اہل بیت پریشانیوںسے نجات کا ذریعہ ہیں

الا بذکر اللہ تطمئنّ القلوب[١] 
آگاہ ہو! خدا ہی کی یاد سے دلوں کو تسلی ملتی ہے

تفسیر آیہ:
خدا نے انسان کے بدن میں تین سو ساٹھ اعضاء ایک نظام کے ساتھ ودیعت فرمایا ہے۔لیکن ان اعضاء میں سے دل کو مرکزیت حاصل ہے۔لہٰذا سارے اعضاء و جوارح دل کے تابع ہیں اور شیطان بھی جب کسی مومن پر مسلط ہونا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس کے دل پر تسلط حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی طرف مولا امیر المومنین -نے نہج البلاغہ کے کئی خطبوں میں اشارہ فرمایا ہے۔اور قرآن کریم میں خدا نے دل کو متعدد تعبیرات سے یاد فرمایا ہے کبھی صدر،کبھی قلب،کبھی قلوب…..جس سے اس کی اہمیت معلوم ہوجاتی ہے۔
ابن مردویہ نے حضرت علی -سے روایت کی ہے:
انّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لمّا نزلت ہٰذہ الآیۃ:الا بذکر اللہ…..قال ذالک من احبّ اللہ ورسولہ واحب اہل بیتی صادقاً غیر کاذباً و احبّ المومنین شاہداً و غائباً الا بذکر اللہ یتحابون[٢]
جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اس سے مراد خدا اوراس کے رسول (ص)اور ان کے اہل بیت سے سچی دوستی رکھنے والے لوگ ہیں اور وہ لوگ، مومنین سے بھی ان کی موجودگی و عدم موجودگی میں محبت رکھتے ہیں،وہی لوگ ہیں جو خدا کی یاد میں ایک دوسرے سے دوستی کے خواہاں ہیں۔
تفسیر عیاشی میں ابن عباس -سے روایت کی ہے:
انّہ قال رسول اللہ الذین آمنوا و تطمئن قلوبھم یذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ثم قال اتدری یابن ام سلمۃ من ھم؟قلت من ھم یا رسول اللہ؟قال نحن اہل البیت و شیعتنا[3]
پیغمبر اکرم (ص)نے اس آیت کی تلاوت فرمائی پھر مجھ سے فرمایا :اے ام سلمہ کے فرزند کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون ہیں،میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ(ص)!وہ کون لوگ ہیں؟فرمایا:ہم اہل بیت اور ہمارے چاہنے والے ہیں۔
اس روایت اور تفسیر سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ دلوں کے اضطراب اور پریشانی سے نجات ملنے کا ذریعہ اہل بیت ہیں،کیونکہ اہل بیت کی سیرت اور حقیقت کو صحیح معنوں میں درک کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حضرات روحانی و نفسیاتی امراض اور اضطراب و پریشانی کو ختم کرنے والے طبیب ہیں یعنی روحانی امراض کے طبیب اہل بیت ہیں۔ 

 

 [١]سورئہ رعدآیہ ٢٨

[٢]۔،المیزان ج١١ ص٢٦٧۔در منثور ج٤،ص ٢١٢۔

[3]۔المیزان ج١١ ص٣٦٧کشاف ج٢ ص ٣١١۔

تبصرے
Loading...