حضرات ائمہ علیھم السلام

حضرات ائمہ علیھم السلام

ھم یهاں مختصر طور پر ائمہ  (ع) کے اسماء گرامی اور ان کے زمانہ کے مختصر حالات بیان کر تے هیں نیز مختصر طور پر ان کی چھوڑی هوئی میراث کے بارے میں بھی ذکر کر تے هیں اورخود ان حضرات کی مختصر طورپر سوانح حیات بیان کریں، ان تمام باتوں میں ھم اختصار کا پورا خیال رکھیں گے ِ

پھلے امام :  حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام

حضرت علی (ع)کا مشهور لقب “امیر المومنین” ھے آپ کو اس لقب سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے سرفراز فرمایا تھا۔[1]

آپ کی ولادت باسعادت مکہ معظمہ اورخانہ کعبہ میں ۱۳/رجب المرجب   ۳۰ عام الفیل کو هوئی۔[2]

آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے بچپن ھی سے اپنے پاس رکھا تاکہ آپ کے چچا ابوطالب پر کچھ بوجھ کم هوجائے، چنانچہ خداوندعالم نے یہ چاھا کہ آپ کی تربیت اس کا محبوب رسول کرے اور ھر طرح کی مشکلات ومصائب سے محفوظ رکھے۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلممبعوث بہ رسالت هوئے تو سب سے پھلے حضرت علی علیہ السلام نے اظھار اسلام کیا۔[3]

اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تو اسی موقع پر آپ کی وزارت ، وصایت اور خلافت کے بارے میںواضح بیان دیا (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ھے) اور جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شبیہ بن کر آپ کے بستر پر سورھے تاکہ قریش یہ سمجھیں کہ “محمد”(ص) ابھی بستر پر سورھے ھیں۔

 اور مدینہ منورہ ہجرت کے بعد آپ نے تمام اسلامی جنگوں میں شرکت کی اور ھر جنگ میں پرچم اسلام آپ(ع) ھی کے ھاتھوں میں رھا، اور آپ(ع) ھر جنگ میں(سوائے جنگ تبوک کے)نبی کے ساتھ  ساتھ رھے ، چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کو اسلام کی دار السلطنت میں احتمالی خطرے کی بنا پر مدینہ میں چھوڑدیا تھا (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ھے)

خداوندعالم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کی تکریم کی خاطر رسول اللہ کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے شادی کی۔[4]

اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنی آخری عمر میں آپ کو امامت کے لئے منصوب کیا جیسا کہ حدیث غدیر میں گذر چکا ھے۔

اور چونکہ وفات نبی  کے بعد آپ کی زندگی میں بہت سے حادثات رونما هوئے لیکن آپ(ع) نے اپنی کوشش اور وعظ ونصیحت کو جار ی رکھا تاکہ ہدف اسلام آگے بڑھتا رھے اور اس مقدس راہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رھے، اور مشکل حالات کو برداشت کرتے رھے۔اور جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کو خلافت قبول کرانا چاھاتو چنانچہ آپ نے کراہةً قبول کرلی لیکن اسی مناسبت سے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

“اگر حاضرین کی بھیڑ جمع هوکر میرے پاس نہ آتی او ریہ ثابت هوجاتا کہ ھمارے ناصر ومددگار موجود ھیں او راگر علماء سے خدا کا عہد وپیمان نہ هوتا کہ ظالم سے دشمنی اور مظلوم سے ھمدردی کریں تو پھر میں اس خلافت کی مھار کو اس کے سوار پر ڈال دیتا اور اس کے دوسرے کو پھلے والے کے کاسہ سے سیراب کردیتا، کیونکہ میں نے اس دنیاکو بکری کے ناک سے بہتے گندے پانی سے بھی پست پایا”۔(خطبہ شقشقیہ)

آپ کی خلافت کے دوران ناکثین (اھل جمل) قاسطین (تابع معاویہ) اورمارقین (خوارج) سے جنگ هوئی ۔[5]

آپ کی شھادت، مظلومانہ طریقہ سے شب ۲۱ / رمضان المبارک   ۴۰ھ [6]کو کوفہ میں هوئی اور آپ کو کوفہ سے باھر “نجف” میں دفن کردیا گیا۔

دوسرے امام :  حضرت حسن بن علی علیہ السلام

آپ کے دو مشهور ومعروف لقب “مجتبیٰ ” او ر”زکی” تھے۔

آپ کی ولادت باسعادت شب ۱۵/ رمضان المبارک تین ہجری کو مدینہ منورہ میں هوئی۔

آپ کی تربیت آغوش پیغمبر  اور قرآنی ماحول میں هوئی۔

آپ امام ہدیٰ [7] وسیدی شباب اھل الجنة [8]میں سے ایک ھیں آپ کی ذات ان دومیں سے ایک ھے جن کے ذریعہ ذریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمباقی ھے، آپ ھی ان چار حضرات میں سے ایک ھیں جن کے ذریعہ رسول اسلام نے نصاری نجران سے مباھلہ کیا او رآپ ھی پنجتن پاک کی ایک فرد ھیں جن کی شان میں آیہ تطھیر نازل هوئی۔

آپ نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ سات سال زندگی گذاری اور اس کے بعد اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ تمام مشکلات ومصائب میں شریک رھے اور جب حضرت علی علیہ السلام کی وفات هوئی تو خلافت آپ کے قدموں میں آگئی اور معاویہ اور شام کے رہنے والوں کے علاوہ پورے عالم اسلام نے آپ کی بیعت کی، آپ نے دین کی خاطر اپنے لشکر کو معاویہ اور اس کے لشکر سے مقابلہ کے لئے بھیجا لیکن اس کے بعد آپ کو مشهور ومعروف صلح کرنی پڑی آپ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پھلے ھی ارشاد فرمادیا تھا:

” ان ہذا سید یصلح اللّٰہ علی یدیہ بین فئتین عظیمتین”[9]

(یہ میرا بیٹا سید وسردار ھے خداوندعالم اس کے ھاتھوں پر دو عظیم گروہ کی صلح کرائے گا)

قارئین کرام !   صلح امام حسن علیہ السلام کی تفصیل یعنی اس موقع کے حالات کیا تھے امام علیہ السلام نے کس طرح ان حالات کا مقابلہ کیا،صلح کا مقصد کیا تھا ، اس صلح کے کیا کیا بند تھے، شرطیں کیاکیا تھیں، کیا معاویہ نے ان شرائط کو پورا کیا؟ ان تمام چیزوں کو اس کتاب کی ضخامت کے پیش نظر بیان نھیں کیا جاسکتا او رجو شخص ان تمام چیزوں کی تفصیل جاننا چاھے تووہ “صلح الحسن”نامی کتاب کا مطالعہ کرے، کیونکہ مذکورہ کتاب میں مکمل طریقہ سے بحث کی گئی ھے اور اس کتاب کے متعدد ایڈیشن بھی چھپ چکے ھیں۔

بعض معترضین نے امام حسن علیہ السلام پر یہ بھی اعتراض کیا کہ آپ کی کئی بیویا ںتھیں یھاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کی بیویوں کی تعداد ۳۰۰ سے ۹۰۰کے درمیان تھی۔[10]

لیکن تاریخ کی تحقیق سے یہ اعتراض بے جا ثابت هوتا ھے اور یہ بات واضح هوتی ھے کہ آپ کی سات یا آٹھ بیویاں تھیں۔[11] جیسا کہ یہ بات بھی کشف هوجاتی ھے کہ آپ (ع)پنے اپنی تین بیویوں کو طلاق بھی دی ھے۔[12]

چنانچہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی صاحب نے آپ کے مسئلہ تعدد ازواج کے بارے میں حاشیہ لگایا اور کھا:

“آپ کا تعدد ازواج سے شاید مقصد یہ رھا هو کہ مختلف قبائل سے آپ کے سسرالی رشتہ داری هوجائےں کیونکہ (ابن خلدون کے قول کے مطابق) حاکم وقت اپنی رشتہ داری اورخاندان کے بل بوتہ پر حکومت کرتاتھا یھی وجہ ھے کہ تمام بنی امیہ نے اس کی حکومت کی طرف داری کی، (اور اس کی حمایت میں حکومت شام کے مخالفین کا قتل وغارت کیا)

چنانچہ امام حسن علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ آپ کی اولاد کو قتل کیا جارھا ھے اور آپ کی نسل کو ختم کرنا چاہتے ھیں تو آپ نے کثرت ازواج اور کثرت نسل کے علاوہ کوئی چارہ کار نھیں دیکھا۔[13]

آپ کو (معاویہ کے حکم سے) زھر دیا گیا او رآپ مدینہ منورہ میں ۲۸/ صفر سن پچاس ہجری [14] کو شھید کئے گئے اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کردیا گیا۔

تیسرے امام :  حضرت حسین بن علی علیہ السلام

آپ کا مشهور ومعروف لقب “سید الشہداء” ھے۔

آ پ کی ولادت باسعادت ۳/ شعبان المعظم سن چار ہجری کو مدینہ منورہ میں هوئی۔

آپ کی پرورش سایہٴ نبوت، موضع رسالت، مختلف الملائکہ اور معدن علم میں هوئی۔

آپ بھی اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے تمام بنیادی فضائل میں شریک ھیں یعنی آپ بھی امام ہدیٰ، سیدا شباب اھل الجنة میں سے ایک ھیں، آپ ھی کی ذات ان دو میں سے ایک ھے جن کے ذریعہ ذریت رسول باقی ھے آپ ھی ان چار حضرات میں سے ایک ھیں جن کے ذریعہ رسول اسلام نے نصاریٰ نجران سے مباھلہ کیا اور آپ بھی پنجتن پاک(ع) کی ایک فرد ھیں جن کی شان میں آیہٴ تطھیر نازل هوئی۔

آپ(ع) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ چھ سال تک کی زندگی گذاری، او رآپ پر وہ تمام مصیبتیں پڑیں جو وفات رسول کے بعد اھل بیت  (ع)پر پڑیں یھاں تک کہ آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کو زھر سے شھید کردیا گیا او رآ پ نے اپنی زندگی میں اپنی والدہ گرامی، پدر بزرگوار اور اپنے بھائی کے غم کو برداشت کیا۔

اور جس وقت معاویہ کی موت هوئی تو یزید اس کا وارث بنا اوراس نے سب مسلمانوں کو اپنی بیعت کے لئے بلایا، تو ان میں سے بعض لوگوں نے نالائق جوان کی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔

چنانچہ آپ کی حکومت وقت سے مخالفت کے تین اھم اسباب تھے:

۱۔یزید کا مستحق خلافت نہ هونا اور خلافت کی اھلیت نہ رکھنا۔

۲۔صلح امام حسن علیہ السلام میں جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ پورا هوچکا تھا کیونکہ معاویہ کے ساتھ یہ طے هوا تھا کہ معاویہ کے بعد خلافت آپ (امام حسن (ع)) ھی کے پاس رھے گی او راگر امام حسن (ع) کے لئے کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آگیا تو ان کے بعد حق خلافت ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام کو هوگا، لہٰذا معاویہ کو اپنے بعد کسی کو خلیفہ معین کرنے کاکوئی حق نھیں تھا۔ [15]

اس  کا مطلب یہ ھے  کہ معاویہ کے مرتے ھی امام حسین علیہ السلام در حقیقت صاحب خلافت هوگئے تھے کیونکہ معاویہ نے اس معاہدہ پر بھی دستخط کر رکھے تھے۔

۳۔ اس وقت کے حالات اس طرح کے تھے کہ ایسے حالات میں قیام کرنا واجب هوجاتا ھے کیونکہ خود آپ (ع) نے ایک حدیث میں اس طرح اشارہ کیا ھے:

“انی لم اخرج بطراً و لااشراً ولامفسداً ولاظالماً وانما خرجت اطلب الصلاح فی امة جدی محمد (ص) ارید ان آمر بالمعروف وانھیٰ عن المنکر”[16]

(میں کسی فتنہ وفساد اور ظلم کے لئے نھیں نکل رھا هوں بلکہ میں اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی امت کی اصلاح کے لئے نکل رھا هوں اور میں امر بالمعروف او رنھی عن المنکر کرنا چاہتا هوں)

اسی طرح اپنے شیعوں کے نام ایک خط لکھتے هوئے فرماتے ھیں:

“فلعمری ما الامام الا الحاکم بالکتاب، القائم بالقسط، الدائن بدین الحق، الحابس نفسہ علی ذات الله” [17]

(خدا کی قسم امام کی ذمہ داری یہ هوتی ھے کہ قرآن کے مطابق حکم کرے، عدالت قائم کرے، دین حق کی طرف دعوت دے اور پروردگار کے سامنے اپنے نفس کا حساب کرے)

قارئین کرام !  اس اسباب کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں کا نظریہ باطل هوجاتا ھے جن کی نظر میں امام حسین علیہ السلام خطاکار ھیں جیسے ابوبکر بن عربی وغیرہ ،کیونکہ وہ کہتے ھیں کہ امام حسین کے لئے یزید کی بیعت کرکے خاموش هوجانا بہتر تھا۔[18]

قارئین کرام !   آپ حضرات غور تو کریں کہ کیسے امام حسین علیہ السلام کے لئے یہ بہتر تھا کہ یزید کی بیعت کرکے خاموش هوجاتے جبکہ امام حسین علیہ السلام اپنے اوپر واجب دیکھ رھے تھے کہ قیام کریں اور خود معاویہ نے اس عہد نامہ پر دستخط کررکھے تھے جس میں امام حسین علیہ السلام کو بیعت نہ کرنے اور سکوت اختیار نہ کرنے کا حق تھا۔

لہٰذا حضرت امام حسین علیہ السلام تاریخ کے اوراق پر فاتح اکبر کے نام سے مشهور ھیں اگرچہ کربلا کے میدان میں ظاھری طور پر آپ کو اور آپ کے لشکر کو تہہ تیغ کردیا گیا جبکہ ان کے قاتلوں پر ھمیشہ تاریخ لعنت کرتی چلی آرھی ھے، اگرچہ انھوں نے اپنی جنگ میں غلبہ حاصل کیا،بلکہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نھیں ملتی کہ جس میں جنگ میں(ظاھری) غلبہ پانے والوں پر دنیا نے اس طرح لعنت وملامت کی هو جس طرح قاتلین امام حسین علیہ السلام پر کی ھے[19]

آپ کی شھادت ۱۰/ محرم  ۶۱ھ کو عصر کے وقت کربلا میں هوئی [20] او رآپ کربلائے معلی میں دفن ھیں۔

تبصرے
Loading...