جنت کے ريسٹورينٹ (۱)

کسي دعوت ميں ، کسي تفريحي مقام پر ، کسي ہوٹل پر خدمتکاروں کي طرف سے غذا کا پيش کيا جانا اور بعض اوقات تنہا بيٹھ کر کھانا کھايا جانا درحقيقت ايسے مواقع ہيں جب انسان کھانے پينے سے زيادہ لطف اندوز ہوتا ہے – ان سب حالتوں کے ليۓ جنت کي غذاğ کے متعلق ان کي بہترين اجرائي شکل ميں مثاليں پيش کي گئي ہيں –

وَ يُطافُ عَلَيْهِمْ بِآنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَ أَکْوابٍ کانَتْ قَواريرَا (انسان،15)

اور ان کے ليے چاندي کے برتنوں اور بلوريں پيالوں کے دور چليں گے

وَ اَمْدَدناهم بفاکهةٍ ولحمٍ مما يَشتَهونَ (سوره طور /22)

اور ہم انہيں پھل اور گوشت جو ان کا جي چاہے فراہم کريں گے –

بعض اوقات جنت کي طبيعت ميں نہر يا بہتے چشمے کے کنارے نہايت خوبصورت اور شگفت انگيز مٹي کے پيالے نظر آتے ہيں کہ جن پر مہريں اور موم لگي ہوتي ہيں – ان کو ميل کرنے کے ليۓ برتن پر لگي مہر کو توڑنا ضروري ہوتا ہے – جب مہر ٹوٹ جاتي ہے تو ايک دلنشين عطر کي خوشبو فضا کو معطر کر ديتي ہے –

يُسْقَوْنَمِنْرَحِيقٍ مَخْتُومٍ خِتامُهُ مِسْکٌ وَ فِي ذلِکَ فَلْيَتَنافَسِ الْمُتَنافِسُون(25/مطففين):

وہ  بغير چھوئي ہوئي صاف  اور مہر زدہ شراب کو نوش کريں گے –

کبھي جنت کي فضا ميں ايک پرندہ پرواز کرتا ہے اور [ جنتي] اس کے گوشت کو کھانے کي بھوک محسوس  کرتے ہيں – سبحانک اللھم : اے خدا تو پاک و منزہ ہے – ان کے بعد وہ پرندہ نيچے آتا ہے – بھن جانا ہے اور ان کے سامنے  رکھا جاتا ہے – جب وہ اس سے بہرہ مند ہوتے ہيں تو کہتے ہيں – الحمدللہ رب العالمين – اس کے بعد وہ پرندہ زندہ ہو جاتا ہے اور پرواز کرتا ہے – اس ليۓ خدا تعالي کي نعمتوں کے مقابلے ميں جنت والوں کے ابتدائي الفاظ خدا کي  تسبيح و تقديس ہونگے اور ان کے آخري الفاظ اللہ تعالي سے سپاسگزاري پر مبني ہونگے – تفسير آسان، ج، ص 88 به نقل از مجمع البيان)

ايک  منقول حديث جسے حضرت امام باقر عليہ السلام نے حضرت محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت کيا ہے کہ ” جنت ميں کوئي ايسا مومن نہيں ہو گا جسے بہشت اور باغ کثرت ميں ميسر نہ ہوں ، تخت کے ساتھ اور بغير تخت اور ———– – پس جيسي غذا چاہے گا اسے ملے گي – جو کچھ بھي کھانے کو اس کا دل کرے گا بغير نام ليۓ اس کے ليۓ وہ غذا حاضر ہو جاۓ گي – ( اس ليۓ غذا کے پکنے کے ليۓ صبر کرنے  يا درخواست کرنے کي شرم محسوس کرنے کي ضرورت بھي نہيں -“(نورالثقلين،ج4، ص548)

سب چيزيں جنت کے پھلوں کے متعلق نقل کي گئي ہيں يعني جب جنتي ايک دوسرے کے ساتھ تختوں پر براجمان ہونگے تو مختلف طرح کے پھلوں سے ان کي پذيرائي ہو گي اور بعض اوقات جب تنھائي ميں آرام سے اپني جگہ پر بيٹھے کسي پھل پر نظر ڈاليں گے تو شاخ اس کي طرف  آۓ گي اور پھل کو پيش کرے گي – 

وَ ذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا (انسان ،14)

يعني  “جنت کے پھل ان کي دسترس اور اختيار ميں ہيں “

اور بعض اوقات جب اسي وقت کسي دوسرے پھل کو کھانا چاہيں گے تو وہي پھل دوسرے پھل ميں تبديل ہو جاۓ گا –

نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي ايک حديث ميں ہے کہ

” ميں نے خواب ميں اپنے چچا  حمزہ کو ديکھا کہ جنت کے  انگوروں کي ايک طشتري ان کے قريب تھي اور  اچانک کجھوروں ميں تبديل ہو گئي  [ قيامت در قرآن ،ص 36]

تبصرے
Loading...