اہل بيت امت ميں سب سے زيادہ دانا ہيں

ہر معاشرے ميں علم وعمل کے پابند افراد کو بڑے احترام کي نگاہ سے ديکھاجاتا ہے- چاہے مسلم ہو ياکافر ہر ايک کي نظر ميں علم اور فہم رکھنے والے افراد قابل احترام ہے -ان کامقام ومنزلت دوسروں کي بہ نسبت زيادہ ہے دين مقدس اسلام اور اسلامي معاشرے کے حوالے سے ايک اہم سوال يہ ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) کے ماننے والے مسلمانوں ميں سب سے بڑا عالم اور جاننے والاکون تھا ؟جس کا جواب قرآن وسنت سے يوں ملتا ہے: 
فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون-
اہل سنت کے مفسرين ميں سے بہت سارے مفسرين نے اہل الذکر سے اہل بيت مراد لياہے – جس کا مطلب يہ ہے کہ اگر تم نہيں جانتے تو اہل بيت سے سوال کرووہ جانتے ہيں اس آيت سے اہل بيت کاعالم ہونا ثابت ہوتاہے کيونکہ خدا نے سوال کرنے کا حکم دياہے -اگر اہل بيت ہر مسئلہ سے آگاہ اور باخبر نہ ہوتے تو خدا کانہ جاننے والوں کو ان سے پوچھنے کا حکم دينا لغو ہوجاتا ہے جبکہ رب حکيم کا حکم لغو نہيں ہوسکت- نيز آي- ميں خدا نے” لاتعلمون” کے متعلق کو ذکر نہيں فرمايا جس سے معلوم ہوجاتاہے کہ کوئي بھي بات يا مشکل مسئلہ خواہ اعتقادي ہو يا فقہي، اقتصادي ہو يا اخلاقي ،نظري ہو يابديہي ،عقلي ہويا فطري ،سماجي ہو ياسياسي جنہيںتم نہيں جانتے اہل بيت سے پوچھو-کيونکہ پيغمبر اکرم (ص) کے بعد اہل بيت کا سب سے دانا ہونا آيت سے بخوبي واضح ہوجاتاہے – نيز اہل بيت سے پوچھنے کا مطلب يہ ہے کہ ہرمسئلہ کا مرجع اہل بيت ہيں -اسي طرح وہ احاديث جن ميں پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا کہ اہل بيت ميرے بعد امت کے پيشوا ہےں اورحجت الہي ہےں ، امت کے ہادي ہيں- ان تمام روايات سے بھي اہل بيت کا سب سے زيادہ عالم ہونا ثابت ہوجاتا ہے-نيز بعض احاديث ميںہر ايک اہل بيت کي علمي برتري کو الگ لگ بھي بيان کياگياہے ،جيسے:
انّہ قال: اعلم امتي من بعدي علي بن ابي طالب [1]
آنحضرت (ص)نے فرمايا: کہ ميرے بعد ميري امت ميں دانا ترين ہستي علي بن ابي طالب- ہيں-
اس حديث کي تائيد کے لئے دانشمند حضرات حضرت علي -کے ان نوارني کلمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہيں کہ جن ميں پوري کائنات کے حقائق سے لوگوں کو باخبر کردياہے نہج البلاغہ ميں کئي ايسے خطبے ہيں کہ جن کو سمجھنا عام انسانوں کي بس سے  باہر ہے – آپ -نے چودہ سو سال پہلے آج کل کے ترقي يافتہ دور کے ايجادات و انکشافات اور ٹکنالوجي کي پيش گوئي کي تھي-جس سے آپ -کے علم کا اندازہ کيا جاسکتا ہے -تبھي تو پيغمبر (ص)نے فرمايا:
” علي بن ابي طالب خليف- اللہ وخليفتي وخليل اللہ وخليلي وحج- اللہ وحجّتي وباب اللہ وبابي وصفي اللہ وصفيي وحبيب اللہ وحبيبي وسيف اللہ وسيفي وہو اخي وصاحبي ووزيري وحبّہ حبي وبغضہ بغضي ووليّہ وليّ وعدوّہ عدوّي وزوجتہ ابنتي وولدہ ولدي وحزبہ حزبي وقولہ قولي وامرہ امري وہو سيد الوصيّن وخير امتي-”[2 ] 
آنحضرت (ص)نے فرمايا:علي – خدا کا خليفہ اور ميراجانشين ہے علي – خدا کا اور ميرادوست ہے اور علي – خدا اورميري جانب سے حجت ہے علي -خدا کا اورميرا دروازہ ہے اور علي -خدا کي اور ميري برگزيدہ ہستي ہے علي – خدا کا اور ميرا دوستدار ہے علي – خدا کي اور ميري تلوار ہے ، علي -ميرا بھائي ، ساتھي اوروزير ہے، اس سے دوستي مجھ سے دوستي ہے اس سے بغض اور دشمني مجھ سے بغض اور دشمني ہے، اس کا دوست ميرا دوست اور اس کا دشمن ميرا دشمن ہے ان کي شريک حيات ميري بيٹي ہے ان کا فرزند ميرا فرزند ہے اس کي جماعت ميري جماعت ہے اس کا قول ميرا قول اور اس کا حکم ميرا حکم ہے وہ تمام اوصيا کا پيشوا اور ميري امت ميں سب سے بہتر و افضل ہے –
اسي طرح ايک اور حديث ميں پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا:
لو يعلم الناس متي- سمي علي اميرالمؤمنين ماانکروا فضلہ 
سمّي بذالک وآدم بين الروح والجسد قال اللہ الست بربّکم 
قالوابلي فقال تعالي انا ربّکم ومحمد نبيّکم وعلي اميرکم -[3] 
اگر لوگ علي – کو امير المؤمنين کا لقب ملنے کا زمانہ جانتے تو ہرگز اس کي فضيلت اوربرتري سے کوئي انکار نہ کرتا [ لوگو آگاہ رہو] علي – کو اميرا لمؤمنين کا لقب اس وقت ديا گيا ہے جب حضرت آدم – کي روح اور بدن باہم ترکيب نہ ہواتھا اس وقت خدا نے فرمايا : کيا ميں تمہارا پرور دگار نہيں ہوں کہنے لگے آپ ہمارے پرور دگار ہے پھر خدا نے فرمايا: ميں تمہاراپروردگار ہوں محمد تمہارا بني ہے علي – تمہارا اميرہے –
اس حديث کي مانند بہت ساري احاديث اہل سنت کي کتابوں ميں موجودہيں جن کا مطالعہ کرنا دور حاضر کے حالات اور حوادث کے پيش نظر ضروري ہے کيونکہ آج وہ دور دوبارہ لوٹ کر آيا ہے جس ميں احاديث نبوي(ص)کي نشرو اشاعت پر پابندي تھي ،صرف يہ فرق ہے کہ اس وقت حديث کا بيان کرنا ممنوع تھا جبکہ اس دور ميں کتابوں سے فضائل اہل بيت اور ان کے مناقب پر مشتمل روايات اور احاديث نبوي(ص)کو حذف کيا جاتا ہے -نيز ابو ہريرہ نے روايت کي ہے :
قال: قيل يارسول اللہ متي وجبت لک النبو- قال النبي (ص) قبل ان يخلق اللہ آدم ونفخ الروح فيہ وقال واذا اخذ ربک من بني آدم من ظہور ہم ذريتہم واشہدوا ہم علي- انفسھم الست بربکم قالوا بلي فقال انا ربّکم الاعلي ومحمدنبيّکم وعلي اميرکم -[4] 
ابو ہريرہ نے کہاکہ: پيغمبر اکرم (ص)سے پوچھا گيا کب آپ کو نبوت کا منصب ملا ہے ؟ آنحضرت (ص)نے فرمايا: مجھے نبوت کا منصب اس وقت ملا جب خدا نے حضرت آدم- کو خلق نہيں کيا تھا اور ان کے ڈھانچہ ميں روح نہ پھونکي گئي تھي پھر جب خدا نے بني آدم – کا سلسلہ حضرت آدم -کي پشت اور ان کے نسلوں سے برقرار کيا اور ان کو اپنے نفسوں پر گواہ بنايا تو اس وقت خدا نے فرمايا: کيا ميں تمہارا پروردگار نہيں ہوں سب کہنے لگے آپ ہمارے پروردگار ہے پھر فرمايا: ميں تمہارا عظيم پروردگار ہوں اور محمد تمہارا نبي ہے اور علي – تمہارا امير اور سردار ہے 
نيز شيخ ابراہيم بن محمد صاحب فرائد السمطين اپني سند کے ساتھ سعيد بن جبير -سے وہ ابن عباس -سے روايت کرتے ہيں :
قال رسول اللہ(ص) : لعلي بن ابي طالب ي علي (ع) انا مدين- الحکم- وانت بابہا ولن توتي المدين- الا من قبل الباب وکذب من زعم انّہ يحبني ويبغضک لانّک مني وانا منک لحمک من 
لحمي ودمک من دمي وروحک من روحي وسريرتک من سريرتي وعلانيتک من علانيتي وانت امام امتي وخليفتي عليہا بعدي سعد من اطاعک وشقي من عصاک -[5] 
ابن عباس -نے کہاکہ پيغمبر (ص)نے فرمايا: اے علي -ميں حکمت کا شہر ہوں تو اس کا دروازہ ہے اور ہر گز حکمت کے شہر ميں کوئي داخل نہيں ہوسکتا مگر اس کے دروازہ سے اوروہ شخص جھوٹا ہے جومجھ سے محبت کا گمان رکھے جبکہ تم سے بغض اور دشمني رکھتا ہو کيونکہ ميں تجھ سے ہوں اور تومجھ سے ہو تير اگوشت ميرا گوشت ہے تيرا خون ميرا خون ہے تيري روح ميري روح ہے تيرا ظاہر اور باطن ميرا ظاہر اور باطن ہے توميري امت کا پيشوي- ہو تو ان کے درميان ميرے بعد ميرا جانشين ہو جو تيري اطاعت کرے وہ سعادتمند اور جوتيري نافرماني کرے وہ بدبخت ہے- 

اہم نکات:
مذکورہ احاديث ميںپيغمبر اکرم (ص)نے حضرت علي – کي عظمت ا ور شخصيت کو اس طرح بيان فرماياہے کہ اگر کوئي ميري شخصيت اور عظمت کا معتقد ہے تو ا سے چاہئے علي – کي عظمت اور شخصيت کا بھي معتقد ہوکيونکہ ميں اور علي – اگرچہ ظاہري طورپر دو انسان ہيں ليکن حقيقت ميں ہم دونوں کي خلقت ايک نور سے ہے
اوردونوں کے وجود کاہدف بھي امت کي نجات اور انہيںگمراہي سے بچانا ہے لہذا حقيقي مسلمان وہي ہے جو توحيد اور نبوت ومعاد پر ايمان کے ساتھ ساتھ امامت علي – کا بھي اقرار کرے -لہ-ذا ہر مسلمان پر يہ فرض بنتا ہے کہ حضرت علي – اور اہل بيت سے بغض اور دشمني رکھ کر اپني ابدي زندگي کو برباد نہ کرے – کيونکہ علي -اور اولاد علي – نہ ہوتے تو آج قرآن وسنت اور اسلام کا نام و نشان بھي باقي نہ رہت-
ان احاديث سے بخوبي اندازہ لگا ياجاسکتا ہے کہ حضرت علي – اور ديگر اہل بيت کي عظمت خدا کي نظر ميں کيا ہے؟ ان کو اتني عظمت ملنے کا فلسفہ کيا ہے؟ ان چيزوں کوسمجھنے کي ضرورت ہے

 

[1]-1-ہندي متّقي:کنزالعمال:ج6ص1وج11ص614ح32977و 2- ابن بطريق:فتح الملک العلي ص70ط:مکتب- الاميرالمومنين اصفہان

[2]-1-ہندي متّقي:کنزالعمال:ج11ص634حديث32089

(3)الحاکم الحسکاني:شواہد التنزيل:ص489

[4]-مناقب المرتضويہ ، ص102 –

[5]-1-ينابيع المود-ج2ص248ح53ط:دار الاسو-ايران1416ق و

(6)ج2 ص 280 ح 803

(7)الحلي حسن بن سليمان:المحتضر ص106ط؛مکتب-الحيدري-النجف العراق 1370ق

[8]-فرائد السمطين ،ج 2 ص243حديث 517   

تبصرے
Loading...