حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف اور اس کی تحقیق

واقعہ فدک اور جناب زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف و نزاع صدر اسلام سے لے کر آج تک ہمیشہ علماء اور دانشمندوں کے درمیان مورد بحث و تحقیق رہا ہے_ اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان تمام مباحث کا ذکر کرنا جب کہ اس کتاب کی غرض جناب فاطمہ (ع) کی زنگی کے ان واقعات کی تشریح کرنے ہے جو لوگوں کے لئے عملی درس ہوں، بہت زیادہ مناسبت نہیں رکھتا اور اہم پہلے سادہ اور مختصر طور پر اس کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں لیکن پڑھے لکھے لوگ ایک سطح کی معلومات نہیں رکھتے بلکہ ان میں بعض حضرات محقق ہوا کرتے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ اس حساس اور مہم موضوع پر جو صدر اسلام سے مورد بحث رہا ہے زیادہ تحقیق اور دقت کی جانی چاہیئے اور اس واقعہ کو علمی لحاظ سے مورد بحث اور تحقیقی لحاظ سے ہونا چاہیئے لہذا اہم اس حصے کو سابقہ بحث کی بہ نسبت تفصیل سے بحث کرنے کے لئے اس موضوع میں وارد ہو رہے ہیں تا کہ اس موضوع پر زیادہ بحث کی جائے_ اختلاف اور نزاع کا موضوع
جو لوگ اس بحث میں وارد ہوئے ہیں اکثر نے صرف فدک کے اطراف میں بحث کی ہے کہ گویا نزاع اور اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر ہے اسی وجہ سے یہاں پر کافی اشکالات اور ابہام پیدا ہوگئے ہیں لیکن جب اصلی مدارک کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے امور میں بھی اختلاف اور نزاع موجود ہے _
مثلاً:جناب عائشہ نے نقل کیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا، جناب فاطمہ (ع) نے اس وقت کئی چیزوں کا مطالبہ کیا تھا_ اول: پیغمبر (ص) کے وہ اموال جو مدینہ میں موجود تھے_ دوم: فدک_ سوم: خیبر کا باقیماندہ خمس_ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کو جواب بھجوایا کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم سے باقی رہ جائے وہ صدقہ ہوگا اور آل محمد بھی اس سے ارتزاق کرسکیں گے_
خدا کی قسم میں رسول خدا(ص) کے صدقات کو تغییر نہیں دوں گا اور اس کے مطابق_ عمل کروں گا_ جناب ابوبکر تیار نہ ہوئے کہ کوئی چیز جناب فاطمہ کو دیں اسی لئے جناب فاطمہ (ع) ان پر غضبناک ہوئیں اور آپ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وفات تک ان سے گفتگو اور کلام نہ کیا (1)_
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کو پیغام دیا کہ کیا تم رسول خدا (ص) کے وارث یا ان کے رشتہ دار اور اہل ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ وارث ان کے اہل اور رشتہ دار ہیں جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ پس رسول خدا (ص) کا حصہ غنیمت سے کہاں گیا؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے پیغمبر (ص) کے لئے طعمہ (خوارک) قرار دیا ہے اور جب اللہ ان کی روح قبض کرلیتا ہے تو وہ مال ان کے خلیفہ کے لئے قرار دے دیتا ہے میں آپ کے والد کا خلیفہ ہوں مجھے چاہیئے کہ اس مال کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں (2)_
عروہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کا اختلاف اور نزاع جناب ابوبکر سے فدک اور ذوی القربی کے حصّے کے مطالبے کے سلسلے میں تھا لیکن جناب ابوبکر نے انہیں کچھ بھی نہ دیا اور ان کو خدا کے اموال کا جز و قرار دے دیا (3)_
جناب حسن بن علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) اور بنی ہاشم کو ذوی القربی کے سہم اور حصے سے محروم کردیا اور اسے سبیل اللہ کا حصہ قرار دے کر ان سے جہاد کے لئے اسلحہ اور اونٹ اور خچر خریدتے تھے (4)_
ان مطالب سے معلوم ہوجائے گا کہ حضرت فاطمہ (ع) فدک کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات میں جیسے رسول خدا کے ان اموال میں جو مدینے میں تھے اور خبیر کے خمس سے جو باقی رہ گیا تھا اور غنائم سے رسول خدا(ص) کے سہم اور ذوی القربی کے سہم میں بھی جناب ابوبکر کے ساتھ نزاع رکھتی تھیں لیکن بعد میں یہ مختلف موضوع خلط ملط کردیئے گئے کہ جن کی وجہ سے جناب فاطمہ (ع) کے اختلاف اور نزاع میں ابہامات اور اشکالات رونما ہوگئے حقیقت اور اصل مذہب کے واضح اور روشن ہوجانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام موارد نزاع کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کیا جائے اور ہر ایک میں علیحدہ بحث اور تحقیق کی جائے_
پیغمبر (ص) کے شخصی اموال

 پیغمبر (ص) کی کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہی اس کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کا وہ کمرے کہ جس میں آپ (ص) اور آپ(ص) کی ازواج رہتی تھیں آپ کی شخصی لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن و غیرہ، تلوار، زرہ، نیزہ، سواری کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گائے و غیرہ_ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں (5)_
بظاہر اس میں کوئی شک نہ ہوگا کہ یہ تمام چیزیں آپ کی ملک تھیں اور آپ کی وفا کے بعد یہ اموال آپ کے ورثا کی طرف منتقل ہوگئے_
حسن بن علی و شاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کیا رسول خدا(ص) نے فدک کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑ تھا؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء اور صہبا، اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا، اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والی گوسفند، چالیس اونٹیاں دودھ دینے والی، ایک تلوار ذوالفقار نامی، ایک زرہ بنا م ذات الفصول عمامہ بنام سحاب، دو عدد عبا، کئی چمڑے کے تکئے_ پیغمبر(ص) یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں جناب فاطمہ (ع) کی طرف سوائے زرہ، شمشیر، عمامہ اور انگوٹھی کے منتقل ہوگئیں تلوار، زرہ، عمامہ اور انگوٹھی حضرت علی (ع) کو دیئے گئے (6)_
پیغمبر(ص) کے وارث آپ کی ازواج او رجناب فاطمہ زہراء (ع) تھیں_ تاریخ میں اس کا ذکر نہیں آیا کہ پیغمبر (ص) کے ان اموال کو ان کے ورثا میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن بظاہر اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے امکانات آپ کی ازواج ہی کو دے دیئے گئے تھے کہ جن میں وہ آپ کے بعد رہتی رہیں، بعض نے یہ کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں یہ مکانات اپنی ازواج کو بخش دیئے تھے اور اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے_
”و قرن فی بیوتکن وَلا تبرّجن تبرّج الجاہلیة الاولی ” (7)
گہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں حکم دیا ہے کہ اپنے گھروں میں رہتی رہو اور جاہلیت کے دور کی طرح باہر نہ نکلو_ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تب تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر(ص) کے گھروں میں رہتی ہو، لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کی نسبت دے دینا عرفی گفتگو میں زیادہ ہوا کرتی ہے اور صرف کسی چیز کا کسی طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا_ مرد کی ملک کو اس کی بیوی اور اولاد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلی مالک ان کا باپ یا شوہر مرد ہوا کرتا ہے_ کسی چیز کو منسوب کرنے کے لئے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کرائے پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہاجاتا ہے تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر(ص) نے ہر ایک بیوی کے لئے ایک ایک کمرہ مخصوص کر رکھا تھا اس لئے کہا جاتا تھا جناب عائشےہ کا گھر یا جناب ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے یہ مکانات ان کو بخش دیئے تھے_ اس کے علاوہ اور کوئی بھی دلیل موجود نہیں جو یہ بتلائے کہ یہ مکان ان کی ملک میں تھا، لہذا کہنا پڑے گا کہ ازدواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر(ص) کے احترام میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر(ص) کی زندگی میں رہ رہیں تھی_ جناب فاطمہ (ع) ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھی اسی لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہی کو اپنا حصہ تا حیات دیئےکھا_ خلاصہ اس میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہیئے کہ رسول خدا(ص) نے اس قسم کے اموال بھی چھوڑے ہیں جو ور ثاء کی طرف منتقل ہوئے اور ان کو قانون وراثت اور آیات وراثت شامل ہوئیں_
فدک

مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے کہ جس کا نام فدک ہے مدینہ سے وہاں تک دودن کا راستہ ہے_ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا_ معجم البلدان والے لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانی کے چشمے تھے کہ جس سے پانی ابلتا تھا ہم نے پہلے بھی ثابت کیا ہے کہ فدک کوئی معمولی اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ تھا_
یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب 7 سنہ ہجری کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے اس سے مرعوب ہوکر کسی آدمی کو پیغمبر(ص) کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کی خواہش کی_
ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا_ جناب رسول خدا(ص) نے ان کی خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ تحریر کیا اس صلح کی وجہ سے فدک کے یہودی اسلام کی حفاظت اور حمایت میں آگئے_
صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کی آدھی زمین پیغمبر(ص) کے حوالے کردی، معجم البلدان میں لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر(ص) کو دے دیا_
تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کی قرارداد کی رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر(ص) کے درمیان قرار پائی تھی تمام آراضی اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر(ص) کو دے دیا، یعنی یہ مال خالص پیغمبر(ص) کی ذات کا ہوگیا کیونکہ جیسا کہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ علاقہ بغیر جنگ کئے پیغمبر(ص) کے ہاتھ آیا ہے اسلام کے قانون کی رو سے جو علاقہ بھی بغیر جنگ کئے فتح ہوجائے وہ رسول(ص) کا خالص مال ہوا کرتا ہے_
یہ قانون اسلام کے مسلمہ قانون میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھی یہی حکم دیتا ہے_ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:
” وما افاء الله علی رسوله منهم فما اوجفتم علیه من خیل و لارکاب و لکن الله یسلط رسله علی من یشاء و الله علی کل شیء قدیر، ما افاء الله علی رسوله من اهل القوی فلله و للرسول ” (8)_
یعنی وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص) کے لئے عائد کردیا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے لیکن اللہ اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے او رخدا تمام چیزوں پر قادر ہے_ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر کے لئے مخصوص ہیں_
لہذا اس میں کسی کو شک نہیں ہونا کہ فدک پیغمبر(ص) کے خالص اموال سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر(ص) کو ملا تھا اور پیغمبر(ص) اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھی مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں آپ اس مال سے حکومت کا ارادہ کرنے میں بھی خرچ کرتے تھے اور اگر کبھی اسلام کے اعلی مصالح اور حکومت اسلامی کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسی کو بخش دیں تا کہ وہ اس کے منافع اور آمدنی سے فائدہ اٹھاتا رہے، آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسی کو بلاعوض یا معاوضہ پر بھی دے دیں اور آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی کی اسلامی خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں، اور یہ بھی کرسکتے تھے کہ فدک کی آمدنی سے کچھ حکومت اسلامی اور عمومی ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھی حق رکھتے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے لئے فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دے دیں_ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگی کے لئے مخصوص کر رکھا تھا آپ نے فدک کی بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگائے_
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسی نے فدک عبداللہ بن عمر بازیار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا(ص) نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگائے تھے_
جب کبھی فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کے ہاتھ میں آجاتا تھا تو وہ ان درختوں کے خرمے حاجیوں کو ہدیہ دیا کرتے تھے اور حاجی حضرات تبرّک کے طور پر لے کر ان پر کافی احسان کیا کرتے تھے_ جب یہی عبداللہ فدک پر مسلط ہوا تو اس نے بشر ان بن امیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام درخت کاٹ دے جب وہ درخت کاٹے گئے اور کاٹنے والا بصرہ لوٹ آیا تو اسے فالج ہوگیا تھا_ (9)
پیغمبر(ص) کی عادت یہ تھی کہ فدک کی آمدنی سے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق لے لیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا وہ بنی ہا شم کے فقراء اور ابن سبیل کو دے دیا کرتے تھے اور بنی ہاشم کے فقراء کی شادی کرانے کے اسباب بھی اسی سے مہیا کرتے تھے_
فدک جناب فاطمہ (ع) کے پاس

 سب سے زیادہ مہم نزاع اور اختلاف جو جناب فاطمہ (ع) او رجناب ابوبکر کے درمیان پیا ہوا وہ فدک کا معاملہ تھا، حضرت فاطمہ (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک انہیں بخش دیا تھا لیکن جناب ابوبکر اس کا انکار کرتے تھے، ابتداء میں تو جھگڑا ایک عادی امر شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک اہم واقعہ اور حساس حادثہ کی صورت اختیار کرلی کہ جس کے آثار اور تنائج جامعہ اسلامی کے سالوں تک دامن گیر ہوگئے اور اب بھی ہیں
اس نزاع میں جو بھی حق ہے وہ اچھی طرح واضح اور روشن ہوجائے لہذا چند مطالب کی تحقیق ضروری ہے_
پہلا مطلب:

 کیا پیغمبر(ص) :کو دولت او رحکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں_ (واضح رہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ انفال اور فی اور خمس و غیرہ قسم کے اموال حکومت اسلامی کے مال شمار ہوتے ہیں اور حاکم اسلامی صرف اس پر کنٹرول کرتا ہے یہ اس کا ذاتی مال نہیں ہوتا، اسی نظریئے کے صاحب کتاب بھی معلوم ہوتے ہیں گرچہ یہ نظریہ شیعہ علماء کی اکثریت کے نزدیک غلط ہے اور خود آئمہ طاہرین کے اقدام سے بھی یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے اور قرآن مجید کے ظواہر سے بھی اسی نظریئے کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان تمام سے ان اموال کا پیغمبر(ص) اور امام کا شخصی اور ذاتی مال ہونا معلوم ہوتا ہے نہ منصب اور حکومت کا لیکن صاحب کتاب اپنے نظریئے کے مطابق فدک کے قبضئے کو حل کر رہے ہیں ”مترجم”’)
ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کی زمین کو حکومت کی ملکیت میں ہی رہنا چاہیئے، لیکن ان کی آمدنی کو عام ملت کے منافع اور مصالح پر خرچ کرنا چاہیئے لہذا پیغمبر(ص) کے لئے جوہر خطا اور لغزش سے معصوم تھے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کا ملک تھا اپنی بیٹی زہراء کو بخش دیتے_
لیکن اس اعتراض کا جواب اس طر ح دیا جاسکتا ہے کہ انفال اور اموال حکومت کی بحث ایک بہت وسیع و عریض بحث ہے کہ جو ان اوراق میں تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کی جاسکتی، لیکن اسے مختصر اور نتیجہ اخذ کرنے کے
لئے یہاں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ فدک بھی غنائم اور عمومی اموال میں ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنی اسلامی حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامی کے مطابق اور پیغمبر(ص) کی سیرت کے لحاظ سے اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئیں یہ پیغمبر(ص) کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھی یہ کہا جائے کہ آپ کا شخص مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھی حاکم اسلامی اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھی اس قسم کے مال کا ان عمومی اموال سے جو دولت اور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے، کیونکہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر(ص) کے ہاتھ میں ہے اور آپ اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنی مصلحت اندیی اور صواب دید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمومی مصلحت اس کا تقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھی سکتے ہیں تا کہ وہ اس منافع سے بہرہ مند ہوں_ اس قسم کے تصرفات کرنا اسلام میں کوئی اجنبی اور پہلا تصرف نہیں ہوگا بلکہ رسول خدا (ص) نے اپنی آراضی خالص سے کئی اشخاص کو چند زمین کے قطعات دیئے تھے کہ جس اصطلاح میں اقطاع کہا جاتا ہے_
بلاذری نے لکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کے چند قطعات___ بنی نضیر اور جناب ابوبکر اور جناب عبدالرحمان بن عوف اور جناب ابو دجانہ و غیرہ کو عنایت فرما دیئے تھے (10)_
ایک جگہ اور اسی بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول خدا (ص) نے بنی نضیر کی زمینوں میں سے ایک قطعہ زمین کا مع خرمے کے درخت کے زبیر ابن عوام کو دے دیا تھا (11)_
بلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھا جناب بلال کو دے دیا (12) _
بلاذری لکھتے ہیں کے رسول خدا(ص) نے زمین کے چار قطعے علی ابن ابی طالب(ع) کو عنایت فرما دیا دیئے تھے (13)_
پس اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ حاکم شرع اسلامی کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسی معین آدمی کو بخش دے تا کہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرسکے_ پیغمبر(ص) نے بھی بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام دیا ہے_ حضرت علی (ع) او رجناب ابوبکر اور جناب عمر اور جناب عثمان اس قسم کی بخشش سے نوازے گئے تھے_
بنابرین قوانین شرع اور اسلام کے لحاظ سے کوئی مانع موجود نہیں کہ رسول خدا(ص) فدک کی آراضی کو جناب زہراء (ع) کو بخش دیں، صرف اتنا مطلب رہ جائے گا کہ آیا جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخشا بھی تھا یا نہیں، تو اس کے اثبات کے لئے وہ اخبار اور روایات جو ہم تک پیغمبر(ص) کی پہنچی ہیں کافی ہیں کہ آپ نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، نمونے کے طور پر ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ”وات ذالقربی حقه” نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے (14)_
عطیہ نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت ”وات ذالقربی حقه” نازل ہوئی تو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا (15)_
علی (ع) بن حسین (ع) بن علی (ع) بن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا(16)_
جناب امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب یہ آیت ”وَ ات ذالقربی حقه” نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ ”ذالقربی ” کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کی یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا(ص) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق دوں اسی لئے فدک تم کو دیتا ہوں (17)_
ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کہ آیا رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا؟ آپ (ع) نے فرمایا کہ فدک تو خدا کی طرف سے جناب فاطمہ (ع) کے لئے معین ہوا تھا (5)_
امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے فدک کا مطالبہ کیا_
جناب ابوبکر نے کہا اپنے مدعا کے لئے گواہ لاؤ، جناب ام ایمن گواہی کے لئے حاضر ہوئیں تو ابوبکر نے ان سے کہا کہ کس چیز گواہی دیتی ہو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ جبرئیل جناب رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور عرض کی کہ اللہ تعالیی فرماتا ہے ”وَ ات ذالقربی حقہ” پیغمبر(ص) نے جبرئیل سے فرمایا کہ خدا سے سوال کرو کہ ذی القربی کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کی کہ فاطمہ (ع) ذوالقربی ہیں پس رسول خا(ص) نے فدک کو دے دیا (19)_
ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جب آیت ”وَ ات ذالقربی حقه” نازل ہوئی، جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا (20)_
اس قسم کی روایات سے جو اس آیت کی شان نزول میں وارد ہوئی ہیں مستفاد ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ فدک کو بعنوان ذوالقربی فاطمہ (ع) زہراء (ع) کے اختیار میں دے دیں تا کہ اس ذریعے سے حضرت علی (ع) کی اقتصادی حالت ”کہ جس نے اسلام کے راستے میں _ جہاد اور فداکاری کی ہے ” مضبوط رہے _
ممکن ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ ذالقربی والی آیت کہ جس کا ذکر ان احادیث میں ہوا ہے سورہ اسراء کی آیت ہے اور سورہ اسراء کو مكّی سورہ میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ فدک تو مدینے میں اور خیبر کی فتح کے بعد دیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں دو مطلب میں سے ایک کو اختیار کیا جائے گا اور کہا جائے گا گر چہ سورہ اسری مكّی ہے مگر پانچ آیتیں اس کی مدینہ میں نازل ہوئی ہیں_
آیت ”و لا تقتلوا النفس” اور آیت”و لا تقربوا الزنا” اور آیت ” اولئک الذین یدعون” اور آیت ”اقم الصلوة” اور آیت ”ذی القربی ” (21)_
دوسرا جواب یہ ہے کہ ذی القربی کا حق تو مکہ میں تشریع ہوچکا تھا لیکن اس پر عمل ہجرت کے بعد کرایا گیا _
فدک کے دینے کا طریقہ

 ممکن ہے کہ جناب رسول خدا (ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دو طریقوں میں سے ایک سے دیا ہو_ پہلا فدک کی آراضی کو آپ کا شخصی مال قرار دے دیا ہو_ دوسرا یہ کہ اسے علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے___ خانوادے پر جو مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا__ _ گھر تھا وقف کردیا ہو کہ یہ بھی ایک دائمی صدقہ اور وقف ہوجو کہ ان کے اختیار میں ___س دے دیا ہو_
اخبار اور احادیث کا ظاہر پہلے طریقے کی تائید کرتا ہے، لیکن دوسرا طریقہ بھی بعید قرار نہیں دیاگیا بلکہ بعض روایات میں اس پر نص بھی موجود ہے جیسے ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا آپ نے فرمایا کہ پیغمبر(ص) نے فدک وقف کیا اور پھر آپ ذی القربی کے مطابق وہ آپ(ع) کے اختیار میں دے دیا میں نے عرض کی کہ رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا آپ نے فرمایا بلکہ خدا نے وہ فاطمہ (ع) کو دیا (22)_
امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول(ص) نے فاطمہ (ع) کو فدک بطور قطعہ دیا (23) _
ام ہانی نے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا؟ جناب ابوبکر نے کہا میری آل و اولاد، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا پس تم کس طرح رسول اللہ کے ہمارے سوا وارث ہوگئے ہو، جناب ابوبکر نے کہا، اے رسول کی بیٹی خدا کی قسم میں رسول اللہ (ص) کا سونے، چاندی و غیرہ کا وارث نہیں ہوا ہوں_ جناب فاطمہ (ع) نے کہا ہمارا خیبر کا حصہ اور صدقہ فدک کہاں گیا؟ انہوں نے کہا اے بنت رسول (ص) میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک طمعہ تھا جو اللہ نے مجھے دیا تھا جب میرا انتقال ہوجائے تو یہ مسلمانوں کا ہوگا(24)_
جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق (ع) تصریح فرماتے ہیں کہ فدک وقف تھا، دوسری حدیث میں امام زین العابدین نے اسے قطعہ سے تعبیر کیا ہے کہ جس کے معنی صرف منافع کا اسلامی او رحکومتی زمین سے حاصل کرنا ہوتا ہے، احتجاج میں حضرت زہراء (ع) نے ابوبکر سے بعنوان صدقہ کے تعبیر کیا ہے_
ایک اور حدیث میں جو پہلے گزرچکی ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ رسول خدا (ص) نے حسن (ع) و حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں دے دیا_
اس قسم کی احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک کو خانوادہ فاطمہ (ع) و علی (ع) پر جو ولایت اور رہبری کا خانوادہ تھا اور اس کے منافع کو انہیں کے ساتھ مخصوص کردیا تھا_


”لیکن جن روایات میں وقف و غیرہ کی تعبیر آئی ہے وہ ان روایات کے مقابل کہ جن میں بخش دینا آیا ہے بہت معمولی بلکہ ضعیف بھی شمار کی جاتی ہیں لہذا صحیح نظریہ یہی ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کی شخصی اور ذاتی ملک تھا جو بعد میں ان کی اولاد کا ارث تھا_ صاحب کتاب اس قسم کی کوشش صرف ایک غرض کے ماتحت فرما رہے ہیں اور یہ غرض اہل علم پر کہ جنہوں نے نہج البلاغہ کی موجودہ زمانے میں جو شرح کی گئی ہے کا مطالعہ کیا ہے مخفی نہیں ہے لیکن شارح بھی حق پر نہیں ہے اور ان کی تصحیح کی کوشش بھی درست نہیں ہے ” مترجم


فدک کے واقعہ میں قضاوت

 دیکھنا یہ چاہیئے کہ اس واقعہ میں حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے یا جناب ابوبکر کے ساتھ؟ مورخین اور محدثین نے لکھا ہے کہ جناب رسول خدا (ص) کی وفات کے دس دن بعد جناب ابوبکر نے اپنے آدمی بھیجے اور فدک پر قبضہ کرلیا (25)_
جب اس کی اطلاع جناب فاطمہ (ع) کو ہوئی تو آپ جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور فرمایا کہ کیوں تیرے آدمیوں نے میرے فدک پر قبضہ کیا ہے؟ حکم دو کہ وہ فدک مجھے واپس کردیں، جناب ابوبکر نے کہا_ اے پیغمبر(ص) کی بیٹی آپ کے والد نے درہم اور دینار میراث میں نہیں چھوڑٹے آپ نے خود فرمایا ہے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑا کرتے، جناب فاطمہ (ع) نے کہا کہ میرے بابا نے فدک اپنی زندگی میں مجھے بحش دیا تھا_ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ کو اپنے اس مدعا پر گواہ لانے چاہئیں پس علی (ع) ابن ابی طالب اور جناب امّ ایمن حاضر ہوء اور گواہی دی کہ رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، لیکن جناب عمر اور عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول خدا (ص) فدک کی آمدنی کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے پس ابوبکر نے کہا اے رسول(ص) کی بیٹی تم سچ کہتی ہو اور علی (ع) اور امّ ایمن بھی سچ کہتے ہیں اور عمر اور عبدالرحمن بھی سچ کہتے ہیں اس واسطے کہ آپ کا مال آپ کے والد تھا_ رسول خدا (ص) آپ کا آذوقہ فدک کی آمدنی سے دیا کرتے تھے اور باقی کو تقسیم کردیتے تھے اور راہ خدا میں صرف کیا کرتے تھے (26)_
بلاذری کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پا س گئیں اور فرمایا کہ فدک میرے والد نے میرے سپرد کیا تھا وہ کیوں نہیں؟ جناب ابوبکر سنے گواہوں کا مضالبہ کیا پس علی ابن ابی طالب اور جناب ام ایمن حاضر ہوئے اور گواہی دی جناب ابوبکر نے کہا تمہارے گواہوں کا نصاب ناقص ہے چاہیئے کہ دو مرد گواہی یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں (27)
علی ابن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ فا طمہ (ع) ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ میرے والد نے فدک میرے سپرد کیا تھا علی (ع) اور امّ ایمن نے گواہی بھی دی تم کیوں مجھے میرے حق سے محروم کرتے ہو_
جناب ابوبکر نے فرمایا کہ آپ سوائے حق کے اور کچھ نہیں فرماتیں فدک آپ کو دیتا ہوں پس فدک کو جناب فاطمہ (ع) کے لئے تحریر کردیا اور قبالہ آپ کے ہاتھ میں دے دیا جناب فاطمہ (ع) نے وہ خط لیا اور باہر آگئیں راستے میں جناب عمر نے آپ کو دیکھا اور پوچھا کہ کہاں سے آرہی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر کے یہاں گئی تھی اور میں نے کہا کہ میرے والد نے فدک مجھے بخشا تھا اور ام ایمن نے گواہی دی تھی لہذا انہوں نے فدک مجھے واپس کردیا ہے اور یہ اس کی تحریر ہے جناب عمر نے وہ تحریر لی اور جناب ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ تم نے فدک تحریر کرکے فاطمہ (ع) کو واپس کردیا ہے؟ انہوں نے کہا ہان، عمر نے کہا کہ علی (ع) نے اپنے نفع کے لئے گواہی دی ہے اور امّ ایمن ایک عورت ہے اس کے بعد اس تحریر کو پھاڑ ڈالا (28)_
جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر سے کہا کہ امّ ایمن گواہی دیتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک مجھے بخش دیا تھا_ ابوبکر نے کہا اے دختر رسول (ص) ، خدا کی قسم میرے نزدیک رسول خدا(ص) سے زیادہ محبوب کوئی بھی نہیں ہے جب آپ وفات پاگئے تو میرا دل چاہتا تھا کہ آسمان زمین پر گرپڑے، خدا کی قسم عائشےہ فقیر ہو تو بہتر ہے کہ تم محتاج ہو_ کیا آپ خیال کرتی ہیں کہ میں سرخ و سفید کا حق تو ادا کرتا ہوں لیکن آپ کو آپ کے حق سے محروم کرتا ہوں؟ فدک پیغمبر(ص) کا شخصی مال نہ تھا بلکہ مسلمانوں کا عمومی مال تھا آپ کے والد اس کی آمدنی سے فوج تیار کرتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے، جب آپ(ص) دنیا سے چلے گئے تو اس کی تولیت اور سرپرستی میرے ہاتھ میں آئی ہے (29)_
اس قسم کی گفتگو جناب فاطمہ (ع) اور جناب ابوبکر کے درمیان ہوئی لیکن جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کی بات تسلیم نہیں کی اور جناب زہراء (ع) کو ان کے حق سے محروم کردیا_
اہل علم و دانش اور منصف مزاج لوگوں پر مخفی نہیں کہ جناب ابوبکر کا عمل اور کردار قضاوت اور شہادت کے قوانین کے خلاف تھا اور آپ پر کئی جہات سے اعتراض وارد کئے جاسکتے ہیں_
پہلا اعتراض:

 فدک جناب زہراء (ع) کے قبضہ میں تھا تصرف میں تھا اس میں آپ سے گواہوں کا مطالبہ شریعت اسلامی کے قانوں کے خلاف تھا اس قسم کے موضوع میں جس کے قبضے میں مال ہو اس کا قول بغیر کسی گواہ اور بيّنہ کے قبول کرنا ہوتا ہے، اصل مطلب کی ذی الید کا قول بغیر گواہوں کے قبول ہوتا ہے، یہ فقہی کتب میں مسلم اور قابل تردید نہیں ہے باقی رہا کہ جناب فاطمہ (ع) ذی الید اور فدک پر قابض تھیں یہ کئی طریقے سے ثابت کیا جاسکتا ہے_
اول:

جیسا کہ پہلے نقل ہوچکا ہے ابوسعید خدری، عطیہ اور کئی دوسرے افراد نے گواہی دی تھی کہ رسول خدا (ص) نے اس آیت کے مطابق ”وَ ات ذالقربی حقہ” فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا، روایت میں اعطی کا لفظ وارد ہوا ہے بلکہ اس پر نص ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک حتمی طور پر جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا اور وہ آپ کے قبضہ اور تصرف میں تھا_
دوسرے:

 حضرت علی (ع) نے تصریح فرمائی ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا جیسا کہ آپ نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے کہ ہاں ہمارے پاس اس میں سے کہ جس پر آسمان سایہ فگن ہے صرف فدک تھا، ایک گروہ نے اس پر بخل کیا اور دوسرا گروہ راضی ہوگیا اور اللہ ہی بہترین قضاوت کرنے والا ہے (30)_
تیسرے:

 امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب جناب ابوبکر نے حکم دیا کہ فدک سے جناب فاطمہ (ع) کے آدمیوں اور کام کرنے والوں کو نکال دیا جائے تو حضرت علی (ع) ان کے پا س گئے اور فرمایا اے ابوبکر، اس جائداد کو کہ جو رسول خدا (ص) نے فاطمہ (ع) کو بخش دی تھی اور ایک مدت تک جناب فاطمہ (ع) کا نمائندہ پر قابض رہا آپ نے کیوں لے لی ہے؟ (31)_
رسول خدا(ص) کا فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دینا اور جناب فاطمہ (ع) کا اس پر قابض ہونا یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، اسی لئے جب عبداللہ بن ہارون الرشید کو مامون کی طرف سے حکم ملا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کو واپس کردیا جائے تو اس نے ایک خط میں مدینہ کے حاکم کو لکھا کہ رسول خدا (ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا اور یہ بات آل رسول (ص) میں واضح اور معروف ہے اور کسی کو اس بارے میں شک نہیں ہے اب امیرالمومنین (مامون) نے مصلحت اسی میں دیکھی ہے کہ فدک فاطمہ (ع) کے وارثوں کو واپس کردیا جائے (32)_
ان شواہد اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک جناب رسول خدا(ص) کے زمانے میں حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کے قبضے میں تھا اس قسم کے موضوع میں گواہوں کا طلب کرنا اسلامی قضا اور شہادت کے قانوں کے خلاف ہے_
دوسرا اعتراض:

 جناب ابوبکر اس نزاع میں جانتے تھے کہ حق جناب فاطمہ (ع) کے ساتھ اور خود_ انہیں جناب زہراء (ع) کی صداقت اور راست گوئی کا نہ صرف____ اعتراف تھا بلکہ تمام مسلمان اس کا اعتراف کرتے تھے کوئی بھی مسلمان آپ کے بارے میں جھوٹ اور افتراء کا احتمال نہ دیتا تھا کیوں کہ آپ اہل کساء میں سے ایک فرد تھیں کہ جن کے حق میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے کہ جس میں خداوند عالم نے آپ کی عصمت اور پاکیزگی کی تصدیق کی ہے_
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہ مطلب کتاب قضا اور شہادت میں ثابت ہے کہ اموال اور دیوں کے معاملے میں اگر قاضی کو واقعہ کا علم ہو تو وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرسکتا ہے او روہ گواہ اور بینہ کا محتاج نہ ہوگا، بنابراین جناب ابوبکر جب جانتے تھے کہ حضرت زہراء (ع) ، سچی ہیں اور رسول خدا(ص) نے فدک انہیں عطا کیا ہے تو آپ کو چاہیئے تھا کہ فوراً جناب زہراء (ع) کی بات تسلیم کرلیتے اور آپ سے گواہوں کا مطالبہ نہ کرتے_
جی ہاں مطلب تو یوں ہی ہے کہ جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق حضرت زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور رسول خدا(ص) نے فدک میں انہیں دے دیا ہے شاید ابوبکر پیغمبر(ص) کے اس عمل سے ناراض تھے اسی لئے جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں کہا کہ یہ مال پیغمبر اسلام کا نہ تھا بلکہ یہ مسلمانوں کا مال تھا کہ جس سے پیغمبر (ص) فوج تیار کرتے تھے اور جب آپ فوت ہوگئے تو اب میں اس مال کا متولی ہوں جیسے کہ پیغمبر(ص) متولی تھے (33)_
ایک اور جگہ جناب ابوبکر نے اپنے آپ کو دوبڑے خطروں میں دیکھا ایک طرف جناب زہراء (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا(ص) نے فدک انہیں بخشا ہے اور اپنے اس مدعا کے لئے دو گواہ علی (ع) اور ام ایمن کو حاضر کیا اور جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور انہیں اور ان کے گواہوں کو نہیں چھٹلا سکتے تھے اور دوسری طرف سیاست وقت کے لحاظ سے جناب عمر اور عبدالرحمن کو بھی نہیں جھٹلاسکتے تھے تو آپ نے ایک عمدہ چال سے جناب عمر کے قول کو ترجیح دی اور تمام گواہوں کے اقوال کی تصدیق کردی اور ان کے اقوال میں جمع کی راہ نکالی اور فرمایا کہ اے دختر رسول (ص) آپ سچی ہیں علی (ع) سچے ہیں اور ام ایمن سچی ہیں اور جناب عمر اور عبدالرحمن بھی سچے ہیں، اس لئے کہ جناب رسول خدا(ص) فدک سے آپ کے آذوقہ کی مقدار نکال کر باقی کو تقسیم کردیتے تھے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور آپ اس مال میں کیا کریں گی؟ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ وہی کروں گی جو میرے والد کرتے تھے، جناب ابوبکر نے کہا کہ میں قسم کھا کر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں بھی وہی کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے (34)_
ایک طرف تو جناب ابوبکر جناب زہراء (ع) کے اس ادعا ”کہ فدک میرا مال ہے” کی تصدیق کرتے ہیں اور حضرت علی (ع) اور ام ایمن کی گواہوں کی بھی تصدیق کرتے ہیں اور دوسری طرف جناب عمر اور عبدالرحمن کے قول کی بھی انہوں نے کہا کہ رسول خدا فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے تصدیق کرتے ہیں اور اس وقت اپنے اجتہاد کے مطابق ان اقوال (توافق) جمع کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا مال آپ کے والد کا مال تھا کہ جس سے آپ کا آذوقہ لے لیتے تھے اور باقی کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کردیتے تھے اس کے بعد جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) سے پوچھتے ہیں کہ اگر فدک آپ کو دے دیا جائے تو آپ کیا کریں گی، آپ نے فرمایا کہ میں اپنے والد کی طرح خرچ کروں گی تو فوراً جناب ابوبکر نے قسم کھا کر جواب دیا کہ میں بھی وہی کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے اور میں آپ(ص) کی سیرت سے تجاوز نہ کروں گا_
لیکن کوئی نہ تھا کہ جناب ابوبکر سے سوال کرتا کہ جب آپ مانتے ہیں کہ فدک جناب زہراء (ع) کی ملک ہے اور آپ جناب فاطمہ (ع) اور ان کے گواہوں کی تصدیق بھی کر رہے ہیں تو پھر ان کی ملکیت ان کو واپس کیوں نہیں کردیتے؟ جناب عمر اور عبدالرحمن کی گواہوں صرف یہی بتلانی ہے کہ پیغمبر(ص) فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے، اس سے جناب زہراء (ع) کی ملکیت کی نفی تو نہیں ہوتی کیونکہ پیغمبر(ص) جناب زہراء (ع) کی طرف سے ماذون تھے کہ فدک کی زائد آمدنی کو راہ خدا میں خرچ کردیں، لیکن اس قسم کی اجازت جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر کو تو نہیں دے رکھی تھی بلکہ اس کی اجازت ہی نہیں دی تو پھر ابوبکر کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ فرمائیں کہ میں بھی آپ کے والد کی سیرت سے تجاوز نہ کروں گا، مالک تو کہتا ہے کہ میری ملکیت مجھے واپس کردو اور آپ اس سے انکار کر کے وعدہ کرتے ہیں کہ میں بھی آپ کے والد کی طرح عمل کروں گا، سبحان اللہ اور آفرین اس قضاوت اور فیصلے پر
تیسرا اعتراض:

 فرض کیجئے کہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے گواہوں کے نصاب کو ناقص سمجھتے تھے اور ان کی حقانیت پر یقین بھی نہیں رکھتے تھے تو پھر بھی ان کا وظیفہ تھا کہ حضرت زہراء (ع) سے قسم کھانے کا مطالبہ کرتے اور ایک گواہ اور قسم کے ساتھ قضاوت کرتے کیوں کہ کتاب قضا اور شہادت میں یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ ام وال اور دیون کے واقعات میں قاضی ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے قسم لے کر حکم لگا سکتا ہے، روایت میں موجود ہے کہ رسول خدا (ص) ایک گواہ کے ساتھ قسم ملا کر قضاوت اور فیصلہ کردیا کرتے تھے (35)_
چوتھا اعتراض:

اگر ہم ان سابقہ تمام اعتراضات سے صرف نظر کرلیں تو اس نزاع میں جناب فاطمہ (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک انہیں بخش دیا ہے اور جناب ابوبکر منکر تھے اور کتب فقہی میں یہ مطلب مسلم ہے کہ اگر مدعی کا ثبوت ناقص ہو تو قاضی کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ مدعی کو اطلاع دے کہ تمہارے گواہ ناقص ہیں اور تمہیں حق پہنچتا ہے کہ تم منکر سے قسم اٹھانے کا مطالبہ کرو، لہذا جناب ابوبکر پر لازم تھا کہ وہ جناب زہراء (ع) کو تذکر دیتے کہ چونکہ آپ کے گواہ ناقص ہیں اگر آپ چاہیں تو چونکہ میں منکر ہوں آپ مجھ سے قسم اٹھوا سکتی ہیں، لیکن جناب ابوبکر نے قضاوت کے اس قانون کو بھی نظرانداز کیا اور صرف گواہ کے ناقص ہونے کے ادعا کو نزاع کے خاتمہ کا اعلان کر کے رد کردیا_
پانچواں اعتراض:

 اگر فرض کرلیں کہ جناب زہراء (ع) کی حقانیت اس جگھڑے میں جناب ابوبکر کے نزدیک ثابت نہیں ہوسکی تھی لیکن پھر بھی فدک کی آراضی حکومت اسلامی کے مال میں تھی، مسلمانوں کے حاکم اور خلیفہ کو حق پہنچتا تھا کہ وہ عمومی مصلحت کا خیال کرتے، جب کہ آپ اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ تصور کرتے تھے، فدک کو بعنوان اقطاع جناب فاطمہ (ع) دختر پیغمبر(ص) کو دے دیتے اور اس عمل سے ایک بہت بڑا اختلاف جو سالہا سال تک مسلمانوں کے درمیان چلنے والا تھا اس کے تلخ نتائج کا سد باب کردیتے_
کیا رسول خدا(ص) نے بنی نضیر کی زمینیں جناب ابوبکر اور عبدالرحمن بن عوف اور ابو دجانہ کو نہیں دے دی تھیں (36)
کیا بنی نضیر کی زمین مع درختوں کے زبیر بن عوام کو پیغمبر(ص) اسلام نے نہیں دے دی تھیں (37)_
کیا معاویہ نے اسی فدک کا تہائی حصہ کے عنوان سے مروان بن الحکم اور ایک تہائی جناب عمر بن عثمان کو اور ایک تہائی اپنے بیٹے یزید کو نہیں دے دیا تھا (38)_
کیا یہ بہتر نہ تھا کہ جناب ابوبکر بھی اسی طرح دختر پیغمبر(ص) کو دے دیتے اور اتنے بڑے خطرے اور نزاع کو ختم کردیتے؟
چھٹا اعتراض:

 اصلاً جناب ابوبکر کا اس نزاع میں فیصلہ اور قضاوت کرنا ہی ازروئے قانون قضاء اسلام درست نہ تھا کیونکہ جناب زہراء (ع) اس واقعہ میں مدعی تھیں اور جناب ابوبکر منکر تھے، اس قسم کے موارد میں یہ فیصلہ کسی تیسر آدمی سے _ کرانا چاہیئے تھا، جیسے کہ پیغمبر(ص) اور حضرت علی (ع) اپنے نزاعات میں اپنے علاوہ کسی اور قاضی سے فیصلہ کرایا کرتے تھے یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ جناب ابوبکر خود ہی منکر ہوں او رخود ہی قاضی بن کر اپنے مخالف سے گواہ طلب کریں اور اپنی پسند کا فیصلہ اور قضاوت خود ہی کرلیں_
ان تمام مطالب سے یہ امر مستفاد ہوتا ہے کہ فدک کے معاملے میں حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ تھا اور جناب ابوبکر نے عدل اور انصاف کے راستے سے عدول کر کے ان کے حق میں تعدی اور تجاوز سے کام لیا تھا_
رسول خدا (ص) کے مدینہ میں اموال

 بنی نضیر یہودیوں کی زمینیں رسول خدا (ص) کا خالص مال تھا، کیونکہ بغیر جنگ کے فتح ہوئی تھیں اس قسم کے مال میں پیغمبر اسلام (ص) کو پورا اختیار تھا کہ جس طرح مصلحت دیکھیں انہیں مصرف میں لائیں، چنانچہ آپ نے بنی نضیر سے منقول اموال جو لئے تھے وہ تو مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیئےور کچھ زمین اپنے لئے مخصوص کرلی اور حضرت علی (ع) کو حکم دیا کہ اس پر تصرف کریں اور بعد میں اسی زمین کو وقف کردیا اور موقوفات میں داخل قرار دیا اپنی زندگی میں اس کے متولی خود آپ تھے آپ کی وفات کے بعد اس کی تولیت حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور ان کی اولاد کے سپرد کی (39)
یہودیوں کے علماء میں سے مخیرق نامی ایک عالم _ مسلمانوں ہوگئے انہوں نے اپنا مال جناب رسول خدا (ص) کو بخش دیا ان کے اموال میں سے سات باغ تھے کہ جن کے یہ نام تھے_ مشیب، صافیہ، دلال، حسنی، برقہ، اعوف، مشربہ ام ابراہیم یہ تمام اس نے جناب رسول خدا (ص) کو ہبہ کردیئےھے آپ(ص) نے بھی انہیں وقف کردیا تھا (40) _
بزنطی کہتے ہیں کہ میں نے سات زرعی زمینوں کے متعلق ”جو جناب فاطمہ (ع) کی تھیں” امام رضا (ع) سے سوال کیا _ آپ نے فرمایا یہ رسول خدا(ص) نے وقف کی تھیں کہ جو بعد میں حضرت زہراء (ع) کو ملی تھیں، پیغمبر اسلام (ص) اپنی ضروریات بھر ان میں سے لیا کرتے تھے جب آپ نے وفات پائی تو جناب عباس نے ان کے بارے میں حضرت فاطمہ (ع) سے نزاع کیا، حضرت علی (ع) اور دوسروں نے گواہی دی کہ یہ وقفی املاک ہیں وہ زرعی زمینیں اس نام کی تھیں دلال، اعوف حسنی، صافیہ، مشربہ ام ابراہیم، مشیب، برقہ (41) _
حلبی اور محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ ہم نے رسول خدا (ص) اور فاطمہ زہراء (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا کہ وہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کا مال تھا (42)_
ابومریم کہتا ہے کہ میں نے رسول خدا(ص) اور حضرت علی (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے لئے حلال ہے جناب فاطمہ (ع) کے صدقات بنی ہاشم اور بنی المطلب کا مال تھا (43) _
جناب رسول خدا(ص) نے ان املاک کو جو مدینہ کے اطراف میں تھے وقف کردیا تھا اور ان کی تولیت حضرت فاطمہ (ع) اور حضرت علی (ع) کے سپرد کردی تھی_ یہ املاک بھی ایک مورد تھا کہ جس میں حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا ہوا تھا_
بظاہر حضرت زہراء (ع) اس جھگڑے میں کامیاب ہوگئیں اور مدینہ کے صدقات اور اوقاف کو آپ نے ان سے لے لیا، اس کی دلیل اور قرینہ یہ ہے کہ آپ نے موت کے وقت ان کی تولیت کی علی (ع) اور اپنی اولاد کے لئے وصیت کی تھی، لیکن مجلسی نے نقل کیا ہے کہ جناب ابوبکر نے بالکل کوئی چیز بھی جناب فاطمہ (ع) کو واپس نہیں کی البتہ جب جناب عمر خلافت کے مقام پر پہنچے تو آپ نے مدینہ کے صدقات اور اوقاف حضرت علی (ع) اور عباس کو واپس کردیئےلیکن خیبر اور فدک واپس نہ کئے اور کہا کہ یہ رسول خدا(ص) کے لازمی اور ناگہانی امور کے لئے وقف ہیں_
مدینہ کے اوقاف اور صدقات حضرت علی (ع) کے قبضے میں تھے اس بارے میں جناب عباس نے حضرت علی (ع) سے نزاع کیا لیکن اس میں حضرت علی کامیاب ہوگئے لہذا آپ کے بعد یہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں آیا اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کے بعد جناب عبداللہ بن حسن (ع) کے ہاتھ میں تھے یہاں تک کہ بنی عباس خلافت پر پہنچے تو انہوں نے یہ صدقات بنی ہاشم سے واپس لے لئے (44)_
خیبر کے خمس کا بقایا

 7 ہجری کو اسلام کی سپاہ نے خیبر کو فتح کیا اس کے فتح کرنے میں جنگ اور جہاد کیا گیا اسی وجہ سے یہودیوں کا مال اور اراضی مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوئی_
رسول خدا(ص) نے قانون اسلام کے مطابق غنائم خیبر کو تقسیم کیا، آپ نے منقولہ اموال کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا چار حصّے فوج میں تقسیم کردیئےور ایک حصہ خمس کا ان مصارف کے لئے مخصوص کیا کہ جسے قرآن معین کرتا ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے :
“و اعلموا انما غنمتم من شیئً فان لله خمسه و للرسول و لذی القربی و الیتامی و المساکین و ابن السبیل ” (45)
یعنی جان لو کہ جو بھی تم غنیمت لو اس کا خمس خدا اور پیغمبر(ص) اور پیغمبر(ص) کے رشتہ دار اور ذوی القربی اور اس کے یتیم اور تنگ دست اور ابن سبیل کے لئے ہے_ اس آیت اور دیگر احادیث کے رو سے غنیمت کا خمس چھ جگہ خرچ کیا جاتا ہے اور صرف اسی جگہ خرچ کرنا ہوگا_
جناب رسول خدا (ص) خمس کو علیحدہ رکھ دیتے تھے اور بنی ہاشم کے ذوالقربی اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کی ضروریات زندگی پورا کیا کرتے تھے اور باقی کو اپنے ذاتی مصارف او رخدائی کاموں پر خرچ کیا کرتے تھے آپ نے خیبر کے خمس کو بھی انہیں مصارف کے لئے علیحدہ رکھ چھوڑا تھا اس کی کچھ مقدار کو آپ نے اپنی بیویوں میں تقسیم کردیا تھا مثلاً جناب عائشےہ کو خرما اور گندم اور جو کے دو وسق وزن عنایت فرمائے_ کچ مقدار اپنے رشتہ داروں اور ذوی القربی میں تقسیم کیا مثلاً دو وسق سو وزن جناب فاطمہ (ع) کو اور ایک سو وسق حضرت علی (ع) کو عطا فرمائے (46)_
اور خیبر کی زمین کو دو حصوں میں تقسیم کی ایک حصہ زمین کا ان مصارف کے لئے جو حکومت کو در پیش ہوا کرتے ہیں مخصوص کردیا اور دوسرا حصہ مسلمانوں اور افواج اسلام کی ضروریات زندگی کے لئے مخصوص کردیا اور پھر ان تمام زمینوں کو یہودیوں کو اس شرط پر واپس کردیا کہ وہ اس میں کاشت کریں اور اس کی آمدنی کا ایک معین حصّہ پیغمبر(ص) کو دیا کریں_ آپ اس حصہ کو وہیں خرچ کرتے تھے کہ جسے خداوند عالم نے معین کیا (47)_
جب رسول خدا (ص) کی وفات ہوگئی تو جناب ابوبکر نے خیبر کے تمام موجود غنائم پر قبضہ کرلیا، یہاں تک کہ وہ خمس جو خدا اور اس کے رسول (ص) اور بنی ہاشم کے ذوی القربی اور یتیموں، مسکینوں اور ابن سبیل کا حصہ تھا اس پر بھی قبضہ کرلیا_ اور بنی ہاشم کو خمس سے محروم کردیا_
حسن بن محمد بن علی (ع) ابن ابیطالب کہتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے ذوی القربی کا سہم جناب فاطمہ (ع) اور دوسرے بنی ہاشم کو نہیں دیا اور اس کو کار خیر میں جیسے اسلحہ اور زرہ و غیرہ کی خریداری پر خرچ کرتے تھے (48)_
عروہ کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور فدک اور سہم ذی القربی کا ان سے مطالبہ کیا_ جناب ابوبکر نے انہیں کوئی چیز نہ دی اور اسے اللہ کے اموال میں داخل کردیا (49)_
الحاصل یہ موضوع بھی ان موارد میں سے ایک ہے کہ جس میں جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا و مورد نزاع قرار پایا کہ آپ کبھی اسے خیبر کے عنوان سے اور کبھی اسے سہم ذی القربی کے عنوان سے جناب ابوبکر سے مطالبہ کیا کرتی تھیں_
اس مورد میں بھی حق جناب فاطمہ زہراء (ع) کے ساتھ ہے کیونکہ قرآن شریف کے مطابق خمس ان خاص موارد میں صرف ہوتا ہے کہ جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اور ضروری ہے کہ بنی ہاشم کے ذوی القربی اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کو دیا جائے_ یہ کوئی وراثت نہیں کہ اس کا یوں جواب دیا جائے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے، جناب فاطمہ (ع) ابوبکر سے فرماتی تھیں کہ خداوند عالم نے قرآن میں ایک سہم خمس کا ذوی القربی کے لئے مخصوص کیا ہے اور چاہیئے کہ یہ اسی مورد میں صرف ہو آپ تو ذوی القربی میں داخل نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے مصداق ہیں آپ نے یہ ہمارا حق کیوں لے رکھا ہے_
انس بن مالک کہتے ہیں کہ فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم خود جانتے ہو کہ تم نے اہلبیت کے ساتھ زیادتی کی ہے اور ہمیں رسول خدا (ص) کے صدقات اور غنائم کے سہم ذوی القربی سے کہ جسے قرآن نے معین کیا ہے محروم کردیا ہے خداوند عالم فرماتا ہے ”و اعلموا انما غنمتم من شیء الخ” جناب ابوبکر نے
جواب دیا کہ میرے ماں باپ آپ پر اور آپ کے والد پر قربان جائیں اس رسول (ص) کی دختر میں اللہ کتاب اور رسول (ص) کے حق اور ان کے قرابت داروں کے حق کا پیرو ہوں، جس کتاب کو آپ پڑھتی ہیں میں بھی پڑھتا ہوں لیکن میری نگاہ میں یہ نہیں آیا کہ خمس کا ایک پورا حصہ تمہیں دے دوں_
جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ آیا خمس کا یہ حصہ تیرے اور تیرے رشتہ داروں کے لئے ہے؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس کی کچھ مقدار تمہیں دونگا اور باقی کو مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا حکم تو اس طرح نہیں ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ اللہ تعالی کا حکم یوں ہی ہے (50)_
رسول خدا کی وراثت

 جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر سے ایک نزاع اور اختلاف رسول خدا (ص) کی وراثت کے بارے میں تھا_ تاریخ اور احادیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول خدا(ص) کی وفات کے بعد جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور اپنے والد کی وراثت کا ان سے مطالبہ کیا، جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت کے عنوان سے کچھ بھی نہ دیا اور یہ عذر پیش کیا کہ پیغمبر (ص) میراث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ وہ مال چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس مطلب کے لئے انہوں نے ایک حدیث بھی بیان کی کہ جس کے راوی وہ خود ہیں اور کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ ہم پیغمبر (ص) سونا، چاندی، زمین اور ملک اور گھر بار میراث میں نہیں چھوڑتے بلکہ ہماری وراثت ایمان اور حکمت اور علم و دانش اور شریعت ہے_ میں اس موضوع میں پیغمبر(ص) کے دستور اور ان کی مصلحت کے مطابق کام کروں گا (51)_
جناب فاطمہ (ع) نے حضرت ابوبکر کی اس بات کو تسلیم نہ کیا اور اس کی تردید قرآن مجید کی کئی آیات سے تمسک کر کے کی ہمیں اس موضوع میں ذرا زیادہ بحث کرنی چاہئے تا کہ وراثت کا مسئلہ زیادہ واضح اور روشن ہوجائے_
قرآن میں وراثت

قرآن کریم میں وراثت کا مطلق قانون وارد ہوا ہے_ خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ تمہیں اولاد کے بارے میں سفارش کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ لڑکی کے دو برابر ہے (52)_
یہ آیت اور قرآن کی دوسری آیات جو میراث کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان میں کلیت اور عمومیت ہے اور وہ تمام لوگوں کو شامل ہیں اور پیغمبروں کو بھی یہی آیات شامل ہیں_ پیغمبر (ص) بھی ان نصوص کلیہ کی بناء پر میراث چھوڑنے والے سے میراث حاصل کریں گے اور ان کے اپنے اموال بھی ان کے وارثوں کو ملیں گے انہیں نصوص کلیہ کی بناء پر ہمارے رسول (ص) کے اموال اور ترکے کو ان کے وارثوں کی طرف منتقل ہونا چاہیئے، البتہ اس قانون توارث کے عموم اور کلیت میں کسی قسم کا شک نہیں کرنا چاہیئے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا کوئی قطعی دلیل ہے جو پیغمبروں کو اس کلی اور عمومی قانون وراثت سے خارج اور مستثنی قرار دے رہا ہے ؟
جناب ابوبکر کی حدیث

حضرت زہراء (ع) کے مقابلے میں جناب ابوبکر دعوی کرتے تھے کہ تمام پیغمبر (ص) وراثت کے کلی قوانین سے مستثنی اور خارج ہیں اور وہ میراث نہیں چھوڑتے اپنے اس ادعا کے لئے جناب ابوبکر نے ایک حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس کے راوی خود آپ ہیں اور یہ روایت کتابوں میں مختلف عبارات سے نقل ہوئی ہے:
“قال ابوبکر لفاطمة فانی سمعت رسول الله یقول انا معاشر الانبیاء لانورث ذهبا و لا فضّة و لا ارضا و لا دار او لکنا نورث الایمان و الحکمة و العلم و السنة فقد عملت بما امرنی و نصحت له ” (52)
یعنی ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) سے کہا کہ میں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہم پیغمبر (ص) سونا، چاندی، زمین، مکان ارث میں نہیں چھوڑتے ہمارا ارث ایمان، حکمت، دانش، شریعت ہوا کرتا ہے میں رسول خدا (ص) کے دستور پر عمل کرتا ہوں اور ان کی مصلحت کے مطابق عمل کرتا ہوں_
دوسری جگہ روایت اس طرح ہے کہ جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا کہ آپ ان سے رسول خدا (ص) کی میراث طلب کرتی تھیں اور آپ وہ چیزیں طلب کرتی تھیں جو رسول اللہ نے مدینہ میں چھوڑی تھیں_
اور فدک اور جو خیبر کا خمس بچا ہوا تھا، جناب ابوبکر نے کہا رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو چھوڑجاتے ہیں وہ صدقہ (یعنی وقف) ہوتا ہے، آل محمد(ص) تو اس سے صرف کھاسکتے ہیں (54)_
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر سے گفتگو کی تو جناب ابوبکر رودیئےور کہا کہ اے دختر رسول اللہ (ص) آپ کے والد نے نہ دینا اور نہ درہم چھوڑا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے (55)_
ایک اور حدیث یوں ہے کہ جناب ام ہانی کہتی ہیں کہ جناب فاطمہ نے جناب ابوبکر سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا اس نے جواب دیا کہ میری اولاد اور اہل، آپ نے فرمایا پھر تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو رسول اللہ کا وارث بن بیٹھا ہے اور ہم نہیں؟ اس نے کہا اے دختر رسول (ص) آپ کے والد نے گھر، مال اور سونا اور چاندی وراثت میں نہیں چھوڑی، جب جناب فاطمہ (ع) نے کہا کہ ہمارا وہ حصہ جو اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے اور ہمارا فئی تمہارے ہاتھ میں ہے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے کہ یہ ایک طعمہ ہے کہ جس سے اللہ نے ہم اہلبیت کو کھانے کے لئے دیا ہے، جب میں مرجاؤں تو یہ مسلمانوں کے لئے ہوجائے گا (56)_
ایک اور روایت یوں ہے کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ میری میراث رسول اللہ (ص) سے جو بنتی ہے وہ مجھے دو_ جناب ابوبکر نے کہا کہ انبیاء ارث نہیں چھوڑتے جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ (یعنی وقف) ہوتا ہے (57)_
جناب ابوبکر نے اس قسم کی حدیث سے استدلال کر کے جناب فاطمہ (ع) کو والد کی میراث سے محروم کردیا لیکن یہ حدیث کئی لحاظ سے حجت نہیں کہ جس سے استدلال کیا جاسکے_
قرآن کی مخالفت

 یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے کیونکہ قرآن میں تصریح کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے مردوں کی طرح میراث چھوڑتے ہیں اور جیسا کہ آئمہ طاہرین نے فرمایا ہے کہ جو حدیث قرآن کی مخالف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی اسے دیوار پر دے مارو، ان آیات میں سے کہ جو انبیاء کے ارث چھوڑنے کو بتلاتی ہیں ایک یہ ہے:
“ذکر رحمة ربک عبده ذکر یا اذ نادی ربه خفیا خفیا ” تا ” فهب لی من لدنک ولیاً یرثنی و یرث من آل یعقوب و اجعله رب رضیاً ” (58)_
لکھا ہے کہ جناب زکریا کے چچازاد بھائی بہت برے لوگ تھے اگر جناب زکریا کے فرزند پیدا نہ ہوتا تو آپ کا تمام مال چچازاد بھائیوں کو ملنا آپ کو ڈر تھا کہ میری میراث چچازاد بھائیوں کو مل گئی تو اس مال کو برائیوں اور گناہ پر خرچ کریں گے اسی لئے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ خدایا مجھے اپنے وارث چچازاد بھائیوں سے خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے، خداوندا مجھے ایک فرزند عطا فرما جو میرا وارث بنے، خداوند عالم نے آنجناب کی دعا قبول فرمائی اور خدا نے جناب یحیی کو انہیں عطا کیا_ اس آیت سے اچھی واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرف میراث چھوڑتے ہیں ورنہ حضرت زکریا کی دعا اور خواہش بے معنی ہوتی_
یہاں یہ کہا گیا ہے کہ شاید جناب زکریا کی وراثت علم و دانش ہو نہ مال و ثروت، اور انہوں نے اللہ تعالی سے خواہش کی ہو کہ انہیں فرزند عنایت فرمائے کہ جو ان کے علوم کا وارث ہو اور دین کی ترویج کی کوشش کرے، لیکن تھوڑاسا غور کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ احتمال درست نہیں ہے اس لئے کہ وراثت کا لفظ مال کی وراثت میں ظہور رکھتا ہے نہ علم کی وراثت میں اور جب تک اس کے خلاف کوئی قرینہ موجود نہ ہو اسے وراثت مال پر ہی محمول کیا جائے گا_ دوسرے اگر تو وراثت سے مراد مال کی وراثت ہو تو جناب زکریا کا خوف یا محل ہے اور اگر مراد وراثت سے علمی وراثت ہو تو پھر اس آیت کے معنی کسی طرح درست نہیں قرار پاتے کیوں کہ اگر مراد علمی وراثت سے علمی کتابیں ہیں تو یہ در حقیقت مالی وراثت ہوجائے گی اس لئے کہ کتابوں کا شمار اموال میں ہوتا ہے نہ علم میں اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت زکریا کو اس کا خوف تھا کہ علوم اور معارف اور قوانین شریعت ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھ میں چلے گئے تو وہ اس سے غلط فائدہ اٹھائیں گے تو بھی جناب زکریا کا یہ خوف درست نہ تھا کیوں کہ جناب زکریا کا وظیفہ یہ تھا کہ
قوانین اور احکام شریعت کو عام لوگوں کے سپرد کریں اور ان کے چچازاد بھائی بھی عموم ملّت میں شامل ہوں گے اور پھر اگر جناب زکریا کے فرزند بھی ہوجاتا تب بھی آپ کے چچازاد بھائی قوانین کے عالم ہونے کی وجہ سے غلط فائدہ ا ٹھا سکتے تھے اور اگر جناب زکریا کو اس کا خوف تھا کہ وہ مخصوص علوم جو انبیاء کے ہوتے ہیں وہ ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں اور وہ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں تو بھی آنجناب کا یہ خوف بلا وجہ تھا کیون کہ وہ مخصوص علوم آپ ہی کے اختیار میں تھے اور بات آپ کی قدرت میں تھی کہ ان علوم کی اپنے چچازاد بھائیوں کو اطلاع ہی نہ کریں تا کہ وہ اسرار آپ ہی کے پاس محفوظ رہیں اور آپ جانتے تھے کہ خداوند عالم نبوت کے علوم کا مالک بدکار لوگوں کو نہیں بتاتا_ بہرحال وراثت سے علمی وراثت مراد ہو تو جناب زکریا کا خوف اور ڈر معقول نہ ہوتا اور بلاوجہ ہوتا_
ممکن ہے یہاں کوئی یہ کہے کہ جناب زکریا کو خوف اور ڈر اس وجہ سے تھا کہ آپ کے چچازاد بھائی برے آدمی اور خدا کے دین اور دیانت کے دشمن تھے آپ کے بعد اس کے دین کو بدلنے کے درپے ہوتے اور آپ کی زحمات کو ختم کر کے رکھ دیتے لہذا جناب زکریا نے خدا سے دعا کی کہ مجھے ایک ایسا فرزند عنایت فرما کہ جو مقام نبوت تک پہنچے اور خدا کے دین کے لئے کوشش کرے اور اسے باقی رکھے پس اس آیت میں وراثت سے مراد علم اورحکمت کی وراثت ہوگی نہ مال اور ثروت کی_
لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خدا کبھی بھی زمین کو پیغمبر یا امام کے وجود سے خالی نہیں رکھتا، لہذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ جناب زکریا کو اس جہت سے خوف اور ڈر تھا کہ شاید خداوند عالم
دین اور شریعت کو بغیر کسی حامی کے چھوڑ دے اور اگر جناب زکریا ایسا فرزند چاہتے تھے کہ جو پیغمبر اور دین کا حامی ہو تو آپ کو اس طرح نہ کہنا چاہیئے کہ خدایا مجھے ایسا فرزند عنایت فرما جو میری وراثت کے مالک ہو اور اسے صالح قرار دے_ بلکہ ان کو اس صورت میں اس طرح دعا کرنی چاہیئے تھی کہ خدایا مجھے خوف ہے کہ میرے بعد دین کی اساس کو ختم کردیا جائے گا میں تجھ سے تمنا کرتا ہوں کہ میرے بعد دین کی حمایت کے لئے ایک پیغمبر بھیجنا اور میں دوست رکھتا ہوں کہ وہ پیغمبر میری اولاد سے ہو اور مجھے ایک فرزند عنایت فرما جو پیغمبر ہو اور پھر اگر میراث سے مراد علم کی میراث ہو تو پھر دعا میں اس جملے کی کیا ضرورت تھی خدا اسے محبوب اور پسندیدہ قرار دے کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خداوند عالم غیر صالح اور غیر اہل افراد کو پیغمبری کے لئے منتخب نہیں کرے گا تو پھر اس جملے
”خدایا میرے فرزند کو پسندیدہ اور صالح قرار دے” کی ضرورت ہی نہ تھی_ اس پوری گفتگو سے یہ مطلب واضح ہوگیا ہ کہ جناب یحیی کی میراث جناب زکریا سے مال کی میراث تھی نہ کہ علم کی اور یہی آیت اس مطلب پر کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح میراث لینے ہیں اور میراث چھوڑتے ہیں بہت اچھی طرح دلالت کر رہی ہے لہذا جو حدیث ابوبکر نے اپنے استدلال کے لئے بیان کی وہ قرآن کے مخالف ہوگی اور حدیث شناسی کے علم میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ جو حدیث قرآن مجید کے مخالف ہو وہ قابل قبول نہیں ہوا کرتی اور اسے دیوار پر دے مارنا چاہیئے اسی لئے تو جناب زہراء (ع) نے ”جو قوانین اور احکام شریعت اور حدیث شناسی اور تفسیر قرآن کو اپنے والد اور شوہر سے حاصل کرچکی تھیں” اس حدیث کے رد کرنے کے لئے اسی سابقہ آیت کو اس کے مقابلے میں پڑھا اور بتلایا کہ یہ حدیث اس آیت کی مخالف ہے کہ جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا_
ایک اور آیت کہ جس سے استدلال کیا گیا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی میراث لیتے ور میراث چھوڑتے ہیں یہ آیت ہے ”و ورث سلیمان داؤد” (59)_
اس آیت میں خداوند عالم___ سلیمان کے بارے میں فرماتے ہے کہ آپ جناب داؤد کے وارث ہوئے اور کلمہ وارث کا ظہور مال کی وراثت میں ہے جب تک اس کے خلاف کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو تب تک اس سے مراد مال کی وراثت ہی ہوگی_ اسی لئے تو حضرت زہراء (ع) نے ابوبکر کے مقابلے میں اس آیت سے استدلال کیا جب کہ حضرت زہراء (ع) قرآن کے نازل ہونے والے گھر میں تربیت پاچکی تھی_
ایک اشکال

اگر جناب ابوبکر کی نقل شدہ حدیث صحیح ہوتی تو ضروری تھا کہ رسول خدا(ص) کے تمام اموال کو لے لیا جاتا لہذا وارثوں کو آپ کے لباس، زرہ، تلوار، سواری کے حیوانات، دودھ دینے والے حیوانات، گھر کے اساس سے بھی محروم کردیا جاتا اور انہیں بھی بیت المال کا جزو قرار دے دیا جاتا حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ جناب رسول خدا (ص) کے اس قسم کے اموال ان کے وارثوں کے پاس ہی رہے اور کوئی تاریخ بھی گواہی نہیں دیتی اور کسی مورخ نے نہیں لکھا کہ جناب ابوبکر نے رسول خدا (ص) کا لباس، تلوار، زرہ، فرش، برتن و غیرہ اموال عمومی میں شامل کر کے ضبط کر لئے ہوں بلکہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ آپ کے مکان کے کمرے آپ کی بیویوں کے پاس ہی رہے اور اس کے علاوہ جو باقی مذکورہ
مال تھا آپ کے ورثاء میں تقسیم کردیا گیا_ یہ بات بھی ایک دلیل ہے کہ جناب ابوبکر کی حدیث ضعیف تھی اور معلوم ہوتا ہے کہ خود جناب ابوبکر کو بھی اپنی بیان کردہ حدیث کے متعلق اعتبار نہ تھا کیونکہ اگر وہ حدیث ان کے نزدیک درست ہوتی تو پھر رسول خدا (ص) کے اموال میں فرق نہ کرتے_
جب کہ جناب ابوبکر مدعی تھے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ میں میراث نہیں چھوڑتا میرا مال صدقہ ہوتا ہے اسی لئے تو پیغمبر(ص) کی بیٹی اور اسلام کی مثالی خاتون کو رنجیدہ خاطر بھی کردیا تو پھر کیوں پیغمبر (ص) کے حجروں کو آپ کی ازواج سے واپس نہ لیا؟ اور پھر کیوں دوسرے مذکورہ اموال کا مطالبہ نہ کیا ؟
ایک اور اشکال

 اگر یہ بات درست ہوتی کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے تو ضروری تھا کہ پیغمبر(ص) اس مسئلے کو حضرت زہراء (ع) اور حضرت علی (ع) سے ضرور بیان فرماتے اور فرماتے کہ میرا مال اور جو کچھ چھوڑ جاؤں یہ عمومی صدقہ ہوگا اور وراثت کے عنوان سے تمہیں نہیں مل سکتا خبردار میرے بعد میراث کا مطالبہ نہ کرنا اور اختلاف اور نزاع کا سبب نہ بننا_ کیا رسول خدا(ص) کو علم نہ تھا کہ وراثت کے کلی قانون اور عمومی قاعدے کے ماتحت میرے وارث میرے مال کو تقسیم کرنا چاہیں گے اور ان کے درمیان اور خلیفہ وقت کے درمیان نزاع اور جھگڑا رونما ہوجائے گا؟ یا رسول اللہ (ص) کو اس بات کا علم نہ تھا لیکن آپ نے احکام کی تبلیغ میں کوتاہی کی ہوگی؟ ہم تو اس قسم کی بات پیغمبر(ص) کے حق میں باور نہیں کرسکتے_
بعض نے کہا ہے کہ رسول خدا(ص) پر اپنے ورثاء کو یہ مطلب بیان کرنا ضروری
نہ تھا بلکہ صرف اتنا کافی تھا کہ اس مسئلے کو اپنے خلیفہ جناب ابوبکر جو مسلمانوں کے امام تھے بتلادیں اور خلیفہ پر ضروری ہے کہ وہ احکام الہی کو نافذ کرے چنانچہ پیغمبر(ص) نے جناب ابوبکر کو یہ مسئلہ بتلادیا تھا لیکن یہ فرمائشے بھی درست معلوم نہیں ہوتی ___ اوّل تو یہ کہ جناب ابوبکر پیغمبر(ص) کے زمانے میں آپ کے خلیفہ معین نہیں ہوئے تھے کہ کہا جاسکے کہ پیغمبر(ص) نے انہیں اس کا حکم اور دستور دے دیا تھا دوسرے میراث کے مسئلہ کا تعلق پہلے اور بالذات آپ کے ورثاء سے تھا انہیں وراثت میں اپنا وظیفہ معلوم ہونا چاہیئے تھا تا کہ حق کے خلاف میراث کا مطالبہ نہ کریں اور امت میں اختلاف اور جدائی کے اسباب فراہم نہ کریں_
آیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی (ع) جو مدینہ علم کا دروازہ اور جناب فاطمہ (ع) جو نبوت اور ولایت کے گھر کی تربیت یافتہ تھیں ایک اس قسم کے مہم مسئلے سے کہ جس کا تعلق ان کی ذات سے تھا بے خبر تھیں، لیکن جناب ابوبکر کہ جو بعض اوقات عام اور عادی مسائل کو بھی نہ جانتے تھے اس وراثت کے مسئلے کا حکم جانتے ہوں؟ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) اس مسئلے کا حکم تو جانتی تھیں لیکن اپنی عصمت اور طہارت کے باوجود اپنے والد کے دستور اور حکم کے خلاف جناب ابوبکر سے میراث کا مطالبہ کر رہی تھیں؟ کیا حضرت علی (ع) کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ مسئلہ تو جانتے تھے لیکن اس مقام زہد اور تقوی اور عصمت و طہارت کے باوجود اور اس کے باوجود کہ آپ ہمیشہ قوانین اسلام کے اجراء میں بہت زیادہ علاقمندی ظاہر کرتے تھے پھر بھی اپنی بیوی کو پیغمبر(ص) کے بیان کردہ مسئلہ کے خلاف اجازت دے رہے ہیں کہ وہ جائیں اور وراثت کا جناب ابوبکر سے مطالبہ کریں اور پھر مسجد میں وہ مفصل عوام الناس کے سامنے خطاب کریں؟ ہم گمان نہیں کرتے کہ کوئی بھی با انصاف انسان اس قسم کے مطالب کا یقین کرے گا_
ایک اور اشکال

جناب ابوبکر نے مرتے وقت وصیت کی کہ اسے پیغمبر(ص) کے حجرے میں دفن کیا جائے اور اس بارے میں اپنی بیٹی جناب عائشےہ سے اجازت لی؟ اگر وہ حدیث جو پیغمبر(ص) کی وراثت کی نفی کرتی ہو درست ہو تو پیغمبر(ص) کا یہ حجرہ مسلمانوں کا عمومی مال ہوگا تو پھر جناب ابوبکر کو تمام مسلمانوں سے دفن کی اجازت لینا چاہیئے تھی؟
تنبیہہ

جو اموال پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تصرف اور قبضے میں تھے وہ دو قسم کے تھے_
پہلی قسم :

 یہ وہ مال تھا کہ جس کا تعلق ملت اسلامی سے ہوتا ہے اور بیت المال کا عمومی مال شمار ہوتا ہے جس کو یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ یہ حکومت کا مال ہے رسول خدا(ص) چونکہ مسلمانوں کے حاکم تھے آپ اس قسم کے مال میں تصرف کیا کرتے تھے اور اسے تمام مسلمانوں کے مصالح اور مفاد کے لئے خرچ کیا کرتے تھے ایسا مال نبوت اور امامت اور حکومت اسلامی کا مال ہوتا ہے ایسے مال ہیں قانون وراثت جاری نہیں ہوتا بلکہ اس منصب دار کی موت کے بعد اس کے جانشین شرعی کی طرف بطور منصب منتقل ہوجاتا ہے_
حضرت زہراء (ع) نے اس قسم کے اموال میں وراثت کا مطالبہ نہیں کیا تھا اور اگر کبھی آپ نے اس قسم کے مال میں بطور اشارہ بھی مطالبہ کیا ہو تو وہ اس لئے تھ
کہ آپ جناب ابوبکر کی حکوت کو قانونی اور رسمی حکومت تسلیم نہیں کرتی تھیں بلکہ اپنے شوہر حضرت علی (ع) کو قانونی اور شرعی خلیفہ جانتی تھیں تو گویا آپ اس قسم کے مال کا مطالبہ کر کے اپنے شوہر کی خلافت کا دفاع کرتی تھیں اور جناب ابوبکر کی حدیث کو اگر بالفرض تسلیم بھی کرلیں تو وہ بھی اس قسم کے مال کی وراثت کی نفی کر رہی ہے نہ پیغمبر(ص) کے ہر قسم کے مال کو شامل ہے_
دوسری قسم:

 وہ مال تھا جو آپ کا شخصی اور ذاتی مال تھا کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) بھی تو انسانوں کے افراد میں سے ایک فرد تھے کہ جنہیں مالکیت کا حق تھا آپ بھی کسب اور تجارت اور دوسرے جائز ذرائع سے مال کمانے تھے ایسا مال آپ کی شخصی ملکیت ہوجاتا تھا، ایسے مال پر ملکیت کے تمام قوانین اور احکام یہاں تک کہ وراثت کے قوانین بھی مرتب ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں آپ بلاشک اور تردید اس قسم کے اموال رکھتے تھے اور آپ کو بھی غنیمت میں سے حصہ ملتا تھا اس قسم کے مال میں رسول خدا(ص) اور دوسرے مسلمان برابر اور مساوی ہیں اس پر اسلام کے تمام احکام یہاں تک کہ وراثت کے احکام بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح مرتب ہوتے ہیں_ جناب زہراء (ع) نے ایسے اموال کی وراثت کا جناب ابوبکر سے مطالبہ کیا تھا_
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے کسی کو جناب ابوبکر کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ تم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وارث ہو یا ان کے اہلبیت؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ ان کے اہلبیت_ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا پس رسول خدا(ص) کا حصہ کہاں گیا (60)_
اس قسم کے مال میں جناب رسول خدا(ص) کو جناب ابوبکر کے ساتھ کوئی فرق نہ تھا، جناب ابوبکر باوجودیکہ اپنے آپ کو رسول خدا(ص) کا خلیفہ جانتے تھے وہ بھی اپنے شخصی اموال میں تصرف کیا کرتے تھے اور اسے اپنے بعد اپنے وارثوںکی ملک جانتے تھے پس ابوبکر پر ضروری تھا کہ رسول خدا (ص) کے شخصی مال کو بھی آپ کے وارثوں کی ملک جانتے؟ اسی لئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا تھا کہ تیری بیٹیاں تو تم سے وراثت لیں لیکن رسول خدا(ص) کی بیٹی اپنے باپ سے وراثت نہ لے؟ جناب ابوبکر نے بھی جواب دیا کہ ہاں ایسا ہی ہے یعنی ان کی بیٹی اپنے باپ سے وراثت نہ لے (61)_

ختم شد
الحمدلله علی اتمامه و صلی الله علی محمد و آله
حوالاجات

(1) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 217_
(2) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 219_
(3) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 231_
(4) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 231_
(5) مناقب شہر ابن آشوب، ج 1 ص 168 _ کشف الغمہ، ج 2 ص 122_
(6) کشف الغمہ، ج 2 ص 122_
(7) سورہ احزاب آیت 33_
(8) سورہ حشر آیت 6_
(9) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 217
(10) فتوح البلدان، ص 21_
(11) فتوح البلدان، ص 34_
(13) ، (12) فتوح البلدان، ص 27
(14) کشف الغمہ، ج 2 ص 102_ در منثور، ج 4 ص 177_
(16)(،15) کشف الغمہ ج 2 ص 102_
(18)، (17) تفسیر عیاشی ج 2 ص 270_
(19) تفسیر عیاشی، ج 2 ص 287_
(20) در منثور، ج 4 ص 177_
(21) تفسیر المیزان تالیف استاد بزرگ علامہ طباطبائی ج 13 ص 2_
(22) بحار الانوار، ج 96 ص 213_
(23) کشف الغمہ، ج 2 ص 102_
(24) فتوح البلدان، ص 44_
(25) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 263_
(26) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 216_
(27) فتوح البلدان، ص 44_
(28) شرح ابن ابی الحدید، ص 16 ص 274
(29) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 214_
(30) نہج البلاغہ باب المختار من الکتاب، کتاب 45_
(31) نورالثقلین، ج 4 ص 272_
(32) فتوح البلدان، ص 46_
(33) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 214_
(34) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 216_
(35) مجمع الزوائد، ج 3 ص 202 _
(36) فتوح البلدان، ص 31_
(37) فتوح البلدان، ص 34_
(38) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 216
(39) بحار الانوار، ج 20 ص 173_
(40) فتوح البلدان، ص 31_ سیرة ابن ہشام، ج 2 ص 5 16_
(41) بحار الانوار، ج 22 ص 296_
(42) بحار الانوار، ج 22 ص 266_
(43) بحار الانوار، ج 22 ص 297_
(44) بحار الانوار، ج 42 ص 300_
(45) سورہ انفال آیت 41_
(46) سیرہ ابن ہشام، ج 3 ص 365، ص 371_
(47) فتوح البلدان، ص 26 تا 42_
(48) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 231_
(49) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 131_
(50) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 230_
(51) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 214_
(52) سورہ نساء آیت 11_
(53) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 214_
(54) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 117_
(55)شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 116_
(56) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 118_
(57) کشف الغمہ، ج 2 ص 103_
(58) سورہ مریم آیت 4_
(59) سورہ نحل آیت 16_
(60) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 219_
(61) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 219_

تبصرے
Loading...