تاريخي تنقيد پر تبصرہ امام

شيکسپير کے اشعار جو ادب کا حصہ ہيں جوں کے توں قبول کئے جاتے ہيں اور يہ ايک منقول علم ہے ليکن آج کا مورخ واٹرلو کي جنگ جنگ کيشرح کو علم منقول نہيں سمجھتا کيونکہ اسے سمجھنے کيلئے عقل ‘ استعمال ميں لائي تھي لہذا تاريخي تنقيد کے لحاظ سے کل اور آج کے مورخ ميں کوئي فرق نہيں ہے يوناني مورخ ہر و ڈوٹ نے اپني ايک تاريخ کے مقدمے ميں لکا ہے کہ جو چيز ميري سمجھ ميں نہيں آتي اسے قبول نہيں کرتا – ليکن پھر بھي ہر وڈوٹ کي تاريخ ميں ايسے افسانے ملتے ہيں جو انساني سمجھ سے باہر ہيں – امام جعفر صادق وہ پہلے

 شيکسپير کے اشعار جو ادب کا حصہ ہيں جوں کے توں قبول کئے جاتے ہيں اور يہ ايک منقول علم ہے ليکن آج کا مورخ واٹرلو کي جنگ جنگ کيشرح کو علم منقول نہيں سمجھتا کيونکہ اسے سمجھنے کيلئے عقل ‘ استعمال ميں لائي تھي لہذا تاريخي تنقيد کے لحاظ سے کل اور آج کے مورخ ميں کوئي فرق نہيں ہے يوناني مورخ ہر و ڈوٹ نے اپني ايک تاريخ کے مقدمے ميں لکا ہے کہ جو چيز ميري سمجھ ميں نہيں آتي اسے قبول نہيں کرتا – ليکن پھر بھي ہر وڈوٹ کي تاريخ ميں ايسے افسانے ملتے ہيں جو انساني سمجھ سے باہر ہيں –

امام جعفر صادق وہ پہلے مسلمان ہيں جنہوں نے تاريخي روايات پر تنقيدي نگاہ ڈالي اور اس بات کي نشاندہي کي کہ تاريخي روايات کو تنقيد اور گہرے غور و فکر کے بغير قبول نہيں کرنا چاہيے آپ ہي تھے جو تاريخرقم کرنے ميں ابن جرير طبري کے استاد اور مربي بنے اور اس بات کا سبب بنے کہ جس وقت ابن جرير طبري نيتاريخ لکھنے کيلے قلم ہاتھ ميں ليا تو اس نے صرف وہي باتيں لکھيں جنہيں انساني عقل قبول کرے اور ايسے افسانے لکھنے سے گريز کي اجو انسان کو سلاتے ہيں –

جعفر صادق سے قبل مشرق وسطي ميں تاريخ کے کچھ حصے افسانوں پر مشتمل تھے کيونکہ جو لوگ تاريخ پڑھتے يا سنتے تھے اس کے تاريخي افسانوں کو بھي قبول کرتے تھے –

احتمال ہے کہ اسلام سے قبل ايران ميں تاريخ موجود تھي اور ايسي تاريخي کتابيں پائي جاتي تھيں جن کا آج ايک صفحہ بھي ہاتھ نہيں آتا-

ساسانيوں اور ہنحامنشيوں کے دور کي کتابوں سے پتہ چَتاہے کہ قديم ايران ميں لوگ اس حقيقت سے اگاہ تھے کہ واقعات لکھنے اور ريکارڈ کرنے کے ضمن ميں افسانے کو تاريخ ميں داخل کرنا چاہيے –

ہنحامنشيوں اور ساسانيوں کے دور سے ملنے والے کتبوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کتبوں ميں افسانے کي ايک سطر بھي نہيں پائي جاتي اور واقعات کي نص ان ميں درج ہے ليکن ان بادشاہوں کے مذہبي عقيدے کے آثار ان کتبوں ميں ملتے ہيں جن کے حکم سے يہ کتبے لکھے گئے اگر افسانے کو تاريخ ميں مد غم نہ کرنے کا شعور قديم ايران ميں نہ پايا جا تا تو ہخامنشيوں اور ساسانيوں کے دور کے کسي ايک تاريخي کتبے ميں افسانہ ضرور ملتا – يہ کہنا مناسب نہيں کہ چونکہ يہ کتبے مختصر تھے – لہذا افسانوں کو تاريخ ميں شامل نہيں کيا گيا کيونکہ کتبہ بے ستون جو پہلے ہخامنشي بادشاہ رار بوش کے حکم سے لکھا گيا اور کتبے نقش ستم جو پہلے سا ساني بادشاہ يعني شاہ پور کے زمانے ميں لکھا گيا ان ميں سے ہر ايک چھوٹے کتابچے پر مشتمل ہے اگر افسانے کو ان کتبوں ميں شامل کرنا چاہتے تو آسان تھا ليکن تريخ کے سوال کوئي دوسري چيز ان کتبوں ميں نہيں لکھي گئي بہر حال قبل از اسلام ايران سے کوئي تاريخي کتابيں نہيں ملتيں جن سے پتہ چلے کہ افسانہ پايا جاتا تھا يا نہيں ؟

دوسري صدي ہجري کے پہلے پچاس سال جو امام جعفر صادق کا زمانہ شمار کيا جاتا ہے اس زمانے ميں افسانہ اور اريخ کي آميزش تھي جس کا تذکرہ ہو چکا ہے دوسري صدي ہجري کے پہلے پچاس سالون کے دورنا اسلام ميں کتاب وجود ميں آئي يہ وہ زمانہ ہے جب عربوں نے اپنے خيالات رقم کرنے کيلئے نثر کا استعمال کيا ہم يہ نہيں کہتے کہ عرب قوم ميں اس تاريخ سے پہلے نثر کا وجود نہ تھا بلکہ ہماري مراد يہ ہے کہ نثر بہت کم تھي اور دوسري صدي ہجريکے پہلے پچاس سالوں ميں نثر نے اتني ترقي کي جس طرح بہار کے موسم ميں پودے ايک دم زمين سے اگتے ہيں ان کتابوں ميں سے اکثر آج نا پيد ہيں – جنگوں زلزلوں سيلابوں وغيرہ کے نتيجہ ميں ان کا خاتمہ ہو چکا ہے ليکن ابن النديم کا تب کي وساطت سے ہميں ان کے اور ان کے لکھنے والوں کے نام معلوم ہيں ان کتابوں ميں تاريخي کتابيں بھي ہيں ليکن يہ تاريخيں افسانے سے مبرا ہيں –

جعفر صادق ان ميں سے ان تمام کتابوں کي تاريخي اہميت کے قائل نہ تھے جن کے بارے ميں خيال کيا جاتا تھا کہ ان ميں تاريخ کے ساتھ افسانے بھي مدغم ہيں آپ فرماتے تھے کہ افسانہ گمراہ کرنے والا ہے اسے تاريخ ميں جگہ نہيں ديني چاہيے –

اس لحاظ سے جعفر صادق وہ پہلے شخص ہيں جنہوں نے اسلام ميں تاريخ پر تنقيد کي اور ابن ابي الحديدہ کے بقول تاريخ کو صحيح معنوں ميں تاريخ بنانے کي طرف توجہ دلائي –

لفظ تاريخ جسے فرانسيسي ميں ہيشوار کہا جاتا ہے پہلے پہل اس کا اطلاق ‘ اس فرانسيسي لفظ ہيشوار پر نہ ہوتا تھا قبل از اسلام عربوں ميں کسي کتاب کا وجود نہ تھا کہ وہ اس کي ايک قسم کا نام تاريخ رکھتے عرب تاريخي روايات کو اشعار کے قالب ميں ڈھال ليتے پھر شعراء نہيں پڑھ کر سا معين کو محفوظ کرتے تھے – عربوں ميں اسلام کے بعد کتاب لکھي گئي – اسي طرح تاريخي کتابيں بھي وجود ميں ائيں جن کا عام نام تاريخ نہيں بلکہ روايت رکھا گيا اور کہا جاتا ہے کہ فارسي ميں لکھي جانے والي تاريخ جس کا نام دساتير ہے يہ بھي اسي زمانے ميں لکھي گئي ياد رہے کہ يہ کتاب دري فارسي ميں لکھي گئي اور کيا دري فارسي اس وقت وسيع زبان تھي کہ دساتير جيسي ضخيم کتاب اس زبان ميں لکھي جاتي – يہاں اس بات کا ذکر ضروري ہے کہ محقيقين کا ايک گروہ دستا تير کو ايک جعلي تاريخ خيال کرتا ہے ياد رہے کہ يہ تاريخ صفوي دور ميں ضبط تحرير ميں لائي گئي ہے –

امام جعفر صاد ق نے تاريخ اور افسانے کے حوالے سے جو تنقيد کي ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسلام ميں اجتماعي طور پر تاريخ کو سو د مند بنا ديا ہے آپ نے فرمايا جب افسانہ تاريخ ميں مدغم ہو جاتا ہے تو پھر تاريخ کي وقعت باقي نہيں رہتي ہے تاريخ سے اگاہي اس لئے مفيد ہے کہ آئندہ انے نسليں گزرے ہوئے واقعات سے سبق حاصل کرتي اور ايسے کاموں سے پرہيز کرتي ہيں جو ان کے لئے مضر ہيں –

آج تاريخ کا سب سے بڑا فائدہ يہي سمجھا جاتا ہے کہ آائندہ آنے والي نسليں گذشتہ واقعات سے سبق حاصل کريں اور ايسے اقدامات عمل ميں نہ لائيں جو گذشتہ لوگوں کے خسارے کا باعث بنے ہوں اور اس طرح اسلاف کي طرح وہ نقصان اٹھانے سيبچ جائيں –

فرائيڈ ‘ مشہور آسٹرين فلسفي جو ماہر نفسيات بھي ہے اس بڑے تاريخي فائدے کو تسليم کرتا ہے ليکن کہتا ہے کہ انساني فطرت ‘ تاريخ سے عبرت حاصل کرنے سے مانع ہوتي ہے خصوصا انسان کي خود پسندي اس بات ميں حائل ہوتي ہے خود پسندي انسان کو تلقين کرتي ہے کہ جو کچھ اسلاف پر گذر چکي وہ اب اس پر نہيں گزرے گي کيونکہ وہ ايک دوسرے دور ميں زندگي گزار رہا ہے اور وہ ان سے زيادہ عقلمند ماہر يا قوي ہے حتي کہ اگر خود پسندي نہ ہوتو بھي فرائيڈ کے بقول کوئي دوسري انساني فطرت تاريخ سے سبق حاصل کرنے ميں رکاوٹ بنتي ہے بہر کيف جو کچھ امام صادق نے افسانے کو تاريخ سے دور کرنے کيلئے کہا اس کي وجہ سے تاريخي تنقيد کي بنياد پڑي اور علم تاريخ وجود ميں آيا –

گذشتہ صفحات ميں ہم نے ديکھا کہ جعفر صادق نے بعض علوم اپنے والد گرامي کے حلقہ درس ميں زانوئے تلمذ طے کرکے حاصل کئے ليکن اکثر علوم جنہيں جعفر

صادق پڑھاتے تھے ان کي ذاتي سعي کا ما حصل تھے مثلا اس طرح کے مسائل کہ خاک مرکب نہيں اور ہوا بھي مرکب نہيں ‘ يہ وہ معلومات تھيں جو خود جعفر صادق کي اختراع ہيں ‘ پھر انہيں آپ نے اپنے شاگردوں تک پہنچايا ‘ پھر ہم نے ديکھا کہ آپ اسلام ميں وہ واحد شخصيت ہيں جنہوں نے فرمايا کہ ہوا ميں ايک ايسي چيز ہيجو جلنے ميں مدد ديتي ہے اور اسي کي وجہ سے دھاتيں زنگ آلود ہوتي ہيں –

ہم نے ديکھا کہ جعفر صادق نے فرمايا دوسرے جہانوں ميں دو قسم کے علوم پائے جاتے ہيں ايک وہ علم جسے ہم اپني عقل کے ذريعے سمجھ سکتے ہيں اور ايک وہ علم جسے شايد اس عقل کے ذريعے سمجھنا نا ممکن ہے يہ آ ہي تھے جنہوں نے فرمايا کہ شايد دوسرے جہانوں کے علماء جنہيں ہم نے پہچان سکتے ہم سے رابطہ قائم کرنے کے خواہش مند ہوں ليکن چونکہ ہم ان کے علم سے واقف نہيں اور ان کي زبان نہيں جانتے لہذا ابھي تک ہميں معلوم نہيں ہو سکا کہ وہ ہم سے بات چيت کے خواہشمند ہيں امام جعفر صادق نے دوسرے جہانوں کے جن موجودات کا ذکر کيا ہے وہ حقيقي معنوں ميں موجود ہيں جيسا کہ قرآن مجيد ميں متعدد مقامات پر جنوں کا تذکرہ آيا ہے اور يہاں تک کہا گيا ہے کہ ايک دن بني نوع انسان اور وہ تمام مخلوقات جو دکھائي نہيں ديتي ايک جگہ اکٹھي ہوں گي اس دن کو قرآن ميں حشر کے نام سے ياد کياگيا ہے –

ليکن امام جعفر صادق سے قبل اس دکھائي نہ نہ دينے والي يا دوسري دنيا کي مخلوقات کے علوم کے بارے ميں کسي نے توجہ نہيں دي اس بات کا امکان ہے کہ وہ بني نوع انسان سے رابطہ قائم کرنے کے بارے ميں کسي نے توجہ نہيں دي اس بات کا امکان ہے کہ وہ بني نوع انسان سے رابطہ قائم کرنے کے خواہشمند ہوں ليکن چونکہ انسان ان کي زبان سے نا آشنا ہے لہذا اسي وجہ سے ان کا رابطہ قائم نہ ہو سکا ہو – امام جعفر صادق کے بعد انيسويں صدي عيسوي تک کسي نے اس موضوع کي طرف دھيان نہيں ديا ‘ البتہ انيسويں صدي عيسوي ميں ايک فرانسيسي کا ميل فلا ريوين نے اس موضوع پر توجہ دي اور دوسرے سياروں کي مخلوقات سے انساني رابطے کے بارے ميں مشاہدے کے بغير نظريات پيش کئے کيونکہ ابھي تک سائنس نے اتني ترقي نہيں کي تھي کہ کاميل فلاريوين عملي تجربہ کرتا –

تجربے کے رو سے پہلي مرتبہ 1920 عيسوي ميں معلوم ہوا کہ دوسرے جہانوں کے مخلوقات ہماري زميني مخلوقات سے رابطہ قائم کرنا چاہتي ہيں اس سال اٹلي کے باشندے مارکوني نے بحريہ کے کمانڈر کينٹ ميلو کي سربراہي ميں منعقد کئے گئے جلسے ميں تقرير کرتے ہوئے دعوي کي کہ ميں اپني کشتي کے وائر ليس سيٹ ميں ايسي لہريں پاتا ہوں جن پر مجھے کوئي شک نہيں کہ انہيں عقلمند عالم اور ماہر مخلوق م زميني مخلوقات سے راابطہ قائم کرنے کيلئے بھيجتي ہوں گي –

مارکوني بھي اپنے تجربے کو آگے نہ پڑھا سکا کيونکہ ابھي تک ريڈيو ٹيلي سکوب ايجاد نہيں ہوا تھا اور عام فلکي دور بين ميں اتني طاقت نہ تھي کہ شمسي نظام سے باہر کي دنيا کا مشاہدہ ہو سکتا اور اس پر طرہ يہ کہ عام فلکي دور بين 1920ء عيسوي تک اتني طاقت ور نہ تھي اور ابھي تک کوہ پالومر (جو امريکا ميں واقع ہے ) پر واقع رصد گاہ ميں فلکي دور بين ايکبڑا عدسہ نصب نہيں کيا گيا تھا جس کا قطر 5 ميٹر ہے تاکہ ان کہکشاں کو جو زمين سے دور ہزاروں ملين نوري فاصلے پر واقع ہيں ديکھا جا سکے جس کے بعد اس فلکي دور بين نے کام شروع کيا تو معلوم ہوا کہ اس کے ذريعے دوسرے جہانوں کي مخلوقات سے رابطہ قائم نہيں کيا جا سکتا اگرچہ کوہ پالومر کي رصد گاہ کي يہ فلکي دور بين دو ہزار ملين فاصلے پر واقع کہکشاں کا ايک بڑے نقطے کي شکل ميں آسمان پر مشاہدہ کرتي ہے ليکن ان کي وسعت اور عظمت کا کھوج نہيں لگا سکتي –

تبصرے
Loading...