حرم حضرت فاطمہ معصومہ(ع) کے چند کرامات

جناب آقای عبد اللہ موسیانی حضرت آیت اللہ مرعشی سے نقل فرماتے ہیں کہ میں سردی کے موسم میں ایک شب بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہوگیا سوچا کہ حرم چلا جاوٴں لیکن نا وقت اور بے موقع سمجھ کر پھر سونے کی کوشش کرنے لگا اور سر کے نیچے اپنا ہاتھ رکھ لیا تا کہ اگر نیند بھی آنے لگے تو سو نہ سکوں ۔ خواب میں دیکھتے ہیں کہ ایک بی بی کمرے میں داخل ہوئیں ہیں ( جن کا قیافہ میں نے بخوبی دیکھا لیکن اسے بیان نہیں کروں گا ) اور فرماتی ہیں کہ سید شہاب اٹھو اور حرم جاوٴمیرے بعض زائرین کڑاکے کی سردی سے جان بحق ہونے والے ہیں ۔ انھیں بچاوٴ آپ فرماتے ہیں کہ میں بلا تامل حرم روانہ ہوگیا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ حرم کے شمالی دروازے ( میدان آستانہ کی طرف ) پر بعض پاکستانی یا ہندوستانی ( اپنی مخصوص وضع و قطع کے ساتھ ) ٹھنڈک کی شدت کی وجہ سے دروازے سے پشت لگائے ہوئے تھر تھرارہے ہیں ( کانپ ) میں نے دق الباب کیا حاج آقای حبیب نامی خادم نے میرے اصرار پر دروازہ کھول دیا ہمارے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی حرم کے اندر داخل ہوگئے اور ضریح کے کنارے زیارت اور عرض ادب میں مصروف ہوگئے میں نے بھی انہیں خادموں سے پانی مانگا اور نماز شب کے لئے وضو کرنے لگا ۔
نخجوانی طالب علم کو شفا
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی دام ظلہ فرماتے ہیں کہ روس کی بربادی اور اس کی تقسیم نیز مسلمان نشین جمہوریتوں کے آزاد ہونے کے بعد (جس میں ایک جمہوری نخجوان بھی ہے)نخجوان کے شیعوں نے اپنے نوجوانوں کو حوزہ علمیہ قم بھیجنے کاارادہ کیاتاکہ تبلیغ اور صحیح تربیت کاایک اچھا اور مناسب انتظام ہو قم بھیجنے کے لئے ان لوگوں نے ایک مسابقہ کاانعقاد کیا جس میں تین سو افراد نے شرکت کی اور ان میں سے پچاس افراد کو قبول کیا گیاجن کے نمبر اچھے تھے ان پچاس افراد میں سے ایک منتخب شدہ نوجوان ایسا بھی تھا جس کی آنکھ خراب تھی ،مسئولین نے اسے رد کردیا۔لیکن اس کے باپ کے بے حد اصرار کی بناء پر اسے دوبارہ قبول کیاگیا،جس وقت یہ افراد تحصیل علم کے لئے قم روانہ ہورہے تھے اس وقت ویڈیو گرافر نے کیمرہ اس لڑکے کی طرف گھمادیا اور ایک برجستہ تصویر لے کر نمائش میں لگادی جب اس نوجوان نے یہ دیکھا تو بہت رنجیدہ ہوا قم پہنچنے کے بعد سارے لوگ اپنے اپنے مدرسوں میں ساکن ہوئے لیکن اس نوجوان کے قدم حرم مطہر کی جانب بڑھے اور اس نے بارگاہ حضرت معصومہ میں حاضری دی نہایت لگن خلوص کے ساتھ حضرت سے متوسل ہوا اسی عالم میں وہ سوگیا خواب میں اس نے عوالم مشاہدہ کئے بیداری کے بعد اس نے دیکھا کہ اب آنکھ سالم اور بے عیب ہے شفا یابی کے بعد وہ مدرسہ لوٹتاہے جب اس کے دوستوں نے یہ کرامت اور معجزاتی کیفیت دیکھی تو ایک ساتھ حرم کے لئے روانہ ہوگئے اور کافی دیر تک وہاں دعا اور توسل میں مشغول رہے جب یہ خبر نخجوان پہنچی تو وہاں کے لوگوں نے کافی اصرار کیا کہ اس جوان کو یہاں بھیج دیا جائے تاکہ دوسروں کے لئے عبرت اور ہدایت نیز مسلمانوں کا عقیدہ پختہ ہوسکے۔ (۱)
مرد نصرانی کو شفا
محدث نوری نے نقل فرمایا ہے : کہ بغداد میں ایک نصرانی بنام یعقوب مرض چکے تھے وہ اس درجہ نحیف و لاغر ہوچکا تھا کہ چلنے پھر نے سے بھی معذور تھا وہ کہتا ہے :
خدا سے میں نے بارہا موت کی تمنا کی یہاں تک کہ ۱۲۸۰ ھ میں عالم خواب میں ایک جلیل القدر نورانی سید کو دیکھا کہ میرے تخت کے پاس کھڑے ہیں اور مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اگر شفا چاہتے ہو تو کاظمین کی زیارت کے لئے آوٴ جب میں خواب سے بیدار ہوا تو اپنی ماں سے خواب کو نقل کیا ، چونکہ میری ماں نصرانی تھی اس لئے کہنے لگی یہ شیطانی خواب ہے ۔ دوسری مرتبہ جب میں سویا تو ایک خاتون کو خواب میں دیکھا جو چادر میں ڈھکی تھیں مجھ سے کہنے لگیں : اٹھو ! صبح ہوگئی ہے ۔ کیا میرے باپ نے تم سے شرط نہ کی تھی کہ ان کی زیارت کرو گے تو وہ تم کو شفا یاب کریں گے ؟ میں نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ تو فرمایا : میں معصومہ امام رضا علیہ السلام کی بہن ہوں ۔ پھر میں نے پوچھا آپ کے بابا کون ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : موسیٰ بن جعفر ( اسی اثناء میں ) میں خواب سے بیدار ہوگیا …… متحیر تھا کہ کہاں جاوٴں ذہن میں آیا کہ سید راضی بغدادی کے پاس جاوٴں ۔ اسی عزم کے تحت میں بغداد گیا اور جب ان کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو دق الباب کیا ۔ آواز آئی : کون ؟ میں نے کہا دروازہ کھولو ! جیسے ہی سید نے میری آواز سنی اپنی بیٹی سے کہا : دروازہ کھولو ایک نصرانی مسلمان ہونے کے لئے آیا ہے ۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو ان سے پوچھا : آپ کو کیسے معلوم ہوگیا کہ میں اس قصد سے آیا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا : خواب میں میرے جد نے مجھے سارے قضیہ سے آگاہ کردیا ہے ۔ پھر وہ مجھے کاظمین شیخ عبد الحسین تہرانی کے پاس لے گئے تو میں نے اپنی ساری داستان ان سے کہہ سنائی ۔ داستان سننے کے بعد انھوں نے حکم صادر فرمایا اور لوگ مجھے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حرم مطہر میں لے گئے اور مجھے ضریح کا طواف کرا یا لیکن کوئی عنایت نہ ہوئی میں حرم سے باہر نکلا ، پیاس کا غلبہ ہوا پانی پیا ، پانی پیتے ہی میری حالت متغیر ہوگئی ۔ میں زمین پر گر گیا گویا میری پیٹھ پر ایک پہاڑ تھا جس کی سنگینی سے مجھے نجات ملی ، میرے بدن کا ورم ختم ہوگیا ، میرے چھرے کی زردی سرخی میں تبدیل ہوگئی اور اس کے بعد اس مرض کا نام و نشان تک مٹ گیا ۔ شیخ بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے ہاتھوں مسلمان ہو گیا ۔
مفلوج کو شفا
حجۃ الاسلام و المسلمین آقای شیخ محمود علمی اراکی نے نقل فرمایا ہے :
میں نے خود بارہا ایک شخص کو دیکھا ہے کہ جو پیر سے عاجز تھا وہ اپنے پیروں کو جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔ وہ اپنے بدن کے نچلے حصہ کو زمین پر خط دیتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کے سہارے چلتا تھا ۔ ایک دن میں نے اس سے اس کا حال دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ روس کے ایک شہر قفقاز کا باشندہ ہے ۔ وہ بتانے لگا کہ میرے پیر کی رگیں خشک ہوچکی ہیں لہٰذا میں چلنے سے معذور ہوں ۔ میں مشہد امام رضا علیہ السلام سے شفا لینے گیا تھا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اب یہاں قم آیا ہوں اگر خدا نے چاہا تو شفا مل جائے گی ۔
ماہ رمضان المبارک کی ایک رات کو یکایک حرم کے نقار خانے سے نقارہ بجنے کی آواز آئی ۔ لوگ آپس میں کہہ رہے تھے بی بی نے مفلوج کو شفا دیدی ! اس واقعے کے چند دنوں بعد میں چند افراد کے ساتھ گاڑی ( یکہ ) میں اراک کی طرف جا رہا تھا ۔ راستے میں اراک سے چھ فرسخ کے فاصلے پر اسی مفلوج شخص کو دیکھا کے اپنے صحیح و سالم پیر سے کربلا کی طرف عازم ہے ہم نے اپنا یکہ روکا اور اس کو اپنی سواری پر سوار کرلیا ۔ پھر معلوم ہوا کہ اس دن جسے شفا ملی تھی وہ یہی مفلوج ہے ۔ وہ شخص اراک تک ہم لوگوں کے ساتھ تھا ۔ (۲)
گمشدہ کو نجات اور زائرین پر عنایتیں
حرم کے خادم اور کلید دار جو آقائے روحانی مرحوم ( علمائے قم میں سے ایک عالم دین جو مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام میں امام جماعت تھے ) کی نمازوں میں تکبیر بھی کہا کرتے تھے ۔ خود نقل کرتے ہیں : جاڑے کی ایک رات تھی ، میں حرم مطہر میں تھا عالم خواب میں حضرت معصومہ علیہا السلام کو دیکھا کہ آپ فرمارہی ہیں : اٹھو اور مناروں پر چراغ روشن کرو ، میں خواب سے بیدار ہوا اور کوئی توجہ نہ دی ، دوسری مرتبہ بھی یہی خواب دیکھا لیکن اس مرتبہ بھی توجہ نہ دی ، تیسری مرتبہ حضرت نے فرمایا : مگر تم سے نہیں کہہ رہی ہوں کہ اٹھو اور مناروں پر چراغ روشن کرو ؟ میں خواب سے بیدار ہوا اور کسی علت کو معلوم کئے بغیر منارے پر گیا اور چراغ روشن کر کے پھر سوگیا ۔ صبح کو اٹھ کر حرم کے دروازوں کو کھولا اور آفتاب طلوع ہونے کے بعد حرم سے باہر آیا ۔ اپنے رفقاء کے ساتھ جاڑے کی دھوپ میں گفتگو کر رہا تھا کہ یکایک چند زائرین کی گفتگو کی طرف متوجہ ہوا ۔ وہ کہہ رہے تھے : بی بی کی کرامت اور معجزے کو دیکھا ! اگر کل رات اس سرد ہوا اور شدید برف باری میں حرم کے منارے کا چراغ روشن نہ ہوتا توہم لوگ ہرگز راستہ تلاش نہیں کرپاتے اور ہلاک ہوجاتے ۔
خادم کہتا ہے :
میں اپنے آپ میں حضرت کی کرامت کی طرف متوجہ ہوا نیز یہ کہ آپ کو اپنے زائروں سے کس قدر محبت و الفت ہے۔ (۳)
مرض دیوانگی
آقائے میر سید علی برقعی نے فرمایا :
ایک شخص نے بیان کیا کہ میں جب عراق میں ایران کا سفیر تھا تو میری بیوی دیوانگی کی مرض میں مبتلا ہوگئی ، نوبت یہاں تک آگئی کہ ان کے پیر میں زنجیر ڈالنی پڑی ایک دن جب سفارت خانے سے لوٹا تو ان کا بہت برا حال دیکھا ۔ یہ حال دیکھنے کے بعد اپنے مخصوص کمرے میں داخل ہوا اور وہیں سے امیر الموٴمنین علیہ السلام سے متوسل ہوا عرض کیا :
یا علی چند سال سے آپ کی خدمت میں ہوں اور پردیسی ہوں ، اپنی بیوی کی شفا یابی آپ سے چاہتا ہوں ۔اسی طرح متحیر و پریشان تھا کہ خدا یا کیا کروں کہ ناگہاں گھر کی خادمہ دوڑتی ہوئی آئی اور بولی آقا ! جلدی آئیے ۔ میں نے پوچھا : میری بیوی مرگئی ؟ کہنے لگی : نہیں ! اچھی ہوگئی ہیں ۔ میں جلدی سے اپنی بیوی کے پاس آیا تو دیکھا کہ طبیعی حالت میں بیٹھی ہیں ۔ مجھے دیکھتے ہی مجھ سے پوچھنے لگیں : میرے پیر میں زنجیر کیوں باندھی ہے ؟
میں نے سارا واقعہ سنادیا ۔ اس کے بعد میں نے پوچھا تم یکایک ٹھیک کیسے ہوگئی ؟ انھوں نے جواب دیا : ابھی ابھی ایک با جلالت خاتون میرے کمرے میں داخل ہوئیں تھیں ، میں نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ فرمایا : میں معصومہ امام موسیٰ جعفر علیہ السلام کی دختر ہوں ، میرے جد امیر الموٴمنین علیہ السلام نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو شفا دوں اور میں نے تم کو شفا یاب کردیا ۔ (۴)
ضعف چشم
حاج آقائے مہدی صاحب مقتبرۃ اعلم السلطنۃ ( بین صحن جدید و عتیق ) نے نقل کیا ہے کہ میں کچھ دنوں قبل ضعف چشم میں مبتلا ہو گیا تھا ۔ ڈاکٹروں کے پاس جانے کے بعد معلوم ہوا کہ آنکھ میں موتیا بندہوگیا ہے لہٰذا اس کا آپریشن کرنا پڑے گا ۔ وہ کہتے ہیں : اس کے بعد میں جب بھی حرم مشرف ہوتا تھا تو ضریح کی تھوڑی سی گرد و غبار آنکھوں سے مل لیا کر تا تھا ۔ میرا یہ عمل باعث ہوا کہ میری آنکھوں کی کمزوری برطرف ہوگئی ۔ یہ عمل ایسا با برکت ثابت ہوا کہ آج تک چشمے کے بغیر قرآن و مفاتیح پڑھتا ہوں ۔ (۵)
گونگی لڑکی
حجۃ الاسلام جناب آقائے حسن امامی یوں رقمطراز ہیں :
۱۰ / رجب ۱۳۸۵ ء ھ بروز پنجشنبہ ” آب روشن آستارہ ” کی رہنے والی ایک ۱۳ سالہ لڑکی اپنے ماں باپ کے ہمراہ قم آئی ۔ وہ لڑکی ایک مرض کی وجہ سے گونگی ہو گئی تھی اور بولنے کی صلاحیت اس سے سلب ہوگئی تھی ۔ ڈاکٹروں کو دکھانے کے با وجود بھی اس کا معالجہ نہ ہو سکا ۔ جب ڈاکٹر مایوس ہوگئے تو وہ لوگ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم میں پناہ گزیں ہوئے ۔ دو رات وہ لڑکی ضریح کے پاس بیٹھی رہی ۔ کبھی روتی تو کبھی زبان بے زبانی سے مشغول راز و نیاز تھی کہ یک بارگی حرم کے سارے چراغ خاموش ہوگئے ۔ اسی وقت وہ لڑکی حضرت کی بے کراں عنایتوں کے سائے میں آگئی اور ایک عجیب انداز میں چیخ اٹھی جسے وہاں کے خدام اور زائرین نے اچھی طرح سنا چیخ سنتے ہی مجمع ٹوٹ پڑتا تا کہ اس کے کپڑے کے کچھ حصے بعنوان تبرک لے لے ۔ لیکن فوراً خادمین حضرات لڑکی کی حفاظت کے لئے ایک حجرے میں لے گئے ( جسے کشیک خانہ کہتے ہیں ) یہاں تک کہ مجمع کم ہوگیا ۔ لڑکی نے کہا : جس وقت چراغ گل ہوا اسی وقت ایک ایسی روشنی اور نور دیکھا کہ اپنی پوری زندگی میں ویسا نور نہیں دیکھا تھا پھر حضرت سلام اللہ علیہا کو دیکھا کہ فرمارہی ہیں : تم ٹھیک ہوگئی ہو اب بول سکتی ہو میں چیخنے لگی تو دیکھا کہ میں بول سکتی ہوں ۔ (۶)
مریض دق
آقائے مہدی صاحب مقبرہ اعلم السلطنۃ فر ماتے ہیں :
قم کے ایک دیہات “خلجستان ” کا ایک شخص مرض دق (ٹی ۔بی) میں مبتلا ہو گیا قم کے ڈاکٹروں کی طرف مراجعہ کیا ۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ پھر تہران گیا وہاں معالجہ شروع کیا ۔ یہاں تک کہ علاج میں اس کی ساری دولت ختم ہو گئی لیکن دواؤں نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ۔ مایوس ہو کر تہی داماں وہ اپنے وطن لوٹ آیا ۔ وہاں کے رہنے والوں نے اس سے کہا: تمھارے پاس یہاں کچھ نہیں ہے اور تم جس مرض میں مبتلا ہو وہ چھوت کا مرض ہے ۔ تمھارا یہاں رہنا یہاں کے لوگوں کے لئے نقصان دہ ہے لہٰذا تم یہاں سے چلے جاؤ۔ چار و ناچار وہ آوارہ وطن تہی داماں رنجور شخص قم پہنچتا ہے اور صحن جدید میں حرم مطہر کے مقبروں میں سے ایک مقبرے میں تمام جگہوں سے ناامید ہو کر عنایات فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا سے اپنے دل کو تسلی دیتا ہے ۔ اسی اثنا میں اسے نیند آجاتی ہے ۔ بی بی کی عنایتوں کے نتیجہ میں بیدار ہو نے کے بعد اپنے اندر مرض کا کوئی اثر نہیں پاتا ہے ۔ (۷)
قرض کی ادائیگی اور رزق میں برکت
آستانہ مقدسہ کے خادم جناب آقائے کمالی فرماتے ہیں : ۱۳۰۲ ھء شمسی کی بات ہے میں حضرت معظمہ کی بارگاہ میں پناہ گزیں تھا اور وہیں صحن نو میں ایک حجرے میں مقیم تھا ۔ زندگی بہت سختی سے گذر رہی تھی اور بے حد فقیر و نادار ہو گیا تھا زندگی حرم کے اطراف کے تاجروں سے قرض پر گذر رہی تھی ۔ ۔ یہاں تک کہ ایک دن نماز صبح کی ادائیگی کے بعد بی بی کی بارگاہ میں مشرف ہوا ۔ اور اپنی ساری حالت بی بی کو سنادیا ۔ اسی حالت میں پیسوں کی تھیلی میرے دامن میں گری ۔ کچھ دیر تک تو میں نے انتظار کیا کہ شاید یہ کسی زائر کا پیسہ ہو تو یہ اسے دیدوں ، لیکن وہاں کوئی نہ تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ بی بی کا خاص لطف ہے ۔ تھیلی لے کر اپنے حجرے کی طرف پلٹ گیا ۔ جب اسے کھولا تو اس میں چار ہزار تومان تھے پہلے تو میں نے سارے کے سارے قرض ادا کئے پھر چودہ مہینوں تک اس کو خرچ کرتا رہا لیکن اس میں کافی برکت تھی ، ختم ہی نہیں ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ ایک دن حجۃ الاسلام حسین حرم پناہی تشریف لائے اور ہماری زندگی کے بارے میں سوال کیا ۔ میں نے موضوع کو یوں بیان کردیا ۔ انہی دنوں وہ عطیہ ختم ہوگیا ۔ (۸)

حوالہ جات
۱ ۔ اس کرامت کی کیسٹ حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی کی زبانی آستانہ فرہنگی میں موجود ہے
۲ ۔ زندگانی حضرت معصومہ : سید مہدی صحفی ص / ۴۷ ۔
۳ ۔ ودیعہ آل محمد / محمد صادق انصاری ص ۱۴ ۔
۴۔ بشارۃ المومنین / شیخ قوام اسلامی جاسبی ص ۴۳ ۔
۵۔ مدرک سابق ۔
۶ ۔ بشارۃ المومنین ص ۴۹ ۔
۷ ۔ بشارۃ المومنین ص ۵۱ ۔
۸۔ بشارۃ المومنین ص ۵۲ ۔

 

تبصرے
Loading...