگاہ-

اسلامي قوانين ميں خاتون کي حمايت

خاندان کے سلسلے ميں اسلام کے احکامات اتنے درخشاں اور قابل فخر ہيں کہ انسان ان اسلامي احکام کا مشاہدہ کرکے عزت و وقار کا احساس کرتا ہے- خاندان اور کنبے کي تشکيل کے بالکل ابتدائي مرحلے ميں شريک زندگي کے انتخاب کے سلسلے ميں اسلام کے جو قوانين اور احکامات ہيں وہ خاتون کے لئے مددگار ہيں- چونکہ بعض مرد، خاتونوں کے ساتھ ظلم و جارحيت و زيادتي کرتے تھے اور سختي سے پيش آتے تھے اس لئے اسلام نے اس ظلم اور اس زيادتي پر روک لگائي- جب ايک کنبہ تشکيل پاتا ہے تو اسلام کا کہنا يہ ہے کہ کنبے کے اندر شوہر او زوجہ ايک دوسرے کے شريک زندگي ہيں، انہيں ايک دوسرے سے محبت آميز برتاؤ کرنا چاہئے- مرد کو کوئي حق نہيں کہ وہ بيوي کے ساتھ زيادتي کرے اور اس پر جبر کرے، اسي طرح خاتون کو بھي حق نہيں ہے کہ مرد کے ساتھ زيادتي کرے- کنبے اور خاندان کے اندر مرد اور خاتون کے تعلقات اور روابط کے سلسلے ميں اسلامي احکامات اور ضوابط بڑي ظرافت اور باريک بيني کے ساتھ معين کئے گئے ہيں- اللہ تعالي نے خاتون اور مرد کے مزاج کو بنياد بنا کر، اسلامي معاشرے کے مفادات کي مناسبت سے اور مرد اور خاتون کي بھلائي اور اچھائي کے مطابق ان اصولوں، ضوابط اور احکامات کا تعين فرمايا ہے- مرد کو صرف چند امور ميں يہ حق ہے کہ خاتون کو حکم دے اور خاتون پر لازم ہے کہ اس حکم کي تعميل کرے- مرد کو يہ حق ہے کہ خاتون کو بغير اجازت گھر سے باہر جانے سے روک دے، البتہ اس کے لئے ضروري ہے کہ عقد کے موقع پر اس سلسلے ميں کوئي شرط نہ رکھ دي گئي ہو- اگر کوئي شرط نہيں رکھي گئي ہے تو مرد کو يہ حق ہے کہ روک دے- يہ در حقيقت احکام الہي کے بے حد ظريف اسرار ميں سے ايک ہے- يہ حق صرف شوہر کو ديا گيا ہے، حتي باپ کو بھي يہ حق نہيں ديا گيا ہے- باپ اپني بيٹي کو اس کا پابند نہيں کر سکتا کہ جب بھي وہ باہر جانا چاہے تو پہلے اس سے اجازت حاصل کرے- والد کو يہ حق نہيں ديا گيا ہے- اسي طرح بھائي کو بھي اپني بہن کے سلسلے ميں يہ حق حاصل نہيں ہے- ليکن شوہر کو زوجہ کے سلسلے ميں يہ حق حاصل ہے- البتہ خاتونوں کو يہ حق ہے کہ وہ نکاح کے وقت شرط عقد کے طور پر کچھ شرطيں رکھوا ليں-

تبصرے
Loading...