بزرگوں کی قبروں کا احترام

اس بحث میں ہمارے مخاطب متعصب وہابی حضرات ہیں، اس لئے کہ تمام اسلامی فرقے بزرگوں کی قبروں کی زیارت کو جائز سمجھتے ہیں لیکن فرقہ وہابیت کے ماننے والے ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم کیوں اپنے اماموں کی بارگاہوں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟ اسی وجہ سے وہ لو گ ہمیں ‘قبوریون ‘ کہتے ہیں !

حالانکہ دنیا کی ہر قوم اپنے بزرگوں کی قبروں کا احترام کرتی ہے اور ان کی زیارت کے لئے جاتی ہے ۔

جہان کے تمام مسلمان بھی اپنے بزرگوں کی قبروں کا احترام کرتے چلے آرہے اور اسی طرح احترام کرتے رہیں گے اور ان کی قبروں کی زیارت کو جاتے رہیں گے ، خواہ وہابیوں کا ایک معمولی گروہ مخالفت کرتا رہے اگرچہ وہ حقیقی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔

البتہ وہابیوں کے بعض علماء نے قبر پیغمبر ۖکی زیارت کو مستحب قرار دیا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تنہا قبر پیغمبرۖ کی زیارت کے لئے نہ آئیں بلکہ حج و عمرہ اور مسجد النبی میں عبادت کی غرض سے آئیں اور قبر پیغمبرۖ کی بھی زیارت کر لیں۔

متن:

مقدمہ بحث

اس بحث میں ہمارے مخاطب متعصب وہابی حضرات ہیں، اس لئے کہ تمام اسلامی فرقے بزرگوں کی قبروں کی زیارت کو جائز سمجھتے ہیں لیکن فرقہ وہابیت کے ماننے والے ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم کیوں اپنے اماموں کی بارگاہوں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟ اسی وجہ سے وہ لو گ ہمیں ‘قبوریون ‘ کہتے ہیں !

حالانکہ دنیا کی ہر قوم اپنے بزرگوں کی قبروں کا احترام کرتی ہے اور ان کی زیارت کے لئے جاتی ہے ۔

جہان کے تمام مسلمان بھی اپنے بزرگوں کی قبروں کا احترام کرتے چلے آرہے اور اسی طرح احترام کرتے رہیں گے اور ان کی قبروں کی زیارت کو جاتے رہیں گے ، خواہ وہابیوں کا ایک معمولی گروہ مخالفت کرتا رہے اگرچہ وہ حقیقی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔

البتہ وہابیوں کے بعض علماء نے قبر پیغمبر ۖکی زیارت کو مستحب قرار دیا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تنہا قبر پیغمبرۖ کی زیارت کے لئے نہ آئیں بلکہ حج و عمرہ اور مسجد النبی میں عبادت کی غرض سے آئیں اور قبر پیغمبرۖ کی بھی زیارت کر لیں۔

‘ بن باز’ وہابیوں کا مشہور فقیہ جس نے کچھ ہی سال پہلے اس جہان سے اپنی آنکھیں بند کیں ، ‘الجزیرہ’جریدہ کی تحریرمطابق اس نے کہا

: ‘ جو بھی پیغمبرۖ کی مسجد کی زیارت کرنا چاہے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ روضہ میں دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد رسول اللہ ۖ پر سلام بھیجے اور یہ بھی مستحب ہے کہ بقیع میں جائے اور وہاں پر مدفون شہیدوں کو بھی سلام کرے ‘ ۔ ١ 

اہلسنت کے چاروں مشہور فقیہ ‘ الفقہ علی المذاہب الاربعہ’ کے مطابق کسی بھی قید و شرط کے بغیر پیغمبرۖ کی زیارت کو مستحب سمجھتے تھے ، اس کتاب میں لکھاہے کہ ‘ رسول اللہ ۖ کی قبر کی زیارت سب سے بہترین عمل ہے کہ جس کے متعلق متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں ‘ ، اسکے بعد چھ عدد احادیث نقل کی گئی ہیں ۔ ٢

وہابیوں کا یہ گروہ تین مسئلوں میں تمام مسلمانوں کا مخالف ہے : 

١۔ قبروں کا بنانا

٢۔ قبروں کی زیارت کو جانا

٣۔ عورتوں کا قبروں کی زیارت کے لئے جانا

ان مسائل میںان لوگوں نے ایسی روایتوں کو دلیل بنایا ہے کہ جن کی سندیں نادرست ہیں، یا ان کی دلالت مردود ہے ( انشاء اللہ ہم عنقریب ان روایتوں کی حقیقت بیان کریں گے )۔

اس کے علاوہ ان لوگوں کے پاس اس مخالفت کی دوسری بھی دلیلیں ہیں یعنی وہ لوگ توحید اور شرک کے مسئلہ میں وسوسہ کا شکار ہوگئے ہیں، گویا ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ قبروں کی زیار ت کرنا عبادت کے معنی میں ہے لہذا ان کے علاوہ تمام مسلمان ملحد اور مشرک ہیں!!۔

تاریخی سابقہ

گذشتہ لوگوں کی قبروں کا احترام مخصوصا بزرگوں کی قبروں کو محترم سمجھنا ایک پرانا شعاررہا ہے ، لوگ ہزاروں سال سے اپنے بزرگوں کی قبروں کا احترام کرتے چلے آرہے ہیں کہ جس کے مفید آثار اور فلسفہ ظاہر و آشکار ہے ۔

گذشتہ لوگوں کو محترم سمجھنے کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی حرمت باقی رہتی ہے بلکہ ان لوگوں کی قدر کرنا انسانی عزت اورشرافت کا حصہ ہے جوجوانوں کو ان کی راہوں پر چلتے رہنے کی طرف دعوت دینے کا بہترین وسیلہ ہے ۔

دوسرا فائدہ ان خاموش قبروں سے عبرت حاصل کرنا جو اپنی بے زبانی سے نصیحت کرتی ہیں ، دل سے غفلت کے غبار کو پاک کرنا ، دنیا کے خطرناک زرق و برق سے ہوشیار رہنا اور نفسانی خواہشات پر قابو پاناہے جیسا امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں : مردے بہترین واعظ اور نصیحت کرنے والے ہیں ‘۔

تیسرا فائدہ وارثین کی تسلی خاطر ہے اس لئے کہ وہ اپنے عزیزوں کے قبروں کے پاس پرسکون ہوجاتے ہیں ،گویا وہ اپنے عزیزوں کے پاس ہونے کا احساس کرتے ہیں جو ان کے غموں کی بہترین دوا ہے اسی وجہ سے وہ لوگ جو لاپتہ ہوجاتے ہیں انکی شبیہ بنائی جاتی ہے اور اس کے کنارے ان کی یاد منائی جاتی ہے ۔

چوتھا فائدہ گذشتہ بزرگوں کی قبروں کو محترم سمجھنے کے ذریعہ ہرقوم وملت کی فرہنگی اور ثقافتی میراث کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے ، اسی وجہ سے پرانی قومیں ابھی تک زندہ ہیں ، جہان کے مسلمانوں کے پاس ایک عظیم فرہنگ ہے جس کا ایک وسیع حصہ شھداء ، علماء ، دانشمنداور علم و فرہنگ کے سربراہوں مخصوصا دین کے پیشواؤں کی قبروں میں پوشیدہ ہے۔

بزرگوں کی یاد کو باقی رکھنااسلام کی بقا اور پیغمبر اکرم ۖ کی سنت کا با عث ہے ۔

وہ لوگ کس قدر بدسلیقہ ہیں جنہوں نے مکہ و مدینہ اور ان کے اطراف میںصدراسلام کی عظیم ہستیوں کی نشانیوں کو مٹاڈالا اور اسلامی سماج کو بہت بڑے ضائعہ میں مبتلا کردیا ، مقام افسوس ہے کہ متعصب وہابیوں نے بے پایہ دلیلوں کے ذریعہ اسلام کی میراث فرہنگی کو بہت نقصان پہنچا یا ہے کہ جس کا جبران غیر ممکن ہے ۔

کیا یہ تاریخی اور با عظمت آثار انہیں لوگوںسے مخصوص تھے کہ جسے بے رحمی سے نابود کردیا یا پھر اس کی حفاظت کے لئے تمام مسلمان ممالک کے دانشمندوں کے سپرد کیا جاتا ؟

پانچواں فائدہ یہ ہے کہ دین کے رہنماؤں کے مقبروں کی زیارت اور بارگاہ خداوندی میں توبہ و استغفار کے ذریعہ شفاعت طلب کرنا ہے جو لوگوں کی تربیت اور ایمان و اخلاق کو سنوارنے میں نہایت موثر ہے اسکے علاوہ انہیں کی بارگاہوں میں بڑے بڑے گنہگاروں نے توبہ کی ہے اور ہمیشہ کے لئے گناہوں سے دور کرلی ہے اسی طرح متقی اور پرہیزگار حضرات بھی درجات عالیہ پر فائز ہوئے ہیں ۔

قبروں کی زیارت میں شرک کا توہم 

بارہا ایسا ہوا ہے کہ بعض ناآگاہ لوگوںنے حضرات معصومین علیہم السلام کے زائرین کو مشرک کہا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر ان لوگوں کو زیارت کے متن سے آگاہی ہوجاتی تو ہرگز ایسے الفاظ اپنی زبان سے جاری نہ کرتے ۔

کوئی بھی عقلمند پیغمبر ۖ یا حضرات معصومین علیہم السلام کی عبادت نہیں کرتا ، اصلاً یہ موضوع ان میں سے کسی ایک کے ذہن میں بھی نہیں آتا بلکہ تمام مومنین بزرگوں کے احترام اور شفاعت کی خاطر ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔

اغلب اوقات وہ زیارت پڑھنے سے پہلے سو مرتبہ ‘ اللہ اکبر ‘ کہتے ہیں گویا وہ سو مرتبہ تکبیر کہہ کر ہر قسم کے شرک کا اعلان کرتے ہیں ۔

ہم مشہور زیارت ‘ امین اللہ ‘ میں کہتے ہیں :

‘ اشھد انک جاھدت فی اللہ حق جھادہ و عملت بکتابہ واتبعت سنن نبیہ حتی دعاک اللہ الی جوارہ’؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے راہ خدا میں جھاد کرنے کی طرح جھاد کیا اور اس کی کتاب پر عمل کیا یہاں تک کہ اس نے آپ کو اپنے جوار میں طلب کرلیا ۔

کیا اس سے بھی بڑھ کر توحید ہوسکتی ہے۔

ہم زیارت جامعہ میں حضرات معصومین علیہم السلام کو مخاطب کر کے کہتے ہیں : 

‘ الی اللہ تدعون و علیہ تدلون و بہ تومنون و لہ تسلمون و بامرہ تعملون و الی سبیلہ ترشدون ‘؛ ان تمام جملوں میں ضمیروں کا مرجع خدا ہے ، زائر کہتا ہے : آپ لوگ خد اکی طرف دعوت دیتے ہیں ، اور اسی پر دلالت کرتے ہیںاور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اوراس کے سامنے تسلیم ہیں اور لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔

ان تمام زیارتناموں میں خدا کی باتیں او ر توحید کی طرف دعوت دی گئی ہے ، کیا اسے ایمان کہا جاسکتاہے یا شر ک ؟

اسی زیارتنامہ کے ایک دوسرے مقام پروارد ہواہے: ‘ مستشفع الی اللہ عز و جل بکم ‘؛ میںآپ لوگوں کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں شفاعت طلب کرتا ہوں ۔ اور اگر بالفرض بعض زیاتناموں میں کوئی ابہام موجود بھیہے تو وہ ان محکمات اور روشن بیانات کے ذریعہ واضح ہوجاتے ہیں 

کیا شفاعت طلب کرنا توحید سے سازگار ہے ؟

اس مقام پر وہابیوں کو جو سب سے بڑا اشتباہ ہواہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے بارگاہ خداوندی میں اولیاء سے شفاعت طلب کرنے کو بے جان اوربے عقل بتوں سے شفاعت طلب کرنے کے برابر سمجھ لیا ہے ۔

جب کہ قرآن کی گواہی کے مطابق محضر پروردگار میںاولیاء اللہ گنہگاروں کی شفاعت کریں گے ، بعنوان مثال مشاہدہ کریں :

١۔ جب جناب یوسف کے بھائیوں کو حضرت یوسف کی عظمت کا پتہ چلا تو جناب یعقوب سے شفاعت کی درخواست کی اور انھوںنے بھی شفاعت کرنے کا وعدہ کیا (قالوا یا ابانا استغفرلنا ذنوبنا انا کنا خاطئین ، قال سوف استغفر لکم ربی انہ ھو الغفور الرحیم )۳ ؛ ان لوگوںنے کہا : باباجان! اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ، ہم یقینا خطاکار تھے انھوںنے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔

کیا جناب یعقوب معاذ اللہ کوئی مشرک پیغمبر تھے ؟

٢۔ قرآن مجید نے گنہگاروں کو پیغمبر ۖ سے شفاعت طلب کرنے کی تشویق کی ہے (ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جائوک فاستغفر وا اللہ واستغفرلھم الرسول لووجدوا اللہ توابا رحیما ) ؛ وہ لوگ جب بھی اپنے اوپر ستم کرتے تو آپ کے پاس آکر توبہ کرلیا کرتے تھے اور رسول اللہ ۖ ان لوگوں کے لئے استغفار کیا کرتے تھے کہ بے شک وہ لوگ خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان جانتے تھے ۔ ۴

کیا یہ بات شرک کی طرف دعوت دینا ہے ؟

٣۔قرآن منا فقوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتا ہے 🙁 واذا قیل لھم تعالوا یستغفرلکم رسول اللہ لووا رء وسھم ورایتھم یصدون وھم مستکبرون )؛ ۵

اور جب ان لوگوں سے کہاجاتا ہے کہ آؤ تاکہ رسول اللہ ۖ تم لوگوں کے لئے استغفار کریں تو( مسخرہ کرتے ہوئے)اپنے سروںکو ہلاتے تھے اورآپ ان لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کی باتوں سے منھ موڑتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں ۔

٤۔ ہمیں معلوم ہے کہ قوم لوط گندی ترین قوم تھی، اس کے باوجودجناب ابراہیم نے ان لوگوں کے لئے شفاعت کی درخواست کی ( خدا سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مہلت دے شاید توبہ کرلیں) چونکہ وہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے توبہ کی توفیق کی بھی کھوبیٹھے تھے لہذا جناب ابراہیم سے خطاب ہوا کہ ان لوگوں کے لئے شفاعت نہ کریں ( فلما ذھب عن ابراہیم الروع وجائتہ البشری یجادلنا فی قوم لوط ،ان ابراہیم لحلیم اواہ منیب ، یا ابراہیم اعرض عن ہذا انہ قدجاء امرربک انھم آتیھم عذاب غیر مردود ) اور جب ابراہیم سے خوف زائل ہوا اور انہیں بشارت دے دی گئی تو قوم لوط کے متعلق بات کرنے لگے کہ بے شک ابراہیم بردبار ، دلسوز اور بہت توبہ کرنے والے تھے ، ( ہم نے ان سے کہا) اے ابراہیم ! اس ( درخواست) سے صرف نظر کرو کہ خدا کا فرمان جاری ہوچکا ہے اور حتمی عذاب مہیا کیا جاچکا ہے جس کے پلٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ ۶

مقام توجہ ہے کہ خد انے جناب ابراہیم کی شفاعت کی تمجید کی ہے اور فرماتاہے : (ان ابراہیم لحلیم اواہ منیب) لیکن جواب دیتاہے کہ اب وقت گذرچکا ہے اور شفاعت کا وقت باقی نہیں رہا ۔

اولیاء اللہ کی شفاعت ان کی حیات سے مخصوص نہیںہے 

جب ان لوگوں کے سامنے مذکورہ آیات پیش کی جاتی ہیں کہ جس میں پیغمبروں کی شفاعت کی طرف صراحتاً اشارہ ہواہے تو وہ فورا ً یہ کہتے ہیں کہ یہ آیات ان کی حیات سے وابستہ ہے لہذا ان کی وفات کے بعد شفاعت طلب کرنا جائز نہیں ہے ، اس طرح وہ شرک کو چھوڑ کر ایک دوسرا سہارا لیتے ہیں ۔

لیکن یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پیغمبر ۖ وفات کے بعد خا ک میں مل گئے اور پوری طرح نابود ہوگئے ہیں ؟ یا پھر جس طرح بعض وہابی علماء نے ہمارے سامنے اقرار کیا ہے ، آنحضرت ۖ برزخی حیات کے مالک ہیں ؟

١: اگر آنحضرتۖ حیات برزخی کے مالک نہیں ہیں تو پھر کیا آپ ۖ کا مقام شھداء کے مقام سے نیچا ہے کہ جن کے متعلق خدا قرآن میں فرماتا ہے : ( بل احیاء عند ربھم یرزقون ) 

٢: کیا نماز کے تشہد میںجو دنیا کے تمام مسلمان آنحضرت ۖ پر سلام بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں ‘ السلام علیک ایھا النبی …’ تووہ ایک خیالی موجود کو سلام کرتے ہیں ؟

٣: کیا آپ لوگوں کا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ مسجد النبی میں آنحضرت ۖ کی قبر کے پاس آہستہ بات کرنی چاہئے اس لئے قرآن کہتا ہے:( یا ایھا الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ) ۷ ؛کیاآپ لوگوں نے اسی آیت کو وہاں طغرہ بنا کر نصب نہیں کیا ہے ؟

ہم ان ضدو نقیض باتوں کو کیسے قبول کریں؟

٤: موت نہ تنہا زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ ایک نئی زندگی کا آغاز ہے ‘ والناس نیام فاذاماتوا انتبھوا’ لوگ سوئے ہوئے ہیں اور جب مریں گے تو بیدار ہوں گے ۔ ۸ 

٥۔ اہلسنت کے معتبر منابع میں ایک مشہور حدیث نقل ہوئی ہے کہ جس میں وارد ہوا ہے : ‘ عبد اللہ بن عمر ‘ رسول اللہ ۖ سے نقل کرتے ہیں کہ آپۖ نے فرمایا: ‘ من زار قبری وجبت لہ شفاعتی’؛جو بھی میری قبر کی زیارت کرے گا اس پر اپنی شفاعت حتمی کردوں گا ۔ ۹

اسی راوی سے ایک دوسری حدیث بھی نقل ہوئی ہے کہ جس میں آنحضرت ۖ نے فرمایا:’ من زارنی بعد موتی فکانما زارنی فی حیاتی’ جو بھی میری زیارت میری رحلت کے بعد کرے گا وہ گویا ایسا ہے کہ اس نے میری حیات میں میری زیارت کی ہے۔ ۱۰

ان احادیث کی روسے حیات و موت کے درمیان کے فرق کا فرضیہ توہم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

اس کے علاوہ ان احادیث کے اطلاقات سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ‘ شد رحال’ یعنی پیغمبر ۖ کے روضہ کی زیارت کے لئے قصد سفر کرنے میں کوئی اشکا ل نہیں ہے ۔

خواتین اور قبروں کی زیارت

عورتوں کو ان کی لطیف طبیعت کی وجہ سے اپنے عزیزوں کی قبروں کی زیارت کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے تاکہ انہیں قلبی سکون حاصل ہوسکے، اس کے علاوہ تجربہ نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ خواتین ہر ایک سے زیادہ اولیاء کی قبروں کی زیارت کی مشتاق ہوتی ہیں۔

لیکن مقام افسوس ہے کہ متعصب وہابیوںنے ایک مشکوک حدیث کی وجہ سے خواتین کو قبروں کی زیارت سے منع کردیا ہے بلکہ جنوب ایران میں یہ افواہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ جو عورت کسی قبر پر جاتی ہے تو صاحب قبر اس عورت کو برہنہ دیکھتا ہے !

لہذاایک عالم دین نے ان سے کہا: اگر آپ کی یہ بات صحیح ہے تو پھر یہ بتائیں کہ جب عائشہ نے اپنے گھر میں رسول اللہ ۖ کے ہمراہ خلیفہ اول و دوم کی قبروں کو جگہ دی کہ جس میں ان کا آنا جانا رہتا تھا ، تو اسوقت رسول اللہ ۖ کا عائشہ کو برہنہ دیکھنا تو صحیح لیکن ان دونوں کے لئے کہاں تک صحیح تھا ۔

بہرحال ان لوگوں کی دلیل ایک مشہور حدیث ہے کہ جسے وہ پیغمبر ۖ کی طرف نسبت دیتے ہیں :’ لعن اللہ زائرات القبور’ ؛ خدا قبروں کی زیارت کرنے والی خواتین پر لعنت کرے۔

بعض کتابوں میں ‘ زائرات ‘ کے بدلے ‘ زوارات القبور’ آیا ہے کہ جو صیغہ مبالغہ ہے ۔

بعض اہلسنت کے دانشمند حضرات جیسے ترمذی نے کہاہے :یہ حدیث اس وقت سے مخصوص ہے کہ جب آنحضرت ۖ نے خواتین کو قبروں کی زیارت کے لئے جانے سے منع کیا تھا لیکن بعد میں آپ ۖ نے اس حکم کو واپس لے لیا تھا ۔ ۱١

دیگر علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث ان خواتین سے مخصوص ہے کہ جو اپنا زیادہ تر وقت قبروں کی زیارت میں صرف کرتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے شوہروں کا حق ضائع ہوجایا کرتا تھا ،پس ‘ زوارات’ اسی مطلب کی طرف اشارہ ہے ۔

یہ لوگ جس قدر چاہیں اس حقیقت کا انکار کریں لیکن وہ عائشہ کے عمل کا کیسے انکار کرسکتے ہیں کہ جنہوںنے رسول اللہ ۖ کے ساتھ خلیفہ اول و دوم کی قبروں کو اپنے ہی گھر میں جگہ دی تھی ۔

صرف تین مسجدوں کے لئے قصد سفر کرنا!

اسلام کی تاریخ میں مسلمانوںنے صدیوں تک پیغمبر ۖ اور ائمہ بقیع علیہم السلام کی قبروں کی زیارت کے لئے قصد سفر کیا ہے ۔

یہاںتک ساتویں صدی میں ابن تیمیہ پیدا ہوا ، اس نے اپنے چاہنے والوں کواس عمل سے منع کیا اور کہا: صرف تین مسجدوں کے لئے قصد سفر کرنا صحیح ہے ، اس نے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے ابوہریرہ کی اس حدیث کو دلیل بنایا:

ابوہریرہ کہتاہے : پیغمبر ۖ نے فرمایا: ‘لاتشد الرحال الا الی ثلاثة مساجد مسجدی ھذا و مسجد الحرام و مسجد الاقصی’ بار سفر کو تین مسجدوں کے علاوہ نہیں باندھا جاتا ، میری مسجد ، مسجد حرام اور مسجد اقصی۔ ۱۲

جب کہ اس حدیث کا موضوع مسجد ہیں نہ کوئی اور مکان لہذا اس حدیث کا مفہوم اس طرح ہوگا کہ کسی بھی مسجد کے لئے بار سفر نہیں باندھا جاتامگر تین مسجدوں کے ۔

اس کے علاوہ اس حدیث کو دوسرے طریقہ سے بھی نقل کیا گیا ہے ، جو کسی بھی حال میں ان کے مقصود پر دلالت نہیں کرتی ‘ تشد الرحال الی ثلاث مساجد’؛ تین مسجدوں کے لئے قصد سفر کیا جاتاہے ۔ ۱۳

یہ حدیث اس عمل کی طرف تشویق دلارہی ہے نہ یہ کہ دو سرے مکانات کی طرف جانے سے روک رہی ہو ، یعنی ‘ اثبات شی نفی ماعدا نمی کند’ ایک شے کا اثبات دوسری شے کی نفی نہیں ہے ۔

نیز یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ حدیث کا اصلی متن کون سا ہے لہذا اس طرح حدیث کو مجمل قرار دے کر استدلال کی قابلیت سے خارج کیا جاسکتا ہے ۔

شاید کوئی یہ کہے کہ اسی کتاب کے ایک دوسرے مقام پر وارد ہوا ہے : ‘ انما یسافر الی ثلاثة مساجد’ ؛ صرف تین مسجدوں کے لئے مسافرت جائز ہے ۔۱۴

لہذا شد رحال صرف انہیں تین مسجدوں سے مخصوص ہے ۔

اس سوال کا جواب بھی واضح ہے ؛ اولاً :امت کے اجماع کے مطابق دینی اور غیر دینی امور کے لئے سفر کرنا جائزہے ، ایسا نہیں ہے کہ سفر کرنا صرف انہیں تین مسجدوں کے لئے جائز ہو ، لہذایہ ماننا ہوگا کہ یہاں محدودیت اور حصر ‘ حصر اضافی’ ہے یعنی تمام مساجد میں صرف انہیں تین مسجدوں کے لئے شد رحال ممکن ہے۔

دوماً: مذکورہ حدیث کا متن مشکوک نظر آرہا ہے اسلئے کہ آنحضرت ۖ سے بہت بعید ہے کہ آپ ایک مطلب کو تین عبارتوں میں بیان کیا ہو ، لہذا یا پہلی روایت یا دوسری روایت یا پھر تیسری روایت درست ہے ، گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راویوں نے نقل معنی کیا ہے ، پس حدیث ابہام کا شکار ہے اور اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔

کیا قبروں کا بنانا منع ہے 

صدیوں سے مسلمانوںنے اپنے بزرگوں کی قبروں پر عمارتیںبنائیں اور مرتب ان کی زیارت کرنے کے لئے جاتے رہے لیکن کسی نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا حقیقت میں اس عمل کے لئے اجماع اور سیرہ عملی تھا جس کی وجہ سے مخالفت نہیں ہوتی تھی۔

مشہور تاریخ نگارمسعودی نے اپنی کتاب’ مروج الذہب’ میںجو چوتھے قرن میں گذرے ہیں اسی طرح ساتویں اور آٹھویں قرن کے مشہور سیاح ابن جبیر اور ابن بطوطہ نے اپنے سفرناموں میں ایسی عمارتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

یہاں تک کہ ساتویں قرن میں ابن تیمیہ اور بارہویں قرن میں اس کا شاگرد محمد ابن عبد الوہاب پیدا ہوا جس نے قبروں پر عمارت بنانے کی مخالفت کی اور اس عمل کو حرام اور شرک جانا۔

وہابی حضرات اسلامی مسائل جیسے توحید اور شرک کو حل کرنے میں کم علمی کی وجہ سے عجیب وسوسہ کا شکار ہوگئے اور جہاں بھی انہیں اپنی مراد کے مطابق کوئی سند ملی،فوراًاسے دستاویزبناکر مخالفت کے لئے کھڑے ہوگئے ، مسئلہ زیارت ، شفاعت ، قبروں پر عمارت بنانے اور وہ تمام امور جو ان کی نظر میں شریعت کے خلاف تھے ، اسے شرک اور بدعت سے جوڑ دیا اور اس کی شدت سے مخالفت کی ۔

مخصوصا ًان لوگوںنے بزرگوں کی قبروں پر عمارت بنانے کی بڑی مخالفت کی ، جب کہ حجاز کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک میں انبیاء اور بزرگان دین کی قبروں پر عظیم عمارتیں بنی ہوئیں ہیں جو ہمیں گذشتہ ادوارکی یاد دلاتی ہیں ، مصر ،ہندوستان ،الجزائر، انڈونیشیااور دیگر اسلامی ممالک میں اسلامی آثار کو بڑی اہمیت حاصل ہے اوروہ لوگ اپنے دین کے بزرگوں کی قبروں کا نہایت احترام کرتے ہیں ۔

لیکن حجاز میں ایسی کوئی خبر نہیں ہے ، کیوں؟ اسلئے کہ ان کے نزدیک اسلامی مفاہیم صحیح سے حل نہیں ہوئے ہیں۔

وہابیوں کے ہاتھوں فرہنگی میراث کی نابودی

گذشتہ صدی میں ایک دردناک واقعہ وحی کی زمین پر رونما ہوا جس میں وہابیوں کے ہاتھوں تمام اسلامی آثار نابود کردئے گئے ۔

تقریباً ٨٠ سال پہلے جب وہابیوں کے ہاتھوں میں حجاز کی باگ ڈور آئی تو ایک سوچی سمجھی غیر معقول سازش کے تحت تمام اسلامی آثار کو بدعت اور شرک کا بہانہ قرار دے کر نابود کردیا گیا ۔

لیکن اس وقت ان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ جو سلوک ان لوگوںنے بقیہ اسلامی آثار کے ساتھ کیا تھا وہی سلوک قبر پیغمبر ۖ کے ساتھ کرتے ، حقیقت میں یہ تقیہ کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں کے ڈر سے تقیہ میں رہے اور اسے نابود نہیں کیا ۔

ایک سال جب میں بیت اللہ کی زیارت کی غرض سے مکہ گیا تو دوستانہ بحث و گفتگو میں وہاں کے بزرگوں سے سوال کیا کہ تمام قبروں کو مسمار کردیا لیکن قبر پیغمبر ۖ کو ہاتھ نہیں لگایا ، اس کی وجہ کیا ہے؟ لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔

بہرحال امت کی جان مختلف امور سے وابستہ ہے کہ جس میں ایک فرہنگی میراث اورعلمی و دینی آثار ہیںلہذا مقام افسوس ہے کہ سرزمین وحی مخصوصاً مکہ اور مدینہ چند متعصب ، نادان اور جاہل وہابیوںکے ہاتھوں میں گرفتار ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اسلام کی ایسی گرانبہا فرہنگی میراثیں برباد ہوئی ہیں کہ جن میں سے ہر ایک اسلام کی تاریخ کے ایک بہت بڑے حصہ کو بیان کرتی تھی۔

وہاں نہ تنہا بقیع میں سونے والے ائمہ علیہم السلام کی قبریں نابود نہ ہوئیں بلکہ اس گروہ نے جہاں جہاں اسلامی آثار دیکھے اسے منہدم کردیا اور اس طرح پیکر اسلام پر ایک کاری زخم وارد کیا کہ جس کا مندمل ہونا بہت مشکل ہے ۔

یہ تاریخی آثار بڑے جذاب تھے جو انسان کو تاریخ کی گہرائیوں میں کھینچ لے جاتے تھے ، بقیع جو ایک دور میں پررونق تھی ، جس کا ہر حصہ تاریخ کے مختلف ادوار کی غمازی کرتا تھا ،وہی آج خوبصورت اور مہنگے ہوٹلوں کے درمیان ایک بدشکل بیابان کی صورت اختیار کرچکی ہے ، جسے دیواروں کے ذریعہ گھیر دیا گیا اور چوبیس گھنٹہ میں ایک دوگھنٹہ کے لئے کھولاجاتاہے ، وہ بھی صرف مردوں کے لئے!۔ 

بہانے:

١۔ قبریں مسجدنہ بننے پائیں!

کبھی وہ کہتے ہیں کہ قبروں پر عمارت بنانا ان کی عبادت کا مقدمہ ہے اور اپنے اس مدعا کے لئے حدیث نبوی کو پیش کرتے ہیں : ‘لعن اللہ الیھود اتخذوا قبور انبیائھم مساجد’ ؛ خدا یہودیوں پر لعنت کرے کہ ان لوگوںنے اپنے پیغمبروں کی مسجدوں کو عبادتگاہ بنا لی ۔ ۱۵

لیکن یہ امر ہر ایک کے لئے روشن و واضح ہے کہ کوئی بھی اولیاء اللہ کی قبروں کی پرستش نہیں کرتا اس کے علاوہ زیارت اور عبادت میں فرق واضح ہے ، جس طرح ہم زندوں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور اپنے بزرگوں کا احترام کرتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کی زیارت کے لئے بھی جاتے ہیں ، اسلام کی باعظمت شخصیتوں اور شہدا کا احترام کرتے ہیں اور انہیں اپنی دعاؤں میں واسطہ قرار دیتے ہیں۔

کیا کوئی عقلمند اس بات کی تائید کرسکتا ہے کہ باحیات بزرگوں کی زیارت کے لئے جانا ان لوگوں کے بقول عبادت اور کفر وشرک ہے ؟ موت کے بعد زیارت بھی ایسی ہی ہے 

پیغمبر اکرم ۖ بقیع کی قبروں کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے جیسا کہ اہلسنت کی کتابوں میں پیغمبر ۖ کامتعدد بار بقیع میں زیارت کی غرض سے جانے کو نقل کیا ہے ۔

اگر خدا نے یہودیوں پر لعنت کی ہے تو اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہگاہ بنالی تھی جب کہ آج تک کسی مسلمان نے بھی کسی کی قبر کواپنے لئے سجدہ گاہ نہیں بنائی ۔

قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ آج بھی مسجد النبی کے پاس آنحضرت ۖ کا روضہ قائم ہے کہ جس میںتمام مسلمان حتی وہابی حضرات( مسجد کا وہ حصہ جو قبر مطہر سے نزدیک اور اس سے متصل ہے ) پانچ وقتوں کی نماز ادا کرتے ہیں،اسکے علاوہ مستحب نمازوں کو ادا کرتے ہیں اور آخر میں پیغمبر ۖ پر سلام بھی بھیجتے ہیں۔

کیا اسے قبروں کی پرستش کہہ کر اسے حرام کہا جاسکتا ہے ؟ یا قبر پیغمبر ۖ کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیاہے ؟ کیا شرک اور غیر خدا کی پرستش کی دلیلیں قابل استثناء ہیں؟!

یقین کے ساتھ یہ کہاجاسکتا ہے کہ قبروں کی زیارت کا عبادت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، پیغمبر ۖ کی قبر کے پاس اور دیگر اولیاء اللہ کی قبروں کے پاس نماز ادا کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے اور مذکورہ حدیث ان لوگوںسے مخصوص ہے جو حقیقت میں قبروں کی پرستش کرتے ہیں۔

وہ لوگ کہ جو شیعوں کی طرف سے ائمہ علیہم السلام کی قبروں کی زیارت سے باخبر ہیں، وہ بخوبی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جیسے ہی نماز کا وقت ہوتا ہے وہ فورا ً اپنا رخ قبلہ کی طرف موڑ لیتے ہیںاور واجب نمازوں کو جماعت کے برگزار کرتے ہیں اور زیارت سے پہلے سو مرتبہ تکبیر کہتے ہیں اور زیارت کے بعد رو بقبلہ دورکعت نماز مستحب ادا کرتے ہیں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ ہر عبادت کی ابتداو انتہا خدا سے مخصوص ہے۔

لیکن افسوس تو یہ ہے کہ وہابیوںنے کچھ خاص اہداف کی خاطر اپنے مخالفوں پر تہمت ، جھوٹ اور بہتان کی بوچھار کردی اور انہیں مختلف تہمتوں سے متہم کردیا ۔

ہم یہاں پر صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ علمی سرمایہ کی کمی کی وجہ سے بخوبی اسلامی مسائل کی تحلیل نہیں کرسکے اور حقیقی توحید اور شرک کو سمجھ نہ پائے نیز زیارت اور عبادت کے درمیان روشن فرق سے بھی ناآشنا ہیں۔

٢۔ دوسرا بہانہ

وہ لوگ صحیح مسلم سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابو الھیاج نے پیغمبر ۖ سے روایت نقل کی ہے کہ:’ قال لی علی بن ابی طالب الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ ان لاتدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ ‘؛ کہا:علی نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ایسی ماموریت دوں کہ جس پر رسول اللہ ۖ نے مجھے مامور کیا تھا ؟ جب بھی ( کسی جاندار ) کی تصویر دیکھنا تو اسے مٹادینا اور جس قبر کو بھی اونچی دیکھنا اسے برابر کردینا ۔ ۱۶

ان لوگوں نے انہیں احادیث کو اپنا دستاویز بنا کر بزرگان اسلام کی تمام قبروں کو نابود کردیا تنہا قبر پیغمبر ۖ اور خلیفہ اول و دوم کو چھوڑدیا کہ جس کی دلیل ان کے پاس ہرگز موجود نہیں ہے۔

جب کہ اہلسنت کے نزدیک ان احادیث کے راویوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو ان کے نزدیک قابل وثوق نہیں ہیں، جن میں سے بعض مکار اور فریب کار بھی ہیں ، مخصوصاً اس فہرست میں سفیان ثوری اور ابن ابی ثابت کا نام بھی دکھائی دیتا ہے ۔

اور اگر فرضاً ان احادیث کی صحت کو قبول بھی کرلیا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا قبر زمین کے برابر ہونی چاہئے ( نہ کفار کی رسم کے مطابق جو قبروں کو مچھلی کی پشت کی مانند بنایا کرتے تھے ) اس کے علاوہ اہلسنت کے کثیر فقہاء نے فتواصادر کیا ہے کہ قبر برابر اور مسطح ہونی چاہئے جس کا ہماری بحث سے کوئی ربط نہیں ہے ۔

اور اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ قبر کو زمین کے برابر ہونا چاہئے اور اس میںکسی قسم کی اونچائی نہ ہو تب بھی قبروں کے اوپر عمارت بنانے کا مسئلہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے ، مثلا ً یہ فرض کرلیاجائے کہ پیغمبرۖ کی قبرپر زمین کے برابر پتھر ہو اور اس پر گنبد و بارگاہ بھی ہو جیسا کہ آج ایسا ہی ہے تو پھربھی مذکورہ حکم سے منافات نہیں رکھتا۔

اس سے بھی واضح مثال قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب اصحاب کہف کا راز فاش 

ہوا تو لوگوںنے کہا کہ ہم انکی قبروں پر مسجد بنائیں گے ( قال الذین غلبوا علی امرھم لنتخذن علیھم مسجدا) وہ لوگ جو ان کی حالت کو جانتے تھے کہنے لگے : ہم ان کے مقام پر مسجد بنائیں گے ۔ ۱۷

قرآن مجید نے اس داستان کوتائیدی لہجہ میں نقل کیا ہے اور ان پرکوئی اعتراض وارد نہیں کیا ہے یعنی بزرگوں کی قبروں کے پاس مسجد بنانے میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔

بزرگان دین کی قبروں کی زیارت کے مثبت آثار

اگر ہم لوگوں کو یہ تعلیم دے دیں کہ وہ جب بھی ائمہ علیہم السلام کی قبروں کی زیارت کے لئے جائیں تو افراط و تفریط سے پرہیز کرتے ہوئے دائم یاد خدا میں مشغول رہیں ، اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور ان کی زندگی کو اپنے لئے سرمشق بنائیں تویقینا ان کی مزاریں تعلیم و تربیت اور توبہ واستغفار کا مرکز بن جائیں گی۔

ہمارے تجربہ نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ ائمہ علیہم السلام اور شہداء کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو پرنشاط لوٹتے ہیں، ان کے قلوب پاکیزہ اور ایک خاص نورانیت سے برخوردار ہوتے ہیں کہ جس کے آثار ان میںمدتوں باقی رہتے ہیں۔

اور یہ لوگ جب انہیں اپنے گناہوں کی شفاعت اور دنیوی و اخروی مشکلات کو حل کرنے کے لئے پکارتے ہیں تو ان سے رابطہ برقرار کرنے کے لئے گناہوں سے دوری کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں انجام دیتے ہیں ۔

اس کے علاوہ جب وہ بارگاہ الہی میں بزرگان دین کو اپنا شفیع بناتے ہیں اور ان سے توسل کرتے ہیں تو خود بخودان میں مشکلات کے تحمل کی طاقت آجاتی ہے جو ناامیدی سے بچنے کا بہترین راستہ ہے ، روحی اور جسمی رنج و آلام کم ہوجاتے ہیں اور ان پرہر طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں ۔

پھر کیوں ہم زیارت ، شفاعت اور توسل سے غلط مفہوم لے کر لوگوں کو بے شمارمعنوی اور روحی و جسمی خیرات و برکات سے محروم کردیتے ہیں ؟

کس عقل نے ہمیں اس کی اجازت دی ہے ؟

ایسے معنوی مسافرتوں سے روکنے کی وجہ سے بہت بڑا نقصان وجود میں آیا ہے لیکن افسوس ہے کہ توحید اور شرک کے متعلق بے جا وسوسوں نے ایک بہت بڑی جماعت کو بے شمار نیکیوں سے محروم کردیا ہے ۔

٣۔ تبرک لینا منع ہے

ایک بہانہ

وہ لوگ جو بزرگوں کی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ،وہ حقیقت میں ان کی قبروں کو مقدس سمجھتے ہیں ، وہ کبھی ضریح کا بوسہ لیتے ہیں کہ جس سے شرک کی بو آتی ہے اسی وجہ سے بیت اللہ کی زیارت کرنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ وہابیوں کے محافظین قبر پیغمبر ۖ کے چاروں طرف کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کو ضریح سے نزدیک ہونے کے لئے منع کرتے ہیں اور کبھی اس مطلب کو ابن تیمیہ اور محمد ابن عبد الوہاب کی طرف نسبت دیتے ہیں ۔

یقینا اگر یہ دونوں( بن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب) پیغمبرۖ کے زمانے میں ہوتے تو دیکھتے کہ صلح حدیبیہ یا فتح مکہ کے وقت جب آنحضرت ۖ وضو کرنے میں مشغول ہوگئے تو اصحاب نے آپ کے وضو کے پانی کو تبرکاً لینے کے لئے جمع ہوگئے۔ ۱۸یہ دونوں اس وقت زبان سے توکچھ نہ کہتے لیکن اپنے دل میں ضرور کہتے : یہ عمل یغمبرۖ اور ان کے اصحاب کی شان میں نہیں ہے اور اس میں سے شرک کی بو آرہی ہے!

یا اگر رسول اللہ ۖ کی وفات کے بعدمدینہ میں ہوتے تو خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ صحابی رسول ،ابی ایوب انصاری اپنی صورت کو قبر پیغمبر ۖ پر رکھ رہے ہیں ۱۹ یا جناب بلال اپنی صورت کو قبر رسول ۖ پر مل رہے ہیںاور روئے جارہے ہیں ، ۲۰ یقینا یہ وہابی حضرات اگراس وقت ہوتے تو ان دونوں کو وہاں سے دور کردیتے کیونکہ یہ کام ان کے نزدیک شرک ہے جیسا کہ آج یہ لوگ قبر پیغمبر ۖ کی زیارت کے کرنے والوں کے ساتھ کررہے ہیں۔

جب کہ آنحضرت ۖ کی قبر کومتبرک سمجھنے کا مسئلہ شرک سے بالکل جدا ہے بلکہ اس میں ایک قسم کا احترام اور ادب بھی شامل ہے ، یعنی جس خدا نے اپنے رسول ۖ کو مبعوث کیا ہے وہ اس احترام کی خاطر ہم پر اپنی برکتوں کو نازل کرے۔

علمائے اسلام کا وظیفہ

بعض اوقات ہماری عوام کچھ ایسی حرکتیں کرتی ہے کہ جس کی وجہ سے مخالفوں کو بہانہ مل جاتا ہے لہذا تمام علمائے اسلام اورمسلمان دانشمندوںکا وظیفہ ہے کہ وہ لوگوں کو قبر پیغمبر ۖ، ائمہ اطہار علیہم السلام ، شہداء اور بزرگان اسلام کی قبروں کے پاس بعض احمقانہ حرکات سے روکیں اور انہیں زیارت ، شفاعت ، توسل اور واقعی مفاہیم کی تعلیم دیں۔

وہ لوگوں کو بتائیں کہ ہر چیز خدا کے ہاتھ میں ہے ، وہی مسبب الاسباب اور قاضی الحاجات ہے، مصیبتوں کو دور کرتا ہے اور مشکلوں کو حل کرتا ہے ، اگر ہم قبر پیغمبر ۖ اور ائمہ علیہم السلام سے توسل کرتے ہیں تو وہ بھی خدا کی اجازت سے جواب دیتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں ہماری مشکلات کے حل ہونے کی شفاعت کرتے ہیں ۔

بعض لوگوں کا ائمہ علیہم السلام کی قبروں کے سامنے سجدہ کرنا ، یا ایسی تعبیرات کا استعمال کرناکہ جن سے الوہیت کی بو آتی ہے ، یا ضریح سے ڈورے باندھنا وغیرہ،مشکل آفریں امور ہیں جو زیارت کی حقیقت کو بدل دیتے ہیں اور ہر ایک سے بدتر ہمارے مخالفین انہیں کاموں کو بہانہ بنا کر دیگرلوگوں کو زیارت سے محروم کردیتے ہیں۔

 

حاشیہ

١۔جریدہ الجزیرہ ، ش ٦٨٢٦ ( ٢٢ زی القعدہ ١٤١١

٢۔الفقہ علی المذاہب الاربعة ج ١ ص ٥٩٠

۳۔یوسف ٩٧، ٩٨

۴۔نساء ٦٤

۵۔ منافقون ٥

۶۔ھو د ٧٤و٧٦

۷۔ حجرات ٢

۸۔عوالی اللئالی ج ٤ ص ٧٣

۹۔ دارقطنی، معروف محدث نے اس حدیث کو اپنی کتاب ‘ سنن ‘ میں ذکر کیا ہے ( ج ٢ ص ٢٧٨ ) بلکہ قابل غور ہے کہ علامہ امینی نے اسی روایت کو اہلسنت کی ٤١ کتابوں سے نقل کیا ہے ، الغدیر ج ٥ ص ٩٣

۱۰۔ گذشتہ مدرک ،اس روایت کو علامہ امینی نے اس روایت کو اہلسنت کی ١٣ کتابوں سے نقل کیا ہے

۱١۔ سنن ترمذی ج ٣ ص ٣٧١ ، ‘ باب ماء من الرخصة فی زیارة القبور’ 

۱۲۔صحیح مسلم ج ٤ ص ١٢٦

۱۳۔ سابق حوالہ 

۱۴صحیح مسلم ج ٤، ص ١٢٦

۱۵۔صحیح بخاری ج ١ س ١١٠ یہی روایت صحیح مسلم میں ‘ والنصاریٰ’ کے اضافہ کے ساتھ آیا ہے 

۱۶۔ صحیح مسلم ج ٣ ص ٦١ ، یہ روایت اہلسنت کی متعدد کتابوں میں منقول ہے 

۱۷۔کہف ٢١

۱۸۔یہ واقعہ آپ ۖ کی زندگی میں بارہا پیش آیا ہے ، صحیح مسلم ج ٤ ص ١٩٤٣ ، کنز العمال ج ١٦ ص ٢٤٩

۱۹۔ مستدرک الصحیحیں ج ٤ ص ٥٦٠

۲۰۔تاریخ ابن عساکر ، ج ٧، ص 

تبصرے
Loading...