ایک درخشاں انسانی اخلاق

انسانی امدا د کو اسلام میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

نیازمندوں کی صرف مدد ہی نہیں بلکہ ہر کار خیر اورمثبت سماجی کام جیسے مدرسہ بنانا، اسپتال کھولنا، سڑک بنوانا،ثقافتی مرکز قاء،کرنا، مساجد وغیرہ تعمیر کرانایہ سب ”انفاق فی سبیل اللہ “کے عنوان کے تحت آتے ہیںاور بہترین عمل شمار ہوتے ہیںاور دنیا و آخرت میں بہت سے معنوی اور مادی برکات اور اثرات کا سرچشمہ ہیں۔

اسکی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ سیکڑوں آیات و روایات میں سے نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل آیت اور روایات کو ملاحظہ کیا جائے:

(۱) قرآن کریم میں آیا ہے:

لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون (۱)

تم ہرگز نیکی کی حقیقت تک نہیں پہونچ سکتے مگر یہ کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق کرو۔

(۲)رسول اکرم نے ارشاد فرمایا:

من افضل الاعمال ابراد الاکباد الحارة و اشباع البطون الجائعة، فوالذی نفس محمد بیدہ ما آمن بی عبد یبیت شبعان و اخوہ او جارہ یبیت جائعاً(۱)

بہترین اعمال میں سے (ایک عمل) جلتے ہوئے دلوں کو ٹھنڈا کرنا(پیاسوں کو پانی پلانا)اور بھوکے پیٹوں کو کھانا کھلانا ہے۔ اس پروردگار کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (ص) کی جان ہے ، جو شخص پیٹ بھر کر سوجائے اور اس کا مسلمان بھائی یا پڑوسی بھوکا ہو تووہ مجھ پر ایمان نہیں لایا ہے۔

(۳)آپ ہی سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

خیر الناس انفعھم للناس(3)

لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو زیادہ نفع اور فائدہ پہونچانے والا ہو۔

(۴) امیر المومنین حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں:

سوسوا ایمانکم بالصدقة وحصنوا اموالکم بالزکاة و ادفعوا امواج البلاء بالدعاء (4) 

اپنے ایمان کو صدقہ دے کر محفوظ رکھو اور اپنے مال و دولت کو زکات دے کر محفوظ بناوٴ اور دعا کے ذریعہ بلاء و مصیبت کی موجوں کو اپنے آپ سے دور رکھو۔

(۵) آپ نے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:

الصدقة دواء منجح (5)

صدقہ ایک شفا بخش دوا ہے۔

اسلام نے مختلف شکل میں ان امداد کی سفارش اور تاکید کی ہے؛ تحفہ، صدقہ، صلہ رحمی، کھانا کھلانا، ولیمہ، وقف، ایک سوم مال کی وصیت، واجبی اور مستحبی زکات وغیرہ۔

یہ قیمتی اور بابرکت اسلامی ثقافت باعث بنی ہے کہ اسلامی معاشروں میں انسانی امداد ایک عظیم پیمانہ پر انجام پائے اور بہت سے نیازمند افراد اس کے زیر سایہ آجائیں۔کبھی ”جشن نیکوکاری“ کے نام سے تو کبھی ”ہفتہ اکرام “ کے نام پر ، کبھی ”اعیاد مذہبی “ اور ” ایام سوگواری“ کے عنوان سے ، اور کبھی ” افطاری“ اور ”ستاد رسیدگی بہ امور دیہ و کمک بہ زندانیان نیازمند“ اور کبھی” کمک بہ ازدواج جوانان“ اور دوسرے عناوین کے تحت۔

اس کے علاوہ ہزاروں مدرسے، اسپتال ، مساجد ، کتب خانے اور سستے گھر اسی جذبہ کے تحت بنائے گئے ہیں۔

یقینا جب بھی اس جذبہ کو باقی رکھا جائے اور اس میں وسعت دی جائے تو سماج سے محرومیت تو دور کیا جاسکتا ہے اور ہمارا سماج بہترین اور محبت و عطوفت سے لبریز انسانوں کا مجموعہ بن جائے گا۔

اس سلسلہ میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ انسانی امداد صرف غربت کو ختم کرنے یا طبقاتی فاصلہ سے ٹکراوٴ کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ مدد کرنے والے کی تربیت اور روحی ترقی کا وسیلہ بھی ہے؛ جو شخص اپنے بہترین اموال میں سے ایک حصہ الگ کرتا ہے اور اسے ایک آبرومند انسان کی کمک کے لئے مخصوص کرتا ہے یا ایک عام المنفعہ مرکز بناتا ہے وہ ہر چیز سے پہلے اپنی روح کو پاک و پاکیزہ بناتا ہے اور اپنے دل کو صفا بخشتا ہے۔

قرآن مجیدنے اس کے لئے ایک بہترین تعبیر بیان کی ہے ،وہ رسول خدا (صلي الله عليه و آله و سلّم) کو حکم دیتا ہے اور فرماتاہے:

(6)

(اے رسول !) آپ ان کے اموال میں سے زکات لیجئے تاکہ اس کے ذریعہ ان کو پاک و پاکیزہ کریں اور انھیں رشد و نمو عطا فرمائیں۔

بے شک انسانی امداد انسان کی روح کو ترقی اور بالندگی عطا کرتی ہے اور اسے رشد و نمو بخشتی ہے، اوراسے بخل ، حسد، دنیا پرستی، لالچ اور خودخواہی جیسی برائیوں سے پاک و پاکیزہ بناتی ہے اور دن بہ دن اسے خدا سے نزدیک کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، اس کے مال و دولت میں برکت بھی ہوتی ہے اوراس پر روزی کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں، یہاں تک کہ حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں: 

اذا ملقتم فتاجروا اللہ بالصدقة (7)

جب تمہاری زندگی تنگ ہوجائے اور غربت کے آثار نمایاں ہو جائیں تو صدقہ کے ذریعہ خدا سے تجارت کرو اور اپنی زندگی کو رونق عطا کرو۔

اسی سلسلہ میں فاضلہ خاتون محترمہ” ج۔ فراز مند“ نے انفاق سے متعلق آیات- جو بہت ہی معنی خیز ہیں-کوایک خاص انداز میں جمع کیا ہے ۔ وہ آیات جو انفاق کی اہمیت کو بھی بیان کرتی ہیں اور اس کے کمال کے شرائط اور قبولیت کے موانع کو بھی بیان کرتی ہیںاور انفاق کے سلسلہ میں اولویت کو بھی ۔

انھوں نے ان آیات کی تفسیر میں ” تفسیر نمونہ

“ سے کافی مددلی ہے اس کے علاوہ انھوں نے ہر باب میں چند حدیثوں کا اضافہ کیا ہے اور ایک سبق آمیز اور دلچسپ مجموعہ تیار کیا ہے۔

امید ہے کہ اس کا فائدہ عام ہو اور یہ کتاب اس بات کا وسیلہ قرار پائے کہ لوگ اس اہم سماجی مسئلہ- جو اسلامی تعلیمات کے اصول میں ہے -کی طرف مزید توجہ دیں۔

”گروہ معارف“ بھی اس علمی اور دینی خدمت کا شکریہ ادا کرتا ہے اور امید وار ہے کہ یہ کتاب ایک دن سماج کے مختلف طبقے کے لئے ایک درسی کتاب قرار پائے ۔

جمادی الاولیٰ ۱۴۲۴ ء ھ 

گروہ معارف

________________________________________

(۱)سورہ آل عمران:آیت ۹۲

(2)بحار الانوار:ج۷۱، ص ۳۶۹

(3)نہج الفصاحہ

(4)نہج البلاغہ: کلمات قصار۱۴۶

(5)نہج البلاغہ: کلمات قصار۷

(6)سورہٴ توبہ: آیت ۱۰۳)

(7)نہج البلاغہ: کلمات قصار۲۵۸)

 

 

تبصرے
Loading...