حج کے ایام میں لبیک اللھم لبیک کی دلنشین آواز ساری دنیا میں گونجتی ہے

میں گونجتی ہے، یہ خدا تعالی کو یاد کرنے اور اپنی روح و جان کو زندگي بخش الہی نور سے منور کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔

 ذوالحجہ کا مہینے آ گیا ہے اور حج کے عظیم ایام قریب آتے جا رہے ہیں۔ اس مہینے میں لاکھوں موحد انسان سرزمین وحی میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں سے خدا تعالی کے عشق سےلبریز دل کے ساتھ خانہ کعبہ کی جانب جاتے ہیں تاکہ خوبصورت اور معنوی اجتماع میں عبادت و بندگی کا پرشکوہ ترین جلوہ پیش کریں۔ سب لوگ مل کر اور ہم آواز ہو کر ہر طرح کے امتیاز اور برتری سے الگ ہو کر توحید کے گھر کے پاس خدا تعالی کی عظمت و کبریائي کی تعریف کرتے اور توحید کا نعرہ لگاتے ہیں۔ چلیں ہم بھی اپنے دلوں کو نور و رحمت کی وادی میں لے جائيں اور حق تعالی سے عقیدت رکھنے والے بندوں کے عظیم اجتماع کی آواز میں آواز ملاتے ہوۓ کہیں۔ 

لبیک اللھم لبیک 

خدایا میں تیری آواز پر لبیک کہتا ہوں۔ 

ایک دوست کہہ رہا تھا کہ سورج مکھی کا رخ ہمیشہ نور کی جانب ہوتا ہے۔ اس کا مقصود صرف سورج ہوتا ہے۔ جب کسان سورج مکھی کا بیج بوتا ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ سورج کو پا لے گا۔ سورج مکھی کا پھول کسی بھی 

” دنیا کے مختلف علاقوں سے خدا تعالی کے عشق سے لبریز دل کے ساتھ خانہ کعبہ کی جانب جاتے ہیں تاکہ خوبصورت اور معنوی اجتماع میں عبادت و بندگی کا پرشکوہ ترین جلوہ پیش کریں۔ “

دوسری چیز کو سورج نہیں سمجھتا۔ وہ سورج کی روشنی کے ساتھ ہی زندہ ہوتا ہے ۔ اگر کسی دن سورج مکھی کا پھول سورج سے اپنا رخ پھیر لے اور مٹی پر اپنی نظریں جما دے تو وہ پژمردہ ہو جاتا ہے بالکل ہم انسانوں کی مانند، ہم انسان خدا تعالی کے حاضر و ناظر ہونے سے غافل ہوکر زندگی میں حیران و پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم محبت و رحمت کے اس مرکز سے رخ موڑ لیں تو تاریکیوں کے کنویں میں گر جاتے ہیں۔ انسان کو عبادت و بندگي ہی اس بے کراں نور و روشنائی کے سرچشمے کے نزدیک کرتی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان بلند افق کی جستجو میں رہتا ہے۔ توحیدی مکتب میں ہر چيز قرب الہی تک انسان کو پہنچانے کا وسیلہ ہونی چاہۓ۔ عبادت ایک ہموار راستہ ہے جو انسان کو خدا تعالی سے قریب کرتا اور خدا تعالی کی محبت اس کے دل میں ڈالتا ہے۔ یہ دن ایک بڑی عظیم عبادت کے دن ہیں۔ ایسی عبادت جو لاکھوں لوگ مقدس شہر مکے میں خانۂ خدا کے پاس انجام دیتے ہیں۔ حج کے ایام میں لبیک اللھم لبیک کی دلنشین آواز ساری دنیا میں گونجتی ہے، یہ خدا تعالی کو یاد کرنے اور اپنی روح و جان کو زندگي بخش الہی نور سے منور کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ جب انسان روزمرہ کے امور کے دلدل میں پھنس جاتا ہے، جب مختلف طرح کی ضرورتیں آدمی کو انسانی اور معنوی بلندیوں تک جانے سے روکے رکھتی ہیں تو ایسے عالم میں حج ایک مقدس ہجرت کے لۓ بہترین موقع ہے۔ یہ ہجرت خودپسندی 

” جب انسان روزمرہ کے امور کے دلدل میں پھنس جاتا ہے، جب مختلف طرح کی ضرورتیں آدمی کو انسانی اور معنوی بلندیوں تک جانے سے روکے رکھتی ہیں تو ایسے عالم میں حج ایک مقدس ہجرت کے لۓ بہترین موقع ہے۔ “

اور غیرخدا کے ساتھ وابستہ ہونے سے وحدہ لاشریک کی جانب ہجرت ہے۔ ہزاروں موحد انسان ایک ساتھ رنگ برنگے لباس اپنے بدن سے اتار دیتے ہیں۔ وہ ایک جیسا سفید لباس پہن کر تمام طرح کے تعلقات اور ہر طرح کی وابستگی سے الگ ہو کر انسانوں کے سمندر میں ایک قطرے کی مانند خانہ کعبہ کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ وہ جاتے ہیں تاکہ خدا تعالی کی دعوت پر لبیک کہیں۔ اس خدا کی دعوت پر جس نے فرمایا ہے: 

“و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا”۔ 

حج میں توحید کے پرستاروں کا جم غفیر لوگوں کے لۓ بناۓ جانے والے اولین گھر کے گرد اکٹھے ہوتے ہیں تاکہ عبودیت و بندگی اور خدا تعالی سے عشق کا بھر پور انداز میں مظاہرہ کر سکیں اور خدا تعالی کے ساتھ اپنے عہد و پیمان کی تجدید کریں۔ حج میں انسان سیکھتا ہے کہ خدا کی بندگي میں بعض اوقات انسان کو اپنی سرزمین، مال، اولاد، بیوی اور زندگي کے دوسرے تعلقات سے جدا ہونا چاہۓ اور اس راستے میں سختیاں جھلینی چاہئیں۔ حج میں ہر چیز کا آغاز قلبی تعلقات توڑنے اور آزاد ہونے سے ہوتا ہے۔ حج سستی اور ایک جگہ ٹھہرنے کی نفی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حج کا آغاز ہجرت سے ہوتا ہے۔ اپنے گھر سے خدا کے گھر تک کی ہجرت سے۔ 

حج کے فرائض کے ذریعے انسان کی روح و جان کی آزمائش ہوتی ہے۔ تاکہ حج کا شرف حاصل کرنے والا اپنے باطن میں مثبت تبدیلی پیدا کرے۔ حج کرنے والا شخص خانۂ خدا کی زیارت کے ذریعے ایسی گرانقدر متاع حاصل کر لیتا ہے جو مشقت، 

” حج میں توحید کے پرستاروں کا جم غفیر لوگوں کے لۓ بناۓ جانے والے اولین گھر کے گرد اکٹھے ہوتے ہیں تاکہ عبودیت و بندگی اور خدا تعالی سے عشق کا بھر پور انداز میں مظاہرہ کر سکیں اور خدا تعالی کے ساتھ اپنے عہد و پیمان کی تجدید کریں۔ “

زحمت اور تزکیۂ نفس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حج اس بے چین انسان کی مختلف حالات کا جلوہ ہے جو ہر لمحے خدا کو یاد کرتا ہے۔ کبھی آرام و سکون کے ساتھ اور کبھی بے قرار دل کے ساتھ ادھر ادھر جاتا ہے۔ وہ کوہ و بیابان میں دن رات بے چین و بے قرار رہتا ہے۔ ہر جگہ وہ خدا کی نشانی ڈھونڈتا ہے۔ 

حج کے دوران بجا لاۓ جانے والے ہر عمل میں ایسے راز پوشیدہ ہیں جن کا مقصد انسان کی تربیت کرنا ہے۔ کعبے کے طواف میں، صفا و مروہ کی سعی میں، صحراۓ عرفات اور وادی منی میں بہت سے اسرار پاۓ جاتے ہیں جو عمیق اور بے مثال معارف کے حامل ہیں۔ یہ سب اس لۓ ہیں کہ انسان تقوے کی زینت سے مزین ہو جاۓ۔ جب تک انسان کا نفس گناہ کے ساتھ آلودہ ہوتا ہے اس وقت تک وہ دوست کی محفل میں شرکت کی مٹھاس کو محسوس نہیں کر سکتا۔ اس لۓ ارادہ کیا جانا چاہۓ۔ خدا تعالی کا قرب پانے کے لۓ گناہ کو چھوڑنے کا قصدکیا جانا چاہۓ۔ یہ قصد و ارادہ حج کی قبولیت کی شرط ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم ص نے فرمایا ہے: “حج کے قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ حاجی اس کے بعد گناہ کا ارتکاب نہ کرے”۔ 

مکہ و مدینہ کی جانب روحانی سفر سے حاجی کے ذہن میں گویا انبیاے کرام ع اور اولیاۓ عظام کی واقعات بھری تاریخ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ حج کرنے والا حضرت ابراھیم ع اور حضرت محمد ص کے نقش قدم پر قدم رکھتا ہے ۔ مقام ابراہیم میں نماز بجالاتا ہے اور اس سرزمین میں جابجا اسلام کی تاریخ کے دسیوں پرشکوہ واقعات اس کی نظروں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ حج کی بجا آوری سے پیغمبر توحید حضرت ابراہیم ع 

” جب تک انسان کا نفس گناہ کے ساتھ آلودہ ہوتا ہے اس وقت تک وہ دوست کی محفل میں شرکت کی مٹھاس کو محسوس نہیں کر سکتا۔ “

کی حیات نظروں کے سامنے سے گزر جاتی ہے۔ حضرت ابراھیم ع کی سخت ترین آزمائش کی گئی۔ انہوں نے ایک موقع پر اپنی زوجہ اور بچے کو خشک اور بے آب و گیاہ زمین پر چھوڑ دیا اور ایک دوسرے وقت میں ان کو مامور کیا گيا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل ع کی قربانی دیں۔ حضرت ابراہیم ع اس عظیم آزمائش میں کامیاب ہو گۓ۔ خدا تعالی حج کے اعمال میں حاجی کو حضرت ابراہیم ع کے مقامات پر قرار دیتا ہے۔ اور انسان کو یاد دلاتا ہے کہ خدا تعالی کی خوشنودی کے حصول کا راستہ نفس سے مقابلہ اور تعلقات کو توڑنا ہے۔ اے انسان تو بھی زندگی میں ابراہیم کے نقش قدم پر قدم رکھ تاکہ تو بھی خدا تعالی کے قرب اور اس کی محبت کے مقام تک پہنچ جاۓ۔ 

حج کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں دنیوی اور اخروی فوائد ایک ساتھ اکٹھے ہو گۓ ہیں۔ قرآن کریم میں سورہ حج کی آیات نمبر ستائیس اور اٹھائيس میں ارشاد ہوتا ہے: 

“اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کر دو کہ لوگ تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہو کر آئيں تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کۓ ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ”۔ 

حج کے فوائد میں وہ 

” اگر حج کو اسی صورت میں انجام دیا جا‌ۓ جو اسلام کے پیش نظر ہے تو یہ انسانوں کے معنوی تکامل کا بھی سبب بنتا ہے اور ملت اسلامیہ کے لۓ بھی بہت زیادہ برکات کا باعث ہوتا ہے۔ “

چیزیں شامل ہیں جو فرد اور اسلامی معاشرے کے لۓ مفید ہیں اور حج کے اجتماع میں مدنظر قرار پا سکتی ہیں۔ حج ایسا موقع ہے جب مسلمان دانشمند اخلاص کے ماحول میں اکٹھے ہو کر عالم اسلام کے ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی امور کے بارے میں تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حج کے عظیم اجتماع میں ملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والی تمام اقوام کے گروہوں کے باہمی قریبی رابطے کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ اور ہر قوم و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ان خصوصیات کی وجہ سے حج انفرادی اعمال کی ادائيگی شمار نہیں ہوتا ہے ۔ اس سے بجاۓ خود اسلامی زاویۂ نگاہ کی جامعیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ایسا زاویۂ نگاہ کہ جس نے انسانوں کے دین اور دنیا کے لۓ ایک مکمل اور مفید لائحۂ عمل پیش کیا ہے۔ حج کے دوران یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام میں عبادت کا انسانوں کی اجتماعی زندگي کے ساتھ ایک اٹوٹ تعلق قائم ہے۔ اسلام کے عبادی اعمال خاص طور پر حج کے اعمال کی ماہیت ایسی ہے جس سے افراد کے درمیان احساس ذمے داری قوی ہوتا ہے۔ اگر حج کو اسی صورت میں انجام دیا جا‌ۓ جو اسلام کے پیش نظر ہے تو یہ انسانوں کے معنوی تکامل کا بھی سبب بنتا ہے اور ملت اسلامیہ کے لۓ بھی بہت زیادہ برکات کا باعث ہوتا ہے۔ حج ایک جامع اجتماعی اور اعتقادی مشق ہے جو انسانوں کو یہ سکھاتی ہے کہ وہ کس طرح روحانی برائیوں، خودغرضی اور بے بنیاد تفاخر سے اپنے آپ کو بچا کر کمال و سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔

 

تبصرے
Loading...