اہلِ سنت کا تعارف ڈاکٹر محمدتیجانی کی نظر میں

مسلمان کا وہ بڑا فرقہ جو پوری دنیا میں مسلمانوں کا ۳/1حصَہ ہے اور ائمہ اربعہ ابو حنیفہ، مالک ، شافعی اور احمد ابن حنبل کی تقلید کرتا ہے ۔ اور انہی کے فتووں کے مطابق عمل کرتا ہے۔
اس فرقہ کی بعد میں ایک اور شاخ نکلی جس کو سلفیہ کہا جاتا ہے اس کے خطوط ابن تیمیہ نے مقرر کئے اسی لئے یہ لوگ ابن تیمیہ کو  مجدد السنہ کہتے ہیں۔ پھر فرقہ وہابیت وجود میں آیا اس کے بانی محمد بن عبد الوہاب ہیں اور سعودی عرب کا یہی مذہب ہے۔
اور جب سب ہی اپنے کو اہل سنت کہتے ہیں اور کبھی “والجماعت” کا بھی اضافہ کرلیتے ہیں۔ اور اہل سنت والجماعت کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔
تاریخی بحث سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ جس کو اہل سنت خلافتِ راشدہ یا خلفائے راشدین کہتے ہیں۔وہ “ابوبکر، عمر، عثمان” اور علی(ع) سے عبارت ہے( آنے والی بحثوں سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اہل سنت والجماعت حضرت علی (ع) کو خلفائے راشدین  میں شمار نہیں کرتے تھے۔ بلکہ عرصہ دراز کے بعد شمار کرنا شروع کیا ہے) اہل سنت ان کی امامت کا اعتراف کرتے ہیں خود ان کے زمانہ میں بھی انھیں امام تسلیم کرتے تھے اور اس زمانہ میں بھی انھیں امام مانتے ہیں۔
اور جو شخص خلافتِ راشدہ کا منکر اور اس کو غیرِ شرعی قرار دیتا ہے اور نص سے حضرت علی(ع) کی خلافت ثابت کرتا ہے وہ شیعہ ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ ابوبکر سے لے کر خلفاء بنی عباس تک تمام حکام ایل سنت سے راضی تھے اور تمام باتوں میں ان سے متفق تھے۔ لیکن شیعیان علی(ع) پر غضب ناک رہتے تھے اور ان سے انتقام لینے کے درپے رہتے تھے۔
اس بنیاد پر وہ علی (ع) اور ان کے شیعوں کو اہل سنت والجماعت میں شمار نہیں کرتے تھے۔ گویا اہل سنت والجماعت والی اصطلاح شیعوں کی ضد گھڑی گئی تھی۔ اور رسول خدا(ص)  کی وفات کے بعد ملتِ اسلامیہ کے شیعہ و سنی میں تقسیم ہونے کا سبب بنی تھی۔
اور جب ہم تاریخی موثق مصادر کےذریعہ اسباب کا تجزیہ کرینگے اور حقائق سے پردہ ہٹائیں گے تو معلوم ہوگا کہ فرقوں کی تقسیم رسولِ خدا کی وفات کے فورا ہی بعد ہوگئی تھی۔ جبکہ ابوبکر تختِ خلافت پر بیٹھ چکے تھے اور صحابہ کی اکثریت نے ان کی بیعت کرلی تھی۔ جبکہ علی ابن ابی طالب(ع) ، بنی ہاشم اور صحابہ میں سے وہ چند افراد جن میں اکثر غلام تھے۔ س خلافت کے مخالف تھے۔ واضح ہے کہ بر سرِ اقتدار حکومت نے ان لوگوں کو مدینہ سے دور رہنے پر مجبور کردیا۔ اور بعض کو جلاوطن  کردیا اور انھیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھنے لگے اور ان سے مقابلہ کے لئے وہی سلوک روا رکھا جو کہ کوفروں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا اور ان پر وہی اقتصادی ، اجتماعی اور سیاسی پابندیاں عائد کیں جو کافروں پر عائد کی جاتی تھیں۔

ظاہر ہے کہ آج کے اہل سنت والجماعت اس زمانہ میں کھیلی جانے والی سیاست کے پہلوؤں کا ادراک نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس دور کے اس بغض و عداوت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو کہ رسول(ص) کے بعد تاریخِ بشریت کی عظیم شخصیت کے معزول کرنے کا سبب بنا تھا، آج کے اہل سنت والجماعت کا یہی عقدیدہ ہے کہ خلافائے راشدین کے زمانی میں تمام امور کتابِ خدا کے مطابق انجام پاتے تھے۔ لہذا وہ خلفائے راشدین کو ملائکہ صفت سمجھتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی حسد و کینہ نہیں ہوتا ہے۔ اور نہ ہی ان میں پست خصلت کا شائبہ ہوتا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ اہل سنت تمام صحابہ کے بارے میں بالعموم اور خلفائے راشدین کے بارے میں بالخصوص شیعوں کے نظریات کی تردید کرتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت نے اپنے علماء کی لکھی ہوئی تاریخ بھی نہیں پڑھی ہے بلکہ انھوں نے اسلاف سے عام صحابہ کی خصوصا خلفائے راشدین کی مدح سرائی کو سنکر کافی سمجھ لیا ہے۔ اگر وہ چشم بینا اور فراخ دلی سے کام لیتے اور اپنی تاریخ اور حدیثوں کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے اور ان میں حق جوئی کا جذبہ ہوتا تو یقینا ان کا عقیدہ بدل جاتا۔ اور یہ چیز صرف صحابہ کے عقیدہ ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ اور بھی بہت سے احکام کو صحیح سمجھتے ہیں جبکہ وہ صحیح نہیں ہیں۔
میں اپنے سنی بھائیوں کے لئے کچھ ایسے حقائق پیش کرتا ہوں جن سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور اختصار کے ساتھ ایسے روشن و آشکار نصوص کی نشادہی کرتا ہوں جو باطل کو مٹاتی اور حق کو ظاہر کرتی ہیں۔ امید ہے کہ یہ مسلمانوں کے اختلاف و تشتت کے لئے مفید دواء ثابت ہوں گی اور انھیں سلکِ اتحاد میں پیرونے کا باعث قرار پائیں گی۔
لاریب آج کے اہل سنت والجماعت متعصب نہیں ہیں اور نہ ہی وہ امام علی(ع) اور اہل بیت (ع) کے مخالف ہیں لیکن ان سے محبت و احترام کے ساتھ ساتھ ان کے دشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اور اس اعتبار سے ان کی اقتداء کرتے ہیں کہ ان سب نے رسول(ص) کو دیکھا ہے۔
اہل سنت والجماعت اولیاء اللہ سے محبت اور ان کے دشمنوں سے برائت والے قاعدے پر عمل نہیں کرتے بلکہ وہ سب  سے محبت رکھنے کے قائل ہیں وہ معاویہ بن ابی سفیان کو بھی دوست رکھتے ہیں اور حضرت علی(ع) کو بھی۔
انھیں اہل سنت والجماعت کا چمکتا ہوا نام بہت ہی پسند ہے۔ لیکن اسکی آڑ میں کھیلی جانے والی سازش سے وہ بے خبر ہیں اگر انھیں یہ معلوم ہوجائے کہ سنت محمدی(ص)  محض علی بن ابی طالب(ع) ہیں۔ اور یہی وہ باب ہیں جس سے سنتِ محمدی(ص) تک پہونچا جاتا ہے۔ جبکہ اہل سنت ہر چیز میں انکی مخالفت کرتے ہیں اور وہ بھی ہر چیز میں ان کے مخاف ہیں۔ تو وہ اپنا موقف بدک دیتے اور سنجیدگی سے اس موضوع پر بحث کرتے اور پھر شیعیانِ علی(ع) و شیعیانِ رسول(ص) کے علاوہ اہل سنت کا کہیں  نشان نہ ملتا۔ لیکن ان تمام چیزوں کے لئے ان بڑی سازشوں سے پردہ ہٹانا ضروری ہے۔ جنھوں نے سنتِ محمدی(ص) سے لوگوں کو دور رکنھے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور اسے جاہلیت والی بدعتوں سے بدل دیا ہے جو کہ مسلمانوں کے لئے مصیبت اور صراط مستقیم سے ہٹانے کا سبب قرار پائیں اور ان میں تفرقہ و اختلاف کاباعث بنیں اور بعض نے بعض کو کافر کہا  اور ایک نے دوسرے سے جنگ کی یہی چیزیں ان کے علم اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کا باعث بنیں اور اس طرح ان پر غیروں کی جرائت بڑھ گئی اور وہ انھیں حقیر و پست شمار کرنے لگےاور ہمہ وقت جنگ کی دعوت دینے لگے۔
شیعہ و سنی کے اس مختصر تعارف کو پیش کرنے کے بعد اس بات کو بیان کردینا ضروری ہے کہ شیعہ، سنت کی ضد نہیں ہے۔ جیسا کہ عامۃ الناس کا خیال ہے جبکہ وہ خود کو فخر سے اہل سنت کہتے ہیں اور دوسروں کو سنت کا مخالف سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ صرف ہم ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحیح سنت سے متمسک ہیں کیونکہ شیعوں نے اسے اس  کے باب علی ابن ابی طالب(ع) سے حاصل کیا ہے

 اور ان (شیعوں ) کا عقیدہ ہے۔ رسول (ص) تک اسی کی رسائی ہوسکتی ہے۔ جو علی (ع) کے واسطہ سے جاتا ہے۔
ہم عادت کے مطابق حق تک رسائی کے لئے غیر جانب دار ، راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ اور اس سلسلہ میں قارئین محترم کے لئے ہم تاریخی واقعات پیش کریں گے۔ اور اس سلسلہ میں بھی دلیل و برہان پیش کریں گے کہ شیعہ ہی اہل سنت ہیں جیسا کہ ہم نے کتاب کا نام بھی یہی رکھا ہے۔
اس  کے بعد قارئین کو حاشیے اور رائے کی آزادی کا اختیار ہے۔

تبصرے
Loading...