ایک روحانی سفر

مکہ ومدینہ کاسفر، تاریخ اسلام کی یاد تازہ کردیتاہے۔ ان دونوں شہروں میں پیغمبراسلام (ص) اور آپ کےاصحاب کی موجودگی کوصدیاں بیت چکی ہیں لیکن آپ (ص) کی رحمت والفت کی یادیں مسلمانوں کےذہنوں میں اب بھی زندہ ہيں۔تاریخ اسلام پرایک منصفانہ نگاہ،اس حقیقت کوآشکار کردیتی ہےکہ جوچیزسبب بنی کہ پیغمبراسلام (ص) لوگوں کے قلوب کومسخرکرلیں وہ آپ کااخلاق حسنہ اور سیرت طیبہ تھی ۔ خوش اخلاقی ، نیک خصال ، محبت وشفقت ، کمزوروں اورمحروموں پرظلم وستم، خودپسندی اورجاہ طلبی سے دوری نےپیغمبراسلام (ص) کوسب کامحبوب بنادیاتھا۔آپ سادہ لباس پہنتےتھے، سادہ غذائیں تناول فرماتےاور دوسروں کےسامنےمنکسر اور نرم رویہ رکھتےتھے۔

مظلوم ،پیغمبراسلام (ص) کی انصاف پسندی دیکھ کرآپ کےدامن میں پناہ لیتے اور محتاج ونیازمندآپ کی امداد و دلجوئی سےاپنےدرد کامداوا کرتےتھے۔آپ (ص) عوام کونصیحت فرماتےتھےکہ اگرکوئی غیرمسلم تم سے پناہ مانگےتوتم اسےبھی پنہاہ دو اورکلمہ حق کواس تک پہنچاؤ ،شائدوہ حقیقت کودرک کرلے۔ پیغمبراسلام (ص) کی بےنظیرخصوصیات نے تند مزاج ، جاہل اور منتشرافراد کو متحد، منظم اورمضبوط قوم بنادیا۔ اوراس طرح اسلام نےدنیاميں گرانقدرمقام حاصل کیا۔

حج بیت اللہ میں شرکت ، پیغمبراسلام کےلئےاپنی رسالت کی بنیادوں کومضبوط بنانےکاایک مناسب موقع تھا۔تاریخی شواہد سےپتہ چلتاہےکہ پیغمبراسلام (ص) نےمکہ سےمدینہ ہجرت کےبعد، صرف ایک بارحج اورچندبارعمرہ کیا۔ پیغمبراسلام (ص) نےہرسفرميں اپنےقول فعل سے مسلمانوں کومناسک حج کی تعلیم دی۔مدینےہجرت کےبعد، مسلمانوں نےخانہ کعبہ کی پہلی زیارت، سات ہجری میں انجام دی۔ساتوین ہجری سےایک سال قبل، پیغمبراسلام (ص) نے مشرکین مکہ سےایک معاہدہ کیاجوصلح حدیبیہ کےنام سےمعروف ہوا۔ اس معاہدےکی بنیاد پرمسلمانوں کواس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ خانہ کعبہ کی زیارت کےلئےہرسال تین بارمکہ آسکتےہيں۔

 ساتوین صدی ہجری میں خانہ خداکےشیدائی بالخصوص مہاجرین ،جوکئی برس سےخانہ خدا اوراپنےگھرسےدورتھے انھیں اپنےوطن واپس آنےکاموقع ملا۔اس سفرميں سیکڑوں مسلمان پیغمبر(ص) کےساتھ مکہ کےلئےروانہ ہوئے۔مدینہ ہجرت کےبعد خانہ خدا کی جانب مسلمانوں کا یہ پہلا سفرتھا۔ اوراس وقت مسلمانوں نےپہلا عمرہ انجام دیا۔اس معنوی سفرمیں جوتبلیغی پہلؤوں کابھی حامل تھاپیغمبرنے مشرکین کےسامنےمسلمانوں کی عظمت کامظاہرہ کیا۔کاروان حج میں پیغمبرنگینےکی مانند نظرآرہےتھے ۔عبداللہ بن رواحہ ناقہ رسول کی مہارپکڑےہوئےتھےاوربلندآوازسےایسےاشعارپڑہ رہےتھےجس کامضمون تھاکہ: اےفرزندان کفروشرک، پیغمبرکےلئےراستہ کھول دو، اور جان لوکہ وہ خیروبرکت کاسرچشمہ ہیں۔ اسی وقت ، پیغمبرنےعبداللہ سےکہاکہ ان اشعارکےبجائےاس جملےکوبلندآوازسےپڑھو، لاالہ الا اللہ – وحدہ وحدہ وحدہ- صدق وعدہ – نصرعبدہ – واعز جندہ ۔ کوئي خدا نہيں ہےسوائےاللہ کے۔ اس کاوعدہ سچاتھا، اس نےاپنےبندےکی مدد کی اپنی فوج کوعزت عطاکی۔

اس طرح، مسلمانوں نےبےنظیر جاہ و جلال اورشان وشوکت کےساتھ خانہ کعبہ کاطواف کیا اورخانہ کعبہ میں توحیدپرستی کی حسین آوازبلند کی ۔

حضرت بلال،رسول خدا(ص) کےحکم سے خانہ کعبہ کی چھت پرگئے اوراذان کی روح پرورآواز بلندکی اس طرح اللہ کی وحدانیت اورپیغمبرکی رسالت کی گواہی خانہ کعبہ میں بلندہوئي۔ بلال جوایک دن اسی شہرمیں سخت تشدد کانشانہ بنےہوئےتھےاب خانہ کعبہ کی چھت پرتوحید کانعرہ بلندکررہےتھے۔ اس طرح عظمت اسلام کامظاہرہ ہوا۔مکہ مکرمہ اورمسجدالحرام میں مسلمانوں کاداخلہ اللہ تعالی کاوعدہ تھاجس کی طرف اللہ تعالی نےسورہ فتح کی ستائیسویں آیت میں اشارہ کرتےہوئےفرمایاہے:

بےشک اللہ تعالی نےاپنےرسول کوبالکل سچاخواب دکھایاتھاکہ خدا نےچاہاتوتم لوگ مسجدالحرام میں امن وسکون کےساتھ سرکےبال منڈاکراورتھوڑےسےبال کاٹ کرداخل ہوگےاورتمھیں کسی طرح کاخوف نہ ہوگاتواسےوہ بھی معلوم تھاکہ جوتمھیں معلوم نہيں تھا۔

 صلح حدیبیہ میں ، مشرکوں نےمسلمانوں سےوعدہ کیاتھاکہ وہ ان کی راہ میں حائل نہيں ہوں گےلیکن مشرکین نےاس معاہدوں کوپامال کردیااورمسلمانوں کی راہ میں حائل ہوئے، اسی بناپررسول خدا(ص) نےفتح مکہ کا ارادہ کیااوراس مقصد کےلئےمکہ کی جانب روانہ ہوگئے۔مکہ کی جانب رسول خدا(ص) کاسفر، تاریخ اسلام ميں ایک اہم موڑشمارہوتاہے۔فتح مکہ نے جوبغیرکسی جنگ وخونریزی کےحاصل ہوئی تھی، آ ئندہ برسوں میں بھی حج ابراہیمی بجالانےکی زمین ہموارکردی۔ شرک وبت پرستی سےخانہ خداکی آزادی اورمکہ میں توحیدکی حکمرانی وہ اہم مقصد تھاجوفتح مکہ کےذریعےحاصل ہوا۔پیغمبراسلام (ص) جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئےتواللہ تعالی کاوعدہ پورا ہونےپراس کاشکریہ اداکیا۔

دسویں ہجری میں اللہ تعالی کی جانب سےحج انجام دینے اور مناسک حج سے رسم ورواج اورخرافات کاخاتمہ کرنےکی ذمہ داری سونپی گئی ۔پیغمبراسلام (ص) ماہ ذیقعدہ سن دس ہجری میں فریضہ حج کاعام اعلان کیااورقربانی کےلئےساٹھ اونٹ اپنےساتھ لےکرحج کےلئے مکےکی جانب روانہ ہوئے۔جب آپ ذوالحلیفہ کےمقام پرپہنچےتو دوسادہ کپڑےپہن کرمسجد شجرہ سےمحرم ہوئے اورلبیک کہتےہوئےمکہ کی جانب روانہ ہوئے۔

 پیغمبراسلام (ص) شہرمکہ میں داخل ہوئےتو مسلسل لبیک الھم لبیک یا ذالمعارج لبیک یعنی اےاللہ اےآسمانوں کےمالک، تیری دعوت قبول کی ، کہتے جارہےتھے۔

پیغمبراسلام (ص) مسجدالحرام میں داخل ہوئےجب آپ کی نگاہ کعبہ پرپڑی تو، اپنےہاتھ اٹھاکراوراللہ اکبرکےذکرکےبعدیوں فرمایا: خدایا: اس گھرکی عظمت وشرافت کی قسم جوبھی حج وعمرہ کےلئےآیاہے اس کی کرامت وشرافت اورنیکی میں اضافہ فرما۔ 

اس وقت پیغمبر(ص) نےحضرت ابراہیم پردرود بھیجا اور اس کےبعد حجرالاسود کےسامنےکھڑےہوکراس پرہاتھ پھیرا۔اورپھر سات مرتبہ خانہ کعبہ کاطواف کیا۔ مقام ابراہیم کےپیچھےکھڑےہوکردو رکعت نماز پڑھی اورآب زمزم نوش فرمایا۔ اور اس کےبعد کوہ صفاکی جانب گئے۔ جب آپ کوہ صفاپرپہنچےتو اللہ تعالی کی حمد وثناکےبعد کچہ دیرتک تدبر وتفکر کیا۔شاید ان لمحوں میں ذہن میں ماضی کی یادیں تازہ ہورہی تھیں جب آپ نےاسی کوہ صفاپرکھڑےہوکرلوگوں کےسامنےرخ کرکےبلندآواز سےفرمایاتھا۔ قولوالاالہ الااللہ تفلحوا ۔ لاالہ اللہ کہوتاکہ نجات پاجاؤ۔لیکن مشرکین نےآپ کی دعوت قبول نہيں کی اوراس ندائےآسمانی کےجواب میں آپ (ص) آپ کےصحابہ اوراہلبیت پرتشدد کیااورظلم وستم کےپہاڑ توڑے۔

پیغمبر(ص) نےکچہ لمحے تک غوروفکرکےبعدصفاو مروہ کےدرمیان سعی انجام دی۔

 آٹھ ذی الحجہ تک پیغمبراسلام (ص) نےمکہ سےباہرنصب خیمےمیں قیام کیااورآٹھویں دن میدان عرفات کی جانب روانہ ہوئے، پیغمبراسلام (ص) نے نویں دن میدان عرفات میں قیام فرمایااورغروب آفتاب کےوقت مشعرکی جانب روانہ ہوئےاوردسویں ذی الحجہ تک مشعرالحرام میں رہے اورپھرمیدان منی کی جانب روانہ ہوگئے۔سرزمین منی پررمی جمرات، قربانی اورتقصیرفرمائی اورپھرمناسک حج کی تکمیل کےلئےمکہ کی جانب واپس چلےگئے۔

پیغمبراسلام (ص) نےاپنےآخری سفرحج میں اس بات کےلئے بہت اہتمام وانتظام کیاتھاکہ مسلمان مناسک حج صحیح طرح سےسیکھ لیں آپ (ص) نےلوگوں سےفرمایاکہ دین کوبخوبی پہنچانتےہوئےاوراس میں غور وفکرکرتےہوئےحج بجالاؤ۔

اس طرح پیغمبراسلام (ص) نےمسلمانوں کوبخوبی اعمال حج کی تعلیم دی یہ حج حجۃ الوداع کےنام سےمعروف ہوا۔ پیغمبراسلام (ص) کایہ حج تمام مسلمانوں کےلئے فریضہ حج کی ادائگی کامعیاراورنمونہ قرارپایا۔

حضرت محمد(ص) پرسلام ودرود بھیجتےہیں اورنعمت اسلام سےنوازےجانےپراس کاشکراداکرتےہیں۔ اس وقت آخری سفیرالہی شہرمدینہ میں آرام کررہاہے۔ ایساشہرجواپنےدامن میں پیغمبر(ص) کی حسین یادیں سمٹےہوئےہے۔مسجدالنبی سےبلندہونےوالی صدائے اذان ہمیں ماضی بعید کی جانب کھینچ لےجاتی ہےاس دور کی جانب جب یہی اذان کبھی بلال نےمسجدالنبی (ص) کی چھت پرچڑھ کردی تھی اورمسلمانوں کونمازکےلئےبلایاتھا۔اس مقدس مقام پر، پیغمبر(ص) کی یہ نصیحت یاد آنےلگتی ہے کہ : 

اےمسلمانوں کہیں ایسانہ ہوکہ تم میرےبعد وہ اتحاد و برادری کھودو جوتم نےتوحید اوراللہ تعالی پرایمان کےسائےمیں حاصل کی تھی اوربعض لوگ بعض لوگوں کےپیچھےپڑجائيں اورکفروجاہلیت کی جانب پلٹ جائيں۔کیونکہ میں نےتمھارےدرمیان دوگرانقدرچیزیں چھوڑی ہیں ایک اللہ کی کتاب اورایک میرےاہلبیت اگران کادامن تھامےرہوگےتوہرگزگمراہ نہيں ہوگے۔

تبصرے
Loading...