جوانوں کوامام علي عليہ السلام کي وصيتيں

مؤلف :محمدسبحاني

ترجمه

اس مقالے کي سندنہج البلاغہ کا خط ۳۱ ہے۔ سيدرضي کے بقول صفين سے واپسي پر”حاضرين“ کے مقام پرحضرت نے يہ خط اپنے فرزند امام حسن بن علي عليہ السلام کے نام تحرير فرمايا۔ حضرت اس کے حکيمانہ کلام کا مخاطب امام حسن عليہ السلام کے توسط سے حقيقت کا متلاشي ہرجوان ہے۔ ہم يہاں فقط چنداہم بنيادي اصولوں کوبيان کريں گے۔

۱۔ تقوي اورپاک دامني :

امام فرماتے ہيں : ”واعلم يابني ان اجب ماانت آخذبہ الي من وصيتي تقوي اللہ“۔

بيٹاجان لوکہ ميرے نزديک سب زيادہ محبوب چيزاس وصيت نامے ميں تقوي الہي ہے جس سے تم وابستہ رہو۔مضبوط حصار(قلعہ)

جوانوں کے لئے تقوي کي اہميت اس وقت اجاگرہوتي ہے جب زمانہ جواني کے تمايلات،احساسات اورترغيبات کو مدنظر رکھاجائے۔ وہ جوان جوغرائز، خواہشات نفساني، تخيلات اورتندوتيزاحساسات کے طوفان سے دوچارہوتاہے ايسے جوان کے لئے تقوي ايک نہايت مضبوط ومستحکم قلعے کي مانندہے جواسے دشمنوں کي تاخت وتاراج سے محفوظ رکھتاہے ياتقوي ايک ايسي ڈھال کي طرح ہے جوشياطين کے زہرآلودتيروں سے جسم کومحفوظ رکھتي ہے۔

امام فرماتے ہيں :اعلمواعباداللہ ان التقوي دارحصن عزيز۔[1]

ترجمہ : اے اللہ کے بندوجان لوکہ تقوي ناقابل شکست قلعہ ہے۔

شہيدمطہري فرماتے ہيں ”يہ خيال نہيں کرناچاہئے کہ تقوي نمازوروزے کي طرح دين کے مختصات ميں سے ہے بلکہ يہ انسانيت کالازمہ ہے انسان اگرچاہتے ہے کہ حيواني اورجنگل کي زندگي سے نجات حاصل کرے تو مجبورہے کہ تقوي اختيارکرے“۔[2]

جوان ہميشہ دوراہے پرہوتاہے دومتضادقوتيں اسے کھينچتي ہيں ايک طرف تواس کا اخلاقي اورالہي وجدان ہے جواسے نيکيوں کي طرف ترغيب دلاتاہے دوسري طرف نفساني غريزے،نفس امارہ اورشيطاني وسوسے اسے خواہشات نفساني کي تکميل کي دعوت ديتے ہيں عقل وشہوت،نيکي وفساد،پاکي وآلودگي اس جنگ اورکشمکش ميں وہي جوان کامياب ہوسکتاہے جوايمان اورتقوي کے اسلحہ سے ليس ہو۔

يہي تقوي تھا کہ حضرت يوسف عزم صميم سے الہي امتحان ميں سربلندہوئے اورپھرعزت وعظمت کي بلنديوں کوچھوا۔ قرآن کريم حضرت يوسف کي کاميابي کي کليددواہم چيزوں کوقرارديتاہے ايک تقوي اوردوسراصبر۔ ارشادہے:”انہ من يتق و يصبر فان اللہ لايضيع اجرالمحسنين“ يوسف۹۰۔

ترجمہ: وکوئي تقوي اختيارکرے اورصبر(واستقامت) سے کام لے تواللہ تعالي نيک اعمال بجالانے والوں کے لئے اجرکوضائع نہيں فرماتا۔

ارادہ کي تقويت :

بہت سے جوان ارادے کي کمزوري اورفيصلہ نہ کرنے کي صلاحيت کي شکايت کرتے ہيں۔ کہتے ہيں : کہ ہم نے بري عادات کوترک کرنے کابارہافيصلہ کياليکن کامياب نہيں ہوئے امام علي عليہ السلام کي نظرميں تقوي اردے کي تقويت نفس پرتسلط،بري عادات اورگناہوں کے ترک کرنے کابنيادي عامل ہے آپ فرماتے ہيں ”آگاہ رہوکہ غلطياں اور گناہ اس سرکش گھوڑے کے مانندہيں جس کي لگام ڈھيلي ہواورگناہ گاراس پرسوارہوں يہ انہيں جہنم کي گہرائيوں ميں سرنگوں کرے گااورتقوي اس آرام دہ سواري کي مانند ہيں جس کي لگام ڈھيلي اور گناہ گاراس پرسوارہوں يہ انہيں جہنم کي گہرائيوں ميں سرنگوں کرے گا اور تقوي اس آرام دہ سواري کي مانندہے جس کامالک اس پر سوار ہے اس کي لگام ان کے ہاتھ ميں ہے اوريہ سواري اس کوبہشت کي طرف لے جائے گي“۔[3]

متوجہ رہناچاہئے کہ يہ کام ہونے والاہے،ممکن ہے۔ جولوگ اس وادي ميں قدم رکھتے ہيں اللہ تعالي کي عنايات اورالطاف ان کے شامل ہوجاتے ہيں جيساکہ ارشادہے: ”والذين جاہدوافينالنھدينھم سبلنا“ عنکوبت۶۹۔

ترجمہ : اوروہ لوگ جوہماري راہ ميں جدوجہدکرتے ہيں ہم باليقين وبالضرور ان کو اپنے راستوں کي طرف ہدايت کريں گے۔

۲۔ جواني کي فرصت اورغنيمت :

بلاشک کاميابي کے اہم ترين عوامل ميں سے ايک فرصت اورفراغت کے اوقات سے صحيح اوراصولي استفادہ ہے۔ جواني کازمانہ اس فرصت کے اعتبارسے انتہائي اہميت کاحامل ہے۔معنوي اورجسماني قوتيں وہ عظيم گوہرناياب ہے جواللہ تعالي نے جوان نسل کوعنايت فرماياہے۔ يہي سبب ہے کہ ديني پيشواؤں نے ہميشہ جواني کو غنيمت سمجھنے کي طرف توجہ اورتاکيدکي ہے۔ اس بارے ميں امام علي فرماتے ہيں:

بادرالفرصة قبل ان تکون غصة

۔[4]

ترجمہ : قبل اس کے کہ فرصت تم سے ضائع ہو اور غم و اندوہ کاباعث بنے اس کو غنيمت جانو۔

اس آيہ مبارکہ ”لاتنس نصيبک من الدنيا“قصص۷۷۔

(دنيا سے اپنا حصہ فراموش نہ کر) کي تفسيرميں فرماتے ہيں : لاتنس صحتک وقوتک وفراغک وشبابک نشاطک ان تطلب بھاالاخرة[5]

ترجمہ : اپني صحت، قوت، فراغت، جواني اورنشاط کو فراموش نہ کرو اور ان سے اپني آخرت ک لئے استفادہ کرو۔

جو لوگ اپني جواني سے صحيح استفادہ نہيں کرتے امام ان کے بارے ميں فرماتے ہيں :

انہوں نے بدن کي سلامتي کے دنوں ميں کئي سرمايہ جمع نہ کيا،اپني زندگي کي ابتدائي فرصتوں ميں درس عبرت نہ ليا۔ جو جوان ہے اس کوبڑھاپے کے علاوہ کسي اور چيزکا انتظارہے[6]

جواني کے بارے ميں سوال

جواني اورنشاط اللہ کي عظيم نعمت ہے جس کے بارے ميں قيامت کے روز پوچھا جائے گا۔ پيغمبراسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے ايک روايت ہے آپ فرماتے ہيں: قيامت کے دن کوئي شخص ايک قدم نہيں اٹھائے گامگريہ کہ اس سے چارسوال پوچھے جائيں گے :

۱۔ اس کي عمرکے بارے ميں کہ کيسے صرف کي اورکہاں اسے فنا کيا؟

۲۔ جواني کے بارے ميں کہ اس کاکياانجام کيا؟

۳۔ مال ودولت کے بارے ميں کہ کہاں سے حاصل کي اورکہاں کہاں خرچ کيا؟

۴۔ اہل بيت کي محبت ودوستي کے بارے سوال ہوگا۔[7]

يہ جوآنحضرت نے عمرکے علاوہ جواني کا بطورخاص ذکرفرماياہے اس سے جواني کي قدر و قيمت معلوم ہوتي ہے۔ امام علي فرماتے ہيں: شيئان لايعرف فضلھما الامن فقدھماالشباب والعافية۔[8]

انسان دوچيزوں کي قدروقيمت نہيں جانتا مگريہ کہ ان کو کھودے ايک جواني اور دوسرے تندرستي ہے۔

۳۔ خودسازي :

خودسازي کابہترين زمانہ جواني کادورہے۔ امام اپنے فرزند عزيز امام حسن سے فرماتے ہيں :

انماقلب الحدث کالارض الخالية ماالقي فيھامن شئي قبلتہ فبادرتک بالادب قبل ان يقسواقلبک ويشتغل لبک۔[9]

ترجمہ : نوجوان کادل خالي زمين کے مانندہے جواس ميں بوياجائے قبول کرتي ہے پس قبل اسکے کہ تو قسي القلب (سنگدل) ہوجائے اورتيري فکرکہيں مشغول ہو جائے ميں نے تمہاري تعليم وتربيت ميں جلدي کي ہے۔

ناپسنديدہ عادات جواني ميں چونکہ ان کي جڑيں مضبوط نہيں ہوتيں اس لئے ان سے نبردآزمائي آسان ہوتي ہے۔ امام خميني فرماتے ہيں ”جہاداکبرايک ايساجہادہے جو انسان اپنے سرکش نفس کے ساتھ انجام ديتاہے۔ آپ جوانوں کو ابھي سے جہادکوشروع کرناچاہئے کہيں ايسانہ ہوکہ جواني کے قوي تم لوگ ضائع کربيٹھو۔

جيسے جيسے يہ قوي ضائع ہوتے جائيں کے ويسے ويسے برے اخلاقيات کي جڑيں انسان ميں مضبوط اورجہادمشکل تر ہوتاجاتا ہے ايک جوان اس جہادميں بہت جلد کامياب ہوسکتاہے جب کہ بوڑھے انسان کي اتني جلدي کاميابي نہيں ہوتي۔

ايسانہ ہونے ديناکہ اپني اصلاح کوجواني کي بجائے بڑھاپے ميں کرو)۔[10]

اميرالمومنين ارشادفرماتے ہيں : غالب الشہوة قبل قوت ضراوتھا فانھا ان قويت ملکتک واستفادتک ولم لقدرعلي مقاومتھا۔[11]

ترجمہ:اس سے قبل کہ نفساني خواہشات جرائت اورتندرستي کي خواپناليں ان سے مقابلہ کروکيونکہ اگر تمايلات اور خواہشات اگرخودسر اورمتجاوز ہوجائيں تو تم پر حکمراني کريں گي پھرجہاں چاہيں تمہيں لے جائيں گي يہاں تک کہ تم ميں مقابلے کي صلاحيت ختم ہوجائے گي۔

۴۔ بزرگ منشي۔

اپنے خط ميں اميرالمومنين جوانوں کو ايک اور وصيت ارشادفرماتے ہيں : اکرم نفسک عن کل دنيہ وان ساقتک الي الرغائب فانک لن تعتاض بماتبذل من نفسک عوضاولاتکن عبدغيرک وقدجعلک اللہ اجرا۔[12]

ترجمہ : ہرپستي سے اپنے آپ کو بالاتر رکھ (اپنے وقارکابھرپورخيال رکھ) اگرچہ يہ پستياں تجھے تيرے مقصدتک پہنچاديں پس اگرتونے اس راہ ميں اپني عزت وآبرو کھودي تو اس کاعوض تجھے نہ مل پائے گا اور غيرکا غلام نہ بن کيونکہ اللہ تعالي نے تجھے آزادخلق فرماياہے۔عزت نفس انسان کي بنيادي ضروريات ميں سے ہے۔

اس کابيج اللہ تعالي نے انسان کي فطرت ميں بوياہے البتہ اس کي حفاظت، مراقبت اوررشدوتکامل کي ضرورت ہے۔ فرعون کے بارے ميں قرآن کريم ميں ارشادہے :

فاستخف قومہ فاطاعوہ انھم کانواقوما فاسقين(زخرف۵۴)۔

فرعون نے اپني قوم کي تحقيرکي پس انہوں نے اس کي اطاعت کي کيونکہ يہ لوگ فاسق تھے۔

عزت نفس اوروقارکے لئے مندرجہ ذيل امورضروري ہيں:

الف۔ گناہ کاترک کرنا۔

مختلف موارد ميں سے ايک گناہ اورپليدي ہے جو انسان کي عزت نفس کونقصان پہنچاتے ہيں۔ پس گناہ اور آلودگي سے اجتناب شرافت نفس اور وقارکاباعث ہوتاہے۔ امام فرماتے ہيں :

من کرمت عليہ نفسہ لم يھنھابالمعصية

۔[13]

جواپنے لئے کرامت و وقار کا کا قائل ہو خود کو گناہ کے ذريعے ذليل نہيں کرتا۔

ب۔ نيازي

دوسروں کے اموال پر نظر رکھنااوراضطراري مواردکے علاوہ کمک مانگناعزت نفس اور وقارکو تباہ کرديتاہے۔ امام (ع) فرماتے ہيں:

المسئلة طوق المذلة تسلب العزيزعزہ والحسب حسبہ

۔[14]

لوگوں سے مانگنا ذلت کا ايسا طوق ہے جو عزيزوں کي عزت اورشريف النسب انسانوں کے حسب ونسب کي شرافت کوسلب کرليتاہے۔

ج۔ صحيح رائے۔

عزت وشرافت نفس کابہت زيادہ تعلق انسان کي اپنے بارے ميں رائے سے ہے۔ جو کوئي خود کو ناتوان ظاہرکرے تولوگ بھي اسے ذليل و خوار سمجھتے ہيں اس لئے امام فرماتے ہيں :

الرجل حيث اختارلنفسہ ان صانھاارتفعت وان ابتذلھااتضعت۔[15]

ہرانسان کي عزت اس کي اپني روش سے وابستہ ہے جواس نے اختيارکي ہے اگراپنے آپ کوپستي وذلت سے بچاکے رکھے تو بلندياں طے کرتاہے اور اگرخود کوذليل کرے توپستيوں اورذلتوں کاشکارہوجاتاہے۔

د۔ ذلت آميز گفتاروکردارسے پرہيز:

اگرکوئي چاہتاہے کہ اس کا وقار اورعزت نفس محفوظ رہے تواسے چاہئے کہ ہر ايسي گفتگو اور عمل ميں کمزوري کاباعث بنے اس سے اجتناب کرے اسي لئے اسلام نے چاپلوسي، زمانے سے شکايت،اپني مشکلات کولوگوں کے سامنے بيان کرنے،بے جا بلند و بانگ دعوے کرنا يہاں تک کہ بے موقع تواضع وانکساري کے اظہار سے منع فرمايا ہے امام علي فرماتے ہيں:

کثرة الثناملق يحدث الزھوويدني من العزة۔

[16]

تعريف وتحسين ميں زيادہ روي چاپلوسي ہے اس سے ايک طرف تومخاطب ميں غرور و تکبر پٍيدا ہوتاہے جب کہ دوسري طرف عزت نفس سے دورہوجاتاہے۔

اسي طرح فرماتے ہيں:رضي بالذل من کشف ضرہ لغيرہ۔[17]

جوشخص اپني زندگي کي مشکلات کودوسروں کے سامنے آشکارکرتاہے دراصل اپني ذلت وخواري پرراضي ہوجاتاہے۔

۵۔ اخلاقي وجدان :

امام اپنے فرزند سے فرماتے ہيں :يابني اجعل نفسک ميزانا فيمابينک وبين غيرک۔[18]

اپنے بيٹے ! خودکواپنے اوردوسروں کے درميان فيصلے کامعيارقراردو۔ اگرمعاشرے ميں سب لوگ اخلاقي وجدان کے ساتھ ايک دوسرے سے روابط رکھيں، ايک دوسرے کے حقوق، مفادات اورحيثيت کااحترام کريں تومعاشرتي روابط ميں استحکام،سکون اور امن پيدا ہوگا ايک حديث ميں ہے کہ ايک شخص پيغمبراسلام کي خدمت ميں حاضرہوا ۔ اور عرض کيا : يارسول اللہ ميں اپنے تمام فرائض کوبخوبي انجام ديتاہوں ليکن ايک گناہ ہے جوترک نہيں کرپاتا اوروہ ناجائز تعلقات ہيں يہ بات سن کر اصحاب بہت غصے ميں آگئے ليکن آنحضرت نے فرماياآپ لوگ اس کوکچھ نہ کہيں ميں خوداس سے گفتگوکرتاہوں اس کے بعدارشادفرمايا: اے شخص کياتمہاري ماں بہن يا اصلاکياتمہاري آبرو،ناموس ہے؟

عرض کيا: جي ہاں يارسول اللہ !

آنحضرت نے فرماياکيا تو يہ چاہتاہے کہ لوگ بھي تيري ناموس کے ساتھ ايسے ہي روابط رکھيں ؟

عرض کياہرگزنہيں توحضرت نے فرمايا پس تو تم خودکيسے آمادہ ہوتيہو کہ اس طرح کا گناہ بجالاؤ؟

اس شخص نے سرجھکاليااورعرض کيا آج کے بعدميں وعدہ کرتاہوں کہ يہ گناہ انجام نہ دوں گا۔[19]

امام سجادفرماتے ہيں لوگوں کايہ حق ہے کہ ان کواذيت و آزار دينے سے اجتناب کرو۔ اوران کے لئے وہي پسندکروجواپنے لئے پسندکرتے ہواوروہي جواپنے لئے نا پسند کرتے ہوان کے لئے ناپسندکرو۔ قرآن حکيم ميں جونفس لوامہ کي قسم کھائي گئي ہے يہ وہي انسان وجدان ہے ارشادہے :

”لااقسم بيوم القيامة ولااقسم بالنفس اللوامة (القيامة،۱۔۲)۔

قسم ہے روزقيامت کي اورقسم ہے اس نفس کي جو انسان کوگناہ کرنے پر سخت ملامت اورسرزنش کرتاہے۔

۴۔ تجربات حاصل کرنا۔

امام اپنے مذکورہ وصيتنامے ميں امام حسن سے فرماتے ہيں:

اعرض عليہ اخبارالماضين وذکرہ بمااصاب من کان قبلک من الاولين و سرفي ديارہم وآثارہم فانظرفيمافعلواوعماانتقلواواين حلواونزلوا

اپنے دل پرگذشتہ لوگوں کي خبريں اوراحوال پيش کروجوکچھ گذشتگان پرتم سے پہلے گزرگياہے اس کويادکروان کے دياروآثاراورويرانوں ميں گردش کرواورديکھوکہ انہوں نے کيا کيا۔ وہ لوگ کہاں سے منتقل ہوئے کہاں گئے اورکہاں قيام کيا۔

ايک جوان کوچاہئے کہ وہ تاريخ کي معرفت حاصل کرے اورتجربات کوجمع کرے کيونکہ :

اول : جوان کيونکہ کم عمر،اس کاذہن خام اورتجربات سے خالي ہوتاہے اس نے زمانے کے سرودگرم نہيں ديکھے ہوتے اوراسي طرح زندگي کي مشکلات کاسامنانہيں کياہوتا۔ يہي وجہ ہے کہ بعض اوقات ايک جوان کاقلبي سکون تباہ ہوجاتاہے اوروہ افسردگي يااس کے برعکس طبيعت کي تندي اورتيزي کاشکار ہوجاتاہے۔

دوم : تخيلات اورتوہمات جواني کے زمانے کي خصوصيات ہيں جوبسااوقات جوان کوحيقيت کي شناخت سے محروم کرديتے ہيں جب کہ تجربہ انساني توہمات کے پردوں کوپارہ پارہ کرديتاہے،امام فرماتے ہيں : التجارب علم مستفاد۔[20]

انساني تجربات ايک مفيدعلم ہے ۔

سوم : باوجود اس کے کہ جوان کي علمي استعداداورقابليت اسي طرح مختلف فنون اورمہارتيں سيکھنے کي صلاحيت بہت زيادہ ہوتي ہے ليکن زندگي کے تجربات نہ ہونے کي بناپرغيرسنجيدہ فيصلے کرتاہے اوريہ چيزاس کودوسروں کے جال ميں پھانس ديتي ہے۔امام فرماتے ہيں:

من قلت تجربتہ خدع۔

[21]

جس کاتجربہ کم ہووہ فريب کھاتاہے۔ امام فرماتے ہيں ۔ تجربہ کارانسانوں کے ہمنشين رہوکيونکہ انہوں نے اپني متاع گرانبھايعني تجربات کواپني انتہائي گران قيمت چيزيعني زندگي کوفداکرکےحاصل کياہے جب کہ تواس گرانقدرمتاع کوانتہائي کم قيمت سے حاصل کرتاہے۔[22]

تجربات کي جمع آوري کايک بہت بڑاذريعہ سابقہ امتوں کي تاريخ کامطالعہ ہے۔ تاريخ،ماضي اورحال کے درميان رابطہ ہے جبکہ مستقل کے لئے چراغ راہ ہے ۔ امام علي فرماتے ہيں گذشتہ صديوں کي تاريخ تمہارے لئے عبرتوں کے بہت بڑے بڑے درس ہيں۔[23]

۷۔آداب معاشرت اوردوستي۔

اس ميں شک نہيں کہ دوستي کي بقااس ميں ہے کہ دوستي کي حدود اور معاشرتي آداب کاخيال رکھاجائے۔ دوست بناناآسان اوردوستي نبھانامشکل ہے۔

اميرالمومنين عليہ السلام امام حسن عليہ السلام سے فرماتے ہيں : کمزورترين انسان وہ ہے جودوست نہ بناسکے اوراس سے بھي عاجزتروہ ہے جودوست کو کھو دے۔[24]

بعض جوان دوستانہ تعلقات ميں ناپائيداري اورعدم ثبات کي شکايت کرتے ہيں اس کي سلسلے ميں اگرہم امام علي عليہ السلام کي نصيحتوں پرعمل کريں تويہ مشکل حل ہوسکتي ہے۔

امام کي گفتگوکے اہم نکات مندرجہ ذيل ہيں:

الف:دوستي ميں اعتدال ضروري ہے:

جواني کے زمانے ميں معمولاديکھاگياہے کہ جوان دوستي کے حدودسے تجاوز کرجاتے ہيں اوراس کي دليل زمانہ،جواني کے عواطف اوراحساسات ہيں بعض جوان دوستي اوررفاقت کے زمانے ميں حدسے زيادہ محبت کا اظہارکرتے ہيں جب کہ جدائي کے ايام ميں اس کے برعکس شديدمخالفت اوردشمني کامظاہرہ کرتے ہيں يہاں تک کہ بغض خطرناک کام انجام ديتے ہيں۔

حضرت فرماتے ہيں اپنے دوست سے اعتدال ميں رہتے ہوئے دوستي اورمحبت کا اظہار کرو ہوسکتاہے وہ کسي دن تمہارادشمن بن جائے اوراسي طرح اس پہ بے مہري اور غصہ کرتے ہوئے بھي نرمي وعطوفت کامظاہرہ کروچونکہ ممکن ہے وہ دوبارہ تمہارا دوست بن جائے۔[25]

موردبحث خط ميں امام ارشادفرماتے ہيں:اگرتم چاہتے ہوکہ اپنے بھائي سے تعلقات منقطع کرلوتوکوئي ايک راستہ اس کے لئے ضرورچھوڑدوکہ اگرکسي روزہ لوٹنا چاہے تولوٹ سکے۔

شيخ سعدي اس بارے ميں کہتے ہيں اپنے ہررازکواپنے دوست کے سامنے بيان نہ کرکيامعلوم کہ ايک دن وہ تمہارادشمن بن جائے اورتمہيں نقصان پہنچائے جودشمن بھي نہيں پہنچا سکتا۔ جب کہ يہ بھي ممکن ہے کہ کسي وقت دوبارہ تم سے دوستي اختيارکرجائے۔[26]

ب : بالمقابل محبت کااظہار:

دوستي اوررفاقت کي بنيادايک دوسرے سے محبت کے اظہارپرہے اگردوطرف ميں سے ايک طرف روابط کي برقراري کاخواہشمندہوجب کہ دوسري طرف سے بے رغبتي کااظہارہوتواس کانتيجہ سوائے ذلت کے کچھ نہيں۔

اسي لئے اميرالمومنين عليہ السلام اپنے مذکورہ خط ميں امام حسن سے فرماتے ہيں :

لاترغبن فيمن زھدعنک

جوکوئي تجھ سے تعلق نہيں رکھناچاہتااس سے محبت کااظہارنہ کر۔

ج : دوستانہ روابط کي حفاظت کرنا۔

امام علي دوستانہ روابط کي حفاظت کي تاکيدفرماتے ہيں اوران عوامل کا ذکر فرماتے ہيں جودوستي کے استحکام کاباعث بنتے ہيں اس سلسلے ميں فرماتے ہيں اگر تيرا دوست تجھ سے دوري اختيارکرے توتجھے چاہئے عطاوبخشش اختيارکر اورجب وہ دورہو توتم نزديک ہوجاؤجب وہ سخت گيري کرے توتم نرمي سے کام لو۔ جب غلطي، خطا يا گناہ کامرتکب ہوتواس کے عذرکوقبول کرو۔

بعض لوگ چونکہ بہت کم ظرف ہوتے ہيں اوراحسان کانتيجہ دوسرے کي حقارت اور اپني ذہانت خيال کرتے ہيں اسي لئے حضرت مزيدارشادفرماتے ہيں : ان سب موارد ميں موقعيت کوپہچانواوربہت احتياط کروکہ جوکچھ کہاگياہے اس کوفقط اپنے موقع ومحل پرانجام دواسي طرح اس شخص کے بارے ميں انجام نہ دوجو اہميت نہيں رکھتا۔

امام اسي طرح ايک اورنصيحت ارشادفرماتے ہيں:

اپني خيرخواہي کواپنے دوست کے ساتھ مخلصانہ بنيادپرانجام دواگرچہ يہ بات اسے پسندآئے ياناگوارگزرے۔

[1] نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۶۔ 

[2] دہ گفتارص۱۴۔ 

[3] نہج البلاغہ خطبہ۱۶۔ 

[4] نہج البلاغہ خط ۳۱۔ 

[5] بحارالانوارج۶۸ص۱۷۷۔ 

[6] نہج البلاغہ خطبہ۔۸۲۔ 

[7] بحارالانوراج۷۴ص۱۶۰۔ 

[8] غررالحکم ودررالحکم ج۴ص۱۸۳۔ 

[9] نہج البلاغہ خط ۳۱ 

[10] آئين انقلاب اسلامي ص۲۰۳۔ 

[11] غررالحکم ودررالحکم ج۴ص۳۹۲۔ 

[12] نہج البلاغہ خط ۳۱۔ 

[13] غررالحکم ودررالحکم ج۵ص۳۵۷۔ 

[14] غررالحکم ودررالحکم ج۲ص۱۴۵۔ 

[15] غررالحکم ودررالحکم ج۲ص۷۷۔ 

[16] غررالحکم ودررالحکم ج۴ص۵۹۵۔ 

[17] غررالحکم ودررالحکم ج۴ص۹۳۔ 

[18] نہج البلاغہ خط ۳۱۔ 

[19] اخلاق وتعليم وتربيت اسلامي مؤلف زين العابدين قرباني ص۲۷۴۔ 

[20] غررالحکم ودررالحکم ج۱ص۲۶۰۔ 

[21] دررالکلم ج۵ص۱۸۵۔ 

[22] شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد،ج۲۰ص۳۳۵۔ 

[23] نہج البلاغہ خطبہ۱۸۱۔ 

[24] بحارالانوارج۷۴ص۲۷۸۔ 

[25] نہج البلاغہ کلمات قصار۲۶۰۔ 

[26] گلستان سعدي باب ۸۔

تبصرے
Loading...