حضرت علی علیه السلام کے خصوصی امتیازات

حضرت علی علیه السلام کے خصوصی امتیازات

کعبہ میں آپ(ع) کی ولادت

 شیخ مفید قدس سرہ کھتے ھیں کہ حضرت ابوالحسن علی ابن ابی طالب علیہ السلام مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر ۱۳ رجب ۳۰ /عام الفیل بروز جمعہ کو پیدا ھوئے ۔ آپ (ع) کی ولادت سے پھلے نہ کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ھوا اور نہ آپ (ع) کی ولادت کے بعد کوئی اس میں پیدا ھوگا ۔یہ اللہ تعالی کی طرف سے آپ(ع) کے لئے خصوصی عزت و اکرام اور جلالت و شرافت کا مقام ھے ۔[1]

رسول خدا(ص) کی آغوش میں آ پ کی تربیت :

ابن حدید کھتے ھیں قریش کو ایک مرتبہ قحط کا سامنا کرنا پڑا اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں چچا جناب حمزہ ۻ اور جناب عباسۻ سے ارشاد فرمایا :

 ھمیں چاہئے کہ ھم اس مشکل میں جناب ابوطالب کا بوجھ تقسیم کریں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ھمراہ وہ دونوں بھی حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ہاں تشریف لائے اور ان سے کھاکہ آپ اپنا ایک ایک بچہ ھمیں دے دیں ھم ان کی پرورش اپنے ذمہ لیتے ھیں۔

 حضرت ابوطالب نے فرمایا :

 عقیل کو میرے پاس رھنے دیں کیونکہ عقیل کے ساتھ مجھے بھت محبت ھے اور دوسرے بچے آپ حضرات لے لیں۔

جناب عباس نے طالب کو لیا جناب حمزہ نے جعفر کو لیا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنی کفالت میں لے لیا اور پھر ان سے فرمایا ۔

 میں نے حضرت علی علیہ السلام کو اللہ کی مرضی سے اختیار کیا ھے وہ سب لوگ اس بات کی گواھی دیتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام چھ سال کی عمر سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زیر سایہ آگئے اور آپ ھی نے ان کی تربیت فرمائی ۔[2]

حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں:

 میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سب سے بڑھ کر پیروی کرتا ھوں یہ سب میری والدہ محترمہ کی تربیت کا نتیجہ ھے وہ مجھے ھر روز بلا کر آپ کے اخلاق کی تعلیم دیتیں اور آپ کی پیروی کرنے کا حکم فرماتی تھیں اور میں کئی سال اس بحر علم کے قریب رھالہٰذا جس طرح میں نے انھیں قریب سے دیکھا ھے اس طرح کوئی بھی انھیں نھیں دیکھ سکتا ۔[3]

حضرت امیر علیہ السلام نے مزید فرمایا:

 تم لوگ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میری انتہائی قربت، خصوصی قدر و منزلت اور ان کی گود میں تربیت کو اچھی طرح جانتے ھو جب میں پیدا ھوا ،تو مجھے اپنے سینے پر لیٹاتے، میری کفالت کرتے ،مجھے اپنے جسم کے ساتھ مس کرتے ،اپنی معرفت کی خوشبو سے معطر فرماتے وہ چیزوں کو اپنے منہ سے  چبا چبا کر مجھے کھلاتے اور انھوں نے ھمیشہ میرے قول وفعل کو درست و یکساں پایا۔[4]

۱۔ عبادت :

آپ عام مخلوقات میں منفرد ھیں ۔آپ (ع)کی وہ خصوصیات اور امتیازات جن کے آپ (ع)تنھامالک ھیں اور جن کی وجہ سے آپ (ع)پوری کائنات میں منفرد اور ممتاز ھیں۔ آپ(ع) ارشاد فرماتے ھیں۔

لقد عبدت اللہ قبل ان یعبدہ احد من ھذا الامہ سبع سنین۔

میں سات سال کے سن میں اس وقت اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا جب اس امت کا کوئی فرد بھی اللہ کی عبادت سے آشنا نھیں تھا۔

اور آپ مزید فرماتے ھیں کہ میں سات سال کی عمر میں آواز (رسالت ) سنتا اور نور (رسالت) کو دیکھتا تھا اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت خاموش رھتے تھے اور انھیں اس وقت لوگوں کو ڈراتے اور تبلیغ کا حکم نھیں دیا گیا تھا ۔[5]

۲۔دعوت ذوالعشیرہ:

آپ (ع)کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت  یہ ھے ۔(جس میں کوئی بھی آپکا شرےک نھیں ھے)کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالعشیرہ ےعنی (اٴنذِرعشیرتک  الاٴقربین) کے دن فرمایا:

اٴنتَ اٴخي وو صیي و وزیري ووارثيو خلیفتي من بعدي۔

آپ(ع) میرے بعد میرے بھائی ،وصی وزیر  ،وارث ‘ خلیفہ اور جانشےن ھیں۔[6]

۳۔شب ھجرت :

جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی طرف ھجرت کی تو اس رات حضور نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا آپ(ع) اس رات بستر رسول پر آرام و سکون کی نےند سوئے اور اس خصوصیت  میں آپ (ع) تمام لوگوں میں ممتاز اور منفرد ھیں۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس رات اپنی زندگی اور نفس کو اللہ کی اطاعت میں اللہ کے ہاتھ فروخت کردیا ۔آپ(ع) کے علاوہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی زندگی کو فروخت نھیں کیا۔ آپ (ع)نے یہ معاملہ اس لئے کیا تھا تاکہ حضور(ص) دشمنوں کے فریب سے نجات پا سکیں۔ اور یھی چیز حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نجات کا سبب بنی ۔ آپ(ع) نے جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر وہ رات گزاری تو آپ(ع) کی شان میں یہ آیت نازل ھوئی ۔[7]

ہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللهُ رَئُوفٌ بِالْعِبَادِ>[8]

لوگوں میں سے کچھ ایسے لوگ ھیں جواللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان تک بےچ ڈالتے ھیں اور اللہ ایسے بندوں پر بڑا ھی شفقت والا ھے ۔

۴۔ مواخات (رشتہ اخوت):

تمام مسلمانوں میں حضرت علی علیہ السلام ھی کو یہ امتیاز حاصل ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے درمیان مواخات(اخوت) قائم ھوئی۔

 حاکم مستدرک میں جناب ابن عمر کی سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ھیں کہ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر‘ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ، حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمان بن عوف ایک دوسرے کے بھائی بنے تھے حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے اپنے تمام اصحاب کے درمیان مواخات اور بھائی چارہ قائم فرمایا ۔لیکن میرا بھائی کون ھے؟حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ا ما ترضیٰ  یا علی ان اکون اخاک

 کیا آپ (ع)اس پر راضی نھیں ھیں کہ میں آپ(ع) کا بھائی ھوں۔

 ابن عمر کھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام بڑے بہادر اور شجاع تھے حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں چاھتا ھوں کہ میں آپ(ع) کا بھائی بنوں تو اس وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اٴنت اٴخي في الدنیا والاٴ خرة ۔[9]

آپ (ع)دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ھیں ۔

۵۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکے ساتھ آپ کی شادی

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے امتیازات میں سے ایک یہ ھے آپ کا عقد جناب فاطمہ زھراسلام اللہ علیہاسے ھوا پوری کائنات میں یہ شرف فقط آپ ھی کو نصےب ھوا ھے۔ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آپ کا ایک خاص مقام تھا تبھی تو انھوں نے آپ کی شادی جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاکے ساتھ کی۔

خوارزمی اپنی کتاب مناقب میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

میرے پاس فرشتہ نازل ھوا اور اس نے کھاکہ اللہ آپ کو سلام کہہ رھاھے اور اللہ نے کھاھے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاکی شادی حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ کردیں ۔اور حضور نے میرے ساتھ جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاکی شادی کر دی اور شجرہ طوبی کو حکم د یا کہ وہ موتی، یاقوت اور مرجان اٹھائے اور اھل آسمان میں اس خبر سے خوشی کی لھر دوڑ گئی۔

اور مزید فرمایا عنقریب ان سے دو بچے پیدا ھونگے جو جوانان جنت کے سردار ھونگے اور انھی کے ذرےعے اھل جنت مزےن ھونگے اے محمد مصطفی آپ کے لئے بشارت ھے کہ آپ اولین اور آخرین میں سب سے بھترین  انسان ھیں۔[10]

۶۔میدان جہاد میں آپ کے امتیازات   :

حضرت علی علیہ السلام میدان جہاد میں ایسی منفرد خصوصیات کے مالک ھیں جس کے ساتھ آپ کے علاوہ کوئی اور متصف نھیں ھو سکتایھی وجہ ھے کہ ابن ابی الحدید کھتے ھیں :

آپ مجاھدوں کے سردار ھیں اور جہاد میں آپ کی شخصےت منفرد ھے۔[11]

آپ ایسے شجاع ھیں جن کی شجاعت میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں کیا جاسکتا،کسی نے آپ کے سامنے مبارزہ طلبی نھیں کی مگر یہ کہ وہ قتل ھو گیا آپ کی کوئی ضربت ایسی نھیں جس کے بعد دوسری ضربت لگانے کی ضرورت پڑے بلکہ آپ کے ایک ھی وار سے دشمن کا کام تمام ھو جاتاتھا میدان میں جو عرب آپ (ع) کے مقابلے میں آتا وہ فخر کیا کرتا تھا کہ میں بہادر ھوںکیونکہ کہ میں (حضرت) علی (علیہ السلام) کے مقابلے میں گیا ھوں۔[12]

اور اگر آپ کے جہادکے متعلق لکھنا چاھیں توحضرت علی علیہ السلام کا تذکر ہ قیامت تک ختم نھیں ھو گا ۔

جنگ بدر :

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی جنگ ، جنگ بدر ھے۔ اس میں مشرکوں کے ساتھ شدےد ترےن جنگ ھوئی جس میں مشرکوں کے ستر افراد مارے گئے۔ ان میں سے آدھے تنھاحضرت علی علیہ السلام نے فی النار کئے باقی ملائکہ اور تمام مسلمانوں نے مل کر قتل کئے۔[13]

جنگ احد

اس بات کو آپ جانتے ھیںکہ جنگ احد میں مشرکوں کی شکست ان کی کامیابی سے بدل گئی کیونکہ مسلمانوں نے وہ جگہ چھوڑ دی جہاں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں پھرا دینے کو کھاتھا۔ شکست خوردہ دشمنوں نے موقع پاکر مسلمانوں کے پیچھے سے حملہ کر دیا اور کچھ لوگوں کو قتل کر دیا ۔ان میں سے ایک شخص نے آواز دی کہ( حضرت) محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کر دئے گئے ھے۔ (یہ سننا ھی تھا )حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ سب مسلمان بھاگ گئے ۔

فقط آپ(ع) ھی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دشمنوں کے حملے سے بچاتے اور ان کی صفوں پر پے در پے حملہ کرتے تھے۔ جناب ابن عباس کھتے ھیں کہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی چار خصوصیات ایسی ھیں جو فقط آپ(ع) کی ذات کے ساتھ مخصوص ھیں ۔

آپ(ع) تمام عربوں اور عجموں میں پھلے شخص ھیں جنھوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، ھر مشکل میں ان کا ساتھ دیا اور خوف وھراس کے دن جب سب لوگ حضور کو چھوڑ کر بھاگ گئے تو آپ(ع) ھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صبر و استقامت کے ساتھ قائم رھے، دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ،  صرف آپ(ع) کی ذات نے ھی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا اور قبر میں اتارا ۔[14]

اور آپ(ع) کی شان میں فرشتے نے آسمان سے یہ آواز بلند کی :

لا سیفَ اِلا ذوالفقار ،ولافتیٰ اِلّا علي ۔

ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نھیں ھے اور حضرت علی (ع)کے علاوہ کوئی جوان نھیں ۔[15]

جنگ خندق

میدان جہاد میں آپ(ع) کے ایسے کارنامے ھیں جن کو دےکھ کر صاحبان عقل حیران و ششدر ھیں۔ ان کار ناموںمیں ایک جنگ خندق بھی ھے۔ اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ باقی تمام مسلمانوں نے (فارس یلیل ) عمر وبن عبد و د کے مقابلہ میں آنے سے انکار کر دیا تھا ۔یہ ہزار آدمیوں کے ساتھ تنھامقابلہ کرتا تھا۔ اس نے خندق کو عبور کر کے مسلمانوں کو مقابلے کی دعوت دی۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرو بن عبد ود کے مقابلہ میں حضرت علی علیہ السلام کو بھےجتے ھوئے فرمایا ۔آپ(ع) کا یہ عمل میری امت کے قیامت تک کے اعمال سے افضل ھے۔[16]

جنگ وادی رمل

جنگ وادی رمل جسے غزوہ السلسلہ بھی کھتے ھیں اس جنگ میں جن لوگوں کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھےجا تھا وہ  ناکام لو ٹے۔

 اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق روانہ ھوئے اور اس قوم کے پاس گئے اور انھیں اختیار دیا ‘یا تم ۔ لا الہ الا اللہ ،محمد رسول اللہ پڑھو یا جنگ کے لئے تیار ھو جاؤ۔

 وہ سب کھنے لگے آپ (ع) بھی اسی طرح واپس لوٹ جائیں جس طرح آپ(ع) کے پھلے ساتھی لوٹ گئے ھیں ۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم جب تک تم اسلام قبول نھیں کرو گے یا میری تلوار سے ٹکڑے نھیں ھو جاؤ گے‘ میں نھیں جاؤنگا۔

جانتے ھو میں علی (ع) ابن ابی طالب (ع) ھوں جب انھوں نے آپ (ع) کو پہچان لیا تو پوری قوم میں اضطراب پیدا ھو گیا اور وہ لوگ جنگ سے کترانے لگے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے ان کے چھ سات آدمیوں کو قتل کیا اس کے بعد تمام مشرکین بھاگ گئے اور مسلمانوں کو اس غزوہ میں کامیابی نصےب ھوئی ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لو لا اني اشفق ان تقول فیک طوائف ما قالت النصاری في عیسی بن مریم لقلت فیک الیوم مقالا لا تمر بملا منھم الااخذوا التراب من تحت قدمیک ۔

اگر میں آپ (ع) کے متعلق وہ باتیں ظاھر کر دوں جو کچھ مختلف گروہ آپکے متعلق کھتے ھیں‘ تو لوگ آپ(ع) کے متعلق وہ کچھ کھیں گے جو عےسائی بھی حضرت عیسی ابن مریم (ع)کے متعلق نھیں کھتے۔ آج میں آپ (ع)کے متعلق ایسی بات کھتا تو لوگ کبھی بھی اس کی تاب نہ لا سکتے مگر یہ کہ آپ (ع)کے قدموں کی مٹی اٹھا لیتے۔[17]

( یعنی اگر میں علی (علیہ السلام )کے فضائل بیان کر دیتا تو جس طرح لوگ حضرت عیسی(ع) ابن مریم (ع) کو خدا کا بیٹا کھتے ھیں تو آپ (ع)کے متعلق اسی طرح کا گمان کرتے اور آپ (ع)کے قدموں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنالیتے )

جنگ بنی قرےضہ اور بنی مصطلق ‘ صلح حدےبیہ اورجنگ خیبر

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام جنگ بنی قرےضہ اورجنگ بنی مصطلق اور صلح حد ےبیہ میں سب سے ممتاز حیثیت کے مالک رھے ھیں اور ان جنگوں میں بھی آپ(ع) کے عظیم کارنامے ھیں۔

آپ(ع) بڑے بڑے مصائب کو مسلمانوں کے سروں سے ٹالتے رھے  ھیں ۔ جہاں تک جنگ خےبر کا تعلق ھے ‘ تواس کے متعلق آپ کیا جانےں کہ جنگ خےبر کیا ھے؟

حضرت ابو بکر نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علم لیا جنگ کی اور ناکام لوٹ آئے ۔ پھر حضرت عمر نے علم اٹھایا جنگ کی اور ناکام بھا گ آئے اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اٴماواللہ لا عطےنھّا غدا رجلٓا یحب اللہ و رسولہ و یحبہ اللہ و رسولہ ۔

خدا کی قسم کل میں یہ علم ایک ایسے شخص کو دونگا جو اللہ اور اس کے رسول (ص)سے محبت کرتا ھے اور اللہ اور اس کا رسول(ص) اس سے محبت کرتے ھیں ،آپ (ص)نے ان لوگوں سے وہ علم لے لیا اس وقت حضرت علی علیہ السلام کچھ مرےض تھے۔ جب صبح ھوئی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت علی کو میرے پاس بلالا ؤ۔ حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے لیکن آپ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔  آنحضرت (ص)نے آ پ (ع) کی آنکھوں میں اپنا لعاب لگایاجس سے درد جاتا رھا۔ پھر آپ (ع) کو علم عطا فرمایا۔ آپ(ع) قلعہ خیبر کے پاس آئے وہاں ایک یھودی نے آپ (ع) کو دےکھا اور پوچھا آپ (ع)کون ھیں۔ آپ (ع) نے فرمایا میں علی  (ع)ابن ابی طالب (ع) ھوں۔ یھودی نے پکار کر کھایھودیو! اس پر غالب آجاؤ۔ اس قلعہ کا مالک مر حب رجز پڑھتے ھوئے باھر نکلا۔ تلوارےں آپس میں ٹکرائےں۔ آخر کار حضرت علی علیہ السلام نے اس کے سر پر بندھے ھوئے پتھر نماخول پر ایک وار کیا جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور وہ زمین پر گر پڑا ۔[18]

تبصرے
Loading...