حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا

مخدومۂ دارین سیدہ خدیجۃالکبریٰ صلوٰۃاللہ و سلامہ علیہا،، تاریخ سازخاتون تاریخ عالم کا رخ بدلنے میں جن خواتین نے اہم کردارسرانجام دیا ہے ان میں سرفہرست اور سنہری حروف سے لکھا گیا مقدس اسم گرامی ام الزہراء ،سیدہ خدیجۃالکبریٰ کا ہے۔ ام المومنین،سیدہ خدیجۃالکبریٰ عرب کی معزز ترین اور دولت مند خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ علم و فضل اور ایمان و ایقان میں بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔پیغمبر اسلام صلی ا للہ آپ کی رفاقت اور غمگساری کو آخری سانس تک نہ بھول پائے اور فرمایا کہ خدیجہ جیسی رفیقہ مجھے کوئی اور نہ ملی۔
افتخار عرب کے ہمالیہ کی دو بلند ترین چوٹیاں تھیں،ایک سید البطحاسیدنا ابو طالب اور دوسری ملیکۃالعرب سیدہ خدیجۃالکبریٰ ۔ عزت و احترام کے علاوہ سیدہ خدیجہ دولت و ثروت میں بھی اپنا نظیر نہ رکھتی تھیں۔ذرائع آمد و رفت اور وسائل نقل و حمل کے حد درجہ محدوداور غیر ترقی یافتہ ہونے کے باوجود نہ صرف عربی حدود بلکہ عرب سے باہر دیگر ممالک تک آپ کا سلسلۂ تجارت وسیع تھا۔دنیاقومیت میں محدود تھی اور آپ کی تجارت بین الاقوامی تھی۔
سیدہ خدیجہ ،عزت و احترا م ،دولت و ثروت اور علم و عرفان میں بلند منزلت اور بین الاقوامی تجارت میں تن تنہا مالک تھیں۔آپ تاریخ اسلام میں نمایاں اور مرکزی مقام رکھتی ہیں۔شرفِ زوجیت رسول اعظم سے پہلے بھی آپ تاریخ ساز شخصیت تھیں اور پورے عرب میں آپ کا کوئی مثل نہ تھا۔عرب،جہاں عورت کو پیدا ہوتے زندہ درگور کر دیا جاتا تھاوہاں ایسی عورت کا وجود جس نے تجارت میں مردوں کو گرد کارواں بنا دیا اور گھر میں بیٹھ کر تجارت کرنا اور اتنے بڑے تجارتی نظام کو ترقی دینااور عورت ہو کر مختلف دیار و امصار میں پھیلی ہوئی دولت و تجارت کی دیکھ بھال کرنا اور پھر عورت کی تضحیک کرنے والے معاشرے کے رؤساء و تاجران، امراء و سربراہان ا ور بادشاہان کے پیامہائے عقد کوانتہائی حقارت سے ٹھکرا دینا اور عرب کے پندار امارت وریاست کو چور چور کر دیناآپ کےتاریخ ساز اقدامات ہیں۔
دور جاہلیت میں بھی آپ مکارم اخلاق،صفات حمیدہ اور اعلیٰ انسانی اقدار کی مالک تھیں اور ان ایام میں بھی آپ کو طاہرہ اور سیدۂ قریش کہا جاتا تھا۔آپ کی فکر و نظر طاہر، عقل و شعور طاہر، تہذیب و تمدن طاہر، خیالات و تصورات طاہراور آپ ابتدا سے انتہا تک طاہرہ تھیں اور ہر اعتبار سے سیدۂ قریش تھیں۔
سیدناطہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایسی ہی رفیقۂ حیات شایان شان تھیں جو خود ہر اعتبار سے طاہرہ ہوں۔مزاج کی یک رنگی، خیالات کی یکجہتی،فکر و نظراور قول و فعل کی ہم آہنگی سیدہ طاہرہ اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال ازدواجی زندگی کا سنہرا باب ہے۔
آپ کے تاریخی اقدامات میں ،یتیم عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقد اور مرسل اعظم کی زوجیت میں آنے کے بعد اسلامی تاریخ کا آپ کے گرد طواف کرنا ،حضور پر سب سے پہلے ایمان لانا،سب سے پہلے نبوت کے ساتھ نماز ادا کرنا،پچیس برس مسلسل آواز وحی کو سننا،خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طیب و طاہر نسل مبارک کی امین، الکوثرفاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا کو گود میں لے کر تین سال تک شعب ابی طالب کی قید اور ساری جمع پونجی اسلام کی بنیادوں پر خرچ کردینے والی تاریخ ساز خاتون،سیدہ خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیھا ہیں۔
سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی سیرت مبارکہ پر آدمیت کو ناز ہے کہ آپ نے انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی نگہداشت فرمائی ۔ اسلام کو ناز ہے کہ انہوں نے اس وقت اسے قبول فرمایا جب کوئی اسے جاننے اورماننے کو تیار نہ تھا۔دنیا کی ہر شریف بیٹی،اطاعت گزار بیوی اور مقدس ماں کو ناز ہے کہ انہوں نے ہر دور میں عورت کی شرم و حیا،غیرت و خودداری اور پیار و محبت کے جوہر کا تحفظ کیا۔ہر دور کی بچیوں کو ناز ہے کہ ان کی گود میں وہ بچی پلی جو وقار نسواں کا عنوان بنی۔رشد و ہدایت کو ناز ہے کہ گیارہ خلفاء راشدین کی ماں ہیں۔قرآن کو ناز ہے کہ آپ کے بطن اطہر سے مفسر ملے۔کعبہ کو ناز ہے کہ تقدس کے محافظ ملے، آغوش نبوت کو ناز ہے کہ زینت ملی۔سیدنا ابو طالب کو ناز ہے کہ آپ نے پوری حیات طیبہ کو اللہ کی رضا کا آئینہ دار بنا دیا۔
آپ روزانہ ہزاروں درہم غرباء و مساکین میں تقسیم فرماتی تھیں۔آپ کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، تواتر سے غرباء و مساکین کی امداد کرتے اور فرمایا کرتے،’’خدیجہ نے مجھے ان لوگوں سے حسن سلوک کرتے رہنے کی وصیت کی تھی‘‘۔

خاندان:
عرب کی مایہ ناز شہزادی،مومنین کی قابل احترام واکرام ماں،سادات عظام کی لائق صد افتخارجدہ ماجدہ،عرب کے مشہور شہرمکہ کے ایک معزز،باوقاراور علمی خانوادہ میں عام الفیل سے تین سال قبل، 567ء میں تشریف لائیں۔آپ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین سال کبیر السن تھیں۔
عرب کے نجس معاشرے میں جو چند گھرانے عزت و شرافت کی باوقار زندگی بسر کر رہے تھے اور بت پرستی و شرک سے دور رہ کر ادیان الٰہی کے پیروکار تھے انہیں میں ایک محترم گھرانہ،جناب خویلد کا بھی تھا جو تین پشتوں بعد چوتھی پشت میں خاندان نبی ء اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ شرافت و کرامت،خیر و برکت،فضل و شرف اور امارت و سیادت میں یہ خاندان پورے عرب میں معروف تھااوربنی ہاشم کے بعد عرب کا قابل ذکر خاندان تھا۔خاندان خویلد ہر دور میں اجداد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیتا رہا اور سیدہ خدیجہ کے والدحضرت خویلد ہمیشہ ہر محاذ پراجداد مرسل اعظم کے ساتھ رہے۔حضرت خویلد کی اعانت ہمیشہ بنی عبد مناف کے حق میں سودمند ثابت ہوئی۔حضرت خویلد اپنے خاندان کے ممتازسرداراور نمایاں خصوصیات کے حامل تھے۔آپ کے دو بھائی نوفل و عمروْبھی سردار تھے جن کی سرداری پر قبیلہ بنی اسد کو ناز تھا۔ ان دونوں رئیس و سردار بھائیوں کی وجہ سے حضرت خویلد کے بازو بیحد مضبوط ہو گئے اور ان تین سرداروں کی موجودگی میں بنی عبد مناف ،اجداد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کسی کا آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی محال تھا۔

خدیجہ الکبریٰ:
خدیجہ،خدج کے مادہ میں ہے۔عربی زبان میں خدیج اس بچے کو کہتے ہیں جومدت مقررہ سے قبل پیدا ہو جائے۔ تذکیر کو خدیج اور تانیث کوخدیجہ کہتے ہیں۔سیدہ طاہرہ پانچ ماہ شکم مادر میں رہیں اور چھٹے ماہ کے پہلے دن دنیا میں جلوہ افروز ہو گئیں۔اس باعث والدبزرگوار نے آپ کو خدیجہ کہا اور ہر عمل و فعل اور سیرت وکردار میں بلندی و برتری اورعظیم الشان بزرگی کے باعث’’ خدیجہ الکبریٰ ‘‘ معروف ہوئیں۔

 نسب نامہ:
آپ سیدہ خدیجہ بنت خویلدبن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی ہیں۔آپ کی والدہ معظمہ فاطمہ بنت زائد بن الاصم بن ہرم بن رواحہ بن حجر بن عبد بن معیص بن عامربن لوئی ہیں۔اسطرح آپ پدری سلسلہ میں چوتھی اور مادری سلسلہ میں آٹھویں پشت میں نسب نامہ ء فخر موجودات میں شریک ہو جاتی ہیں۔ آپ کی والدۂ معظمہ کا سایہ بچپن ہی میں اٹھ گیا اور حرب الفجار کے روز والد بھی انتقال فرما گئے۔ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے باوجودسیدہ خدیجہ طاہرہ،خاندانی شرافت اور فطری غیرت و حمیت کے گہوارہ میں تربیت پا کر اس طرح پروان چڑھیں کہ لسان وما ینطق نے فرمایا، ’’عالم کی تمام عورتوں میں سب سے بہترچار عورتیں ہیں،مریم بنت عمران،آسیہ بنت مزاحم زن فرعون،خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ‘‘۔آپ محاسن کرداراور مکارم اخلاق کے تمام زیورات سے سر تاپا آراستہ و پیراستہ تھیں۔

تجارت:
 ماں باپ کے ترکہ سے ملنے والی دولت کو آپ نے تجارت میں لگایا۔پہلے یہ مال تجارت مکہ کے بازار سے آگے ذوالمخبہ،ذوالمجازاور عکاظ کے بازاروں اور میلوں میں جاتا تھاجومکہ کے اطراف و جوانب میں لگتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجارت کے کاروبار میں وسعت پیدا ہوتی گئی یہاں تک کہ آپ کا مال تجارت شام،لبنان ،فلسطین اور اس وقت کی عظیم تجارتی منڈیوں میں بھی جانے لگا۔اپنی عالی دماغی،خوش فکری، عقلمندی،خداداد فہم و فراست، حزم و احتیاط اور تدبر و تفکر سے سیدہ خدیجہ طاہرہ ،مکہ کی امیر ترین خاتون بن گئیں اور پھر نہ صرف مکہ بلکہ جزیرہ نمائے عرب کا کوئی شخص ،مال و دولت میں ان کا مدمقابل نہ رہا۔نہ فضل و شرف میں کوئی ثانی تھا نہ دولت و ثروت میں ۔سخت پردہ میں رہتے ہوئے بھی آپ نے بے مثال تجارت قائم کی اور اپنی خداداد صلاحیت واستعداد کی بنا پر اتنا بڑا تجارتی نظام قائم کیا کہ جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔اَسّی ہزار اونٹ ،ہزار غلام ،ہزار کنیزیں اور ان اونٹوں کی خوراک و ادویات کوٹنے کے لئے سونے چاندی کے دستے،ثروت خدیجہ کا ایسا رخ ہیں جن کی مثل پیش کرنے سے مؤرخین قاصر ہیں۔
طبقات ابن سعد کے الفاظ ہیں،’’جناب خدیجہ ،بے حد صاحب شرافت اور بے پناہ مال کی مالک تاجرہ تھیں۔ان کا مال ملک شام تک جایا کرتا تھا۔پورے رؤسائے قریش کا جتنا مال تجارت ہوا کرتا تھااتنا مال تجارت تنہا جناب خدیجہ کا ہوا کرتا تھا۔ا۔آپ لوگوں سے اجرت پر کام لیا کرتی تھیں اور شرکت منافع پر مال دیا کرتی تھیں‘‘۔ یہی الفاظ ابن ہشام،طبری،صاحب اصابہ،تاریخ خمیس اور فصول المہمہ کے بھی ہیں۔ تمام مؤرخین اسلام نے آپ کی پاکیزگیء نسب،پختگیء شعوراور کمال عقل کا بیک زبان اعتراف کیا ہے اور سب کو تسلیم ہے کہ آپ صائب رائے، صحیح الفکر،عالی ظرف،وسیع النظر،بلند کردار،باوقاراور قابل رشک و اتباع سیرت مبارکہ رکھنے والی خاتون تھیں۔

علمی مذاکرے:
 عزت و دولت کی مالک خدیجہ علم و عرفان کی زندگی بسر فرما رہی تھیں۔ دنیا جہالت و جاہلیت کے اندھیروں میں تھی اور کتب سماوی اور علوم لدنی کے درمیان سیدہ خدیجہ کی شمع حیات روشن تھی۔آپ علمی مباحثہ فرمایا کرتی تھیں اور جید علما ء کتب آسمانی اور احبار یہود سے آپ کے علمی مباحث جاری رہتے تھے۔آپ کے خاندان کو صرف سیادت و سروری ہی کا فخر حاصل نہیں تھا بلکہ اس خاندان میں زمانۂ قدیم سے علم بھی خیمہ زن تھا۔ورقہ بن نوفل کی شخصیت ،غیر معروف نہیں ہے ۔آپ،سیدہ خدیجہ طاہرہ کے چچا ذاد بھائی تھے اور کتب سماوی کے جید عالم تھے۔ ان کے ساتھ علمی مذاکرے،آسمانی کتابوں کے تذکرے اور صحف انبیاء کے چرچے ہوتے رہتے تھے۔آپ کی تلاش و جستجو، حقیقت کی دریافت کا شوق اور مسلسل تگ ودو اور غور و فکر کی نورانی تڑپ صفحات تاریخ میں بکھری نظر آتی ہے۔

مشیت ایزدی:
 مشیت الٰہی بھی قدم قدم پر آپ کی تلاش و جستجواور ذوق تحقیق کو سہارا دیتی رہی۔ایک دفعہ آپ کچھ سہیلیوں کے ساتھ ایک مقام پر تشریف فرما تھیں۔یکایک ایک شخص یہ کہتا ہوا گزرا،’’مکہ کی عورتو! تمہارے شہر میں ایک نبی مبعوث بہ رسالت ہونے والا ہے جس کا نام احمد ہو گا۔تم میں سے جس کی قسمت یاوری کرے اس کو چاہیئے کہ وہ اس کی رفیقۂ حیات بن جائے‘‘۔اس منادی کے بعد کچھ لڑکیاں زیر لب مسکرا کر رہ گئیں،کچھ نے اسے برا بھلا کہا اور کچھ نے اس پر کنکریاں پھینکیں لیکن شہزادیء عرب کی سنجیدگی و متانت میں تہ در تہ اضافہ ہو گیا اور وہ غور و فکرکے گہرے سمندر میں کھو گئیں۔
شہزادیء عرب نے ایک رات خواب دیکھاکہ،’’ میرے گھر میں سورج اترا ہے اور اس کی روشنی سے مکہ کے تمام گھر اور در و دیوار جگمگا اٹھے‘‘ ۔حسب دستور اٹھیں اور انتہائی مسرت و عقیدت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سیدھی ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں اور اپنا خواب بیان کر کے تعبیر پوچھی۔ورقہ بن نوفل نے تعبیر بتائی کہ آپ کا عقد ایسے شخص سے ہو گا جس کو اللہ رب العزت نبوت و رسالت کے عہدۂ جلیلہ سے سرفراز فرمائے گا۔ خواب کی اس تعبیر نے شہزادی کے عزم و ارادے کو مزید تقویت بخشی اور آپ کو یقین واثق ہو گیاکہ خاتم النبیین کی زوجیت کا شرف انہیں کا مقدر ہے اور اسی یقین کی بنا پر آپ رؤساء و بادشاہان عرب کے تمام پیغامات عقد ،پائے حقارت سے ٹھکراتی رہیں۔ آپ کی دور رس نگاہیں ماورائے مادیات اور روحانیت کی بلندیوں پر تھیں۔
عباس محمود العقاد لکھتے ہیں،’’اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص منشاء اور تصرف کے تحت خدیجہ جیسی پاکباز اور غمگسار خاتون کو آپ کے لئے منتخب فرمایا‘‘۔سیدہ طاہرہ کا طرز عمل ثابت کرتا ہے کہ آپ ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کسی کو بھی اپنا ہمسر قرار دینے پر رضامند نہیں تھیں۔ ارشاد نبوی ہے ، ’’اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو نہ تھا‘‘اسی طرح ’’اگر سید المرسلین نہ ہوتے تو خدیجہ طاہرہ کا بھی کفو ممکن نہ تھا‘‘۔

کنیز مصطفٰی :
 آمنہ کے لال نے سن دنیا کے پچیسویں برس میں قدم رکھا۔ شفیق چچا سیدنا ابو طالب کی دلی تمناتھی کہ میرے عزیز بھتیجے کا گھر آباد ہو جائے۔جہاں دیدہ سردار بطحا کی ایمانی نگاہیں ،سیدہ طاہرہ،ملیکۃ العرب کے علاوہ کسی کو پسند نہ فرماتیں۔ سیدہ طاہرہ اٹھائیسویں برس میں تھیں۔ شام کے سفر تجارت سے واپسی پر دوسرے دن سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، قصر خدیجہ تشریف لے گئے۔باتوں باتوں میں سیدہ پاک نے فرمایا، ’’میرے سردار!اگر آپ کی مرضی ہو تو میں نے آپ کے لئے ایک اچھی سی عورت پسند اور منتخب کی ہے ۔وہ مکہ ہی کی ہے،آپ کی قوم سے ہے،بڑی مالدار ہے،صاحب حسن و جمال ہے اور کمالات کی بلندیوں پر فائز ہے۔بڑی عفیفہ اور بے حد سخی ہے۔حیا دار اور طاہرہ ہے۔ نسب میں وہ آپ سے بہت زیادہ قریب ہے۔اس کی وجہ سے سارے سلاطین اور رؤسائے عرب آپ سے حسد کرنے لگیں گے‘‘۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وضاحت طلب فرمائی تو بے انتہا خلوص و محبت سے فرمایا،
’’وہ کنیز یہ خدیجہ ہے۔ بخدا آپ میرے حبیب ہیں۔میں آپ کے احکام کی کبھی مخالفت نہیں کروں گی‘‘۔مرسل اعظم نے فرمایا،
’’میرے چچاکی بیٹی!تم مال دار اور صاحب ثروت و جائیداد عورت ہواورمیرے پاس تو جو تم نے دیا ہے اس کے علاوہ مال دنیا سے کچھ بھی نہیں ہے۔مجھے تو میری ہی طرح کی عورت چاہئے جس کا حال میرے ہی جیسا اور جس کے پاس مال بھی میرے ہی جتنا ہواور آپ تو ایک شہزادی ہیں۔بہتر ہے کہ آپ کا شوہر کوئی بادشاہ اور صاحب تخت و تاج ہو نہ کہ مجھ جیسا تنگدست‘‘۔ مخدومۂ دارین نے فرمایا،
’’اگر آپ کے پاس مال کم ہے تو میرے پاس بہت زیادہ ہے اور جب میں آپ کی ہو چکی تو میرا سب کچھ آپ کا ہے ۔میں،میرا مال، میرے نوکر چاکراور جو کچھ میرے پاس آپ دیکھ رہے ہیں، یہ سب کچھ آپ کا ہے‘‘۔

مشاورت اعمام:
 سید المرسلین وہاں سے اٹھے اور شفیق چچا سیدنا ابو طالب کے پاس آئے اور پوری سرگزشت بیان کی ۔ابو لہب نے شدید مخالفت کی اور سیدنا ابو طالب کو رائے دی کہ آپ ایسی غلطی ہر گز نہ کیجئے گا ،محمد کسی طرح خدیجہ کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ابو لہب کی اس رائے پر جناب عباس کو بے حد غصہ آیااور ابو لہب کو ذلیل و رزیل کہااور رائے دی کہ خدیجہ کا عندیہ معلوم کیا جائے۔سیدنا ابو طالب نے اپنی ہمشیر ہ معظمہ سیدہ صفیہ کو روانہ فرمایا۔سیدہ خدیجہ نے حضرت صفیہ کی بڑی آؤ بھگت اور عزت کی ۔انہیں خوش آمدید کہا۔جناب صفیہ جس مقصد کے لئے گئی تھیں کامیاب رہیں۔سیدہ خدیجہ نے اقرار فرمایا کہ میں نے آپ کے بھتیجے کو اپنے لئے منتخب کر لیا ہے۔جب حضرت صفیہ رخصت ہو کر چلیں تو ان کو شہزادیء عرب نے ایک خلعت فاخرہ پیش کیا۔جناب صفیہ خوش خوش آئیں اور سب کو خوشخبری سنائی اس کے بعد سیدنا ابو طالب ،ہاشمی دانشمندوں اور نوجوانوں کے ہمراہ سیدہ خدیجہ کے مکان پر آئے اور رشتہ طے ہو گیا۔

مرج البحرین یلتقیان:
 بے پناہ خوشیاں اور لازوال مسرتیں لئے صبح نور نمودار ہوئی۔خاتم الانبیاء کو جان سے بڑھ کر چاہنے والے چچا ابو طالب نے اپنے دست مبارک سے دولہا بنایا۔ نوشاہِ اسلام کوخلیل خدا کا پیراہن پہنایا گیا۔ دوش اطہرپر حضرت الیاس کی ردا ڈالی گئی ۔ سر اقدس پر سیاہ ہاشمی عمامہ سجایا گیا۔سیدناعبدالمطلب کی نعلین پائے اقدس کی زینت بنیں۔عصائے شعیب دست مبارک میں لیا۔سبز عقیق کی انگشتری ، انگشت نبوی میں سجائی گئی۔
سرداران قریش،بزرگان مکہ،دانشمندان بطحا،سادات اور نوجوانان بنی ہاشم برہنہ شمشیریں علم کئے باوقار انداز میں سرتاج انبیاء کو اپنے حلقہ میں لئے ،شہزادیء عرب کے محل کی جانب روانہ ہوئے۔ بارات نبوت پر رحمت الٰہی سایہ فگن تھی۔کہکشائیں نثار ہو رہی تھیں۔بہاریں پھول برسا رہی تھیں۔ارواح انبیاء مسرور و شادماں تھیں۔ملائکہ فرط مسرت سے جھوم رہے تھے۔ ہزارہا مسرتوں اور دعاؤں کے سایہ میں سیدالمرسلین صلی اللیہ علیہ وآلہ وسلم کے باراتی آہستہ آہستہ،سکون و اطمینان اور وقار و عظمت کے ساتھ منزل سے قریب تر ہو رہے تھے۔
ادھر شہزادیء عرب نے بے حد و حساب مومی شمعوں اور فانوسوں،زرو جواہراور مختلف رنگ کے پردوں اور فرشوں سے اپنے محل کو جنت ارضی میں تبدیل کر دیا تھا۔غلاموں اور کنیزوں کو مختلف اللون حریر و دیبا کے کپڑوں سے آراستہ کیا ،ہر ایک کو قیمتی پوشاکوں اور خلعتوں کے پہننے کا حکم دیا،کنیزوں کے سر کے بالوں کو لوء لوء و مرجان سے آراستہ کیا ،سونے کے ہار جن میں نگینے اور جواہر لگے تھے ان کو پہنائے گئے تھے۔ ام المومنین کا الٰہی و قرانی خطاب حاصل کرنے والی دلہن بہترین منقش لباس میں ملبوس تھیں۔سر اقدس پرسونے کا تاج تھا جس میں مختلف النوع موتی اور جواہر جڑے تھے اور آپ بے پناہ زیورات سے آراستہ و پیراستہ تھیں۔پائے اقدس میں انتہائی قیمتی سونے کے خلخال تھے جس میں جا بجا بے حد و بے انتہا فیروزے اور یاقوت جڑے ہوئے تھے۔
بارات جب جناب خدیجہ کے دروازے پرپہنچی تو آپ کا آستانہ بقعۂ نور بن کر آنے والے مہمانوں کا پرتپاک خیر مقدم کر رہا تھا۔ معزز مہمانوں کی ضیافت کے لئے مختلف قسم کے کھانوں ،میوہ جات اور مشروبات کا انتظام کیا گیا تھا۔بے شمار زرنگار کرسیاں بچھائی گئی تھیں۔ معزز اور باوقار سرداروں کے لئے چند کرسیاں قدرے بلندی پر رکھی گئی تھیں اور ایک بہت ہی قیمتی کرسی سب سے بلندی پر رکھی گئی تھی۔ جب کاروان سادات بنی ہاشم اور معززین شہر شہزادیء عرب کے جگمگاتے ہوئے محل کے سامنے پہنچا تو اس وقت جناب عباس و جناب حمزہ شمشیریں علم کئے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے دائیں بائیں چل رہے تھے۔ بارات پہنچی تو ابوجہل سب سے بلند کرسی کی طرف بڑھا اور وہاں بیٹھنا چاہا، سیدہ خدیجہ کے غلام میسرہ نے روکا اور وہاں نہ بیٹھنے دیا،ازراہ تکبر وہ بدبخت ،سرور کونین کی بھی تعظیم و تکریم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بات بڑھ گئی اور سیدنا حمزہ نے اٹھا کر کرسی سے زمین پر پٹخنا چاہا۔دیگر حضرات کے آنے پر معاملہ رک گیامگر تھوڑی سی ہاتھا پائی کے دوران ہی میں ابوجہل زخمی ہو چکا تھا۔
مہمانوں کا شاندار استقبال کیا گیا۔پرتکلف میو ہ جات اور مشروبات سے ان کی تواضح کی گئی ۔تھوڑی ہی دیر بعد پرسکون مجمع میں ایک آواز بلند ہوئی، ’’اللہ کی قسم !آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے بوجھ نہیں اٹھایاکسی کا جو محمد سے افضل ہو ۔اس لئے میں نے اپنی بچی کا شوہر قرار دینے اور ہمسر بنانے کے لئے ان ہی کو پسند کیا ہے، پس تم لوگ اس پر گواہ رہو‘‘۔ یہ آواز سیدہ خدیجہ کے چچا عمروْبن اسد کی تھی۔ ا س کے بعد سردار مکہ سیدنا ابوطالب خطبۂ عقد پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا،

َلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ جَعَلْنَا مِنْ ذُرِّيةِ اِبْرَاهِيْمَ وَذَرْعِ اِسْمَاعِيْلَ وَضِئضِئي مَعْدَوَ عُنْصُرِ مَضَرِِ،وَجَعَلْنَاحَضَنَةَبَيْتِهِ وَسَوَّاسَ حَرْمِهِ وَجَعَل لَنَا بَيْتًا مَحْجُؤجاَوَحَرَمًا اٰمِنَا وَجَعَلَنَا الْحُکَّامَ عَلَي النّاسِ۔ ثُمَّ اِنَّ اِبْنَ اَخِيْ هٰذَامُحَمَّدُ اِبْنُ عَبْدِ اللّٰه َا يُؤْزَنُ بِرَجُلِِ اِلَّارَجَحَ بَهِ وَاِنْ کَانَ فِيْ الْمَالِ قُلَّا وَاِنَّ الْمَالَ ظِلّ ُُُ زَائِلُُ وَاَمْرَ حَائِلُ وَمُحَمَّدُُ مَنْ قَدْ عَرَفْتُمْ فَرَابَتَهُ وَ قَدْ خَطَبَ خَدِيْجَةَ بِنْتَ خُوَيْلَدِِ۔وَ قَدْ بَذَلَ لَهَا مِنْ الصِّدَاقِِ مَاٰاَجَلَهُ مِنْ مَالِيْ اِِثْنَا عَشَرَةَ اَوْقِيَةَذَهَبَا۔ وَنَشَاءَوَ هُوَوَاللّٰهِ بَعْدَ هٰذَالَهُ نَبَائُُ عَظِيْمُ وَخَطَرُُجَلِيْلُُ جَسِيْمْ۔
’’سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم کی اولاد سے، حضرت اسماعیل کی کھیتی سے ،معد کی نسل سے اور مضر کی اصل سے پیدا فرمایا۔نیز ہمیں اپنے گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر فرمایا،ہمیں ایسا گھر دیاجس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم بخشا جہاں امن میسر آتا ہے۔نیز ہمیں لوگوں کا حکمران مقررفرمایا۔
حمد کے بعد ،میرا یہ بھتیجاجس کا اسم گرامی محمد ابن عبداللہ ہے،اس کا دنیا کے بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا تو اس کا پلڑا پھر بھی بھاری ہو گا۔اگرقلت مال ہے تو کیا ہوا،مال تو ایک ڈھلتی چھاؤں ہے ا ور بدل جانے والی چیز ہے اور محمد جس کی قرابت کو تم جانتے ہو ،اس نے خدیجہ بنت خویلد کا رشتہ طلب کیا ہے اور بارہ اوقیہ سونا مہر مقرر کیا ہے۔اور اللہ کی قسم ،مستقبل میں اس کی شان بہت بلند ہو گی،اس کی قدر ومنزلت بہت جلیل ہو گی‘‘۔
جمال الدین محدث شیرازی،شاہ سمرقندی اور دیگر مورخین نے لکھا ہے کہ سیدنا ابو طالب نے مہرمعجل میں بیس اونٹ،پانچ سو درہم،چار سو دیناراور چار سو مثقال سونا پیش کیا۔اس کے بعد عالم کتب سماوی ورقہ بن نوفل نے سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی طرف سے خطبۂ عقد پڑھا اور فضائل و کمالات بنی ہاشم کا اعتراف فرما یا اور عقد مبارک کی تقریب انجام پذیر ہوئی۔اس مبارک موقع پر جنتیں سجائی گئیں، حور و غلماں آراستہ ہوئے ،بہشتی دروازے کھول دئیے گئے ،شجرۂ طوبیٰ سے زروجواہر لٹائے گئے۔ملائکہ سجدہ ریز تھے۔زمین سے لے کر آسمان تک کی چیزوں کو زینت دی گئی اورخصوصی حکم الٰہی سے جبرائیل امین نے خانۂ کعبہ پر لواء حمد لہرایا۔پھر فضا میں آواز گونجی، ان اللہ قد زوج الطاہر بالطاہرہ والصادق بالصادقہ، اللہ نے طاہر کو طاہرہ اور صادق کو صادقہ سے بیاہ دیا۔ اسی بزم رنگ و نور کے لئے منجانب اللہ فرحت بخش انتظام یہ کیا گیا تھا کہ پروردگار عالم نے جبرائیل امیں کو حکم دیا کہ تمام حاضرین محفل پر خوشبوؤں کی بارش کی جائے ۔
محفل عقد کے اختتام پر تمام دوسرے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور مرسل اعظم اپنے چاہنے والے چچاؤں کے ہمراہ خانۂ ابوطالب میں تشریف لائے۔اس پرمسرت موقع پر سب مسرور تھے مگر سیدنا ابو طالب سب سے بڑھ کر مسرور و شادمان تھے۔آپ کے لب اقدس سے بار بار شکر الٰہی ادا ہو رہا تھا ۔آپ نے کئی مرتبہ آسمان کی طرف رخ کر کے فرمایا،الحمد للہ الذی اذھب عنا الکروب ودفع عنا الھموم۔آپ بے پناہ مسرور وشادمان تھے۔آپ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے اور آپ بار بار شکر خدا ادا فرماتے تھے۔آپ کی خوشی کے ساتھ سیدنا حمزہ بھی خوش تھے اور انہوں نے حضور پربے حساب درہم و دینار نچھاور کئے۔

ولیمۂ خیر الوریٰ:
 شادی کی پرمسرت تقریب سے فارغ ہونے کے بعد سیدنا ابو طالب نے دعوت ولیمہ کا انتظام فرمایااور اس میں مکہ کے عظیم سردار نے اپنی سروری کے شایان شان انتظامات فرمائے اور پورے مکہ کو مدعو کیا۔خود سرتاجِ خدیجہ بنفس نفیس مہمانوں کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ دعوت ولیمہ کے جملہ انتظامات صغیرہ و کبیرہ کی نگرانی فرماتے رہے۔آپ کے ساتھ تمام چچا اور ہاشمی و مطلبی نوجوان دعوت ولیمہ کے انتظامات میں سرگرم رہے۔یہ مبارک دعوت تین دن تک روز و شب جاری رہی اور اس مقدس رسم کا آغاز ہواجو آج تک اہل اسلام میں رائج ہے۔ سیدنا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور سیدہ خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیھا کے مبارک عقد کے موقع پر سیدنا ابو طالب نے دعوت ولیمہ کا آغاز کیا اور دستر خوان بچھایا۔سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے دعوتوں کا سلسلہ شروع کیا اور سرداران عرب اور بادشاہان وقت کو دیدار مصطفٰی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے لئے مدعو کیا ۔آپ کی دعوتوں کےمنتظم اعلیٰ ،آپ کے چچا جناب عمروْبن اسد تھے۔
آپ کے حکم پر لنگر خانے جاری کئے گئے جس میں نہ صرف مکہ بلکہ بیرون مکہ کے تمام غرباء، فقراء،مساکین،محتاج و گداگروں کو مالی ،معاشی اور ہر ممکن امداد کے علاوہ،لباس و خوراک کے تحائف وسیع پیمانے پر عنایت کئے گئے ،یہاں تک کہ مکہ اور اطراف و جوانب میں کوئی حاجت مند ایسا نہ تھا جو مطمئن نہ ہو گیا ہو۔شہزادیء اسلام نے دل کھول کر بیواؤں،یتیموں اور غریبوں کے گھروں کو ضروریات زندگی کی اشیاء سے بھر دیا۔یہ سلسلہ ء تحائف اور اس پرمسرت موقع کی تقریبات چھ ماہ جاری رہیں۔

قصر خدیجہ خانۂ نبوت:
 شادی کے تیسرے دن سیدالمرسلین سیدناابوطالب اور دوسرے اعمام اور نوجوانان بنی ہاشم کے حلقہ میں شہزادیء عرب اور ام المومنین خدیجہ الکبریٰ کے قصر نور کی جانب روانہ ہوئے۔وہاں پہنچے تو آپ کے پیارے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب نے یہ قصیدہ پیش کیا،

ابشروا بالمواھب يا آل فھر وغالب    اے قریش و آل غالب ،تمہیں عنایات کی بشارت ہو۔
افخروا يا آل قومنا بالثناء والرغائب      اے میری قوم وقبیلہ والو!ثناء جمیل اور بے حساب عنایات پر فخر کرو۔
شاع في الناس فضلکم وعُليً في المراتب     لوگو!تمہارا فضل و شرف اور بلندی ء مراتب زمانہ میں معروف ہے۔
قد فخرتم باحمد زين کل الطايب    تم سب افتخار بن گئے احمد کے دم سے ،جو زینت ہیں ہر طیب و طاہر کے لئے۔
فھو کالبدر نوره مشرق غير غائب   ان کا نور چودہویں رات کے چاند کی مانند ہے جو ہمیشہ روشنی پھیلاتا رہتا ہے۔
قد ظفرت خديجه بجليل المواهب     اے خدیجہ!آپ کامیاب ہوئیں،بڑی جلیل و عظیم عطاؤں کے ساتھ۔
بفتٰي ھاشم الذي ما له من مناصب    اس ہاشمی جوانمرد کے ذریعہ جو بڑے بڑے منصبوں پر فائز ہے۔
جمع الله شملکم فھو رب المطالب    خدا نے ان کے ذریعہ تمہاری جماعت کو اجتماع کی توفیق عطا کی ،پس وہی تمام مطالب کا پروردگار ہے۔
احمد سيد الورٰي خير ماش وراکب  احمد سردار خلائق ہیں جو ہر پیادہ و سوار سے بہتر و افضل ہیں۔
فعليه الصلوٰةما سا ر براکب  ان پر لگا تار درود و سلام ہوتا رہے ،جب تک سواریوں پر سوار چلتے رہتے ہیں۔
اس قصیدہ مبارکہ کے دوران مکہ کے درو دیوار سے تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے سن کر فرمایا اعلمواان شان محمد عظیم وفضلہ عمیم و جودہ جسیم،جان لوکہ محمد کی شان بہت بلند و برتر ہے اور ان کا فضل ہر کسی کے لئے عام ہے،ان کی سخاوت بڑی عظیم ہے ۔اس کے بعد آپ نے حاضر مستورات پر مال وخوشبو نچھاور کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے چہرۂ اقدس سے ایسا نور ساطع ہو رہا تھا کہ جس سے چراغوں اور شمعوں کی روشنی ماند پڑگئی ۔آپ کے منور چہرہ سے نکلنے والی نوری کرنیں دیکھ کر ہاشمی و مطلبی مستورات کو بے حد تعجب ہوااور انہوں نے کہا کہ یہ رسول اللہ کا فضل و شرف اور عطیہ الٰہی ہے۔
سیدہ خدیجہ نے اس موقع پر بے انتہا قیمتی لباس فاخرہ زیب تن فرمایا،سر انورسے پائے اطہر تک سونے کے زیورات پہنے تھیں جن میں مختلف انواع و اقسام کے رنگ برنگے قیمتی موتی ، یاقوت، فیروزہ و پکھراج وغیرہ جڑے تھے۔سر مبارک پر نہایت قیمتی تاج تھا۔آپ نے ایک تاج خصوصی طور پر سرور کائنات کے لئے بھی تیار کرایا تھا جو آپ کی خدمت عالیہ میں پیش کیا گیا جسے آپ نے بخوشی شرف قبولیت عطا فرمایااور سراقدس کی زینت بنایا۔خداوند عالم نے اس مبارک موقع پر جبرائیل امین کو حکم دیا کہ مشک و عنبر اور کافور مکہ کے پہاڑوں پر پھیلا دو جس کے باعث مکہ کے دردیوار،گلی کوچے،جنگلات ، آبادیاں اور گلیاں مہک اٹھیں۔فضا مشک بیزوعنبر ریز ہو گئی۔لوگ ایک دوسرے سے متعجب ہو کر پوچھتے کہ یہ خوشبو کیسی ہے تو بتایا جاتا کہ یہ محمد وخدیجہ کی بدولت ہے۔
تاریخ انسانیت کی یہ منفرد ،پہلی اور آخری شادی ہے جس سے پہلے کسی نے ایسی شادی دیکھی نہ اس کے بعد ،جس میں لوازمات دنیا کے ساتھ ساتھ الٰہی توجہات نے چار چاند لگا دیئے تھے،نہ دنیاوی مال و حشمت اور تمکنت کی کمی تھی نہ الٰہی برکات و عنایات کی۔

جہیز:
 دنیا کی کوئی عورت اتنا جہیز لے کر اپنے شوہر کے گھر نہ آئی جتنا سیدہ خدیجہ لے کر خانۂ نبوت میں آئیں۔شہزادیء عرب کے جہیز کا یہ سارا سامان نہ آپ کے مرحوم والد کی چھوڑی ہوئی دولت تھی نہ بھائیوں کی محبت کا نتیجہ ،بلکہ میمونہ کاملہ،فاضلہ و عاقلہ شہزادی نے تجارت کر کے اور اس تجارت کو بین الاقوامی فروغ دے کر خود اپنی عقلِخداداد،بہترین صلاحیت واستعداد اور حسن انتظام سے اتنا عظیم سرمایہ اکٹھا کیا تھاکہ عرب دنیا میں کوئی رئیس و امیر بھی اس دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔شہزادیء عرب کو جب قدرت نے شہزادیء اسلام اور کائنا ت کی پہلی ام المومنین بنے کا شرف عطا فرمایاتو آپ نے توقعات کے مطابق اس خطاب و شرف کے ساتھ انصاف فرمایا،
اس کے بھرم اور آبرو میں اپنی نیک سیرتی ،اعلیٰ ظرفی اور بلند اخلاقی کی معراج سے چار چاند لگا دیئے۔انہیں اب نہ دولت سے سروکار رہا نہ تجارت کی فکر رہی کیونکہ کائنات کی سب سے عظیم دولت نبی آخرالزماں،سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں مل گئی تھی۔آپ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوپا کر شہزادیء عرب سے شہزادیء اسلام اور مادر اہل ایمان ہو گئیں۔

ازدواجی زندگی:
سیدہ خدیجہ طاہرہ کے کامیاب ادوار حیات میں ایک نئے تابناک اور کامرانیوں سے بھرپور دور کا آغاز ہوا۔آپ جانتی تھیں کہ آپ کے شوہر صرف عظیم انسان ہی نہیں بلکہ خاتم الانبیاء اور مرسل اعظم ہیں۔ورقہ بن نوفل کی مشاورت اور پیشینگوئیوں کی تصدیق کے بعد آپ نے انہیں شام سے خریدا گیا قیمتی اور بیش بہا خلعت عنایت فرمایاجسے لینے سے ورقہ نے انکار کر دیا اور درخواست کی کہ میری دلی خواہش ہے کہ آپ کے سرتاج محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری شفاعت کا وعدہ کر لیں۔سیدہ نے وعدہ فرمایا کہ ایسا ہی ہوگا۔پچیس برس پہ محیط رفاقت حیات میں اپنی بہترین سیرت و اخلاق اور عادات کی وجہ سے خانۂ نبوت کو نبیء اکرم صلی اللیہ علیہ یوآلہ وسلم کے آرام و سکون کا گہوارہ بنا دیااور نہ صرف متولیء کعبہ کی بہوہونے کا حق ادا کیا بلکہ وہ مثالی کردار پیش کیا کہ جس پر ام المومنین کے ا لٰہی لقب کی فضیلتیں ہمیشہ ناز کریں گی۔
ام المومنین کا ہر روز،روز عید اور ہر شب ،شب برات و لیلۃالقدر تھی۔ ہرلمحہ دیدار مصطفٰی سے بڑھ کر اور کیا مسرت ہو سکتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرور تھے کہ خداوند عالم نے انہیں ایسی زوجہ مرحمت فرمائی جو امور خانہ داری سے لے کر تبلیغ اسلام کی جملہ مشکلات میں معاون و مددگار رہی۔سیدنا ابو طالب مطمئن ہو گئے کہ بانیء اسلام کو ان کے شایان شاں رفیقۂ حیات ملی۔عباس محمود العقاد کے الفاظ ہیں،
’’سرور کائنات نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی ۔والد کی وفات آپ کی پیدائش سے پہلے ہو چکی تھی،والدہ کا سایہ بھی زیادہ دیر تک سر پہ نہ رہا اور وہ بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئیں۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص منشاء اور تصرف کے ماتحت ،خدیجہ جیسی پاکباز اور غمگسار خاتون کو آپ کے لئے چنا۔شادی کے بعد حضرت خدیجہ نے جس دلسوزی سے آپ کی دلجوئی کی اس نے تمام مصائب اور صدمات کا مداوا کر دیاجو یتیمی کی حالت میں آپ کو اٹھانے پڑے تھے۔نبوت کے ساتھ ہی مصائب کا پہاڑ رسول مقبول پر ٹوٹ پڑا۔کسی قسم کی ایذا نہ تھی جو بد نہاد مشرکین نے حضور کو نہ پہنچائی ہو اور مخالفت کا کوئی دقیقہ نہ تھا جو قریش نے فروگذاشت کیا ہو۔
اس حالت میں جب کہ مکہ کا چپہ چپہ حضور کا دشمن ہو رہا تھا اور آپ پر بدترین قسم کے مظالم ڈھائے جارہے تھے۔ ا گر کسی نے حضور کی کامل رفاقت کا ثبوت دیاتو وہ حضرت خدیجہ تھیں۔انہوں نے اپنا تن من دھن،سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کے لئے قربان کر دیااور اس دلسوزی اور جانفشانی سے آپ کی خدمت کی کہ اس کے سامنے حضور کو کفار مکہ کے مظالم کا احساس تک جاتا رہا اور آپ ،بہ اطمینانِکامل تبلیغ واشاعت اسلام میں مصروف رہے‘‘۔
سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی رفیقۂ حیات خدیجہ طاہرہ نے اپنی پچیس سالہ خوشگواروقابل صدافتخار ازدواجی زندگی میں انسانیت کے لئے بالعموم اور زن وشوہر کے لئے بالخصوص ضابطۂ حیات اور اصول و قوائد مرتب فرمادیئے ۔ شادی کے پندرہ سال بعدبصورت قرآن آنے والے احکامات انہی اصولوں کی تکمیل کرتے نظر آئے ۔ آنحضرت کی اسطرح خدمت کا حق ادا فرمایا کہ حضور آخری دم تک آپ کی وفاشعاری اور خدمت گزاری کو یاد فرماتے رہے،یہاں تک کہ آپ نے فرمایا ،’’میں خدیجہ کو دوست رکھنے والوں سے محبت کرتا ہوں‘‘۔رسول اللہ گھر سے باہر نکلتے ہمیشہ سیدہ خدیجہ کی مدح وثناء فرماتے اور انہیں یاد کرتے تھے۔ صاحبِ وما ینطق، مدح خدیجہ میں رطب اللسان رہے۔ آپ فرمایا کرتے، امنت اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس ووستعنی بمالھااذحر منی الناس،رزقنی منھااللہ الولددون غیرھامن النساء، وہ مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ منکر تھے اور انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور اپنے مال سے اس وقت میری مدد کی جب تمام لوگوں نے مجھے مال سے محروم رکھاتھا،خدا نے مجھے ان سے اولاد دی جبکہ دیگر عورتوں سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔
آپ سیدہ خدیجہ کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے ، انت ملکۃ، امراۃ ذات المال، آپ شہزادی ہیںمالدار خاتون ہیں۔تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سابقون الاولون میں سب سے پہلے اسلام کے قبول کرنے کا اعلان سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے فرمایااور آپ کا اسم گرامی سید المرسلین پر ایمان لانے والوں میں سرفہرست ہے۔ آپ نے ایمان لانے میں ہی سبقت نہیں کی بلکہ تادم آخر اپنے کامل یقین پر باقی رہیں اور آخری سانس تک نصرت و حمایت اور حفاظت و رفاقت کا حق ادا فرماتی رہیں۔
آپ ابتدائے اسلام کے تین نمازیوں پیغمبر اسلام،مولائے کائنات میں سے ہیں اور سیدنا جعفر طیار سیدنا ابو طالب کے حکم پرچوتھے نمازی ہیں۔سیدنا ابو طالب کی نگرانی اور محافظت میں اسلامی تحریک آگے بڑھتی رہی اور اہل اسلام سکون و اطمینان سے اللہ کی عبادت کرتے رہے۔شہزادیء اسلام اس عظیم تحریک کی سرگرم رکن تھیں اور نبوت کی مونس و غمخوار ،رسالت کی پشت پناہ اور اسلام کی معین و مددگار تھیں۔آپ نبی ء اکرم کی وزیر باتدبیر اور بے بدل مشیرتھیں۔ روزانہ سونا،چاندی اور جواہرات کے اونچے ڈھیر لگاتیں اور حضور کی بارگاہ میں التجا فرماتیں کہ اپنے دست مبارک سے تقسیم فرما دیں۔آج صبح اٹھ کر میں نے جو آپ کے چہرۂ اقدس کی زیارت کی ہے یہ اس کا صدقہ ہے۔

نسل رسول :
 سیدہ خدیجہ الکبریٰ ،بقائے نسل رسول اللہ کی ضامن بن گئیں۔ آپ کی تین اولادیں ہوئیں،
۱۔ سیدنا قاسم ،سب سے بڑے صاحبزادے تھے اور انہی کی بدولت حضور کی کنیت ابوالقاسم ہوئی۔
۲۔ سیدنا عبداللہ ،دوسرے فرزند سیدنا عبداللہ تھے جنہیں طیب و طاہر بھی کہا جاتا ہے۔
۳۔ سیدتنافاطمہ الزہراسلام اللہ علیھا، 20جمادی الثانی بعثت نبوی کے پانچویں سال بروزجمعۃالمبارک،حصار شعب ابی طالب سے ایک سال چھ ماہ قبل آپ کی آمد ہوئی ۔عطائے الکوثر کے وقت رسول اللہ پینتالیس جبکہ ام المومنین سن دنیا کے اڑتالیسویں برس میں تھیں۔حضور کی نسل مبارک آپ ہی سے چلی اورسادات بنی فاطمہ، کرۂ ارضی کے ہر گوشہ اور خطہ میں جلوہ نما ہیں۔
اے خدیجہ معظمہ نبوت کا گھر ، تیرے جیسا کسی نے سجایا نہیں
اس کی رحمت کا سایہ ہے تجھ پہ سدا ،جس شہنشاہ کا اپنا ہی سایہ نہیں
سید الانبیاء تیرا شوہر بنا اور مشکلکشا تیرا دیو ر بن
تیرا ہر بیٹا ہادی و رہبر بنا ، تجھ سا کنبہ کسی نے بھی پایہ نہیں
تیرے گھر میں ہی اسلام پلتا رہا ، مطمئن ہو کے دن رات بڑھتا رہ
دنیا والے اگر بھول جائیں تو کیا ، تیرا احسان رب نے بھلایا نہیں
تیری سیرت ہے عفت مجسم بنی ، تو ہی اپنے زمانے کی مریم بنی
جب تیری ذات زہراء کی مادر بنی ، کون سا گل تھا جو مسکرایا نہیں

یاد قاسم :
 جب سیدنا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے،سیدنا قاسم کاانتقال ہواتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ رو رہی ہیں۔ آنحضرت نے پوچھاآپ کو کس چیز نے رلایا۔فرمایا،مجھے میرے لخت جگر کی یاد نے رلا دیا۔نبی کریم نے فرمایا، ’’خدیجہ !کیا آپ اس بات پر راضی ہیں کہ جب روز قیامت ہو گااور آپ دروازۂ بہشت پہ پہنچیں گی تو وہ باب فردوس پہ کھڑے ہوئے آپ کا دست مبارک پکڑ کر آپ کو جنت میں لے جائیں گے اور افضل ترین مقام پر بٹھائیں گے‘‘۔

انااعطینٰک الکوثر:
 اللہ رب العزت نے سیدہ فاطمہ الزہراسلام اللہ علیھا کو الکوثر کالقب عطا فرمایا ہے اور کفار مکہ کے طعنوں کے جواب میں یہ آیت مبارکہ نازل فرما کر حضور کو آپ کی دختر نیک اختر کا تحفہ عطا فرمایا ہے۔نبوت کے پانچویں سال، اللہ رب العزت نے اس خاص تحفہ کو وصول کرنے کے لئے سرور کونین کو عرش معلّٰی کی دعوت دی اور جبرائیل امین کو بھیجا کہ حضور کو لے کر آئیں۔بہشت بریں میں قصر خدیجہ کی سیر کے دوران آپ کو نور فاطمہ عطاہوا آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے۔ہم نے آپ کو الکوثر عطا فرمائی۔عرش علیٰ پہ اس خاص الخاص تحفہ کو عطا فرما کراللہ رب العزت نے سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے ذریعہ آغوش رسالت میں عطائے زہرافرمائی۔سیدہ خدیجہ ہی کی بدولت عالم انوار وذر،فضائے بسیط کبریائی سے رحل نبوت پر آمد مخدومۂ کونین ہوئی اور ہر لمحہ شکر خدا کرتے رہنے والے حبیب کو مزید شکرانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا ہی لیلۃ القدر ہیں،اور تم کیا جانو لیلۃ القدر کیا ہے۔یہی آیت کوثر ،سبع معلقات کا جواب تھی،جس کے بعد عرب کے نامور شعراء منہ چھپا کر اندھیرے میں اپنے کلام اتار کر لے گئے۔ بنت خدیجہ واحد خاتون ہیں جنہیں زبان رسالت نے سیدنا علی جیسے بے مثل جوانمردکے برابر قرار دیا ہے، ما ساوی اللہ قطّ امراۃالّامن تسویتہ فاطمہ بعلی علیہ السلام، آج تک اللہ نے کسی عورت کو کسی مرد کے برابر نہیں کیاسوائے فاطمہ کے جنہیں علی کے برابر فرمایا۔آغوش خدیجہ میں آمد زہرا کے موقع پر شرق سے غرب ،شمال سے جنوب روئے زمین پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں نور بتول نہ چمکا ہو۔ حضور نے فرمایا، فَاطِمَہْ بضعۃ ُ مِنَّیْ، فاطمہ مجھ سے نکلی ہوئی ایک شاخ ہیں۔فَاطِمَہْ حذْیَۃ ُمِنِّی، فاطمہ میرے سامنے ایک حقیقت ہیں۔ فَاطِمَة رُوْحِیْ اَلِّتِیْ بَينَ جُنْبِِیْ ،فاطمہ میرے دو پہلوؤں کے درمیان روح رسالت ہیں۔
ابوسعیدخدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، ’’جب میں معراج سے واپس آیاتو میں نے جبرائیل سے پوچھاکہ تمہاری کوئی حاجت ہے؟تو جبرائیل نے عرض کی ،’’یا رسول اللہ!میری حاجت یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے اور میری طرف سے خدیجہ کو سلام پیش کیجئے‘‘۔ جب حضور نے سیدہ سے ملاقات فرمائی اور جبرائیل کا پیغام دیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا، ’’بے شک اللہ کی ذات سلام ہے ، اسی کی جانب سلام ہے اور اسی کی طرف سلام ہے اور جبرائیل پر بھی سلام ہے‘‘۔
من مثل فاطمہ الزہراء فی نسب و فی فخر و فی فضل و حسب
والله فضّلها حقّا و شرّفها اذاکانت ابنةخبر العجم والعرب
سیدہ فاطمہ الزہرا کی نسب،بزرگی ،فضیلت و حسب میں کون مثال ہے،
خدا تعالیٰ نے ان کو فضیلت وبزرگی عطا فرمائی ہے اور ان کی صاحبزادی ہیں جو عرب و عجم میں سب سے بہتر ہیں۔

اسمائے زہرا:
 بنت خدیجہ الکبریٰ کوسرکار رسالتمآب نے ان مقدس اسمائے عالیہ سے موسوم فرمایا ہے، السیدہ فاطمہ،ام الحسنین،ام السبطین،ام الائمہ، البتول،العذراء، سیدۃالنساء العٰلمین،افضل النساء،خیر النساء،مریم الکبریٰ،الحوراء،الانسیہ،المبارکہ،الطاہرہ،المرضیہ،الصدیقہ المحدثہ الزکیہ، حرہ،حصّان۔ صلوٰۃاللہ وسلامہ علیہا۔

مخدومۂ دارین:
 آمد سیدۂ کونین کے وقت عرب کی جاہل عورتیں بغض رسالتمآب کے باعث آپ کے ہاں نہ آئیں۔آپ کے پیغامات کا مثبت جواب نہ دیا گیا بلکہ حوصلہ شکنی اور دل شکستگی کے جوابات دیئے گئے۔شہزادیء اسلام ،عرب کی عورتوں کے رویہ پر مایوس تھیں کہ آپ کے کمرہ کی دیوارشق ہوئی اورپانچ عظیم المرتبت مستورات، دس حوروں کے جھرمٹ میں داخل ہوئیں۔یہ مستورات ام ا لبشر حضرت حوا،ام اسحٰق زوجۂ خلیل حضرت سارہ ، ام عیسیٰ حضرت مریم ،حضرت آسیہ بنت مزاحم اور خواہر موسیٰ حضرت کلثوم تھیں۔سیدہ فاطمہ الزہراکو اللہ رب العزت نے تمام بزرگ عورتوں کی سردار قرار دیا ہے۔ سیدہ طاہرہ تشریف لائیں اوربارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کران الفاظ میں کلمۂ شہادت ارشاد فرمایا،
اَشْهدُاَنِّ لَّا اِلٰه اِللّٰه وَ اَشْهدُ اَنَّ اَبِیْ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰه وَسَيدُ الْاَنْبِياء وَِاَنَّ بِعَلِیْ سَيدُ الْاَوْصِيآئِ وَوُلْدِیْ سَادَۃُالْاَسْبَاطِ،

ابتدائے اسلام:
 سیدہ خدیجہ اورسیدنا ابوطالب کی پشت پناہی اور ولولہ انگیز قیادت و حفاظت رسالت کے باعث کفار قریش اورصنادید مکہ کے تمام اسلام کش منصوبے خاک میں مل گئے۔ان کی عداوت ونفرت کے آہنی قلعہ مسمار ہو گئے اور بغض و عناد کے باندھے ہوئے اونچے اور مضبوط بند اسلامی تحریک کے ریلے میں خس و خاشاک کی طرح بہ گئے۔تب انہیں بھی اسلامی قوت و طاقت کا اندازہ ہوااور وہ سمجھ گئے کہ عرب کی اس ابھرتی ہوئی طاقت کو آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔شیاطین مکہ کو یقین ہو گیاکہ اب اسلام محمدی کی تحریک شاہراہ ترقی تک پہنچ چکی ہے ،اس لئے اسے انفرادی مخالفت سے دبانامحال ہے۔ہر نئی صبح جب وہ اس تحریک کے بڑھتے ہوئے طوفانوں کی لہروں میں کفر کے اونچے اونچے کھنڈرات تنکے کی طرح بہتے دیکھتے تو ان کی آنکھوں میں خون اترآتا۔
نبوت کے پانچویں سال قائد اصحاب رسول ،پہلے مبلغ اسلام،سیدنا جعفر بن ابی طالب کی زیر قیادت تحریک اسلامی سے وابستگان کا
پہلا قافلہ مکہ سے حبشہ کی طرف روانہ ہو گیا۔کچھ دن بعد دوسرا بڑا قافلہ بھی مکہ کو الوداع کہ کر حبشہ پہنچ گیا۔کفارمکہ کی پوری کوشش کے باوجود ان کی دسترس سے نکل کریہ اصحاب رسول بعافیت حبشہ پہنچ گئے۔عمروبن عاص کی سرکردگی میں شاہ حبشہ نجاشی کے لئے بیش قیمت تحائف لے کر ایک وفد ان مہاجرین کو لینے وہاں گیا تا کہ یہ درندے پھر سے ان پر مصائب اور ظلم وستم کے پہاڑ توڑیں مگر سیدالبطحا،حضرت ابو طالب کے مراسلہ کے احترام اور سیدنا جعفر بن ابی طالب کی کامیاب تبلیغ اوربھرپور وکالت کی وجہ سے انہیں ذلیل و رسوا ہو کر واپس آنا پڑا۔ مہاجرین کا ہاتھوں سے نکل جانا اور وفد کا ناکام و نامراد واپس آجانا ہی کفار کو غیض وغضب میں لانے کے لئے کافی تھا کہ ایک روز حرم کعبہ میں شیر بیشۂ شجاعت ،شیر رسالت ،سیدنا امیر حمزہ سید الشہداء کی آواز گونجی،’’میں محمد کے دین پر ہوں،وہ جو کہتے ہیں میں بھی وہی کہتا ہوں،ہمت ہے تو میرے مقابلہ پر آؤ‘‘۔
اس اعلان نے تمام باطل پرستوں کے گھروں میں صف ماتم بچھا دی۔شرپسند ،موذی کفارمکہ پیچ و تاب کھا کر رہ گئے ۔ہادیء اکبر کا مذاق اڑانے والی زبانیں گنگ اور اذیت دینے والے نجس ابلیسی ہاتھ شل ہو گئے۔ابوطالب کی جانثاری اور خدیجۃالکبریٰ کی غمگساری کے بعد
شیر بطحاکی آمد نے اطمینان رسالت میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا۔کفار مکہ دارالندوہ میں اکٹھے ہوئے اور جمع ہو کر تحریک اسلامی کی بے انتہا کامیابی پر اپنے شدید رنج وکرب اور غم و غصہ کا اظہار کیا۔اپنی ناکامیوں کے عوامل کا ازسرنو جائزہ لیااور آئندہ کے لئے ٹھوس لائحہ عمل اور اقدامات پر غور وخوص کیا اور جائزہ لیتے سوچا کہ ہم نے اس تحریک کی ہر ممکن مخالفت کی اور ہر میسر حربہ استعمال کیا مگر اس کا اثر ہمارے مخالف نکلا،اب ہم سب کا فرض ہے کہ ایسی شدید مخالفت کی جائے کہ یہ تحریک ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے۔کافی غور وخوص کے بعد ترک موالات کا فیصلہ ہوا۔تمام مرد و زن اس بات پر متفق ہو گئے اور ایک معاہدہ تحریر ہواجس میں لکھا گیا،
’’بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب سے تمام تعلقات ختم کر دیئے جائیں،ان سے شادی بیاہ،لین دین ،خرید و فروخت اور بات چیت نہ کی
جائے اور ان سے ہر گز صلح نہ کی جائے ، حتٰی یسلموا رسول اللہ للقتل، یہاں تک کہ یہ عاجزکردہ لوگ محمد رسول اللہ کو ہمارے حوالہ کر دیں تا کہ ہم انہیں قتل کر دیں۔اس مقاطعہ قریش پر عملدرامد شروع ہوا تو سید القریش ،سیدناابوطالب اپنے تمام خانوادہ کو لے کر کوہ ابوقبیس کی ایک شعب (گھاٹی )میں تشریف لائے جسے شعب ابی طالب کہا جاتا ہے۔ مکمل تین سال سخت قیداور صعوبتوںمیں گزار دیئے مگر ہادیء اکبر کی حفاظت و حمایت سے دستبردار نہ ہوئے۔

قصر نور سے شعب ابی طالب :
 ان ہاشمی و مطلبی محاصرین میں شہزادیء عرب سیدہ خدیجہ الکبریٰ بھی تھیں اور آپ کی آغوش میں چند ماہ کی شہزادیء نور ،
معصومہ فاطمہ الزہراسلام اللہ علیھا بھی تھیں۔ابو طالب اور ان کے ساتھی ،ناز و نعم کی پروردہ شہزادیاں اور ہاشمی چمنستان کی معصوم کلیاں جس کرب و اذیت اور تکلیف کے مراحل سے گزریں ان کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ بھوک و پیاس سے تڑپ تڑپ کر رونے والے بچوں کی صدائیں اور فریادیں قریش کے بام و در سے ٹکراتیں جنہیں سن کر وہ خوش ہوتے اور جھوم جاتے تھے۔اس نظر بندی کا دور تین برس ہے اور اس دور کے احوال پڑھ کر پتھر بھی پگھلنے لگتا ہے۔ ناکہ بندی اتنی شدید تھی کہ ہر ممکن کوشش کی جاتی کہ ان محصورین تک غذاکا ایک دانہ بھی نہ پہنچے۔
انہیں کس جرم کی سزا ملی ؟ناز و نعم اور سردارانہ آسائشات سے بھرپور زندگی چھوڑ کر ایک تنگ گھاٹی میں بھوک و پیاس اور شدتِ حالات۔عشق مصطفٰی ۔سوائے اتباع سرور کونین کے اور کیاجرم کیا شہزادیء عرب نے ،سید البطحا نے اور آپ کے خانوادہ نے۔اسی عشق مصطفٰی صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے باعث عرب کی نجیب ترین ملکہ بھوک و پیاس سے نڈھال ہوئیں،آپ کی گود میں شہزادیء نور، بنت رسول جاں بہ لب تھیں۔ بنی ہاشم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا۔ناقابل برداشت اذیتوں کے باوجود سید البطحاء کی زیر قیادت وسرپرستی کار تبلیغ جاری رہا۔ہادیء عالم صبح وشام ہر ممکن عوام کو دعوت حق دیتے تھے۔تبلیغ دین کاسفینہ سردار عرب، مومن قریش سیدنا ابوطالب اور شہزادیء اسلام سیدہ خدیجہ کی محنت و ریاضت اور حفاظت و حمایت کی بدولت انہی کی صولت و سیادت اور جاہ و حشمت کے خون کی لہروں پر رواں دواں رہا۔سیدنا ابو طالب اور سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے پیغمبر خدا اور ان کے عظیم مقصد کی تبلیغ میں اپنی خاندانی سروری،سرداری،عزت و عظمت،روایتی ساکھ اور موروثی رکھ کھاؤکے ساتھ تمام رشتہ داریوں کا گلہ گھونٹ دیا۔
نازونعم کی پروردہ،محلاتی زندگی میں حریر و دیبا پہننے والی،سونے چاندی ،موتیوں اور ہیروں سے کھیلنے والی مکہ کی مطلق العنا ن شہزادی،چشم و ابرو کے ہلکے سے اشاروں پر کام لینے والی،سلاطین عصر شاہان زمانہ،رؤساء دہر اور امراء وقت کو جوتی کی ٹھوکروں پر
رکھنے والی عرب کی ملکہ اور اسلام کی شہزادی پر یہ کٹھن وقت تھا کہ اپنے محبوب شوہراور اللہ کے پیارے رسول کو اذیتوں میں دیکھا۔گود کی بچی کو سسک سسک کر روتا اور تڑپتا دیکھامگر صبرو استقامت اور عزم و استقلال کی چٹان نہ روئیں نہ سسکی لی ،شکوہ کیا نہ شکایت، مقدر کا گلہ نہ قسمت کا رونا،نہ آہ زاری نہ نالہ و شیون ،نہ فریاد نہ واویلا۔ سوچ وفکر میں رسول اللہ کے سوا کوئی نہیں،اسلامی تحریک اور
محمدی مشن کی تشویش کے بعد اگر کوئی خیال ہے تو گو د میں معصوم فاطمہ الزہراسلام اللہ علیھا کا ۔

احسانات خدیجہ :
 سیدہ خدیجہ کی بے پناہ دولت اور عظیم المرتبت شہزادی ہونے کو تمام مورخین کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تسلیم فرمایا ہے اوربارہا اس کا اعتراف فرمایا ہے۔سرور کونین سے عقد کے بعد آپ نے اپنے چچا ذاد بھائی ورقہ بن نوفل سے فرمایا، ’’یہ سارا مال لے کر محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤاور کہو کہ یہ سب مال میری طرف سے ان کی خدمت میں ہدیہ ہے۔اب یہ ان کی ملکیت ہے ،جسطرح چاہیں اس کو خرچ کریں اور ان سے یہ بھی کہہ دینا میرے پاس جو کچھ ہے ،میرا مال،میرے غلام اورجو جو چیزیں میرے ماتحت، تصرف یا قبضہ میں ہیں میں نے سب کا سب ان کو ہبہ کیا‘‘۔ ان کی جلالت قدراور عظمت شان کی وجہ سے آپ کے ارشاد کے مطابق ورقہ بن نوفل گئے اور زمزم ومقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہوئے اور نہایت بلند آواز سے لوگوں کو پکارا،’’اے گروہ عرب!حتمی طور پر خدیجہ تمہیں اس بات پر گواہ بناتی ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس، اپنے مال،اپنے غلام وخدام اور وہ تمام چیزیں جن کی وہ مالک ہیں از قسم چوپایہ واموال ا ور ہدایاوغیرہ سب کچھ محمد کو ہبہ کیا اور جو کچھ خدیجہ نے انہیں ہبہ کیا انہوں نے قبول فرما لیا ہے۔ خدیجہ نے اپنا سارا مال و متاع ان کی جلالت و عظمت کے پیش نظر اور ان کی طرف رغبت کرتے ہوئے ہبہ کیا ہے۔لہٰذاتم سب لوگ اس بات پر گواہ رہو‘‘۔
شہزادیء عرب نے مال و زر ،درہم و دینا ر،تمام جائیدادمنقولہ و غیر منقولہ ،نوکر چاکر،غلام و کنیزیں غرض ساری ملکیت بنام اسلام وقف کر دی اور حضور پاک کواختیار کلی دے دیاکہ آپ جس چیز کو جس طرح چاہیں بلا روک ٹوک استعمال فرمائیں اور خرچ کریں،یہ سارا مال میرا نہیں آپ کا ہے۔ سیدہ خدیجہ نے اپنی بے پناہ دولت ساری کی ساری اپنے محبوب شوہر کو دے دی تاکہ اسلامی تحریک رکنے نہ پائے ۔ خدمات ابو طالب کو الم یجدک یتیماً فاوٰی کا تمغہ ملا تو وہیں خدیجہ طاہرہ کوفرمان ایزدی نے ووجدک عائلاًفاغنٰی،اور ہم نے آپ کو تنگدست پایا تو غنی کر دیا، سے سرفراز فرما دیا۔
فخر الدین رازی لکھتے ہیں،’’خدا نے حضور کو مال خدیجہ سے غنی بنا دیا۔ایک دن رسول خدا خدیجہ کے پاس آئے تو بیحد غمگین و ملول اور افسردہ تھے ۔خدیجہ نے حضور سے عرض کی اس رنج کا سبب کیا ہے؟۔فرمایا،یہ قحط کا زمانہ ہے۔اگر میں تمہارا مال خرچ کر دیتا ہوں تو تم سے حیا آتی ہے اور اگر اسے خرچ نہ کروں توخدا سے ڈرتا ہوں۔خدیجہ کے کہنے پر حضور نے قریش کو بلایا۔ان میں ابوبکر بھی تھے۔ابوبکر
نے بیان کیاکہ خدیجہ نے دینار نکال نکال کر سامنے ڈھیر کر دیئے یہاں تک کہ وہ اس مقدار میں ہو گئے کہ میں ان لوگوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا جو میرے آگے اتنے ذیادہ مال کے ڈھیر کے پیچھے بیٹھے تھے۔پھر جناب خدیجہ نے فرمایا،تم سب گواہ رہنا کہ میرا یہ مال اب رسول خدا کا مال ہے ، انہیں پورا پورا اختیار ہے چاہیں تو اسے خرچ فرمائیں اور چاہیں تو روک لیں‘‘۔
اس مال کی پاکیزگی اور طہارت اور سب سے بڑھ کر خلوص خدیجہ طاہرہ کے باعث اللہ رب العزت نے ا س مال کو اپنا مال قرار دیتے ہوئے احسانات ابو طالب اور خدیجہ الکبریٰ کو ایک ہی مقام پر بیان فرمایا ہے۔سیدہ خدیجہ کی اطاعت شعاری ،فرمانبرداری،محبت و الفت اور عشق حقیقی کا تقاضا تھا کہ رسول خدا گھر سے آپ کی مدح وثناء کرتے نکلتے اور اس سے بڑھ کر فرمان ایزدی، واما بنعمۃ ربک فحدث ، لسان وما ینطق سے ہمیشہ فضائل شہزادیء اسلام بیان کرواتا رہا۔سیدہ خدیجہ کا سہارا اور تمام ملکیت کا اسلام پہ خرچ فرما دینا، یدخلون فی دین اللہ افواجا، کے اہم ترین عوامل میں سے ہے۔
عرب کی اس تاریخ ساز ملکہ کی یہ آفاقی دولت کہاں خرچ ہوئی اور کن مقامات پر اس کا استعمال اسلام کی بنیادیں مستحکم کرنے کا اہم ترین سبب بنا؟چند مقامات ِمصارف یہ ہیں،
۱۔ دعوت ذوالعشیرہ کے سہ روزہ اجلاس کے انتظامات اور دستر خوان کو اس مال خدیجہ سے سجایا گیا۔
۲۔ ہجرت حبشہ جس میں پہلے قافلہ میں گیارہ مرد اور چار عورتیں اور بعدہُ بڑاقافلہ جس میں پچاسی مرد اور سترہ مستورات شامل تھیں، ان کی آمد و رفت اور قیام حبشہ کے تمام مصارف آپ نے ادا فرمائے۔
۳۔ سابقون الاولون جو کہ انتہائی پسماندہ اور مکہ کا غربت کی بدترین چکی میں پسا ہوا نادارو مفلس اور غلاموں،کنیزوں پرمشتمل طبقہ تھاجن پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا اور مکہ کا چپہ چپہ ان کا دشمن ہو رہا تھا،ان کے جملہ اخراجات اور حضور کی جانب سے کی جانے والی استعانت مال خدیجہ سے تھی۔
۴۔ مکہ کے شدید قحط میں اہل اسلام کے علاوہ پورے مکہ اور اطراف و جوانب کے لوگوں کی مدد اور خوراک کی فراہمی، کاملاً آپ کے مال سے ہوئی۔
۵۔ بعثت نبوی کے ساتویں سال محرم الحرام سے لے کر بعثت نبوی کے نویں سال ذی الحجہ تک شعب ابی طالب میں پورے خاندان بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کی قید سخت کے دوران پورے قبیلہ کی کفالت اور بعد ازاں حضور کے جملہ مصارف میں آنے وا لی رقم اسی مال خدیجہ سے تھی۔
۶۔ حضور کے قیام مکہ اور سفر طائف کے تمام اخراجات ،ہر گام پر سیدہ طاہرہ کی یاد دلاتے رہے۔
۷۔ غار ثور میں تین شبانہ روز قیام اور مدینہ جانے کے لئے سواری اور اہل اسلام کی ہجرت مدینہ کے تمام اخراجات،مال خدیجہ سے ادا ہوئے۔
۸۔ عالم اسلام کی پہلی مسجد قبا کے لئے خریدی جانے والی زمین کے دیئے جانے والے دس ہزار دینار ،سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے تھے۔
۹۔ اصحاب صفہ کے جملہ اخراجات اسی مال سے ادا ہوتے رہے۔
۱۰۔ ہجرت مدینہ کے لئے مکہ کے بیکس ومجبور ،مظلوم ستم رسیدہ،فاقہ مست و نادار،غریب مہاجرین جو ابھی تک کفار مکہ اور صنادید قریش کے پنجۂ ظلم و ستم میں سسک رہے تھے انہیں آذاد کروا کر مدینہ تک لانے میں مال خدیجہ خرچ ہوا۔ان میں موذن رسول بلال حبشی قابل ذکر ہیں۔ کفار مکہ نے ان غلاموں کو آذاد کرنے کے لئے کئی سو گنا ذیادہ قیمت مقرر کی جو سب کی سب سیدہ خدیجہ طاہرہ کے پاک و پاکیزہ مال میں سے ادا کی گئی۔
مدینہ منورہ میں حضور کے جملہ مصارف اور اصحاب کبار کی کفالت و امور زندگانی میں معاونت اسی مال خدیجہ سے ہوئی۔اسلام کے عظیم الشان قلعہ کی ایک ایک اینٹ آپ کے بابرکت مال سے تعمیر ہوئی۔عرب کا گندہ سماج، اسلامی تہذیب و تمدن سے کبھی آشنا ہوتا اور انقلاب مصطفوی کی بنیاد مستحکم نہ ہوتی اگر یہ احسانات خدیجہ نہ ہوتے۔اسی طرف اشارہ فرماتے مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے،
ما قام الاسلام الا بسیف علی و ثروۃ خدیجہ، اسلام کبھی بھی قائم نہ ہوتا اگر علی کی تلوار اور خدیجہ کی دولت نہ ہوتی۔

سلام اللہ علیہا:
 ایک دفعہ جبرائیل امیں،بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے بارے میں پوچھامگر آپ کو نہ پایا۔عرض کی،
’’ جب وہ تشریف لائیں تو انہیں بتا دیجئے کہ ان کا رب انہیں سلام کہتا ہے‘‘۔ایک اور مقام پر فرمایا، ’’ان کا رب انہیں سلام کہتا ہے اور میری طرف سے بھی سلام پیش کیجئے اور جنت میںیاقوت ،زبرجد،اور مروارید کے موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری دیجئے‘‘۔جب حضور نے یہ بات آپ کے گوش گزار کی تو آپ نے فرمایا ، ’’میرا سلام بھی بارگاہ رب العزت میں پیش کر دیجئے‘‘۔

عام الحزن :
 بعثت نبوی کے دسویں سال،شعب ابی طالب کا محاصرہ ختم ہوااور خانوادۂ ابوطالب آزاد ہوا۔محبوب خدا کے لئے یہ سال اور بھی ذیادہ تکلیف دہ ثابت ہوااور آپ کے دونوں مضبوط سہارے خدا کو پیارے ہو گئے۔ماہ رجب المرجب دس نبوی میں سردار عرب سیدنا ابو طالب نے وصال فرمایااور آپ کے صرف تین ماہ بعددس رمضان المبارک کو عالمی تاریخ کا دھارا موڑ دینے والی عرب کی یہ نامور خاتون،ام المومنین ،ام الزھرا،سیدہ طاہرہ خدیجہ الکبریٰ ،شعب ابی طالب کی سختیوں کے باعث،شہادت عظمٰی کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئیں۔پیغمبر اسلام کے گھر کے دو روشن چراغ، مکہ کے اندھیروں میں روشنی پھیلاتے واصل بحق ہو گئے۔ہادیء اکبر کے آرام کی گود نہ رہی،سکون مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سایۂ محبت و الفت نہ رہا ۔حفاظتی تلوار نہ رہی،دعائیں دینے والی زباں نہ رہی ،حصار محمدی کا مضبوط قلعہ نہ رہا۔وہ رفیقۂ حیات نہ رہیں جن کی چشم محبت فرش راہ ہوا کرتی تھی۔پناہ گاہ ِرسالت نہ رہی۔محبوبۂ رسول نہ رہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہر طرح کا سہارا دیا تھا ۔مونس و غمگسار ،شفیق مربی ،سردار عرب بھی تشریف لے گئے۔ ان دونوں محترم ہستیوں کی یکے بعد دیگرے اموات نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہ گہرا اثر فرمایا اورآپ رنج والم سے نڈھال ہو گئے۔ اس غم والم اور درد و کرب کے باعث اس سال کو آپ نے ’’عام الحزن‘‘ قرار دیا۔
حضور کی ذات بابرکات پر تمام دولت نچھاور فرمادینے والی خدیجہ نے آخری لمحات میں اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کو بارگاہ نبوی میں بھیجا اور درخواست کی کہ میں نے ساری دولت اسلام کے رستے پر خرچ کر دی ہے،اگر میرے پاس کفن کے پیسے ہوتے تو میں آپ کو قطعاً مجبور نہ کرتی ،آپ اپنے دوش اطہر کی چادر میرے کفن کے لئے عطا کر دیں۔

دار البقا:
 جب سیدہ خدیجہ کا وصال پرملال ہوا تو آپ کی چار سالہ دختر حضرت فاطمہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ لپٹ کر ان کے گرد گھوم کر فرماتیں،’’این امّی خدیجہ‘‘،’’باباجان!میری اماں کہاں ہیں؟‘‘۔جبرائیل نازل ہوئے اور عرض کی ،’’آپ کے پروردگار کا حکم ہے کہ فاطمہ کو میرا سلام کہیں اور بتائیں کہ آپ کی والدہ یاقوت،زبرجد اور مروارید کے موتیوں کے گھر میں ہیں ،جس کی چھت سونے کی اور ستون سرخ یاقوت کے ہیں اور وہ آسیہ و مریم بنت عمران کے درمیان جنت میں ہیں‘‘۔ سیدہ فاطمہ نے عرض کی ،’’بے شک اللہ تعالیٰ کی ذات سلام ہے،اسی کی ذات کی طرف سلامتی ہے اور اسی کی طرف سلام ہے‘‘۔

باب مدینۃالعلم کا مرثیہ:
 سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی وفات پر باب مدینۃالعلم سیدنا علی مرتضٰی شیر خدا نے ان الفاظ میں اپنے غم کا اظہار فرمایا،
اَعَينِیْ جُوْدَا بَارَکَ اللّٰه فِيکُمَا عَلیٰ هالِکِينَ لَاتَریٰ لَهمَا مِثْلَ
میری دونوں آنکھو ،تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔تم ان دونوں بزرگ ہستیوں کے وصال پر خوب آنسو بہاؤ کیونکہ ان دونوں نے اسلام کے لئے بہت ہی جانبازی اور غمگساری سے کام کیا ہے۔ان دونوں کا کوئی مثل و ثانی نہیں۔
عَلَیٰ سَيدَ الْبَطْحَاوَابْنِ رَئِيسِها وَ سَيدَۃِ الْنِسْوَانْ اَوَّلَ مَنْ صَلَّٰٰى
ایک تو اس سردار مکہ حضرت ابو طالب پر روؤ،جو رئیس مکہ ہیں اور رئیس مکہ حضرت عبدالمطلب کے لخت جگر اور نور نظر ہیں۔دوسرے سیدۃ النساء حضرت خدیجہ الکبریٰ پر آنسو بہاؤ جنہوں نے سب سے پہلے نماز ادا فرمائی۔
مُ هذّبَۃُُقَدْ طَيبَ اللّٰه حَيمَها مُبَارَکَة وَاللّٰه سَاقَ لَها الْفَضَلَاء
انہیں اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ فطرت عطا فرمائی ،آپ کو زمانہ جاہلیت میں بھی طاہرہ پاکیزہ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔آپ بہت بابرکت اور طیب طاہر تھیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے درجات و فضائل بیان فرمائے ہیں۔
ُمصَابَهمَااَدْ جیٰ لِیَ الْجوَّوَالْهوَا فَبِتُّ اُقَاسِیْ مِتْهمَا الْهمَّ وَالْتَکَلَ
ان دونوں کی جدائی اور فراق نے میرے لئے ہوا اور خلا و فضا کو غم و الم کے اندھیرے میں بدل دیا ۔پس میں ان کی جدائی کی وجہ سے رنج و الم میں ڈوبا ہوا مشکل سے راتیں گزارتا ہوں ،غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں اوررات کی نیندیں اچاٹ ہو گئیں ہیں۔
لَقَدْ نَصَرَ فِیْ اللّٰه دِينَ مُحَمَّدْ عَلیٰ مَنْ بغیٰ فِی الْدّیَِْ نِِقَدْرَ عَيااِ لّ
بے شک انہوں نے حضور کے دین کی اشاعت کے بارے میں مددو حمایت کی اور ہر اس آدمی کا مقابلہ کیا جس نے بھی سرکشی ،بغاوت اور مخالفت کی اور اپنی حمایت کے عہد و پیمان کا پاس کیا۔

تاریخ سازحیات مبارکہ:
 ام المومنین کی پاکیزہ زندگی اور سیرت طیبہ نے حقوق نسواں کی واضح تشریح فر مائی ہے۔آپ کی پوری زندگی خواتین عالم کی کامیابی و کامرانی کے لئے بہترین لائحہ عمل اور نمونۂ کردار ہے۔اپنی ترپن (53)سالہ دنیاوی حیات مبارکہ کے ہر موڑ پرآپ نے عظمت نسواں اور کمالات انسانی کے گرانقدر ذخائر عالم بشریت کی نذر فرمائے ہیں اور آپ کی تابندہ زندگی کا ہر گوشہ قبل از عقد و بعد از عقد نورانیت و
روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی ترفع اور ترقی کا بھی روشن چراغ ہے ۔تجارت میں کامرانی،رفیق زندگی کے انتخاب میں سربلندی،حیرت انگیز عقل و بصیرت ،تبلیغ اسلام میں شراکت،سیاست عرب میں حصہ،حقوق زوجیت کی احسن ادائیگی،بچوں کی تربیت اور صدمہ،سیرت کی حد درجہ پاکیزگی اور کردار کی اسقدر بلندی کہ تمام عرصۂ حیات کسی سے تلخ کلامی تک نہ ہوئی۔شہزادی ہو کر بھی گھر کا سارا کام اپنے دست مبارک سے کرنا،شوہر کا خیال،امور خانہ داری کی دیکھ بھال اور ان سب کے باوجود عبادت خدا سے ذرہ بھر غفلت نہ برتنااور نسوانیت کو بام عروج پر پہنچا دینا ،تاریخ عالم میں آپ کا سب سے قدآور شخصیت ہونے کا بین ثبوت ہیں۔
گھرانا ہو گیا اسلام پہ قرباں خدیجہ کا خدا کے دین پہ کتنا بڑا احساں خدیجہ ک
نبی کے آستانے کو سجایا اسطرح تو نے کہ ہر لخت جگر ہے بولتا قرآں خدیجہ ک
ہے بیٹی فاطمہ زہرا ، تیرا داماد حیدر ہے نبوت کا گھرانا ہے بڑا ذیشاں خدیجہ ک
ہے زینب بے مثل تیری ، تیری کلثوم سیرت ہے رہا حسنین کی صورت سروساماں خدیجہ ک
سلاطین عرب سارے تیری مقروض تھے پیہم عرب پہ بھی عجم پہ بھی سدا احساں خدیجہ ک
ملیکۃ العرب نے تھا زمانے کو بدل ڈالا زمانے بھر میں چرچا ہے خدا کی شاں خدیجہ ک
علی عبّا س کو ان کے کرم نے سرخرو رکھ
حوادث میںزمانہ کے یہ ہے فیضاں خدیجہ رکھ

مصادر تحقیق:
 ۱۔ طبقات الکبریٰ ابن سعد واقدی المتوفی 230ھ ۲۔ تاریخ الامم والمملوک محمدبن جریر الطبری المتوفی 310ھ
۳۔ مواہب اللدنیہ فی السیرۃ النبویہ شیخ شہاب الدین احمد بن علی الخطیب قسطلانی المتوفی 923ھ
۴۔ تاریخ الخمیس فی احوال النفس النفیس قاضی حسین بن محمددیار بکرمی مالکی المتوفی 966ھ
۵۔ تفسیر درالمنثور حافظ جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر السیوطی المتوفی 911ھ
۶۔ استعیاب فی معرفہ الاصحاب حافظ یوسف بن عبداللہ المعروف ابن عبد البر القرطبی المتوفی 463ھ
۷۔ الاصابہ فی تمیزالصحابہ ابن حجر عسقلانی المتوفی 853ھ
۸۔ اعلام الوریٰ فی اعلام الہدیٰ امین الدین فضل بن حسن طبرسی المتوفی 548ھ
۹۔ بہجۃالمحافل شیخ یحیٰ بن ابی بکر عامری المتوفی 393ھ
۱۰۔ ذاد المعاد شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد ابن القیّم المتوفی 751ھ

تبصرے
Loading...