حسن سلوک

رسول اکرم ! جو شخص بھی مجھ سے ارتباط چاہتاہے اور چاہتاہے کہ اس کا کوئی حق میرے ذمہ رہے اور میں روز قیامت اس کی شفاعت کرسکوں اس کا فرض ہے کہ میرے اہلبیت (ع) سے رابطہ رکھے اور انھیں خوش کرتارہے۔( امالی طوسی (ر) ص 424 / 947، امالی صدوق (ر) ص 310 /5 روایت ابان بن تغلب ، کشف الغمہ 2 ص 25 ، روضة الواعظین ص 300 ، ینابیع المودة 2 ص 379 / 75 ، احقاق الحق 9ص 424 / 31 ۔18 ص 475 / 52)۔

 رسول اکرم ! ائمہ اولاد علی (ع) کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی ان میں سے کسی ایک پر ظلم کرے گا وہ میرا ظالم ہوگا اور جو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا اس نے گویا میرے ساتھ بہترین سلوک کیا ۔( کمال الدین ص 413 / 13 روایت محمدبن الفضیل)۔

 امام صادق (ع) ! اپنے اموال میں آل محمد کے ساتھ حسن سلوک کو نظر انداز مت کرو ، اگر غنی ہو تو بقدر دولت اور اگر فقیر ہو تو بامکان فقیری ، اس لئے کہ جو شخص بھی یہ چاہتاہے کہ پروردگار اس کی اہم ترین حاجت کو پورا کردے اس کا فرض ہے کہ آل محمد اور ان کے شیعوں کے ساتھ بہترین برتاؤ کرے چاہے اسے خود اپنے مال کی کسی قدر ضرورت کیوں نہ ہو۔( بشارة المصطفیٰ ص 6 روایت عمران بن معقل)۔

 امام صادق (ع)! جو ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہ کرسکے اسے چاہئے کہ ہمارے نیک کردار دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، پروردگار اسے ہمارے ساتھ سلوک کا ثواب عنایت فرما دے گا اور اسی طرح جو ہماری زیارت نہ کرسکے وہ ہمارے چاہنے والوں کی زیارت کرے ، پروردگار اسے ہماری زیارت کا ثواب عنایت کردے گا ۔( ثواب الاعمال ص 124 / 1 روایت احمد بن محمد بن عیسیٰ ، الفقیہ 2 ص 73 / 1765 ، کامل الزیارات ص 219 روایت عمرو بن عثمان عن الرضا (ع) )۔

عمر بن مریم ! میں نے امام صادق (ع) سے آیت ” الذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل “ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ صلہٴ رحم کے بارے میں ہے اور اس کی آخری تاویل تمھارا برتاؤ ہمارے ساتھ ہے۔( تفسیر عیاشی 2 ص 208 / 30)۔

9۔ صلوات

 ابوسعید خدری ! ہم نے رسول اکرم سے گذارش کی کہ تسلیم تو معلوم ہے یہ صلوات کا طریقہ کیاہے؟ تو فرمایا کہ اس طرح کہو ” خدایا اپنے بندہ اور رسول محمد پر اس طرح رحمت نازل کرنا جس طرح آل ابراہیم پر نازل کی ہے اور انھیں اس طرح برکت دینا جس طرح ابراہیم (ع) کو دی ہے ۔( صحیح بخاری 4 ص 1802 / 4520 ، صحیح مسلم 1 ص 305 / 405 ، سنن دارمی 1ص 330 / 1317 سنن ابی داؤد 1 ص 257 / 978 ، سنن نسائی 3 ص 49)۔

 عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ ! مجھ سے کعب بن عجرہ نے ملاقات کے دوران بتایا کہ میں تمھیں ایک بہترین تحفہ دینا چاہتاہوں جو رسول اکرم نے ہمیں دیا ہے میں نے کہا وہ کیا ؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم نے حضور سے سوال کیا کہ آپ اہلبیت (ع) پر صلوات کا طریقہ کیا ہے، سلام کرنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے؟ فرمایا کہ اس طرح کہو” خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جس طرح ابراہیم (ع) اور آل ابراہیم (ع) پر نازل کی ہے کہ تو قابل حمد بھی ہے اور بزرگ بھی ہے، اور محمد و آل محمد کو برکت عنایت فرما جس طرح کہ ابراہیم (ع) اور آل ابراہیم (ع) کو دی ہے کہ تو حمید بھی ہے اور مجید بھی ہے۔( صحیح بخاری 3 ص 1233 / 3190 ، صحیح مسلم 1 ص 305 / 406 ، سنن ابی داؤد 1 ص 257 / 976 ، سنن دارمی 1 ص 329 / 1316 ، سنن نسائی 3 ص 45)۔

امام صادق (ع) ! میرے والد بزرگوار نے ایک شخص کو خانہ کعبہ سے لپٹ کر یہ کہتے ہوئے سنا کہ خدایا محمد پر رحمت نازل فرما … تو فرمایا کہ ناقص صلوات مت پڑھ اور ہم پر ظلم نہ کر، پڑھناہے تو اس طرح پڑھ ” خدایا محمد او ران کے اہلبیت (ع) پر رحمت نازل فرما ۔( کافی 2 ص 495 / 21 ، عدة الداعی ص 149 روایت ابن اقداح)۔

رسول اکرم ! جو شخص بھی ایسی نماز پڑھے گا جس میں مجھ پر اور میرے اہلبیت (ع) پر صلوات نہ ہوگی تو اس کی نماز قابل قبول نہیں ہے۔(سنن دارقطنئ 1 ص 355 / 6 عوالی اللئالی 2 ص 40 / 101 ، احقاق الحق 18 ص 310 ، مستدرک الوسائل 5 ص 15 / 5256 روایت ابومسعود انصاری )۔

شافعی ! اے اہلبیت (ع) رسول آپ کی محبت پروردگار کی طرف سے فرض ہے اور اس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے۔

آپ کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جو شخص بھی آپ پر صلوات نہ پڑھے اس کی نماز ، نماز نہیں ہے۔( الصواعق المحرقہ ص 148 ، نور الابصار 127)۔

واضح رہے کہ نور الابصار میں ” عظیم القدر“ کے بجائے ” عظیم الفخر “ نقل کیا گیاہے۔

10۔ ذکر فضائل

 رسول اکرم جب بھی کوئی قوم ایک مقام پر جمع ہوکر محمد و آل محمد کے فضائل کا تذکرہ کرتی ہے تو آسمان سے ملائکہ نازل ہوکر اس گفتگو میں شامل ہوجاتے ہیں اور جب یہ لوگ منتشر ہوجاتے ہیں تب واپس جاتے ہیں اور دوسرے ملائکہ انھیں دیکھ کر کہتے ہیں کہ آج تو تمھارے بدن سے ایسی خوشبو آرہی ہے جو ہم نے کبھی نہیں دیکھی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسی قوم کے پاس تھے جو محمد و آل محمد کے فضائل کا ذکر کررہی تھی اور ان لوگوں نے ہمیں یہ خوشبو عنایت کی ہے۔

تو دوسرے ملائکہ خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں بھی وہاں لے چلو اور وہ کہتے ہیں کہ اب تو مجلس ختم ہوچکی ، تو گزارش کرتے ہیں کہ اس چگہ پر لے چلو جہاں یہ مجلس تھی۔( احقاق الحق 18 ص 522 ، ینابیع المودة 2ص 271 / 773 نقل از مودة القربیٰ ، بحار 38 ص 199 / 38)۔

امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کا ذکر جملہ امراض و اسقام اور وسوسہ قلب کا علاج ہے۔ ( خصال ص 625 /10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم عن الصادق (ع) ، تفسیر فرات ص 367 /499 روایت عبید بن کثیر )۔

امام باقر (ع) ! ہمارا ذکر اللہ کا ذکر ہے اور ہمارے دشمنوں کا ذکر شیطان کا ذکر ہے، ( کافی 2 ص 496/2 روایت ابوبصیر عن الصادق (ع) )۔

امام صادق (ع) ! ہمارا ذکر اللہ کے ذکر کا ایک حصہ ہے لہذا جب ہمارا ذکر ہوگا تو گویا خدا کا ذکر ہوگا اور جب ہمارے دشمن کا ذکر ہوگا تو گویا شیطان کا ذکر ہوگا ۔( کافی 2 ص 186 /1 روایت علی بن ابی حمزہ )۔

 معتب غلام امام نے امام جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے داؤد بن سرحان سے فرمایا، داؤد ! ہمارے چاہنے والوں تک ہمارا سلام پہنچا دینا۔ اور کہنا کہ اللہ اس بندہ پر رحم کرتاہے جو دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ہمارے امر کا ذکر کرتاہے اور ان کا تیسرا فرشتہ ہوتاہے جو ان دونوں کے لئے استغفار کرتاہے اور جب بھی دو افراد ہمارے ذکر کے لئے جمع ہوتے ہیں تو پروردگار ملائکہ پر مباہات کرتاہے لہذا جب بھی تمھارا اجتماع ہو تو ہمارا ذکر کرنا کہ اس اجتماع اور اس مذاکرہ میں ہمارے امر کا احیاء ہوتاہے اور ہمارے بعد بہترین افراد وہی ہیں جو ہمارے امر کا ذکر کریں اور لوگوں کو ہمارے ذکر کی دعوت دیں۔( امالی طوسی (ر) ص 224 / 390 ، بشارة المصطفیٰ ص 110)۔

 امام صادق (ع) ! آسمان کے ملائکہ جب ان ایک یا دو یا تین افراد پر نگاہ کرتے ہیں جو آل محمد کے فضائل کا ذکر کرتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں ذرا دیکھو یہ اپنی اس قدر قلت اور دشمنوں کی اس قدر کثرت کے باوجود آل محمد کے فضائل کا ذکر کررہے ہیں تو دوسرا گروہ کہتاہے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم وہ جسے چاہتاہے عنایت فرمادیتاہے اور وہ صاحب فضل عظیم ہے۔( کافی 8 ص 334/ 521 ، 2 ص 187 /4 ، تاویل الآیات الظاہرة ص 667)۔

11۔ ذکر مصائب

 احمد بن یحییٰ الاودی نے اپنے اسناد کے ساتھ منذر کے واسطہ سے امام حسین (ع) سے نقل کیا ہے کہ جس بندہ کی آنکھ سے ہمارے غم میں ایک قطرہٴ اشک بھی گرجاتاہے پروردگارا اسے جنت میں عظیم منزل عنایت فرماتاہے” … اور اس کے بعد امام حسین (ع) کو خواب میں دیکھ کر عرض کیا کہ مجھ سے مخول بن ابراہیم نے ربیع بن منذر نے اپنے والد کے حوالہ سے آپ کا یہ قول نقل کیا ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟ تو فرمایا کہ بیشک صحیح ہے۔( امالی مفید ص 340 / 6 ، امالی طوسی (ر) ص 117 / 181 بشارة المصطفیٰ ص 62 ، کامل الزیارات ص 100)۔

 الحسین بن ابی فاختہ ! میں اور ابوسلمہ السراج و یونس بن یعقوب و فضل بن یسار سب امام جعفر صادق (ع) کے پاس حاضر تھے تو میں نے عرض کی حضور میں آپ پر قربان ! میں لوگوں کے اجتماعات میں شرکت کرتاہوں اور آپ کو یاد کرتاہوں تو کیا کہا کروں ؟ تو فرمایا ۔ حسین ! جب ان کی مجالس میں شرکت کرو تود عا کرو کہ خدایا ہمیں آسانی اور سرور عنایت فرما، پروردگار تمھارے مقصد کو عطا کردے گا۔

پھر میں نے عرض کیا کہ اگر امام حسین (ع) کو یاد کروں تو کیا کہوں؟ فرمایا تین مرتبہ کہو ” صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ “ا ے ابوعبداللہ ! خدا آپ پر رحمت نازل کرے … اس کے بعد فرمایا کہ شہادت امام حسین (ع) پر ساتوں آسمان ، ساتوں زمینیں اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات اور جنت و جہنم کی تمام مخلوقات نے گریہ کیا ہے، صرف تین مخلوقات نے گریہ نہیں کیاہے، میں نے عرض کیا وہ کون ہیں؟

فرمایا ، زمین بصرہ، دمشق ، اور آل الحکم بن ابی العاص ۔( امالی الطوسی (ع) ص 54 / 73)۔

واضح رہے کہ آل حکم کا تذکرہ علامت ہے کہ بصرہ اور دمشق سے مراد زمین بصرہ و دمشق ہے، اہل بصرہ و دمشق نہیں ہیں۔ (جوادی)

امام صادق (ع)! جب بھی کسی آنکھ سے ایک آنسو اس غم میں نکل آتاہے کہ ہمارا خون بہایا گیا ہے یا حق چھینا گیاہے یا ہتک حرمت کی گئی ہے یا ہمارے کسی شیعہ پر ظلم کیا گیا ہے تو پروردگار اسے جنت میں مستقل قیام عنایت فرماتاہے۔( امالی طوسی (ر) ص 194 / 330 ، امالی مفید (ر) 175 / 5 روایت محمد بن ابی عمارہ کوفی)۔

بکر بن محمد ازدی امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے دریافت کیا کہ تم لوگ آپس میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہو ؟ میں نے عرض کی بیشک ! فرمایا میں ان مجالس کو دوست رکھتاہوں لہذا میرے امر کا احیاء کرو کہ اگر کوئی شخص ہمارا ذکر کرتاہے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جاتاہے اور اس کی آنکھ سے مکھی کے پر کے برابر آنسو نکل آتاہے تو پروردگار اس کے گناہوں کو معاف کردیتاہے چاہے سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔( ثواب الاعمال 223 / 1 ، بشارة المصطفیٰ 275 ، مستطرفات السرائر 125 ، المحاسن ! ص 136 / 174 ، کامل الزیارات ص 104 ، تفسیر قمی 2 ص 292)۔

امام صادق (ع) ! جس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اس کی آنکھ سے آنسو نکل آئیں تو اللہ اس کے چہرہ کو آتش جہنم پر حرام کردیتاہے۔(کامل الزیارات ص104)۔

 ابان بن تغلب ! امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ جو ہماری مظلومیت سے رنجیدہ ہو اس کی سانس بھی تسبیح کا ثواب رکھتی ہے اور اس کا ہم و غم بھی عبادت کا درجہ رکھتاہے اور ہمارے راز کا محفوظ رکھنا ایک جہادِ راہِ خدا ہے“۔

اس کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کو سونے کے پانی سے لکھنا چاہئے، ( امالی طوسی (ر) ص 115 / 178 ، امالی مفید (ر) 338 / 2 ، بشارة المصطفیٰ ص 257 ، کافی 2 ص 226 / 16)۔

 سمع بن عبدالملک ! مجھ سے امام صادق (ع) نے فرمایا کہ جس دن سے امیر المومنین (ع) کی شہادت ہوئی ہے، آسمان و زمین ہمارے غم میں رورہے ہیں اور ملائکہ کا گریہ اور ان کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو اس سے زیادہ ہیں اور جب بھی کوئی ملک یا انسان ہمارے حال پر مہربان ہوکر گریہ کرتاہے تو آنسو نکلنے سے پہلے ہی پروردگار اس کے حال پر مہربان ہوجاتاہے اور جب یہ آنسو رخسار پر جاری ہوجاتے ہیں تو ان کا مرتبہ یہ ہوتاہے کہ ایک قطرہ بھی جہنم میں گر جائے تو آگ سرد ہوجائے اور جس کا دل ہمارے غم میں دکھنے لگتاہے، پروردگار وقت مرگ ہماری زیارت سے وہ فرحت عنایت کرتاہے جس کا سلسلہ موت سے حوض کوثر تک برقرار رہتاہے۔( کامل الزیارات ص 101)۔

 امام رضا (ع) ! جو ہماری مصیبت کو یاد کرکے ہمارے غم میں آنسو بہائے وہ روز قیامت ہمارے ساتھ ہمارے درجہ میں ہوگا اور جس کے سامنے ہماری مصیبت کا ذکر کیا جائے اور وہ گریہ کرے یا دوسروں کو رلائے اس کی آنکھ اس دن نہ روئے گی جس دن تمام آنکھیں گریہ کناں ہوں گی اور جو کسی ایسی مجلس میں بیٹھے جہاں ہمارے امر کا احیاء کیا جاتاہے اس کا دل اس دن مردہ نہ ہوگا جس دن تمام دل مردہ ہوجائیں گے۔( امالی صدوق (ر) ص 68 /4 روایت علی بن فضال ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 394 / 48 ، مکارم الاخلاق 2 ص 93 / 2663)۔

 دعبل خزاعی ! میں امام علی بن موسی الرضا (ع) کی خدمت میں ایام غم میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ محزون و رنجیدہ بیٹھے ہیں اور اصحاب بھی آپ کے گرد اسی عالم میں ہیں حضرت نے مجھے آتے دیکھ کر استقبال فرمایا اور فرمایا کہ آؤ آؤ تم زبان اور ہاتھ سے ہماری مدد کرنے والے ہو، اس کے بعد مجھے اپنے پہلو میں بٹھاکر فرمایا کہ یہ دن ہم اہلبیت (ع) کے حزن و غم کے دن میں ، ہماری خواہش ہے کہ تم کوئی غم کا شعر سناؤ کہ آج کل بنئ امیہ ہمارے غم سے خوشی منارہے ہیں۔

دیکھو دعبل ! اگر کوئی شخص ہمارے غم میں روئے گا یا ایک آدمی کو بھی رلائے گا تو اس کے اجر کی ذمہ داری پروردگار پر ہوگی اور جس کی آنکھ سے ہمارے غم میں آنسو نکل آئیں گے خدا اسے ہمارے زمرہ میں محشور کرے گا اور جو ہمارے جد کے غم میں گریہ کرے گا خدا اس کے گناہوں کو یقیناً معاف کردے گا۔( بحار الانوار 45 ص 257 / 15)۔

 ائمہ طاہرین (ع)! جو ہمارے غم میں روئے یا سو آدمیوں کو رلائے گا اس کے لئے جنت ہے، اور جو پچاس کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنت ہے اور جو تیس کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنت ہے اور جو بیس کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنّت ہے اور جو دس کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنّت ہے اور جو ایک کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنت ہے اور جو حزن و غم طاری کرے گا اس کے لئے بھی جنّت ہے۔ (طہوف ص 86)۔

واضح رہے کہ ان روایات کا مقصد بے عملی کی ترویج نہیں ہے بلکہ گریہ کی تاثیر کا بیان ہے، اس کے بعد پروردگار ہر اچھے برے عمل کا حساب کرنے والا ہے۔( جوادی)

محبت اہلبیت (ع) 

فضائل محبت اہلبیت (ع)

1۔ اسا س الاسلام

۔رسول اکرم ! اسلام کی اساس میری اور میرے اہلبیت(ع) کی محبت ہے۔( کنز العمال 12 ص 105 / 34206، درمنثور ، ص 350)۔

رسول اکرم ! ہر شے کی ایک بنیاد ہے اور اسلام کی بنیاد ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( محاسن 1 ص 247 / 461 روایت مدرک بن عبدالرحمن)۔

۔ امام علی (ع)! رسول اکرم نے مجھ سے خطاب کرکے فرمایا کہ اسلام سادہ ہے اور اس کا لباس تقویٰ ہے اور اس کے بال و پر ہدایت ہیں اور اس کی زینت حیاء ہے اور اس کا ستون ورع ہے اور اس کا معیار عمل صالح ہے اور اس کی بنیاد میری اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( کنز العمال 13 ص 645 / 37631)۔

 امام باقر (ع) ! رسول اکرم حجة الوداع کے مناسک ادا کرچکے تو سواری پر بلند ہوکر ارشاد فرمایا کہ جنت میں غیر مسلم کا داخلہ ناممکن ہے!

ابوذر (ر) نے عرض کی حضور پھر اسلام کی بھی وضاحت فرمادیں ؟ فرمایا کہ اسلام ایک جسم عریان ہے جس کا لباس تقویٰ، زینت حیاء معیار ورع، جمال دین، ثمرہ عمل صالح اور ہر شے کی ایک اساس ہے، اور اسلام کی اساس ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( امالی طوسی (ر) 84 ص 126 روایت جابر بن یزید، کافی 2 ص 46 / 2 ، امالی صدوق (ر) ص 221 /16 ، محاسن ! ص 445 / 1031 ، شرح الاخبار 3 ص 8 / 927 ، الفقیہ 4 ص 364 /5762 روایت حماد بن عمرو انس بن محمد، تحف العقول ص 52)۔

 رسول اکرم ! آیت مودت کے نزول بعد جبریل (ع) نے کہا کہ اے محمد ! ہر دین کی ایک اصل اور اس کا ایک ستون اور ایک شاخ اور ایک عمارت ہوتی ہے اور اسلام کی اصل اور اس کا ستون لاالہ الا اللہ ہے اور اس کی فرع ا ور تعمیر آپ اہلبیت (ع) کی محبت ہے جس میں حق کی ہم آہنگی اور دعوت پائی جاتی ہے۔( تفسیر فرات کوفی 397 / 528 روایت علی بن الحسین بن سمط)۔

امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہی دین کا نظام ہے۔( امالی طوسی (ر) 296 / 582 روایت جابر بن یزید الجعفی)۔

2۔ محبت اہلبیت (ع) محبت خدا ہے

۔ امام علی (ع) ! میں نے رسول اکرم کی زبان مبارک سے سناہے کہ میں اولاد آد م کا سردار ہوں اور یا علی (ع) تم اور تمھاری اولاد کے ائمہ میری امت کے سردارہیں جس نے ہم سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے ہم سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ، جو ہمارا چاہنے والا ہے وہ اللہ کا چاہنے والا ہے اور جو ہم سے عداوت کرنے والا ہے ، وہ اللہ سے عداوت رکھنے والاہے ، ہمارا مطیع اللہ کا اطاعت گذار ہے اور ہمارا نافرمان اللہ کا نافرمان ہے۔( امالی صدوق (ر) 384 / 16 ، بشارة المصطفیٰ ص 151 روایت اصبغ بن نباتہ)۔

امام صادق (ع) ! جو ہمارے حق کو پہچانے اور ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے وہ پروردگار سے محبت کرنے والا ہے۔( کافی 8 ص 129 / 98 روایت حفص بن غیاث ، تنبیہ الخواطر 2 ص 137)۔

 امام ہادی (ع) ، زیارت جامعہ ، جس نے آپ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے آپ حضرات سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ، آپ کا موالی اللہ کا چاہنے والا ہے اور آپ سے بغض رکھنے والا اللہ سے بغض رکھنے والا ہے۔( تہذیب 6 ص 97 / 177)۔

3۔ محبت اہلبیت (ع) محبت رسول اکرم ہے۔

 رسول اکرم ! اللہ سے محبت کرو کہ تمھیں اپنی نعمتوں سے فیضیاب فرمایاہے، اس کے بعد اس کی محبت کی بناپر ہم سے محبت کرو اور ہماری محبت کی بناپر ہمارے اہلبیت (ع) سے محبت کرو ۔( سنن ترمذی 5 ص 622 / 3789 ، تاریخ بغداد 4 ص 160 ، مستدرک حاکم 3 ص 162 / 16 47 ، المعجم الکبیر 3 ص 46 / 2639 ، 10 ص 281 /10664 ، شعب الایمان 1 ص 366 / 408 ، 2 ص 130 / 1378 ، اسد الغابہ 2 ص 18 ، امالی صدوق (ر) ص 298 / 6 ، علل الشرائع 139 / 1 ، بشارة المصطفیٰ ص 61 ، 237 روایت ابن عباس ، امالی طوسی (ر) ص 278 / 531 روایت عیسی ٰ بن احمد بن عیسی ٰ ، صواعق محرقہ ص 230)۔

 زید بن ارقم ! میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا جب فاطمہ (ع) ایک ادنی چادر اوڑھے ہوئے اپنے گھر سے حضور کے حجرہ کی طرف جارہی تھیں اور ان کے ساتھ دونوں فرزند حسن (ع) و حسین (ع) تھے اور پیچھے پیچھے علی (ع)بن ابی طالب (ع) چل رہے تھے کہ آپ نے ان سب کو دیکھ کر فرمایا کہ جس نے ان سب سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ، اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔ ( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص 91 / 126 )۔

اما م باقر (ع) ! خدا سے محبت کرو اور اس کی وجہ سے رسول خدا سے محبت کرو اور ان کی وجہ سے ہم سے محبت کرو ۔( مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 160 / روایت عبیداللہ بن عمر بن علی (ع) ابی طالب (ع) )۔

4۔ محبت اہلبیت تحفہ الہی ہے

 رسول اکرم ! پروردگار نے اسلام کو خلق کرنے کے بعد اس کا ایک میدان قرار دیا اور ایک نور۔ ایک قلعہ بنایا اور ایک مددگار، اس کا میدان قرآن مجیدہے اور نور حکمت، قلعہ نیکی ہے اور انصار ہم اور ہمارے اہلبیت (ع) اور شیعہ، لہذا ہمارے اہلبیت (ع) ، ان کے شیعہ اور ان کے اعوان و انصار سے محبت کرو کہ مجھے معراج کی رات جب آسمان پر لے جایا گیا تو جبریل (ع) نے آسمان والوں سے میرا تعارف کرایا اور پروردگار نے میری محبت، میرے اہلبیت(ع) اور شیعوں کی محبت ملائکہ کے دل میں رکھ دی جو قیامت تک امانت رہے گی ، اس کے بعد مجھے واپس لاکر زمین والوں میں متعارف کرایا کہ میری اور میرے اہلبیت (ع) اور ان کے شیعوں کی محبت میری امت کے مومنین کے دلوں میں امانت پروردگار ہے جس کی تا قیامت حفاظت کرتے رہیں گے۔ ( کافی 2 ص 46 / 3 ، بشارة المصطفیٰ ص 157 روایت عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنئ عن الجواد (ع))۔

امام باقر (ع) میں جانتاہوں کہ تم لوگ جو ہم سے محبت کررہے ہو یہ تمھارا کارنامہ نہیں ہے، پروردگار نے ہماری محبت تمھارے دلوں میں پیدا کی ہے۔(محاسن) ص 246 / 457 روایت ابوبصیر۔

۔امام صادق (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت کو پروردگار اپنے عرش کے خزانوں سے اس طرح نازل کرتاہے جس طرح سونے چاندی کے خزانے نازل ہوتے ہیں ، اور اس کا نزول بھی ایک مخصوص مقدار میں ہوتاہے اور مالک اسے صرف مخصوص افراد کو عنایت کرتاہے، محبت کا ایک مخصوص ابرکرم ہے جب پروردگار کسی بندہ سے محبت کرتاہے تو اس پر اس ابرکرم کو برسادیتاہے اور اس سے شکم مادر میں بچہ بھی فیضیاب ہوجاتاہے۔( تحف العقول ص 313 روایت جعفر محمد بن النعمان الاحوال)۔

5۔ محبت اہلبیت (ع) افضل عبادت ہے

رسول اکرم ! آل محمد سے ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور اس پر مرنے والا جنت میں داخل ہوجاتاہے۔( الفردوس 2ص 142 / 2721 ، ینابیع المودة 3 ص 191 روایت ابن مسعود)۔

 رسول اکرم ! ابوذر کو وصیت فرماتے ہیں، دیکھو سب سے پہلی عبادت پروردگار معرفت الہی ہے، اس کے بعد مجھ پر ایمان اور اس امر کا اقرار کہ پروردگار نے مجھے تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر ، داعی الی اللہ اور سراج منیر بناکر ارسال کیاہے، اس کے بعد میرے اہلبیت (ع) کی محبت جن سے خدا نے ہر رجس کو دور رکھاہے اور کمال طہارت کی منزل پر فائز کیاہے۔( امالی طوسی (ر) 526 / 1162 ، مکارم الاخلاق 2 ص 363 / 2661 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 51 ) اعلام الدین ص 189)۔

امام علی (ع) ! تمام نیکیوں میں سب سے بہتر ہماری محبت ہے اور تمام برائیوں میں سب سے بدتر ہماری عداوت ہے۔( غر ر الحکم ص 3363)۔

امام صادق (ع) ! ہر عبادت سے بالاتر ایک عبادت ہے لیکن ہم اہلبیت (ع) کی محبت تمام عبادات سے افضل و برتر ہے۔( المحاسن 1 ص 247 / 462 روایت حفص الدہان)۔

 فضیل ! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کی کہ قرب خدا کے لئے سب سے بہتر فریضہ کون سا ہے؟ فرمایا بہترین وسیلہٴ تقرب خدا کی اطاعت، اس کے رسول کی اطاعت اور اس کے رسول اور اولی الامر کی محبت ہے۔( المحاسن 1 ص 227/ 463، کافی 1 ص 187 / 12 روایت محمد بن الفضیل)۔

6۔ محبت اہلبیت (ع) باقیات صالحات میں ہے

 محمد بن اسماعیل بن عبدالرحمان الجعفی ! میں اور میرے چچا حصین بن عبدالرحمان امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انھیں قریب بلاکر بٹھایا اور فرمایا کہ یہ کس کے فرزند ہیں ؟ انھوں نے عرض کی کہ میرے بھائی اسماعیل کے فرزند ہیں!۔

فرمایا خدا اسماعیل پر رحمت نازل کرے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے تم نے انھیں کس عالم میں چھوڑا ہے، انھوں نے عرض کی کہ بہترین حال میں کہ خدا نے ہمیں آپ کی محبت عنایت فرمائی ہے۔

فرمایا حصین ! دیکھو ہم اہلبیت (ع) کی مودت کو معمولی مت سمجھنا یہ باقی رہ جانے والی نیکیوں میں ہے، انھوں نے کہا کہ حضور ہم اسے معمولی نہیں سمجھتے ہیں ۔ بلکہ اس پر شکر خدا کرتے ہیں کہ اس سے فیضیاب فرمایا ۔( اختصاص ص 86 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 215)۔

 

 

تبصرے
Loading...